از پروفیسر یوسف سلیم چستی مرحوم

پروفیسر یوسف سلیم چشتی مرحوم و مغفور کا مندرجہ ذیل مضمون بظاہر تو ایک خط ہے جو موصوف نے راقم الحروف کے اس مضمون کی تحسین اور تائید کے لیے لکھا تھا جو جون ۱۹۶۷ کے ’میثاق‘ میں ’تذکرہ و تبصرہ‘ کے عنوان کے تحت شائع ہوا تھا لیکن اس نے یورپ کے فلسفہ و فکر کے تاریخی ارتقاء کے موضوع پر ایک جامع اور مبسوط مقالے کی صورت اختیار کرلی ہے. واقعہ یہ ہے کہ انتہاء اختصار اور کمال جامعیت کے امتزاج سے یہ تحریر اپنی مثال آپ ہے. کاش کہ پروفیسر صاحب کی بعض دوسری ناگزیر مصروفیات نے موصوف کو مہلت دی ہوتی اور وہ اس موضوع پر زیادہ تفصیل سے لکھ سکتے تو فلسفۂ جدید کے طالب علموں کی رہنمائی ایک مستقل سامان ہوجاتا. بحالتِ موجودہ بھی ہمیں یقین ہے کہ یہ تحریر فلفسۂ جدید کے بہت سے طالب علموں کے لیے انتہائی مفید ثابت ہوگی.

پروفیسر صاحب کی یہ تحریر بھی اوّلاً میثاق کی دسمبر ۶۷ء اور جنوری ۶۸ کی اشاعتوں میں شائع ہوئی تھی. بعد ازاں جب وہ مقالہ ’دار الاشاعت الاسلامیہ‘ کے تحت "اسلام کی نشاۃ ثانیہ، کرنے کا اصل کام" کے عنوان سے شائع ہوا تو پروفیسر صاحب کی اس تحریر کو بھی اس کے ساتھ شامل کردیا گیا. اس پر تبصرہ کرتے ہوئے موالانا عبدالماجد دریا آبادی مرحوم و مغفور نے ’صدق جدید‘ کی اشاعت بابت ۷ فروری ۱۹۶۹ء تحریر فرمایا تھا.

دونوں مقالے ماہنامہ میثاق لاہور میں قسط وار نکل چکے ہیں. دونوں کا موضوع نام سے ظاہر ہے، دونوں فکر انگیز ہیں. اور ایک طرف جوش و اخلاص اور دوسری طرف دانش و باریک بینی کے مظہر ہیں. مرض کی تشخیص اور تدبیر علاج دونوں میں دیدہ ریزی سے کام لیا گیا ہےرسالہ ہر پڑھے لکھے کے ہاتھ میں جانے کے قابل ہے. 

خاکسار
اسرار احمد برادرم عزیز السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ

میثاق ماہ جون ۶۷ء میں جو خیالات آپ نے تحتِ "تذکرہ و تبصرہ" سپرد قلم کیے ہیں ان کو پڑھ کر خوشی بھی ہوئی اور آپ کے لیے تہِ دل سے دعا بھی نکلی. آپ نے عصرِ حاضر پر جو تبصرہ کیا ہے وہ صحیح ہے. اہلِ مغرب کا ملحدانہ زاویۂ نگاہ، اس زاویۂ نگاہ کا اہلِ مشرق کے ذہنوں پر تسلط، اس کے مضر نتائج، اس ناگوار صورتِ حال سے رہائی کی تجویز اور اصلاحِ حال کی راہ. ان مباحث پر جو کچھ آپ نے لکھا ہے وہ بلاشبہ آپ کی اصابتِ فکر و رائے، معاملہ فہمی، ژرف نگاہی اور حقائق رسی کا واضح ثبوت ہے. میں آپ کو صدق دل سے مبارکباد دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو جوانی میں بوڑھوں کی سی سمجھ عطا فرمائی ہے. اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے مسلمانوں کی دینی اصلاح کی کسی خدمت کے لیے آپ کو منتخب کرلیا ہے اور میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ آپ کو خدمتِ دین کی بیش از بیش توفیق بھی عطا فرمائے. 

