قرآن حکیم قرنِ اوّل و بعد اسلام برعظیمِ پاک و ہند میں

قرآن حکیم
قرنِ اوّل میں اور اس کے بعد 

بدء الاسلام میں اسلام کی دو عظیم ترین حقیقتیں
قرآن حکیم اور جہاد فی سبیل اللہ
قرآن: منبع و سرچشمۂ ایمان و یقین، اور جہاد: ایمان حقیقی کا مظہرِ اتمّ


واقعہ یہ ہے کہ بدء الاسلام میں دین کی اصل اساسی اور بنیادی حقیقتیں دو ہی تھیں. ایک قرآن حکیم جسے نبی اکرم  کی انقلابی جدو جہد کے ضمن میں آلۂ انقلاب کی حیثیت حاصل ہے بقول مولانا حالیؔ ؎

اتر کر حرا سے سوئے قوم آیا
اور اک نسخۂ کیمیا ساتھ لایا

اور دوسرے جہاد فی سبیل اللہ جو جامع عنوان ہے آپ کی اس جدوجہد کے مختلف مدارج و مراحل کا. 

واقعہ یہ ہے کہ قرآن مجید ہی کی گرج اور کڑک تھی جس نے نیند کے ماتوں کو جگایا اور خوابِ خرگوش کے مزے لوٹنے والوں کو بیدار کیا. چنانچہ 
وَ الۡعَصۡرِ ۙ﴿۱﴾اِنَّ الۡاِنۡسَانَ لَفِیۡ خُسۡرٍ ۙ﴿۲﴾ اور اِقۡتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُہُمۡ وَ ہُمۡ فِیۡ غَفۡلَۃٍ مُّعۡرِضُوۡنَ ۚ﴿۱﴾ کی چونکا دینے والی صدائیں اور اَلۡقَارِعَۃُ ۙ﴿۱﴾مَا الۡقَارِعَۃُ ۚ﴿۲﴾وَ مَاۤ اَدۡرٰىکَ مَا الۡقَارِعَۃُ ؕ﴿۳﴾ اور اَلۡحَآقَّۃُ ۙ﴿۱﴾مَا الۡحَآقَّۃُ ۚ﴿۲﴾وَ مَاۤ اَدۡرٰىکَ مَا الۡحَآقَّۃُ ؕ﴿۳کی بیدار کن ندائیں ہی تھیں جنہوں نے پورے عرب میں ہلچل مچا دی اور عَمَّ یَتَسَآءَلُوۡنَ ۚ﴿۱﴾عَنِ النَّبَاِ الۡعَظِیۡمِ ۙ﴿۲﴾الَّذِیۡ ہُمۡ فِیۡہِ مُخۡتَلِفُوۡنَ ؕ﴿۳﴾ کی کیفیت پیدا کردی. بقول مولانا حالی ؎

وہ بجلی کا کڑکا تھا یا صوتِ ہادی
عرب کی زمیں جس نے ساری ہلا دی

پھر.. اسی کی آیات بینات تھیں جنہوں نے ہُوَ الَّذِیۡ یُنَزِّلُ عَلٰی عَبۡدِہٖۤ اٰیٰتٍۭ بَیِّنٰتٍ لِّیُخۡرِجَکُمۡ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوۡرِ ؕ کے مصداق انسانوں کو شرک، الحاد، مادہ پرستی، حبّ عاجلہ، اور حیوانیت محضہ کے ظُلُمٰتٌۢ بَعۡضُہَا فَوۡقَ بَعۡضٍ ؕ ایسے مہیب اور ہولناک اندھیروں سے نکال کر ایمان اور یقین کی روشنی سے بہرہ ور فرمایا. چنانچہ وہ ایک طرف عرفانِ الٰہی اور محبت خداوندی سے سرشار یعنی مستِ بادۂ الست ہوگئے اور دوسری طرف دنیا و مافیہا ان کی نگاہوں میں مچھر کے پر سے بھی حقیر تر ہوگئے اور وہ کلیۃً طالبِ عقبیٰ بن گئے. 

