مرکزی انجمن خدام القرآن لاہور کا مؤسّس

مرکزی انجمن خدام القرآن لاہور کا مؤسّس اور اس کے فکر کے عناصرِ اربعہ 

  • فکر قرآنی کے چار سلسلوں کا قران
  • چاروں سلسلوں کی بعض اہم شخصیتوں سے ذاتی روابط... اور
  • دو اہم شخصیتوں سے وصل و فصل کی داستان

ان سطور کے ناکارہ و ناچیز راقم کو اپنی اس خوش بختی پر ناز ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے نوجوانی ہی کے دور میں ایسے مواقع پیدا فرما دئیے کہ وہ نہ صرف یہ کہ اپنی بساط کے مطابق ’فکر قرآنی‘ کے متذکرہ بالا تینوں درمیانی دھاروں سے متعارف و مستفید ہوا بلکہ حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ تعالی کے ترجمے اور مولانا شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ تعالی کے حواشی کی وساطت سے اس کا ذہنی رشتہ کم از کم تفسیرِ قرآن کی حد تک ان علماء ربانیین کے حلقے سے بھی قائم ہوگیا. جو بلاشبہ "الراسخون فی العلم" کہلانے کے مستحق ہیں. نتیجۃً ، بفضل اللہ وعونہ، اس کی ذات میں بقدرِ وسعتِ ظرف ان "انہارِ ثلثہ" کے ساتھ ساتھ یہ چوتھا، چشمۂ صافی بھی رواں دواں ہے. فلہ الحمد والمنۃ.

جذباتی سطح پر راقم کی شخصیّت پر سب سے پہلی اور سب سے گہری چھاپ علامہ اقبال مرحوم کے اردو کلام کی ہے. چنانچہ ہائی اسکول کا پورا زمانۂ طالب علمی (۱۹۴۱ء تا ۱۹۴۷ء) احقر نے بانگِ درا ، بالِ جبریل، ضربِ کلیم اور ارمغانِ حجاز کے اشعار پڑھتے اور گنگناتے ہوئے بسر کیا. جس سے ایک جذبۂ ملی اس کے رگ و پے میں سرایت کر گیا اور چونکہ اس وقت اس جذبے کے مظہر اتم کی حیثیت تحریکِ پاکستان کو حاصل تھی لہٰذا اس دور میں اپنی بساط کے مطابق عملی وابستگی تحریکِ مسلم لیگ کی تنظیمِ طلبہ یعنی مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے ساتھ رہی. تاہم اسی دور کے اواخر میں راقم مولانا ابو الاعلی مودودی سے بھی متعارف ہوچکا تھا اور الہلال اور البلاغ والے مولانا ابو الکلام آزاد مرحوم سے بھی. .. مولانا مودودی کی تحریروں میں سے یوں تو جو کچھ بھی اس وقت پڑھنے میں آیا بھلا ہی لگا لیکن الحمد للہ کہ ان کے ساتھ راقم کا اصل ذہنی و قلبی رشتہ تفہیم القرآن کے ذریعے قائم ہوا جس کے ضمن میں تقسیمِ ہند 
کے قریب کے زمانے میں ماہنامہ، ترجمان القرآن، میں تفسیر سورۂ یوسف شائع ہورہی تھی. اِس ذہنی و قلبی تعلق کی گمبھیری کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ تقسیمِ ملک کے ہنگاموں اور آگ اور خون کی وادیوں سے گزر کر جیسے ہی پاکستان پہنچنا نصیب ہوا، راقم ان کی تحریک سے وابستہ ہوگیا اور ایک جانب تو اس نے چند ماہ کے اندر اندر ان کے قلم سے نکلا ہوا ایک ایک لفظ اس طور سے پڑھ ڈالا کہ مولانا محمد اسماعیل گوجرانوالوی کے الفاظ میں نہ صرف یہ کہ ان کی تصانیف کا فارغ التحصیل ہوگیا بلکہ ان کا مدرس بھی بن گیا. اور دوسری طرف زمانہ طالب علمی کے بقیہ سات سال (۱۹۴۷ء تا ۱۹۵۴ء) ان کی تحریکِ اسلامی کے نذر کردیے اور اپنی بیشتر قوتیں اور توانائیاں اسلامی جمعیتِ طلبہ کے ساتھ عملی وابستگی میں کھپا دیں.. اس دور کے تقریباً وسط میں (۵۰.۱۹۵۱ء کے لگ بھگ) راقم کا ذہنی رابطہ مولانا امین احسن اصلاحی سے قائم ہوا. مولانا کی تحریروں کے بارے میں جماعت اسلامی کے حلقوں میں عام طور پر یہ مشہور تھا کہ وہ ثقیل بھی ہوتی ہیں اور خشک بھی، لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے جو قلبی انس راقم کو اس وقت تک قرآن مجید کے ساتھ حاصل ہوچکا تھااس کی بناء پر اسے ان تحریروں میں نہ ثقل کا احساس ہوا نہ خشکی کا. مولانا کی تحریریں بھی یوں تو راقم نے سب ہی پڑھ ڈالیں لیکن ان کی دو تصانیف سے تو اسے عشق کی حد تک لگاؤ ہوگیا. ایک دعوتِ دین اور اس کا طریقِ کار، اور دوسری تدبر قرآن (جو اب "مبادئ تدبر قرآن" کے نام سے مطبوعہ موجود ہے) مولانا کی ان تصانیف کے مطالعے سے بلا شائبہ ریب و شک راقم کے قرآن حکیم کے ساتھ ذہنی تعلق میں ایک نئے بعد و عرض (DIMENSION) کا اضافہ ہوا اور پھر جب ۱۹۵۴ء کے لگ بھگ مولانا کا ترجمہ کردۂ مجموعہ تفاسیرِ فراہی، شائع ہوا تب تو راقم کو تفسیرِ قرآن کے اس مکتب فکر کے اصل منبع و سرچشمہ تک رسائی حاصل ہوگئی فللہ الحمد.. اسی زمانۂ طالب علمی کے دوران احقر حضرت شیخ الہند کے ترجمے اور موالانا شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ تعالی کے حواشی سے متعارف ہوا (یاد ہوگا، اس کا ایک نہایت اعلی اور حسین و جمیل ایڈیشن کراچی کے بعض اہل خیر نے ہانگ کانگ سے طبع کراکے مفت تقسیم کیا تھا جو بعد میں فی نسخہ پانچ روپے سے لے کر تیس روپے تک میں فروخت بھی ہوتا رہا) مولانا عثمانی کے بظاہر حد درجہ سادہ و سلیس حواشی میں راقم کو فکر و نظر کی جو گہرائی اور گیرائی نظر آئی اور خصوصاً احوالِ باطنی کی جو چاشنی یا بالفاظِ دیگر تصوف کی جو حلاوت محسوس ہوئی اس سے اس کی نسبتِ قرآنی، کو بفضل اللہ تعالیٰ وعونہ عرض ثالث (THIRD DIMENSION) عطا ہوگیا.