میں بھی نصف صدی تک (از ۱۹۱۷ء تا ایندم) انہی دو تین مسائل پر غور کیا ہے. یعنی مغرب میں الحاد اور مادیت کے فروغ کے اسباب، ان مغربی افکار کا اقوام مشرق کے ذہنوں پر تسلط اور اس تسلط سے رہائی کی صورت. مجھے آپ کا مضمون پڑھ کر جو غیر معمولی مسرت حاصل ہوئی ہے اس کی خاص وجہ یہ ہے کہ میرے نتائجِ افکار اور آپ کے نتائجِ افکار میں حیرت انگیز مطابقت پائی جاتی ہے. میری رائے میں آپ کی خدمت میں ہدیۂ تحسین پیش کرنے کی بہترین صورت یہ ہے کہ میں آپ کے بعض دعاوی کو مبرہن اور مدلل کردوں، بعض حقائق کی وضاحت کردوں، بعض صداقتوں کو مؤکد کردوں اور بعض تجاویز کو مشیّد کردوں. 

۱. آپ نے لکھا ہے : 

موجودہ دور بجا طور پر مغربی فلسفہ و فکر اور علوم فنون کی بالا دستی کا دور ہے اور آج پورے کرۂ ارض پر مغربی افکار و نظریات اور انسان اور کائنات کے بارےمیں وہ تصورات پوری طرح چھائے ہوئے ہیں جن کی ابتداء 
آج سے دو سو سال قبل یورپ میں ہوئی تھی. نیز یہ کہ مغربی تہذیب و تمدن اور فلسفہ و فکر کا یہ تسلط بہت شدید اور ہمہ گیر ہے.
آپ کا یہ تبصرہ بالکل صحیح ہے چنانچہ میرے اور علامہ اقبال دونوں کے معنوی مرشد، لسان العصر اکبر الہ آبادی نے آج سے پچاس سال پہلے انہی حقائقِ کو اپنے مخصوص ظریفانہ انداز میں یوں بیان کردیا تھا:. 

مرزا غریب چپ ہیں، ان کی کتاب ردی
بدھو اکڑ رہے ہیں، صاحب نے یہ کہا ہے

اور چیز:.

چیز وہ ہے بنے جو یورپ میں 
بات وہ ہے جو پانئیر میں چھپے

۲. آپ نے لکھا ہے:. 

لیکن اس پورے ذہنی اور فکری سفر کے دوران ایک نقطۂ نظر جو مسلسل پختہ ہوتا چلا گیا اور جسے بجا طور پر اس پورے فکر کی اساس قرار دیا جا سکتا ہے وہ یہ ہے کہ اس میں خیالی اور ماورائی تصورات کے بجائے ٹھوس حقائق کو غور و فکر کا اصل مرکز ہونے کی حیثیت حاصل ہے اور خدا کے بجائے کائنات، روح کے بجائے مادہ اور موت کے بعد کسی زندگی کے تصور کے بجائے حیاتِ دنیوی کو اصل موضوع بحث قرار دیا گیا ہے"

یہ جو کچھ آپ نے لکھا ہے، حرف بحرف صحیح ہے. آج مغرب شدید نوعیت کے الحاد اور انکار خدا کی لعنت میں گرفتار ہے چنانچہ آج مغرب میں منطقی ایجابیت 
(LOGICAL POSITIVISM) کا فلسفہ سب سے زیادہ مقبول ہے اور اس کے علاوہ جو مدارسِ فکر مقبول ہیں وہ بھی سب کے سب انکارِ خدا و روح و آخرت پر مبنی ہیں اور خالص مادیت کے حامی اور مبلغ ہیں. مثلاً:. 