مزید بر آں... وہی تھا جو 
مَّوۡعِظَۃٌ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ بھی بن کر آیا، اور شِفَآءٌ لِّمَا فِی الصُّدُوۡرِ ۬ۙ بھی! چنانچہ اسی کے ذریعے لوگوں کا تزکیۂ نفس بھی ہوا اور تصفیۂ قلب و تجلیۂ روح بھی! گویا انذار ہو یا تبشیر ، تبلیغ ہو یاتذکیر ، موعظت ہو یا نصیحت ، تعلیم ہو یا تربیت ، تزکیہ ہو یا تصفیہ ، تجلیہ ہو یا تنویر ... الغرض تطہیر ہو یا تعمیر محمد رسول اللہ  کا پورا عملِ دعوت و اصلاح قرآن مجید ہی کے گرد گھومتا ہے. یہی وجہ ہے کہ قرآن حکیم میں ایک نہ دو پورے چار مقامات پر آنحضور  کے منہجِ انقلاب کو جن اساسی اصطلاحات کے ذریعے واضح کیا گیا ہے. ان کا اول و آخر خود قرآن مجید ہی ہے. بفحوائے الفاظ قرآنی: 
یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیۡہِمۡ وَ یُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ 
(الجمعہ:۲

سناتا ہے انہیں اس کی آیات اور پاک کرتا ہے سکھاتا ہے انہیں کتاب اور حکمت!

قرآن کا کارنامہ، ایک جملے میں بیان کیجئے، تو یہ ہے کہ اس نے صحابۂ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے دلوں میں 
ایمان پیدا کردیا اور توحید ، معاد اور رسالت پر یقین محکم کی کیفیت پیدا کردی لیکن اس سے اس ہمہ گیر تبدیلی کا اندازہ نہیں ہوتا جو قرآنِ حکیم کے بدولت ان کی زندگیوں میں برپا ہوگئی تھی اس لیے کہ قرآن نے ان رضی اللہ عنہم کا فکر بدلا، سوچ بدلی، نقطۂ نظر بدلا، اقدار بدلیں،عزائم بدلے، امنگیں بدلیں، شوق بدلے، دل چسپیاں بدلیں، خوف بدلے، امیدیں بدلیں، اخلاق بدلے، کردار بدلے، خلوت بدلی، جلوت بدلی، انفرادیت بدلی، اجتماعیت بدلی، دن بدلا، رات بدلی حتی کہتُبَدَّلُ الۡاَرۡضُ غَیۡرَ الۡاَرۡضِ وَ السَّمٰوٰتُ کے مصداق آسمان بدلا، زمین بدلی، الغرض پوری کائنات بدل کر رکھ دی.. اور اس پوری تبدیلی کا ذریعہ اور آلہ ہیں قرآنِ حکیم کی آیات بینات! بقول علامہ اقبال رحمہ اللہ تعالی:

بندۂ مومن زِ آیاتِ خدا ست
ایں جہاں اندر براہ چوں قباست!
چوں کہن گردد جہانے در برش
می دہد قرآں جہانِ دیگرش

تبدیلی اگر حقیقی اور واقعی ہو تو اس کی کوکھ سے لازماً تصادم اور کشمکش جنم لیتے ہیں جن کے مراحل تبدیلی کی نوعیت اور مقدار کی نسبت سے کم و بیش ہوسکتے ہیں. ایمان نے جو تبدیلی صحابہ کرام میں پیدا کی اس نے جس تصادم اور کشمکش کو جنم دیا اس کے جملہ مدارج و مراحل کا جامع عنوان ہے ’جہاد فی سبیل اللہ‘. اس تصادُم اور کشمکش کا اوّلین ظہور انسانوں کی اپنی شخصیت کے داخلی میدانِ کارزار میں ہوا. یہی وجہ ہے کہ مجاہدہ مع النفس کو افضل الجہاد قرار دیا گیا. (۱پھر جب ایمان اشخاص کے باطن میں اس طرح راسخ اور مستولی ہوگیا کہ ریب اور تشکک کے کانٹے نکل گئے تو اب اسی جہاد و مجاہدہ کا ظہور عالمِ خارجی میں ظالموں، سرکشوں اور خدا کے باغیوں سے کشمکش وار تصادم کی صورت میں ہوا جس کا مقصد قرار پایا، تکبیر رب ، (۲یعنی اللہ تعالیٰ کی کبریائی کا اقرار و اعلان اور اس کی حاکمیّت مطلقہ کا بالفعل قیام و نفاذ تاکہ اس کی مرضی جیسے آسمان پر پوری ہوتی ہے. زمین پر بھی ہو ! (۳.. اور اس کی آخری منزل ہے "قتال فی سبیل اللہ" جس کا منتہائے مقصودِ معین ہوا ان الفاظ میں کہ: 

وَ قَاتِلُوۡہُمۡ حَتّٰی لَا تَکُوۡنَ فِتۡنَۃٌ وَّ یَکُوۡنَ الدِّیۡنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ ۚ 
(الانفال: ۳۹
اور جنگ کرتے رہو ان سے یہاں تک کہ "فتنہ" بالکل فرو ہوجائے اور اطاعت کلیۃ اللہ ہی کی ہونے لگے!