اور ان سب کا نتیجہ یہ نکلا کہ زمانۂ طالب علمی ہی میں اس عاجز و ناکارہ کو نہ صرف یہ کہ قرآن حکیم کے ساتھ ایک انسِ قلبی عطا ہوگیا اور مناسبت ذہنی حاصل ہوگئی بلکہ ایک نسبتِ روحانی بھی نصیب ہوگئی اور اس کے پڑھنے اور پڑھانے (تعلیم و تعلم) کا ایک شدید داعیہ بھی اس کے باطن میں پیدا ہوگیا چنانچہ اولاً جمعیت طلبہ کے حلقوں میں اور پھر جماعتِ اسلامی کے ساہیوال اور اوکاڑہ کے حلقے میں اس کے درسِ قرآن کا چرچا ہوگیا. اور اس کے بارے میں بالعموم ایک خوشگوار حیرت (PLEASANT SURPRISE) کا سا تاثر ظاہر کیا جانے لگا. ...دور طالب علمی کے اختتام کے تقریباً معاً بعد راقم کا تعارف ایک تو ڈاکٹر رفیع الدین مرحوم سے ان کی تالیف، قرآن اور علمِ جدید، کی وساطت سے ہوا اور دوسرے ایک بالکل، دوسرے، علامہ اقبال سے ان کے خطبات (RECONSTRUCTION OF RELIGIOUS THOUGHT IN SIALM) کے حوالے سے. اور راقم کو اس اعتراف میں ہرگز کوئی باک نہیں کہ اس سے اس کے مطالعۂ قرآن کو وہ بعدِ رابع (FOURTH DIMENSION) ملا، جس کی اہمیت زمانۂ حال کے اعتبار سے پہلے تینوں اعراض و ابعاد سے کسی طرح کم نہیں. اب خواہ اسے کوئی باندازِ تحقیر راقم کے مطالعۂ قرآن کا حدود اربعہ کہہ لے خواہ بطرز استہزاء اسے اس کا مبلغِ علم قرار دے لے ، بہرحال واقعہ یہی ہے کہ راقم کی قرآنی سوچ کا اصل تانا بانا ان ہی ابعادِ اربعہ سے تیار ہوا ہے جن کی محکم اور پختہ اساسات ۶۱.۱۹۶۲ء کے آس پاس قائم ہوچکی تھیں جبکہ راقم کی عمر تیس برس کے لگ بھگ تھی. بعد کے چودہ پندرہ سالوں کے دوران اللہ کا فضل وکرم ہے کہ نہ صرف یہ کہ ان اساسات میں سے کوئی بھی منہدم تو کجا مضمحل یا شکست تک نہیں ہوئی بلکہ بحمد اللہ چاروں ہی کو مسلسل تقویت ملتی رہی اور استحکام حاصل ہوتا رہا. اور بجائے اس کے کہ: ؏ 
جو پڑھا لکھا تھا نیاز نے اسے صاف دل سے بھلا دیا.

کے مصداق کسی نئے زاویۂ فکر سے متعارف ہونے کا نتیجہ یہ نکلتا کہ پچھلی سوچ اور اس سے حاصل 
شدہ نتائج بالکل زائل ہوجاتے. اللہ کے فضل و کرم سے ہر نیا اندازِ فکر سابق فکر میں ایک ارتقائی شان پیدا کرتا چلا گیا. اور یہ عمارت اپنے اطراف و جوانب سمیت بلند ہوتی گئی.. اس ہمہ جہتی استحکام و ارتقا کے ضمن میں واقعہ یہ ہے راقم سب سے بڑھ کر مرہونِ منت ہے، علامہ اقبال مرحوم کے فارسی کلام جس کے اعتبار سے علامہ موصوف یقینا رومئ ثانی بھی ہیں اور مجسم ترجمان القرآن بھی. اور اس سلسلے میں شدید نا انصافی ہوگی اگر ذکر نہ کردیا جائے کہ ابتدائی پانچ سالوں کے دوران راقم کو فائدہ پہنچا مولانا برکات احمد خاں مرحوم (ٹونکی ثم ساہیوالی) کی ہم نشینی سے اور بعد کے دس سالوں کے دوران فیض حاصل ہوا پروفیسر یوسف سلیم چشتی مرحوم و مغفور کی صحبت سے.