(ا). 
THE PHILOSOPHY OF AS IF جس کا سب سے پرجوش حامی اور وکیل ہے VAIHINGER 
(ب) 
PHENOMENALISM جس کا سب سے پرجوش حامی اور وکیل ہے HUSSREL 
(ج) 
DIALECTICAL MATERIAL جس کا سب سے پرجوش حامی اور وکیل ہے MARX 
(د) NATURALISM جس کا سب سے پرجوش حامی اور وکیل ہے SANTAYANA 
(ہ) 
AGOSTICISM AND SCEPTICISM جس کا سب سے پرجوش حامی اور وکیل ہے J.S. MILL 
(و) 
EMERGENT EVOLUTION جس کا سب سے پرجوش حامی اور وکیل ہے MARX 
(ز) 
ATHEISM جس کا سب سے پرجوش حامی اور وکیل ہے MORRIS COHEN 
(ح) 
HUMANISM جس کا سب سے پرجوش حامی اور وکیل ہے SCHILLER 
(ط) 
REALISM جس کا سب سے پرجوش حامی اور وکیل ہے MOORE 
(ی) 
PRAGMATISM جس کا سب سے پرجوش حامی اور وکیل ہے DEWY 
(ک) 
LOGICAL EMPIRICISM جس کا سب سے پرجوش حامی اور وکیل ہے CARNAP 
(ل) 
EXISTENTIALISM جس کا سب سے پرجوش حامی اور وکیل ہے JEAN P.SRTRE 
(م) 
FREUDISM جس کا سب سے پرجوش حامی اور وکیل ہے FREUD 
(ن) 
BEHAVIOURISM جس کا سب سے پرجوش حامی اور وکیل ہے ADLER 
(س) 
COMMUNISM جس کا سب سے پرجوش حامی اور وکیل ہے LENIN 
(ع) 
SOCIALISM جس کا سب سے پرجوش حامی اور وکیل ہے LASKI 
(ف) 
LOGICAL ATOMISM جس کا سب سے پرجوش حامی اور وکیل ہے RUSSELL 
(ص) 
PHYSICAL REALISM جس کا سب سے پرجوش حامی اور وکیل ہے SEALLARS 
ان تمام مدارسِ فکر میں قدرِ مشترک یہ ہے کہ جو شئے حواسِ خمسہ سے محسوس نہ ہو اس کے وجود پر یقین کرنا سراسر حماقت ہے. چونکہ خدا، روح اور حیات بعد الموت تینوں غیر محسوس ہیں، اس لیے ان کی ہستی پر یقین خلافِ عقل ہے بلکہ یہ تینوں الفاظ مہمل ہیں کیونکہ ان کے مصادیق خارج ہیں کہیں موجود نہیں ہیں. 
یورپ میں لامذہبیت اور انکارِ خدا کے اسباب کی داستان بہت طویل ہے. جن حضرات کو اس موضوع سے دلچسپی ہو انہیں حسبِ ذیل کتابوں کا مطالعہ کرنا چاہیے:. 

1. CONFLICT BETWEEN RELIGION & SCIENCE By DR. DRAPER 

2. HISTORY OF THE INTELLECTUAL DEVELOPMENT OF EUROPE By DR. DRAPER.
3. HISTORY OF THE WARFARE BETWEEN SCIENCE AND THEOLOGY By WHITE
1. HISTORY OF EUROPEAN MORALS By DR. LECKY
2. HISTORY OF FREE THOUGHT IN EUROPE By ROBERTSTON 

تاہم قارئین کی خاطر ذیل میں اجمالی طور پر کچھ اشارات درج کیے دیتا ہوں.

(أ‌) جب 
JUSTINIAN قیصر روم نے یہ دیکھا کہ حکمائے یونان نصرانیت کے خلافِ عقل عقائد پر فلسفیانہ اعتراضات کرتے رہتے ہیں تو اس نے تنگ آ کر ۵۶۹ء میں اپنی قلمرو میں فلسفہ اور حکمت کی تعلیم کو ممنوع قرار دے دیا اور تمام فلاسفہ اور حکماء کو جلاوطن کردیا. 