ایمان و یقین اور جہاد و قتال کا یہی وہ لزومِ باہمی ہے جس کو نہایت واضح اور واشگاف الفاظ میں بیان کیا گیا قرآن حکیم کی اس آیۂ مبارکہ میں:

اِنَّمَا الۡمُؤۡمِنُوۡنَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ ثُمَّ لَمۡ یَرۡتَابُوۡا وَ جٰہَدُوۡا بِاَمۡوَالِہِمۡ وَ اَنۡفُسِہِمۡ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ؕ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الصّٰدِقُوۡنَ ﴿۱۵﴾ (الحجرات: ۱۵
مومن تو بس وہی ہیں جو ایمان لائے اللہ پر اور اس کے رسول پر پھر شک میں نہ پڑے اور جہاد کرتے رہے اللہ کی راہ میں اور کھپاتے رہے اس میں اپنے اموال اور اپنی جانیں. حقیقت میں یہی ہیں سچے! 
(۱) آنحضور سے دریافت کیا گیا: ای الجھاد افضل یا رسول اللہ؟ تو آپ  نے ارشاد فرمایا. ان تجاھد نفسک فی طاعۃ اللہ 

(۲) الفاظ قرآنی کی رو سے . 
وَ رَبَّکَ فَکَبِّرۡ ۪﴿ۙ۳﴾. (المدثر: ۳اور بقول علامہ اقبال 
یا وسعتِ افلاک میں تکبیر مسلسل یا خاک کی آغوش میں تسبیح و مناجات
وہ مسلک مردانِ خود آگاہ خدا مست یہ مذہب ملا و مجادات و نباتات

(۳) سیدنا مسیح علیہ السلام کے الفاظ. 
واضح رہے کہ اس آیۂ مبارکہ کے اوّل و آخر حصر کا اسلوب بھی ہے اور آیۂ ماقبل میں ’حقیقی ایمان‘ اور ’قانونی اسلام‘ کے مابین فرق و امتیاز کا مضمون بھی. گویا مومنِ صادق کی جامع و مانع تعریف قرآنِ حکیم کی کسی ایک آیت میں مطلوب ہو تو وہ یہی آیت ہے.

الغرض 
قرآن کے اصل حاصل ہیں ایمان اور یقین اور ان کا لازمی نتیجہ ہیں، جہاد اور قتال ان میں سے ایمان و یقین اصلاً ایک معنوی حقیقت اور داخلی کیفیت کا نام ہیں، چنانچہ عالمِ خارجی میں اسلام کی دو عظیم ترین اور نمایاں ترین، حقیقتیں ہیں قرآن اور جہاد. یہی وجہ ہے کہ یہ دونوں ایمانِ حقیقی کی مستقل علامتوں (SYMBOLS) کی حیثیت رکھتے ہیں اور مرد مومن کی شخصیت کا جو ہیُولیٰ تخیل اور تصور میں ابھرتا ہے اس کے ایک ہاتھ میں قرآن اور دوسرے ہاتھ میں تلوار لازمی و لابدی ہیں!

نبی اکرم  کی حیاتِ طیبہ اور خلافت راشدہ کے دوران اسلام کی نشاۃ اولیٰ یا غلبۂ دینِ حق کا دورِ اول بلا شائبہ ریب و شک، نتیجہ تھا صحابہ کرام کے 
تعلقِ قرآن اور جذبہ جہاد کا. لیکن یہ بھی ایک ایسی تاریخی حقیقت ہے جس سے انکار ممکن نہیں کہ جیسے ہی اسلام نے ایک مملکت اور سلطنت کی صورت اختیار کی ان دونوں کی حیثیت ثانوی ہوکر رہ گئی. اور ایسا ہونا ایک حد تک منطقی اور فطری بھی تھا. اس لیے کہ ایک طرف تو کسی مملکت یا سلطنت میں اولین و اہم ترین مسئلہ شہریت کا ہوتا ہے جو ایک خالص قانونی مسئلہ ہے جس میں تمام تر بحث انسان کے ظاہر سے ہوتی ہے، باطن سے کوئی سروکار ہی نہیں ہوتا گویا بقول علامہ اقبال.؏ . بندوں کو گنا جاتا ہے تولا نہیں جاتا!.