الغرض... .راقم کے فکر و نظر پر 
ھو الاول والاخر کے مصداق ابتدائی اور تکمیلی چھاپ تو ہے علامہ اقبال مرحوم کی.. ان میں سے ابتدائی تاثر زیادہ تر جذباتی ہے جس کا حاصل ہے، جذبہ ملی، اور تکمیلی رنگ خالص فکری ہے جس کا موضوع ہے فکرِ جدید کے پس منظر میں قرآنِ حکیم کا مطالعہ یا قرآنِ حکیم کی روشنی میں فکر جدید کا جائزہ و تجزیہ... اور ان کے مابین رواں ہیں. مولانا ابو الکلام آزاد مرحوم اور سیّد ابو الاعلی مودودی مرحوم و مغفور کی قرآنی دعوتِ جہاد و انقلاب، اور امام حمید الدین فراہی اور مولانا امین احسن اصلاحی کے طریقِ تدبر قرآن، اور حضرت شیخ الہند اور مولانا شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ تعالی کے علم راسخ کے کوثر و تسنیم ایسے چشمے... 

ذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُوْتِیْلِ مَنْ یَّشَاءُ وَاللّٰہُ ذُوْ الْفَضْلِ الْعَظِیْمِ 

راقم حیران ہے کہ کس منہ سے اور کن الفاظ میں اللہ کا شکر ادا کرے. ایک ان پڑھ یا نیم خواندہ انسان پر جسے اپنی نسبتِ "امّیت" پر فخر ہے انعامات و اکرامات کی یہ بارش! بقول مولانا محمد علی جوہر مرحوم ؏ . 

اک بندۂ عاصی کی اور اتنی مداراتیں

برّصغیر پاک و ہند کے بیسویں صدی عیسوی کے فکرِ قرآنی کے متذکرہ بالا سلاسلِ اربعہ کے اعاظمِ رجال اور "السابقون الاولون" کی اکثریت کا انتقال تو راقم الحروف کی پیدائش یا شعور کی عمر کو پہنچنے سے قبل ہوچکا تھا لہذا ان کی زیارت سے تو محرومی ہی رہی. البتہ ان کے متبعین باحسان کی اکثریت کے ساتھ قریبی تعلق بلکہ ذاتی و نجی روابط کی سعادت اس عاجز کو حاصل رہی ہے.

حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ تعالی کا انتقال راقم کی پیدائش سے لگ بھگ بارہ سال قبل ہوچکا تھا اور ان کے ساتھ راقم کا ذہنی وقلبی رشتہ کل کا کل غائبانہ ہے. بایں ہمہ ان کی عظمت کے جو نقوش اس عاجز کے قلب پر کندہ ہیں ان کو الفاظ کا جامہ پہنانا نہایت مشکل نظر آتا ہے. مختصر یہ کہ راقم کو امام الہند حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی کی جامعیتِ کبری کا عکسِ کامل ان کی شخصیت میں نظر آتا ہے، اس فرق کے ساتھ کہ امام الہند کی جامعیت کا مظہر ان کی تصانیف ہیں اور شیخ الہند کی جامعیت کا ظہور ان کے تلامذہ میں ہوا. اگر یہ اصول درست ہے اور لازماً درست ہے کہ درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے تو ذرا پہچاننے کی کوشش کیجیے اس شخص کی عظمت کو جس کا جانشین جہادِ حریت اور تحریکِ استخلاص وطن کے میدان میں ہوا مولانا حسین احمد مدنی ایسا مجاہد اعظم. اور حدیث، فقہ، اصول اور کلام کے میدان میں ہوا مولانا سیّد انور شاہ کاشمیری ایسا نابغۂ روزگار انسان. اور جس کے فہمِ قرآن اور جذبۂ ملی کا ظہور ہوا مولانا شبیر احمد عثمانی ایسی عظیم شخصیت میں اور جس کے انقلابی کردار نے روپ دھارا مولانا عبیداللہ سندھی مرحوم ایسے سیماب وش انسان کا. راقم کا ذاتی احساس یہ ہے کہ حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ تعالی کی شخصیت کو ان کے اپنے حلقے کے لوگوں نے بھی کما حقہ نہیں پہچانا. ورنہ ذرا غور کیا جائے تو اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نظر نہیں آتی کہ چودھویں صدی ہجری کے مجدد وہ ہیں! .... واللہ اعلم!
مولانا شبیر احمد عثمانی کا انتقال تو اگرچہ راقم کے سنِ شعور کو پہنچنے کے بعد ہوا لیکن افسوس کہ ان کی زیارت سے بھی محرومی رہی. تاہم ایک خیال اطمینان قلب کا موجب بنتا ہے اور وہ یہ کہ اگر ذرّے کو آفتاب سے کوئی نسبت ہوسکتی ہے تو اس عاجز کو بھی ان کے ساتھ ایک نسبتِ معنوی حاصل ہے. بایں طور کہ جب وہ تحریک پاکستان کے صفِ اوّل کے قائد کی حیثیت سے ہندوستان کے طول و عرض کا دورہ کر رہے تھے تو یہ خاکسار بھی خواہ ایک طفلِ مکتب کی 
حیثیّت ہی سے سہی مشرقی پنجاب کے ایک ضلع (حصار) کے مختلف قصبات (سرسہ، ہانسی وغیرہ) کے ہائی اسکول کے طلبہ کے مابین ایک رابطہ استوار کرنے کی سعی میں مشغول تھا... بعد ازاں ان کے تفسیری حواشی کی بدولت ان کی جو معنوی صحبت حاصل رہی اس کا ذکر اوپر ہو ہی چکا ہے. 