(ب‌) اغیار کی طرف سے مطمئن ہوجانے کے بعد نصرانیوں کی زبان بندی اور ذہنی غلامی کے لیے کلیسائے روم کے اساقفِ اعظم (POPES) نے یہ قانون نافذ کیا کہ جو عیسائی کسی مذہبی عقیدے یا کسی کلیسائی فرمان پر اعتراض کرے گا، اسے کلیسا سے بھی خارج کردیا جائے گا اور ملعون قرار دے دیا جائے گا. یعنی جیتے جی اچھوت اور بعد وفات اس کا لاشہ بے گور و کفن!

(ج). اجانب اور اقارب دونوں کی طرف سے بے فکر ہوجانے کے بعد کلیسائے روم کے خلافِ عقل عقائد (۱(DOGMAS) کے ساتھ حسب ذیل احکام واجب الاذعان بھی فانذ کردیے.

۱. معیار حق و باطل بائبل نہیں ہے بلکہ کلیسات ہے اور کلیسا سے مراد ہے پوپ اور اس کے 
(۱) مثلاً

(ا). تثلیث جس کی رو سے خدا بیک وقت و بیک جہت و بیک حیثیت و بیک اعتبار ایک بھی ہے اور تین بھی ہے نیز وحدت بھی حقیقی ہے اور تثلیث بھی حقیقی ہے. 

(ب). تجسم جس کی رو سے کلام 
(LOGOS) جو خدا کے ساتھ بھی ہے اور خدا بھی ہے، مجسم ہوکر یسوع کی شکل میں ظاہر ہوا. 

(ج). یسوع نے اگرچہ وہ خدا تھا اور خدا کی صورت میں تھا، بوجہ غایت فروتنی 
(HUMILITY) اپنے آپ کو الوہیت سے معری کردیا اور غلام کی حیثیت اختیار کرلی اور صلیبی موت گوارا کرلی. 

(د). یسوع مسیح مصلوب ہوکر قیامت تک پیدا ہونے والے انسانوں کے پیدائشی گناہوں کا کفارہ ادا کردیا. 

(ہ). جب پادری، عشاء ربانی کے وقت روٹی اور شراب پر یسوع کا نام لے کر دعا کرتا ہے اور اسے اپنے ہاتھ سے متبرک کردیتا ہے تو وہ روٹی یسوع کا جسم اور شراب، یسوع کا خون بن جاتی ہے. اس ناقابل فہم عمل کو اصطلاح میں 
(TRANSUBSTANTIATIONکہتے ہیں. اردو میں اس کا ترجمہ ہوگا استحالۂ جوہری یا انقلابِ ذات. ماتحت مذہبی پیشواؤں کی جماعت.

۲. ہر پوپ ، معصوم عن الخطا اور مطاع ہے اس لیے اس کے احکام میں چون و چرا کی گنجائش نہیں ہے.

۳. مذہب اور مذہبی عقائد میں عقل کو مطلق دخل نہیں ہے.
بجا کہے جسے پایا، اسے بجا سمجھو 
زبان پوپ کو نقارہ خدا سمجھو

۴
. کلیسائی روایات کا انکار بھی کفر ہے.

۵. پوپ اور کلیسا کو گناہ معاف کرنے کا اختیار حاصل ہے.

