قصہ مختصر خدا اور مذہب کے بارے میں جو شکوک اور شبہات جدید تعلیم یافتہ طبقے کے افراد میں پائے جاتے ہیں، ان کے اسباب یہ ہیں:.

(ا). سائنٹیفک اسپرٹ (روح) کی روز افزوں نشوونما اور آبیاری.
(ب). ٹیکنولاجیکل تہذیب کی ترقی
(ج). مادی علوم وفنون کا عروج
(د). ایجادات کی بدولت تسخیرِ عناصر کائنات کا سلسلہ.
(ہ). لذات جسمانی اور ترغیباتِ جنسی کی روز افزوں فراوانی اور بوقلمی.
ان عناصر سے انسان کا نقطۂ نظر سراسر مادی ہوگیا ہے اور اس کا اثر حیات کے ہر شعبے پر مرتب ہوا ہے. حقیقت یہ ہے کہ سائنسی فتوحات نے انسان کی نگاہوں کو خیرہ کردیا ہے . 
(۱

خدا سے بے نیازی کی ابتداء تو کاپرنیکس ہی کے عہد سے شروع ہوچکی تھی اسی لیے لاپلاس (LAPLACE) م ۱۸۲۷ء نے نپولین کے سوال کے جواب میں یہ عہد آفریں جواب دیا تھا کہ "میں نے اپنی تصنیف ’توضیح نظامِ کائنات‘ میں خدا کا ذکر محض اس لیے نہیں کیا کہ عقل کی مدد سے کائنات کا نظام خدا کے بغیر بھی مدون ہوسکتا ہے" اور اسی لیے بیسویں صدی میں اقبال کے استاد میک ٹیگرٹ(۲۱۹۲۵ء) نے جب اپنا فلسفۂ خودی (CONTOLOGICAL IDEALISM) کے عسیر الفہم عنوان سے مرتب کیا تو انسانی خودی کو حقیقت (REALITY) تسلیم کرنے کے بعد خدا کو اپنے نظامِ فکر سے بکلی خارج کردیا.

فزیکل سائنس ہر لمحے ہماری حیاتِ اجتماعی و انفرادی کو متاثر کرتا ہے. خصوصاً ہمارے (۱) نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیب حاضر کی یہ سناعی مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے (اقبال)

(۲) اقبال نے ۱۹۳۵ء میں اپنے استاد کے سوانح حیات پڑھ کر اس کی یاد میں ایک مختصر سا مضمون لکھا تھا اور اس کے آغاز میں اسے PHILOSOPHER SAINT فلسفی والی کے لقب سے نوازا تھا. مدارسِ فلسفہ ہمارے مذاہب اور حیات و ممات سے متعلق ہمارے عمومی زاویۂ نگاہ پر تو نمایاں اور قابلِ تردید اثر مرتب ہوا ہے. 

جدید سائنس کی رو سے حیاتِ عضوی کی توجیہہ محسوس فطری قوانین کی روشنی میں کی جاتی ہے. اس کے لیے کسی فوق الفطرت طاقت کا سہارا نہیں لیا جاتا اور اس سائنٹیفک توجیہہ کی رو سے انسان فاعلِ مختار (FREE MORAL AGENT) نہیں ہے.
اسی طرح جدید نفسیات کی رو سے انسان اپنی ذات کا مالک نہیں ہے. نفسِ انسانی کی باشعور زندگی پر اس کی حیوانی جبلتوں کی حکومت ہے جو اس کے لاشعور میں پوشیدہ ہیں. فرائڈ یہ بھی کہتا ہے کہ ارادہ و مشیت کی آزادی در اصل ایک خود پسندانہ فریبِ نفس ہے. انسانی شخصیت کا تعین خارجی ماحول سے ہوتا ہے. جیسا ماحول مل گیا ویسا ہی انسان بن گیا.

فلسفہ اخلاق بھی سراسر مادی بنیادوں پر استوار کردیا گیا ہے. پروفیسر ڈیوی لکھتا ہے کہ "اخلاقی اقدار بھی اسی طرح غیر مستقل اور بے ثبات ہیں جس طرح بادل. مستقل (ازلی) اقدار کا تصور محض خوش فہمی ہے" رہے مسائل ما بعد الطبیعات تو ان کے متعلق منطقی اثباتیت (LOGICAL POSITIVISM) کا فتوی یہ ہے کہ جو شے حواسِ خمسہ سے محسوس نہ ہو وہ ناقابل التفات ہے. کائنات اور حیات انسانی کے بارے میں سائنس اور فلسفہ مادیت کا قولِ فیصل یہ ہے کہ یہ دونوں بے مقصد ہیں. انسان کی تقدیر یہ ہے کہ وہ پیدا ہو، کھائے پیے، افزائشِ نسل کرے اور آخر کار مر کر ہمیشہ کے لیے فان (معدوم) ہوجائے. الغرض جدید سائنس اور فلسفے کی روح، مذہب کے خلاف ہے. 