مولانا عثمانی کے رفیق کار اور معتمد خاص مولانا مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ تعالی سے ملاقات کا شرف البتہ راقم کو حاصل رہا اور ان کی شفقت و محبت سے بھی اس عاجز نے حصہ پایا. مولانا انور شاہ کاشمیری رحمہ اللہ تعالی کے شاگردِ رشید مولانا محمد یوسف بنوری کی نیاز مندی کی سعادت بھی راقم کو حاصل رہی اور ان کی شفقت اور نظرِ کرم بھی اس ناچیز کو سرمایۂ افتخار رہی. حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ تعالی کے فیض کے دوسرے دو چشموں سے بھی راقم بحمد اللہ بیگانہ و نابلد نہیں. مولانا حسین احمد مدنی رحمہ اللہ تعالی کے خلیفہ مولانا سیّد حامد میاں مدظلہ ، اور مولانا سندھی مرحوم کے شاگردِ رشید مولانا احمد علی لاہور کے خلف الرشد مولانا عبیداللہ انور کی نیاز مندی، اور گاہے گاہے ان کی خدمت میں حاضر کا شرف بھی راقم کو حاصل رہا گویا:

الراسخون فی العلم کے اس سلسلے کے ساتھ راقم کا معاملہ اس عربی شعر کے مصداق رہا کہ ؎
اُحِبُّ الصَّالِحِیْنَ وَ لَسْتُ مِنْھُمْ
لَعَلَّ اللّٰہَ یَرْزُقُنِیْ صَلَاحًا

علامہ اقبالؔ کے انتقال کے وقت بھی راقم کی عمر چھ برس تھی لیکن اب یہ بات خود اس عاجز کو نہایت عجیب اور حیرت انگیز معلوم ہوتی ہے کہ ان کے انتقال کو راقم نے ایک ذاتی صدمے کی حیثیت سے محسوس کیا تھا. اس کی ایک ہی توجیہ ممکن ہے اوروہ اس حدیثِ نبوی کی روشنی میں کہ اس عالمِ فانی میں آنے سے قبل عالمِ ارواح میں جن ارواح کے مابین اُنس پیدا ہوجاتا ہے ان کے مابین مودّت کا رشتہ اس عالمِ اجساد میں بھی برقرار رہتا ہے... بہرحال علامہ مرحوم کے ساتھ راقم کا قلبی تعلق کم و بیش 
"من المھد الی اللحد" والا ہے. اور اوپر عرض کیا ہی جا چکا ہے کہ راقم کے شعور کی تحتانی سطحوں میں سے سب سے نچلی تہہ پر نقوش ثبت ہیں علامہ مرحوم کے اردو اشعار کے، اور اس کے فکر کی بلند ترین سطح پر کندہ ہیں نقوش ان کے فارسی کلام کے.

یہی وجہ ہے کہ جب راقم کی ملاقات فلسفۂ اقبال کے مدوّن و شارح ، اور حکمتِ اقبال، کے مصنف ڈاکٹر رفیع الدین مرحوم سے ہوئی تو دونوں ہی نے یہ محسوس کیا کہ وہ ایک دوسرے سے 
بہت پہلے سے واقف ہیں. اور جب بھی گفتگو ہوئی یہی محسوس ہوا کہ ؎

دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہا 
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے

۱۹۶۷ء سے ۱۹۶۹ء تک تقریباً ڈھائی سال نہایت قریبی تعلق راقم کو ڈاکٹر صاحب مرحوم سے حاصل رہا. (میثاق کے اس دور کے فائل اس پر شاہدِ عادل ہیں) اس زمانے میں اسلام کی نشاۃ ثانیہ کرنے کا اصل کام. راقم کے قلم سے نکل کر شائع ہوچکا تھا. اس کی حرف بحرف تصویب ڈاکٹر صاحب نے فرمائی اور میثاق کے لیے اپنی تصنیف (MANIFESTO OF ISLAM) کا ترجمہ اردو میں خود ہی کرنا شروع کردیا. جس کی چند ہی قسطیں چھپنے پائی تھیں کہ ..؏ .. 

آں قدح بشکست و آں ساقی نماند
والا معاملہ ہوگیا. 
یغفر اللہ لنا ولہ و یدخلہ فی رحمتہ. 

اسی طرح کلامِ اقبالؔ کے شارح پروفیسر یوسف سلیم چشتی مرحوم و مغفور سے جو ذاتی ربط و تعلق ۱۹۶۶ء میں استوار ہوا تھا وہ بحمد اللہ ان کی وفات تک قائم رہا (یہاں تک کہ بعض واقفینِ حال تو واقعۃً حیرت کا اظہار کرتے رہے کہ پروفیسر صاحب ایسے نازک طبع اور تنگ مزاج بزرگ سے راقم کا تعلق کیسے نبھ رہا ہے) پروفیسر صاحب نے راقم کی تحریر "نشاۃ ثانیہ: کرنے کا اصل کام" کی جو مفصل تائید و تحسین تحریر کی تھی وہ تو بہت سے لوگوں کے علم میں ہے ، زبانی جو کچھ فرمایا تھا اسے اس خوف سے نقل نہیں کرسکتا کہ اسے خود ستائی پر محمول کیا جائے گا. 

مولانا ابو الکلام آزاد مرحوم کا انتقال ویسے تو ۱۹۵۸ء میں ہوا. لیکن راقم کو جس ابو الکلام سے دلچسپی تھی یا ہے یعنی الہلال اور البلاغ ولا ابو الکلام جس کے بارے میں کمالِ وسعتِ ظرف کا ثبوت دیتے ہوئے فرمایا تھا حضرت شیخ الہند نے کہ اس نوجوان نے ہمیں ہمارا بھولا ہوا سبق یاد دلا دیا! وہ واقعۃً ۲۱.۱۹۲۲ء کے لگ بھگ ہی وفات پا چکا تھا اور اس کے معنوی خلیفہ مولانا ابو الاعلی مودودی نے جب اس کے ترک کردہ مشن کی تکمیل کا بیڑا اٹھایا تو اسے بجا طور پر اس کی زندگی ہی میں مرحوم قرار دے دیا تھا. تاہم مولانا مرحوم کو دیکھنے کی تمنا راقم کے دل میں مستقل طور پر رہی جسے دو ملکوں کے فاصلے نے بالآخر ۱۹۵۸ء میں حسرت میں تبدیل کردیا. 
عجیب اتفاق ہے کہ جس سال مولانا مودودی نے مولانا آزاد مرحوم کی تفسیر کے ہم نام ماہنامے ترجمان القرآن کی ادارت سنبھالی وہی راقم کا سن پیدائش ہے اور مولانا آزاد کے انتقال کا زمانہ لگ بھگ وہی ہے جب کم و بیش دس سال کی ہم سفر کے بعد راقم کی راہ مولانا مودودی کے راستے سے جدا ہوئی.
مولانا مودودی مرحوم و مغفور کے ساتھ راقم کے وصل و فصل کی داستان نہایت طویل ہے. مختصر یہ کہ ۱۹۴۷ء سے ۱۹۵۷ء تک نہایت قریبی تعلق راقم کو مولانا کے ساتھ حاصل رہا.