۶. کلیسا کے علاوہ کسی شخص کو بائبل لکھنے کا حق حاصل نہیں ہے.
(د). تیرھویں اور چودھویں صدی عیسوی میں اندلس کے مشہور فلسفی ابنِ رشد (متوفی ۱۱۶۸ء) کی تمام تصانیف کا ترجمہ لاطینی زبان میں ہوگیا اور پندرہویں صدی میں اس کی تمام 
تصانیف اٹلی اور فرانس کی یونیورسٹیوں کے نصاب تعلیم میں شامل ہوگئیں. ان تصانیف کی بدولت یورپ ایک ہزار سال کے بعد ارسطو کے فلسفے سے واقف ہوا اور اس کی وجہ سے یورپ میں سولہویں صدی میں دو تحریکیں رونما ہوئیں جن کا نام "احیاء العلوم" اور "اصلاح کلیسا" ہے. چنانچہ رومن کیتھولک کلیسا، جس کے خلاف لوتھر نے صدائے احتجاج بلند کی اس بات کی معترف ہے کہ لوتھر بڑی حد تک ابن رشد کے فلسفے سے متاثر ہوا تھا، میری تحقیق بھی یہی ہے کہ لوتھر کے دماغ میں کلیسا کی اصلاح کا خیال ابن رشد کی تصانیف کے مطالعے سے پیدا ہوا تھا.

قصہ مختصر سولہویں صدی میں حسب ذیل پادریوں نے جو رومی کلیسا سے وابستہ تھے، کلیسا کی چیرہ دستویں کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی 
ERASMUS ،م ۱۵۳۶ء، ZIVINCLI ،م۱۵۳۱ء،LUTHER ، م ۱۵۴۶ء، MCLANCTHON ، م ۱۵۶۱ء اور CALVIN م ۱۵۶۴ء . ان کا سربراہ لوتھر تھا اس نے یہ اعلان کیا کہ بائبل کی صداقت کا دارومدار کلیسا پر نہیں ہے (جیسا کہ کلیسا کہتی تھی) بلکہ خود کلیسا کی صداقت کا دارومدار بائبل پر ہے یعنی معیارِ حق و صداقت بائبل ہے نہ کہ پوپ یا کلیسا. 

لوتھر اور اس کے ہمنواؤں کے احتجاج 
(PROTEST) کا نتیجہ یہ نکلا کہ رومن کیتھولک مذہب کے مقابلے میں یورپ میں پر اٹسنٹنٹ مذہب پیدا ہوگیا اور کلیسا کا اقتدار بڑی حد تک ختم ہوگیا. 

تحریکِ احیاء العلوم کی بدولت یورپ میں فلسفے (خصوصاً فلسفۂ ارسطو) کے مطالعے کا ذوق از سر نو زندہ ہوگیا اور جب اس کی بدولت یورپ کو عقلی آزادی نصیب ہوئی تو سترھویں صدی میں سائنس کا دور شروع ہوا جو آجکل بیسویں صدی میں اپنے نقطۂ عروج کو پہنچا ہوا ہے. 

(ہ). اہل سائنس اور اہل فلسفہ دونوں نے کلیسائیت اور نصرانیت کے خلافِ عقل عقائد پر اعتراضات وارد کیے. کلیسا اور نصرانیت دونوں ان کے جوابات سے قاصر اور عاجز تھیں. اس لیے انہوں نے معترضین کو کلیسا اور مذہب دونوں سے خارج کردیا. 

کلیسا سے دوسری غلطی یہ ہوئی کہ اس نے سائنس کی تحقیقات کو بھی مذہب کے خلاف قرار 
دے دیا مثلاًجب کاپرنیکس اور گلیلیو نے یہ کہا کہ زمین گول ہے اور آفتاب کے گرد گھوم رہی ہے تو کلیسا نے کہا یہ باتیں مذہب کے خلاف ہیں اور ان کے قائلین کافر ہیں. 

(و). کلیسا کی عقل دشمنی کا نتیجہ یہ نکلا کہ سائنس اور مذہب میں جنگ شروع ہوگئی اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ حکماء اور فلاسفہ نے مذہب کو خیر باد کہہ دیا اور اس طرح یورپ میں لامذہبیت کا آغاز ہوگیا.