یہ ہے مختصر طور پر آپ کے مضمون کے ابتدائی حصے کی توضیح. میں نے اختصار کو مدّ نظر رکھا ہے ورنہ یہ موضوع اس قدر وسیع الذیل ہے کہ اس پر ایک ضخیم کتاب لکھی جا سکتی ہے.
پھر آپ نے لکھا ہے کہ "اس قسم کی کوشش کا مظہر اتم برصغیر میں دار العلوم دیوبند تھا جو کہنے کو تو صرف ایک درس گاہ تھا لیکن واقعۃً اس کی حیثیت ایک عظیم تحریک سے کسی طرح کم نہ تھی. نیز یہ کہ "یہ امر واقعی ہے کہ ان (سرسید) کی ان کوششوں سے دین و مذہب کی جان نکل گئی اور مادہ پرستانہ ذہنیت کے تحت مذہب کا ایک لا مذہبی ایڈیشن تیار ہوا. میں آپ کے اخذ کردہ نتائج 
سے بالکل متفق ہوں. سرسید نے مذہب کے درخت میں مغربی فلسفے کا جو پیوند لگایا ہے، اس کے اثمارِ تلخ سے پاکستانی مسلمانوں کے کام و دہن بقدرِ ذوق خوب لذت اندوز ہورہے ہیں. ’دقیانوسی‘ ٹائپ کے مسلمان ابھی اسے اس تلخی کے خلاف صدائے احتجاج بلند کر رہے ہیں. انہیں کون بتائے کہ ؎

ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا
آگے آگے دیکھنا ہوتا ہے کیا

پھر آپ نے لکھا ہے کہ "ان تحریکوں کا مطالعۂ اسلام اسی مغربی مادہ پرستانہ نقطۂ نظر پر مبنی ہے جس میں روح پر مادے کو اور حیاتِ اخروی پر حیاتِ دنیوی کو فوقیت حاصل ہے. اللہ تعالیٰ کا اقرر تو موجود ہے لیکن ایمان باللہ کی وہ کیفیت کہ انفس اور آفاق میں تنہا وہی فاعلِ مطلق، موثر حقیقی اور مسبب الاسباب نظر آنے لگے، بالکل مفقود ہے... رسالت کا اقرار تو موجود ہے لیکن محبت رسول نام کو موجود نہیں ہے.

میں آپ سے بالکل متفق ہوں اور آپ کو اس حقائق رسی، ژرف نگاہی اور معرفت نگاری پر داد دیتا ہوں. سچی بات یہی ہے کہ جب تک ایک مسلمان، اللہ تعالیٰ کو فاعلِ حقیقی اور مؤثر حقیقی نہ سمجھے وہ قرآنی توحید کے مقام پر فائز نہیں ہوسکتا. اسلامی تصوف، جسے جاہل صوفیوں نے بدنام کردیا، در اصل توحید ہی کو دل و دماغ میں جاگزیں کرنے اور اسے زندگی میں ایک عاملِ مؤثر بنانے اور اس کے تقاضوں پر عمل کے لیے آمادہ کرنے کا دوسرا نام ہے. چنانچہ سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی 
(۱اپنی تصنیف "فتوح الغیب" کے تیسرے مقالے میں فرماتے ہیں کہ اے بیٹے اس بات کو حرزِ جاں بنا لے کہ"لا فاعل فی الحقیقۃ ولا مؤثر فی الحقیقۃ الا اللہ"... وا حسرتا! آج شیخ موصوف رحمہ اللہ تعالی کے نام پر گیارہویں کی (۱) شیخ موصوف ۴۷۰ میں پیدا ہوئے. بیس سال کی عمر میں دینی علوم سے فارغ ہوئے. اس کے بعد بیس سال تک اپنے مرشد کے زیر تربیت رہ کر تزکیہ نفس کرتے رہے، چالیس سال کی عمر میں مرشد کے حکم سے تلقین و تدریس کا سلسلہ شروع کیا اور پچاس سال تک مسلمانوں کو توحید کا درس دیتے رہے اور طالبان حق کی رہنمائی کرتے رہے ۵۶۱ میں بغداد میں وفات پائی. ؏ . رحمتِ ایزدی بروحش باد! نیاز کرنے والے تو لاکھوں ہیں مگر ان کی تعلیم پر عمل کرنے والا ایک بھی نظر نہیں آتا. کس قدر عبرت کا مقام ہے کہ جس بزرگ نے پچاس برس تک مسلمانوں کو یہ تلقین کی ہو کہ اللہ کے سوا کوئی دستگیر نہیں. کوئی مشکل کشا نہیں، کوئی حاجت رَوا نہیں، آج اس کے نام لیوا خود اسی کو دستگیر اور مشکل کشا سمجھتے ہیں اور اللہ کے بجائے اسی کو پکارتے ہیں.