ان میں سے۱۹۵۱ء سے ۱۹۵۳تک کےدو سالوں کے دوران جبکہ راقم اسلامی جمعیت طلبہ کے صفِ اول کے کارکنوں میں سے تھا، مولانا سے قرب کا یہ عالم تھا کہ راقم جب چاہتا تھا مولانا کی خدمت میں حاضر ہوجاتا تھا. یہاں تک کہ بعض مواقع پر فوری مشورے کے لیے راقم الحروف نے مولانا سے نصف شب کے لگ بھگ ان کی خوابگاہ میں بھی ملاقات کی. ۵۵ء میں راقم جماعت اسلامی کا رکن بنا اور بد قسمتی سے اس کے فورًا بعد ہی اس نے شدت کے ساتھ محسوس کرلیا کہ جماعتِ اسلامی کی تحریک اپنی اصل اساسات سے منحرف ہوچکی ہے. اواخر ۱۹۵۶ء میں راقم نے اپنا وہ مفصل بیان سپردِ قلم کیا جو اب تحریکِ جماعت اسلامی: ایک تحقیقی مطالعہ کے نام سے مطبوعہ موجود ہے، فروری ۱۹۵۷ء میں اجتماعِ ماچھی گوٹھ میں راقم نے اپنا نقطۂ نظر پیش کرنے کی ناکام کوشش کی. اور حالات کی ستم ظریفی نے اس وقت صورت کچھ ایسی پیدا کردی کہ گویا مولانا لیڈر آف دی ہاؤس تھے اور یہ خاکسار لیڈر آف دی اپوزیشن !چنانچہ راؤ خورشید علی خان مرحوم نے جو اس زمانے میں جماعتِ اسلامی کی صف اوّل کے قائدین میں سے تھے، بھرے اجلاس میں باقاعدہ یہ الفاظ کہے بھی تھے کہ "ڈاکٹر اسرار کو لیڈر آف دی اپوزیشن کی حیثیّت حاصل ہے، انہیں اپنا نقطۂ نظر پیش کرنے کے لیے پورا وقت ملنا چاہیے!" بہر نوع اپریل ۱۹۵۷ء میں راقم نے جماعت کی رکنیت سے استعفی دے دیا. اور اس طرح وہ دس سالہ تعلق ختم ہوگیا. اب اس "فصل" کو بھی بیس برس ہونے کو آئے ہیں، اور اس دوران میں بھی اونچ نیچ کے بہت سے ادوار آئے لیکن ان سب کا حاصل یہ ہے کہ ؎

بس اتنا تعلق اب ان سے رہ گیا ہے
وہ مجھ کو جانتے ہیں، میں ان کو جانتا ہوں

آج سے تقریباً دس سال قبل جب رحیم یار خاں میں جماعتِ اسلامی سے علیحدہ ہونے والے چند حضرات کے اجتماع میں "ایک نئی اسلامی تنظیم" کے قیام کا فیصلہ کیا گیا تھا. راقم نے بعض معروضات میثاق کے صفحات میں مولانا مودودی کی خدمت میں پیش کی تھیں.. راقم کے احساسات اب بھی بالکل وہی ہیں اور اب جبکہ "تنظیم اسلامی" کے نام سے ایک چھوٹا سا قافلہ دوبارہ تشکیل پا کر سفر کا آغاز کرچکا ہے، مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان معروضات کو من و عن دہرا دیا جائے. وھوھٰذا: 

اس موقع پر بالکل ذاتی حیثیت میں ایک گذارش راقم الحروف جماعتِ اسلامی کے بزرگوں خصوصاً مولانا مودودی کی خدمت میں کرنا چاہتا ہے. گذشتہ ڈیڑھ دو سال کے دوران راقم الحروف کے بعض اقدامات اور اس کی بعض تحریروں سے یقیناً آپ کو شدید تکلیف پہنچی ہوگی. لیکن خدا شاہد ہے کہ دل کے کسی بعید ترین گوشے میں بھی ان میں سے کسی اقدام یا تحریر سے آپ کی دل آزاری ہرگز مقصود نہ تھی. راقم الحروف کے دل میں اظہارِ دینِ حق اور اعلاء کلمۃ اللہ کا جذبہ آپ ہی کی تحریروں سے پیدا ہوا. اسی جذبے سے سرشار ہوکر طالب علمی کے قیمتی اوقات اور عمرِ عزیز کے بہترین لمحات آپ کے بتائے ہوئے طریقے پر جدوجہد کی نذر کیے. پھر جب محسوس ہوا کہ آپ غلط رخ پر چل نکلے ہیں تو ایک بیان کی صورت میں اپنے خیالات کو قلم بند کیا اور آپ سے درخواست کی کہ: "اپنی تو کوئی ایسی خدمت نہیں ہے جس کا واسطہ دے سکوں، آپ ہی کی شفقتیں اور عنایتیں ہیں جن کا واسطہ دے کر آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ آپ میرے اس بیان کو پڑھ ضرور لیں". ماچھی گوٹھ کے بھرے اجتماع میں سٹیج پر اعلان کیاکہ: اگرچہ مجھے اپنے موقف کی صحت کا یقین ہے اور امیرِ جماعت کی طویل تقریر میں مجھے کوئی روشنی نظر نہیں آئی. تاہم میں جماعت میں شامل رہوں گا اس لیے کہ اس کے بغیر میں اپنے وجود کا تصور بھی نہیں کرسکتا" لیکن پھر جب کچھ آپ کی "عنایتوں" میں مزید اضافہ ہوا اور آپ نے اہل اختلاف پر ضعفِ ارادۂ بسیط اور ضعفِ ارادۂ مرکب کی پھبتیاں چست کرنی شروع کیں اور کچھ یہ محسوس ہوا کہ جماعت میں عضوِ معطل کی حیثیّت سے رہنا آخر چہ سود؟