اٹٹھارہویں صدی کے نصفِ اوّل میں 
(HUME) نے لاادریت کا فلسفہ پیش کیا اور عقلی دلائل سے ثابت کیا کہ عقلِ انسانی، خدا کی ہستی کا اثبات نہیں کرسکتی. ہیوم کے اس فلسفے کو کانٹ (KANT) نے ۱۷۸۱ء میں پایۂ تکمیل تک پہنچا دیا اور اپنی شہرۂ آفاق تصنیف "تنقیدِ عقل خالص" میں خدا کی ہستی پر جو دلائل فلاسفہ نے مدون کیے تھے، ان سب کا ابطال کردیا، اور اس طرح انکارِ خدا کی راہ ہموار کردی. 

انیسویں صدی میں مشہور منطقی سر ولیم ہیملٹن اور مشہور عالمِ الہیات ڈاکٹر مینسل نے ہیوم اور کانٹ کے نظریات کی یہ کہہ کر مزید تائید کردی کہ ذہنِ انسانی خد اکے بارے میں کچھ نہیں جان سکتا. ان کے بعد مل اور اسپنسر نے اپنے فلسفۂ لا ادریت سے مذکورہ بالا حکماء کے نظریات کو تقویت پہنچائی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ انکارِ خدا کا عقیدہ خواص اور عوام دونوں کے دماغوں میں جاگزیں ہوگیا. 

جب یورپ کو کلیسا اور پوپ کی غلامی سے نجات ملی تو حکماء اور فلاسفہ نے نفسِ مذہب کے ساتھ ساتھ نصرانیت اور کلیسائی عقائد کو بھی ہدفِ تنقید بنایا اور انیسویں صدی میں ان کی تنقید اپنے انتہائی عروج کو پہنچ گئی. چنانچہ اس صدی کے نصفِ اوّل میں مشہور جرمن فاضل اور محقق اسٹراس 
(STRAUSS-1808-1874) نے ۱۸۳۵ء میں حیات یسوع (LEBA’N.JESU) لکھ کر کلیسا کے ایوان میں زلزلہ ڈال دیا. اس غیر فانی کتاب میں اس نے اس بات کو مبرہن کیا کہ یسوع کی شخصیت تاریخی طور پر ثابت نہیں ہوسکتی نیز یہ کہ یسوع تو قدیم دیوتا متھرا کا مثنی ہے اور جو مذہب اس کے نام سے منسوب ہے وہ متھرائیت کا چربہ ہے. اس کتاب کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے ہوسکتا ہے کہ ڈاکٹر واکر پروفیسر تاریخِ کلیسا نے اپنی تصنیف تاریخِ کلیسا میں اس کتاب کو THE MOST EPOCH MAKING BOOK (عظیم ترین عہد آفریں کتاب) قرار دیا ہے.

۱۸۴۱ء میں ہیگل کے مشہور شاگرد فیور باخ (م۱۸۷۲ء) نے اپنی شہرۂ آفاق کتاب 
THE ESSENCE OF CHRISTIANITY شائع کی جس میں اس نے عیسائی مذہب اور اس کے تصور ذات باری دونوں کا ابطال کردیا.

۱۸۶۳ء میں فرنچ فاضل ارنسٹ رینان (م ۱۸۹۲) نے حیاتِ یسوع 
(VIE DE JESUSE) لکھی جس میں اس نے یہ ثابت کیا کہ یسوع محض ایک انسان تھا.

پروفیسر بور 
(F.C BAUR) نے بائبل کی کتابوں پر تنقید کی اور ثابت کیا کہ پولوس کے خطوط میں سے صرف تین اصلی ہیں باقی سب جعلی ہیں اس لیے بائبل بحیثیت مجموعی قابلِ اعتماد نہیں ہے. 