مزید بر آں اس کا اصل موضوع نظم و نسق اور امن و امان کا ہوتا ہے جس کے اعتبار سے بنیادی اہمیت 
قانون اور ضابطے کو حاصل ہوتی ہے نہ مکارمِ اخلاق یا مواعظِ حَسَنہ کو. حتی کہ اس اعتبار سےقصاص عضو پر مقدم ہوجاتا ہے. اور دوسری طرف سلطنتوں اور مملکتوں کو، خواہ وہ اصولی اور نظریاتی ہی ہوں اصل سروکار اپنی حفاظت و مدافعت سے ہوتا ہے، اصولوں اور نظریات کی تبلیغ و اشاعت ہوتی بھی ہے تو ثانوی درجے میں اور حکومتوں کی مصلحتوں کے تابع رہ کر! 

یہی وجہ ہے کہ جب اسلام مملکت اور سلطنت کے دور میں داخل ہوا تو اصل زور 
(EMPHASIS) ایمان کے بجائے اسلام پر، یقین کے بجائے اقرار اور شہادت پر اور باطن سے بڑھ کر ظاہر پر ہوگیا. نتیجۃً قرآنِ حکیم کے بھی منبعِ ایمان اور سرچشمۂ یقین ہونے کی حیثیت مؤخر اور نگاہوں سے اوجھل ہوتی چلی گئی اور کتابِ قانون اور یکے از ادلۂ اربعہ (۱ہونے کی حیثیت مقدم اور مرکزِتوجہ بنتی چلی گئی. اور پھر جیسے جیسے مملکت اور سلطنت کے تقاضے پھیلتے گئے اور قانون کی عملداری وسیع ہوتی گئی قرآن مجید تو چار میں کے ایک، کی حیثیت میں پس منظر میں گم (۲ہوتا چلا گیا اور توجہات حدیث اور فقہ پر مرتکز ہوکر رہ گئیں (۳ستم بالائے ستم یہ کہ علم اور حکمت کے میدان میں جو خلا اس طرح پیدا ہوا اسے پر کرنے کے لیے مصر و یونان کی جانب سے فلسفہ و منطق کی آندھیاں آئیں. نتیجۃً پوراعالمِ اسلام ارسطو کی منطق اور نو افلاطونی تصوف کی آماجگاہ بن کر رہ گیا. یہاں تک کہ فلسفہ و اصولِ اخلاق کے لیے بھی مسلمانوں کو اغیار کے سامنے کاسۂ گدائی پیش کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ رہا ! (۴اور رفتہ رفتہ صورت یہ ہو گئی کہ قرآن نہ منبع ایمان رہا نہ سرچشمۂ یقین اور نہ مخزنِ اخلاق رہا نہ معدنِ حکمت .. بلکہ صرف ایک ایسی کتاب مقدس بن کر رہ گیا جس کے الفاظ یا تو حصول برکت اور ایصالِ ثواب کا ذریعہ بن سکتے ہیں یا زیادہ سے زیادہ تعویذ گنڈے اور جھاڑ پھونک کے کام آ سکتے ہیں . (۵اور اس طرح آنحضور  کی وہ پیشین گوئی حرف بحرف پوری ہوئی کہ ایک زمانہ وہ آئے گا کہ: 

لَایَبْقیٰ مِنَ الْاِسْلَامِ اِلَّا اِسْمُہٗ وَ لَا یَبْقٰی مِنَ الْقُرْاٰنِ اِلَّا رَسْمُہٗ (مشکوۃ، کتاب العلم) 
اسلام میں سے سوائے اس کے نام کے اور کچھ باقی نہ رہے گا اور قرآن میں سے سوائے صورتِ الفاظ کے اور کچھ نہ بچے گا.

بعینہٖ یہی معاملہ جہاد کے ساتھ بھی ہوا، جب اصل زور 
ایمان پر نہ رہا بلکہ اسلام پر ہوگیا تو جہاد بھی جو ایمانِ حقیقی کا رکنِ رکین تھا خود بخود نگاہوں سے اوجھل ہوتا چلا گیا. اور ساری توجہ ارکانِ (۱) اصول شریعت چار ہیں: قرآن، سنتِ رسول، قیاس، اجماع انہیں ادلہ اربعہ کہاجاتا ہے.