تو یہ کہتے ہوئے ایک بھاری دل کے ساتھ جماعت سے علیحدگی اختیار کرلی کہ: "میں جانتا ہوں کہ جماعت کے بہت سے بزرگ مجھ سے بزرگانہ شفقت کا اور کتنے ہی ارکان و متفق مجھ سے حقیقی محبت کا تعلق رکھتے ہیں. جب میں سوچتا ہوں کہ آج اپنے اس اقدام سے میں نہ معلوم کتنوں کے جذبات مجروح کروں گا تو اپنے ہی آپ میں ایک ندامت کا احساس بھی ہوتا ہے. لیکن اس سب کے باوجود اس اقدام پر مجبوراً اس لیے آمادہ ہوگیا کہ اب اس کے سوا اور کوئی چارۂ کار نظر نہیں آتا! علیحدہ ہونے سے قبل آپ کی خدمت میں حاضر ہوکر اپنی اس قلبی کیفیّت کا اظہار بھی کیا تھا. افسوس کہ اس کے فورًٍا بعد آپ کے دو اقدامات یعنی ایک غلافِ کعبہ کے سوانگ اور دوسرے سہروردی مرحوم سے ربط و تعلق کی بدولت دل کی یہ کیفیت برقرار نہ رہ سکی اور ذہنی دوری کے ساتھ ساتھ ایک ایسا قلبی بعد بھی قائم ہوگیا جس میں رنج کے ساتھ غصے کی بھی آمیزش تھی. اب "خلافت و ملوکیّت" لکھ کر عمر کے آخری حصے میں جو کمائی آپ کی ہے اس کی وجہ سے غصے کی جگہ حسرت نے لے لی ہے. حقیقت یہ ہے کہ اب آپ کے بارے میں سوچتے ہوئے دل کانپنے لگتا ہے اور دل کی گہرائیوں سے یہ دعا نکلنے لگتی ہے کہ : "رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ ھَدَیْتَنَا وَ ھَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْکَ رَحْمَۃً اِنَّکَ اَنْتَ الْوَہَّابُ" بایں ہمہ! اب جب کہ ہم، آپ کے کچھ قدیم ساتھی، رفیق اور نیاز مند دین کی چھوٹی بڑی خدمت کے ارادے سے جمع ہورہے ہیں تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اپنے خیال کے مطابق ہم آپ ہی کے ترک کردہ مشن کے لیے اٹھ رہے ہیں. اس شیرازہ بندی سے مقصود ہر گز آپ کی مخالفت نہیں ہے. اگرچہ فرمانِ نبوی  کہ اَلدِّیْنُ النَّصِیْحَۃُ کی رو سے آپ کی جن باتوں کو ہم غلط سمجھتے ہیں ان پر لامحالہ تنقید کرنی ہوگی تاہم اس سے مقصود سوائے اصلاح کے اور کچھ نہ ہوگا". 

مولانا حمید الدین فراہی رحمہ اللہ تعالی کا انتقال بھی راقم کی پیدائش سے تقریباً ڈیڑھ سال قبل ہوگیا تھا. اور غالباً ۱۹۵۳ء ،۱۹۵۴ء تک راقم مولانا کے نام تک سے واقف نہ تھا. بعد میں جب مولانا امین احسن اصلاحی کی وساطت سے ان سے تعارف ہوا اور ان کی تحریریں بھی دیکھنے میں آئیں اور ان کے حالاتِ زندگی بھی معلوم ہوئے تو اندازہ ہوا کہ واقعۃً ایک نہایت عظیم ہستی تھی جو نہایت خاموشی کے ساتھ قرآن حکیم پر غور و فکر اور تدبر و تفکر کی ایک بالکل نئی طرح ڈال کر رخصت ہوگئی. ان کی شخصیت کا جو ہیُولیٰ راقم الحروف کے تصور میں ابھرتا ہے وہ سقراط سے بہت مشابہ ہے. ایک حکیم و دانا اور نیک و پارسا انسان جو لوگوں کی تعریف و تحسین اور تنقید و ملامت دونوں سے یکساں بے نیاز ہو اور یا تو خاموش تعقل و تفکر میں غرق ہو یا اپنے چند شاگردوں کو نہایت دھیمے طریق پر اور مکالمے کے سے انداز میں اس طرح دَرس دے رہا ہو جیسے کوئی بزرگ کسی بچے کی انگلی پکڑ کر اسے چلنا سکھاتا ہے. اور راقم اسے اپنی بہت بڑی خوش قسمتی سمجھتا ہے کہ اسے حکیمِ فراہی کا نہ سہی ان کے شاگردِ رشید کا قرب تقریباً ربع صدی تک حاصل رہا. 