(ز). میں نے بخوف طوالت چند نقادوں کے تذکرے پر اکتفا کیا ہے. میرا مقصد یہ دکھانا ہے کہ اس تنقید کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ پہلے مذہب عیسوی اور اس کے بعد نفس مذہب بھی پایہ اعتبار سے ساقط ہوگیا. اس کے ساتھ ساتھ مذہب کو اس بات سے بھی بہت ضعف پہنچا، کہ یورپ میں جو فلسفہ...اور اس سے میری مراد فلسفۂ تصوریت 
(IDEALISM) ہے، مذہب کا حامی تھا، انیسویں صدی میں اس پر چاروں طرف سے اعتراضات شروع ہوگئےاور اس کے زوال کا نتیجہ یہ نکلا کہ فلسفے کے میدان میں مذہب کا کوئی مددگار باقی نہ رہا. اس کی تفصیل یہ ہے:

انیسویں صدی میں کارل مارکس نے اپنے فلسفۂ اشتراکیت کو مسلکِ مادیت کی اساس پر قائم کیا جو خدا اور روح دونوں کا منکر ہے. 

ڈارون نے نظریۂ ارتقاء پیش کیا جس سے مسلک مادیت کو تقویت حاصل ہوئی، شوپن ہاور نے نظریۂ قنوطیت 
(PESSIMISM) کی اشاعت کی اور یہ نظریہ بھی خدا اور مذہب کا مخالف ہے.
مل اور اسپنسر نے مسلک لا ادریت کی تبلیغ کی اور یہ مسلک بھی مذہب اور خدا کے بارے میں شکوک پیدا کرتا ہے. 
نطشہ (INEITZCHE) نے بھی اپنے فلسفے میں خدا کا انکار کیا اور ANTI CHRISTلکھ کر عیسائیت پر کاری ضرب لگائی. 

بیسویں صدی میں وجودیت 
(EXISTENTIALISM) اور منطقی اثباتیت (LOGICAL POSITIVISM) نے مادیت کو تقویت پہنچائی اور جیسا کہ میں لکھ چکا ہوں آج یورپ میں آخر الذکر فلسفہ سب سے زیادہ مبقول ہے. جس کی رو سے خدا، روح اور آخرت تینوں الفاظ قطعاً مہمل اور بے معنی ہیں. 

یہ سچ ہے کہ بریڈ لے (م۱۹۲۴ء) نے اپنی شہرہ آفاق کتاب "مظاہر اور حقیقت" 
(appearance & reality) میں مادیت کی پورے طور سے تردید کردی ہے. چنانچہ ڈاکٹر ریشڈل نے اپنی تصنیف "فلسفہ اور مذہب" میں میرے قول کی بایں الفاظ تائید کی ہے: "مسٹر بریڈلے نے اپنی تصنیف کے ابتدائی ابواب میں مادیت کے مقابلے میں تصوریت کی جس انداز سے حمایت کی ہے اس کی تردید نہیں ہوسکتی" (ص۲۷) لیکن یہ بات تسلیم کرنی پڑتی ہے کہ عصرِ حاضر میں الحاد پرور سائنس اور ملحدانہ مدارسِ فلسفہ کو جو قبول عام کی سند حاصل ہوگئی ہے اس کی وجہ سے فلسفہ تصوریت جو مادے کے مقابلے میں روح کو اصل کائنات اور حقیقتِ اقصیٰ قرار دیتا ہے، غیر مقبول ہوچکا ہے. آج کی دنیا میں حکماء اور فلاسفہ کی اکثریت کا میلان مادیت کی طرف ہے اور مذہب کی اپیل بہت کمزور ہوگئی ہے اور سائنٹیفک نظریات نے بہت سے مذاہب کی بنیادوں کو متزلزل کردیا ہے. 

عصرِ حاضر میں پانچ مدارسِ فکر بہت مقبول ہیں. اور سب کے سب الحاد پرور ہیں. اور انکار خدا و روح پر مبنی ہیں. یعنی: 


1. Pluralistic realism
2. Dialectical materialism
3. EXISTENTIALISM
4. NATURALISM
5. LOGICAL POSITIVISM 
اور ان میں آخر الذکر فلسفہ سب سے زیادہ مقبول ہے.