(۲) حضرت اکبر کا بہت پیارا شعر ہے. 
صوم ہے ایمان سے، ایمان غائب صوم گم قوم ہے قرآن سے قرآن رخصت قوم گم!

(۳) چنانچہ اصول حدیث اور اصولِ فقہ پر تو بے شمار تصانیف ملتی ہیں لیکن اصول تفسیر کے موضوع پر چودہ سو سال میں کل دو رسالے ملتے ہیں ایک امام ابن تیمیہ کا رسالہ اصول تفسیر اور دوسرا امام الہند شاہ ولی اللہ دہلوی کا رسالہ الفوز الکبیر

(۴) اسی کا مرثیہ کہا مولانا روم نے ان الفاظ میں ؎
چند خوانی حکمتِ یونانیاں حکمتِ قرآنیہ راھم بخواں

(۵) ایک تیسرا مصرف قرآن کا وہ ہے جو علامہ اقبال نے اس شعر میں بیان کیا: ؎
بآیاتش ترا کارے جزیں نیست کہ از یاسینِ او آساں بہ میری 
اسلام پر مرتکز ہوگئی جن کی فہرست میں جہاد سرے سے شامل ہی نہیں ہے، گویا جہاد پر ظلم قرآن سے بھی بڑھ کر ہوا. اس لیے کہ قرآن تو خواہ چار میں کے ایک، کی حیثیت ہی سے سہی بہرحال شریعت کے اصول اربعہ میں شامل تو ہے، جہاد تو نہ صرف یہ کہ اسلام کے ارکانِ خمسہ میں شامل نہیں بلکہ نظامِ فقہ میں بھی اس کی حیثیت فرض عین کی نہیں صرف فرض کفایہ کی ہے. اس پر مستزاد یہ کہ جہاد کا تصور بھی مسخ ہوگیا اور اس شجرہ طیبہ کی شاخوں کو جڑ اور تنے سے جدا کرکے ہر ایک کو مختلف رنگ دے دیا گیا چنانچہ ایک طرف جہاد مع النفس کا رخ اعمال اور معاملات کی منجدھار سے پرے ہی پرے اذکار و اوراد اور نفسیاتی ریاضتوں اور ورزشوں کی راہِ یسیر (SHORT CUT) کے جانب موڑ دیا گیا اور دوسری طرف جہاد کو قتال کے ہم معنیٰ قرار دے کر اس کا مقصد مملکت کی سرحدوں کے تحفظ و دفاع اور بس چلے تو توسیع کے سوا کچھ نہ رہا. رہا شرک و ظلم، کفر و فسق اور زور و منکر کی ہر صورت کے ساتھ مسلسل کشمکش اور تصادم اور حق و صداق کے پرچار، نیکی اور راستبازی کی ترویج، کلمہ توحید کی نشر و اشاعت اور دینِ حق کے غلبہ و اقامت کے لیے پیہم جدوجہد اور اس کے لیے سمع و طاعت کے اصول پر مبنی نظامِ جماعت کے قیام کا معاملہ.. گویا فی الجملہ احقاق حق اور ابطالِ باطل کی منظم سعی جو ہر مومن کے لیے فرض عین کا درجہ رکھتی ہےتو وہ یا تو سرے سے خارج از بحث ہوگئی یا زیادہ سے زیادہ ایک اضافی نیکی قرار پاکر رہ گئی اور اس سے بالا ہی بالا اور ورے ہی ورے اسلام و ایمان اور تقوی و احسان کے جملہ مراحل طے پانے لگے!

اللہ! اللہ کوئی فرق سا فرق ہے اور تفاوت سا تفاوت! ؏ "ببیں تفاوتِ راہ از کجا ست تابہ کجا! کے مصداق کجا وہ کیفیت کہ صحابہ کرام جذبۂ جہاد سے سرشار، بیک زبان، رجزیہ انداز میں یہ شعر پڑھ رہے ہیں:

نَ حْنُ الَّذِیْنَ بَایَعُوْا مُحَمَّدًا
عَلَی الْجِھَادِ مَا بَقِیْنَا اَبَدًا

کجا یہ حال کہ چودہویں صدی ہجری کے ایک متنبی اور اس کی ذریت صلبی و معنوی نے تو جہاد بالسیف کو باقاعدہ منسوخ ہی قرار دے دیا. مسلمانوں کی عظیم اکثریت کا حال بھی عملاً کچھ زیادہ مختلف نہیں.؏ 

کہ رہوار یقینِ ما بصحرائے گماں گم شد