مولانا امین احسن اصلاحی کے ساتھ تعلق کا آغاز تو مولانا مودودی کی طرح ۴۷ء ہی میں ہوگیا تھا. (بلکہ راقم نے مولانا مودودی اور مولانا اصلاحی دونوں کو پہلی بار ۱۹۴۶ء میں دار الاسلام پٹھانکوٹ میں دیکھا تھا! جہاں وہ اپنے بڑے بھائی اظہار احمد صاحب کی معیّت میں حاضر ہوا تھا) لیکن ۱۹۵۱ء تک یہ تعلق کلیۃً یک طرفہ تھا یعنی صرف ان کی تقریریں اور درس سن لینے تک محدود تھا. تا آنکہ نومبر
۱۹۵۱ء کی ایک شام کو وائی، ایم، سی، اے ہال لاہور میں راقم نے اسلامی جمعیّت طلبہ پاکستان کے تیسرے سالانہ اجتماع کے موقعہ پر مولانا کے زیرِ صدارت اپنی وہ پہلی عوامی تقریر کی جو اب تک جمعیّت کے دعوتی لٹریچر کا اہم جزو ہے اور "ہماری دعوت اور ہمارا طریق کار" کے عنوان سے طبع ہوتی ہے. راقم کی اس تقریر کی تعریف و تحسین مولانا نے دل کھول کر فرمائی... اور یہیں سے وہ یک طرفہ تعلق باقاعدہ دو طرفہ تعلقات میں تبدیل ہوگیا... دسمبر۱۹۵۱ء اور جولائی ۱۹۵۲ ء میں جمعیّت طلباء کی دو تربیت گاہوں میں راقم ناظم کی حیثیّت سے شریک رہا اور مولانا معلم و مربی کی حیثیت سے، اس سے ان تعلقات کی گہرائی و گیرائی میں نمایاں اضافہ ہوا.. بعد کے چار سالوں کے دوران بے تکلف ملاقاتوں سے یہ تعلق مزید استوار ہوا..۱۹۵۶ء میں جماعتِ اسلامی کی مرکزی مجلسِ شوریٰ کے اجلاس میں مولانا نے راقم کے متذکرہ بالا اختلافی بیان کی نہایت شاندار الفاظ میں تصویب و تائید کی. اس طرح جماعت میں پالیسی کے بارے میں جو اختلافِ رائے ہوا اس کے ضمن میں بھی.ع. ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود و ایاز"کے مصداق مولانا اور راقم ایک ہی صف میں شامل ہوگئے...۱۹۵۸ء میں جب مولانا نے بھی جماعت کو خیر باد کہہ دیا اور کسی نئی تعمیر کی فکر میں ’مشاورتوں‘ کا ایک طویل سلسلہ شروع ہوا تو اس میں بھی مسلسل ساتھ رہا.

اور اس سلسلے کا اہم ترین اجتماع عزیز ٹینیریز ہڑپہ میں راقم ہی کے زیر اہتمام غالباً چار روز تک جاری رہا. لیکن افسوس کہ کوئی متفق علیہ نقشہ نہ بن سکا. (۱دسمبر۱۹۵۸ء میں راقم ان مشاورتوں کی مسلسل ناکامی سے بد دل سا ہوکر ڈاکٹر مسعود الدین حسن عثمانی کی دعوت پر بغیر مولانا کو اطلاع دیے کراچی منتقل ہوگیا تو ایک حد درجہ محبت بھرا شکوہ مولانا نے اپنے ایک مکتوب میں کیا: (۱) ان مشاورتوں پر ایک نہایت دلچسپ پھبتی اس زمانے میں ملک نصراللہ خان عزیز مرحوم نے چست کی تھی. ہوا یوں کہ ملک صاحب علیل تھے، راقم اور مولانا حکیم عبدالرحیم اشرف ان کی عیادت کے لیے ان کے پارک لین، ٹمپل روڈ والے مکان میں حاضر ہوئے تو باتوں باتوں میں ان مشاورتوں کا ذکر بھی آگیا. اس پر ملک صاحب نے یہ لطیفہ سنایا کہ ایک بہت بڑے پیر صاحب نے اپنے خلفاء مجاز کی ایک مشاورت طلب فرمائی اور مشورہ طلب بات یہ پیش کی کہ.؏ . "عمریست کہ آوازۂ منصور کہن شد" آپ لوگوں کا خیال ہے، کیا ہم اس کا اعادہ نہ کردیں؟ ... سب لوگوں نے اپنی اپنی رائے پیش کی، کسی نے اثبات میں کسی نے نفی میں، ایک صاحب خاموش رہے. حضرت نے ان سے براہ راست استفسار کیا تو انہوں نے مودبانہ گذارش کی کہ " حضرت میں تو یہ سوچ رہا ہوں کہ کیا منصور نے بھی وہ اقدام کسی سے مشورہ لے کرکیا تھا" آپ کے اس خفیہ اقدام کی اطلاع سیال صاحب سے مجھے ہوچکی تھی. بہرحال جو کچھ آپ نے کیا اچھا کیا. خدا کرے آپ کے مقاصد وہاں پورے ہوں اور آپ کو وہاں دلجمعی کے ساتھ کچھ لکھنے پڑھنے کی فرصت ملے. ڈاکٹر صاحب کی رفاقت ان شاء اللہ آپ کے لیے موجبِ خیر و برکت ہوگی. فرزانوں کے ساتھ نباہ مشکل ہوتا ہے، دیوانے گذار لے جاتے ہیں. آپ دونوں دیوانے ہیں. خوب گذرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو. مجھے جو احساس ہے وہ صرف یہ ہے کہ آپ مجھ سے دور ہوگئے آپ سے ایک قلبی لگاؤ سا ہوگیا ہے. اس وجہ سے اس بات سے تھوڑی سی تکلیف ہے کہ میں نے جتنا ہی کھینچنا چاہا اتنے ہی آپ کھنچتے چلے گئے. یہاں تک کہ کھنچتے کھنچتے کراچی پہنچ گئے. خیر صاحب، جہاں رہو سلامت رہو اور دعاؤں میں ہمیں بھی یاد رکھو...!