پھر آپ نے لکھا ہے کہ "ضرورت اس امر کی ہے کہ امت میں تجدید ایمان کی ایک عظیم تحریک برپا ہوتا کہ ایمان نرے اقرار اور محض قال سے بڑھ کر "حال" کی صورت اختیار کرلے".
میں اس باب میں آپ سے بکلّی متفق ہوں. اقبالؔ نے اسی بات کو یوں ظاہر کیا ہے بالفاظِ دگر انہوں نے بھی یہی علاج تجویز کیا ہے:

خرد نے کہہ بھی دیا لا الٰہ تو کیا حاصل
دل و نگاہ مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں

صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی زندگیوں میں ہمیں یہی انقلاب نظر آتا ہے کہ عقیدۂ توحید ان کا حال بن گیا تھا، اسی انقلاب کا یہ نتیجہ تھا کہ "انہیں یہ کائنات غیر حقیقی اور محض وہمی اور خیالی نظر آتی تھی لیکن ذات خداوندی ایک زندۂ جاوید حقیقت معلوم ہوتی تھی". وہ جس طرف کو منہ کرتے تھے انہیں اللہ ہی نظر آتا تھا اور وہ ہر واقعے میں اللہ ہی کو کار فرما دیکھتے تھے. اکبر الٰہ آبادی نے ذیل کے شعر میں یہی اندازِ نگاہ پیدا کرنے کی تلقین کی ہے: 

ارشاد یہ ہے کہ شرک نہ کر اور نماز پڑھ
مطلب یہ ہے کسی کو نہ دیکھ اور ہمیں کو دیکھ

پھر آپ نے لکھا ہے کہ "ایمان بالغیب کے لیے نقطۂ نظر اور طرز فکر کی تبدیلی لازمی ہے کہ کائنات غیر حقیقی اور محض وہمی و خیالی نظر آئے. لیکن ذاتِ خداوندی ایک زندۂ جاوید حقیقت معلوم ہو. حیاتِ دنیوی فانی ہی نہیں بالکل غیر حقیقی اور بے وقعت معلوم ہو اور حیاتِ اخروی حقیقی اور واقعی نظر آنے لگے. جب تک امت کے ایک قابلِ ذکر حصے میں نقطۂ نظر کی یہ تبدیلی رونما نہ ہو، احیائے اسلام کی آرزو ہر گز ہرگز شرمندۂ تکمیل نہ ہوسکے گی، میں آپ کی اس بات سے بکلّی اتفاق کرتا ہوں بلکہ میری دلی آرزو یہ ہے کہ اللہ آپ کو توفیق دے کہ آپ اس صداقتِ عظمی کو پاکستان ہی نہیں تمام دنیائے اسلام میں شائع کرسکیں اور ہر مسلمان تک پہنچا سکیں. میں پچاس برس کے غور و فکر کے بعد جس نتیجے پر پہنچا، اللہ نے آپ کو دس پندرہ سال کے غور و فکر کے بعد اسی نتیجے پر پہنچا دیا اور مزید کرم یہ کیا کہ اسے پیش کرنے کی سعادت بھی آپ کو عطا فرمائی.

بیسوی صدی میں مسلمانوں کی اصلاح و ترقی کے لیے جو تحریکیں ہندوستان اور دوسرے اسلامی ملکوں میں برپا ہوئیں وہ سب میری نگاہوں کے سامنے ہیں اور میں نے اپنی آنکھوں سے ان تحریکوں کو ناکام ہوتے دیکھا ہے. سبب اس ناکامی کا وہی ہے جو آپ نے بیان کیا ہے کہ جن لوگوں نے یہ تحریکیں برپا کیں ان میں بنیادی نقص یہ تھا کہ اللہ کے ساتھ ان کا تعلق محض قال تک محدود تھا بالفاظِ دگر وہ اسلام کا نام تو لیتے تھے، مگر اس کی روح سے بیگانہ تھے. اسلام کی روح، جیسا کہ میں سمجھا ہوں محض ارکانِ اسلام کی رسمی پابندی نہیں ہے بلکہ دل کی آنکھوں سے اللہ عزوجل کا مشاہدہ یا اس ذاتِ پاک کے ساتھ ایسا شدید قلبی رابطہ ہے جو مسلمان کو اس مقام پر پہنچا دے جہاں پہنچ کر ہر وقت اللہ ہی پیشِ نظر رہتاہے، غیر اللہ کی ہستی کالعدم ہوجاتی ہے.

پھر آپ نے لکھا ہے "عوام کے قلوب میں ایمان کی تخم ریزی اور آبیاری کا مؤثر ترین ذریعہ ایسے اصحاب علم و عمل کی صحبت ہے جن کے قلوب اور اذہان معرفتِ ربانی سے منور ہوں اور سینے، کبر و حسد، بغض اور ریا سے پاک ہوں اور زندگیاں حرص و طمع اور حب دنیا سے خالی ہوں.

میں اس معاملے میں بھی آپ سے بکلّی متفق ہوں، ازراہِ تفاخر نہیں بلکہ بطورِ اظہارِ حقیقت یہ بات لکھ رہا ہوں کہ میں نے پچاس سال سے زائد عرصہ منطق، فلسفہ، الہیات اور علم کلام کے مطالعے میں ضائع کیا لیکن خدا گواہ ہے کہ نہ تو ان علوم و فنون سے اللہ کے ساتھ تعلق پیدا ہوا اور نہ کتابوں سے کبر و حسد، بغض و ریا اور حرص و طمع کا ازالہ ہوا. ان امراضِ خبیثہ کا ازالہ تو کیا ہوتا الٹا میرا دماغ شکوک و شبہات کی جولانگاہ بن گیا اور اگر اس عالم پیری میں (سن ولادت ۱۳۱۳ھ) توفیق ایزدی تصوف کے نخلستان میں نہ پہنچادیتی تو آج تشکیک کے ریگستان میں العطش العطش پکارتا ہوتا. شکر ہے کہ وفات سے پہلے یہ حقیقت مجھ پر منکشف ہوگئی کہ ؎

نہ کتابوں سے، نہ کالج سے، نہ زر سے پیدا
دین ہوتا ہے بزرگوں کی نظر سے پیدا

(اکبر) سچ کہا ہے شیخ سعدی رحمہ اللہ تعالی نے:

جز یادِ دوست ہر چہ کنی عمر ضائع ہست
جز حرفِ عشق ہر چہ بخوانی بطالت است
سعدی بشوئے نقشِ دوئی را زِ لوح دل
علمے کہ راہ حق نہ نماید، جہالت است

نیز سچ کہا ہے مرشد رومی رحمہ اللہ تعالی نے:

علم چہ بود؟ آنکہ رہ بنمایدت
زنگ گمراہی ز دل بزد ایدت
علم بنود غیرِ علم عاشقی
مابقی، تلبیس ابلیسِ شقی

یہ صحبت ہی کا تو ثمرہ تھا کہ ابن ابی قحافہ، صدیق اکبر کے مقام پر فائز ہوگئے اور یہ صحبت ہی کا تو کرشمہ تھا کہ ابن خطاب کو فاروق اعظم کا مرتبہ حاصل ہوگیا. رضی اللہ عنہما. اسی لیے اقبال نے یہ کہا:

صحبت از علمِ کتابی خوشتر است
صحبتِ مردانِ حر، آدم گر است
دیں مجو اندر کتب اے بے خبر
علم و حکمت از کتب، دیں از نظر

پھر آپ نے لکھا ہے کہ "وقت کی اہم ترین ضرورت یہ ہے کہ ایک زبردست علمی تحریک اٹھے جو تعلیم یافتہ طبقات اور ذہین افراد میں انقلاب برپا کردے یعنی انہیں خدا پرستی اور خود شناسی کی دولت سے مالا مال کردے... الخ"

میں آپ کی ان تجاویز سے بکلّی متفق ہوں اور اس دعا پر اس خط کو ختم کرتا ہوں کہ اللہ آپ کو عصرِ حاضر میں دعوت و تبلیغِ اسلام کی توفیق ارزانی فرمائے اور یہ حقیقت آپ پر واضح کردے کہ مقصدِ حیات استرضاء باری تعالیٰ ہے نہ کہ حصولِ حکومتِ ارضی. حکومت یا خلافت، ایمان و عملِ صالح کا ثمرہ ہے نہ کہ مقصود بالذات شے. اور آپ سے استدعا ہے کہ آپ اس ننگِ خلائق کے خاتمہ بالخیر کی دعا فرمائیں.

وقتِ طلوع دیکھا، وقتِ غروب دیکھا
اب فکرِ آخرت ہے، دنیا کو خوب دیکھا
(اکبر رحمہ اللہ تعالی )
والسَّلام خیر الختام
مجمع عیوب و زشتی یوسف سلیم چشتی