۱۹۵۹ء میں اس خیال سے کہ محض ایک سابقہ تعلق کی بنیاد پر نئی تعمیر ممکن نہیں... اس کی فکری اساسات کو تفصیل کے ساتھ واضح کیا جانا چاہیے. مولانا نے ماہنامہ میثاق جاری فرمایا. تو راقم اس کے اوّلین معاونین میں بھی شامل تھا اور بعد میں بھی مقدور بھر اعانت کرتا رہا اور دوسری طرف کراچی سے والد صاحب مرحوم کی علالت کے باعث واپسی پر ۱۹۶۰ء میں راقم نے منٹگمری (حال ساہیوال) میں ایک اسلامی ہاسٹل قائم کیا اور حلقۂ مطالعۂ قرآن کی داغ بیل ڈالی تو مولانا نے راقم کے ان کاموں میں بھرپور تعاون فرمایا. ہاسٹل کی تجویز پر ایک مفصل تائیدی شذرہ میثاق میں تحریر فرمایا اور حلقۂ مطالعۂ قرآن منٹگمری کی دعوت پر تقریر کے لیے دوبار ساہیوال کے سفر کی زحمت برداشت کی.

۱۹۶۲ء سے ۱۹۶۵ تک تقریباً چار سال راقم نے دوبارہ ایک دوسرے سلسلے میں کراچی میں بسر کیے. اور اس عرصے میں راقم کا رابطہ مولانا سے بہت کم رہا. مولانا نے اس دوران میں بعض دوسرے احباب کے ساتھ مل کر مجلسِ دعوت و اصلاح کی داغ بیل ڈالی. لیکن نہ تو یہ بیل ہی منڈھے چڑھی نہ ہی اجتماعی کام کا کوئی اور نقشہ تیار ہوسکا. اس سے بد دل ہوکر مولانا نے ذاتی طور پر حلقۂ تدبر قرآن قائم فرمایا اور اپنی ساری توجہات چند نوجوانوں کی تعلیم و تربیت پر مرکوز کردیں. دوسرے احباب سے ان دنوں مولانا کا رابطہ کمزور پڑتے پڑتے معدوم کے حکم میں آگیا. جس کا ایک نتیجہ یہ نکلا کہ میثاق نے پہلے تو کچھ عرصے تک ہچکیاں لیں اور بالآخر بالکل دم توڑ دیا. یہ حالات تھے جب راقم۱۹۶۶ء میں دوبارہ واردِ لاہور ہوا میثاق بند پڑا تھا، تفسیر کی جلد اول تیار تھی لیکن اس کی طباعت و اشاعت کی کوئی سبیل دور دور تک نظر نہ آتی تھی، حلقہ تدبر قرآن میں جن نوجوانوں پر مولانا نے شدید محنت کی تھی وہ بسلسلۂ روزگار تتر بتر ہوگئے تھے. ایک صاحب کسی ٹریننگ کے سلسلے میں انگلستان جا
چکے تھے دوسرے صاحب کا تبادلہ ڈھاکہ ہوگیا. بعض دوسرے لوگ بددل ہوگئے تھے. الغرض بالکل. ع دشت کو دیکھ کے گھر یاد آیا.

والا سماں تھا... خود راقم کے سامنے لاہورنقلِ مکانی میں دو مقصد تھے: ایک حلقۂ تدبر قرآن میں شرکت اور مولانا کے سامنے باضابطہ زانوئے تلمذ تہ کرکے ان سے استفادہ اور دوسرے اس اصل تحریکِ اسلامی کے احیاء کی سعی جو راقم کے خیال کے مطابق جماعت اسلامی کے انتقال موقف کے باعث مردہ ہوچکی تھی. .. لاہور آ کر اندازہ ہوا کہ مولانا حلقۂتدبر قرآن سے بھی بد دل ہوچکے ہیں اور اس نہج پر از سرِ نو محنت کی ہمت اپنے اندر نہیں پاتے... اور اب سارا وقت اور ساری محنت تفسیر کی تسوید پر صرف کردینا چاہتے ہیں. لہذا راقم کا پہلا مقصد تو فوت ہوگیا لیکن ہمت کرکے تدبر قرآن کی جلد اول اس نے شائع کردی اور مولانا نے ازراِہ شفقت اس زمانے میں برملا نہ صرف راقم سے کہا بلکہ دوسرے بہت سے احباب و رفقاء کے سامنے فرمایا: کہ یہ اس کا مجھ پر ذاتی احسان ہے! راقم کے سامنے اصل مسئلہ یہ تھا کہ اگر جلد اوّل شائع نہ ہوئی تو آگے لکھنے پر مولانا کی طبیعت مائل نہیں ہوگی اور یہ کام ادھورا رہ جائے گا...

دوسرے مقصد کے ضمن میں راقم نے اولاً مولوی محدی الدین سلفی مرحوم کی تحریک پر اور ان کے تعاون سے اپنا اختلافی بیان "تحریکِ جماعت اسلامی: ایک تحقیقی مطالعہ کے نام سے شائع کیا. اور بعد ازاں ایک باضابطہ دعوت کے آغاز کے لیے "الرسالہ" کے نام سے ایک ماہنامے کا ڈیکلریریشن حاصل کرلیا. مولانا کو جب اس کی اطلاع ملی تو انہوں نے فرمایا کہ کوئی نیا رسالہ جاری کرنے کی بجائے میثاق ہی کو سنبھال لو، میں تو اسے جاری نہیں رکھ سکتا. تم شائع کرتے رہوگے تو کم از کم اس کا نام تو رہے گا. 
"امتثالاً للامر" راقم نے بہت دوڑ دھوپ سے حاصل کیا ہوا ڈیکلریشن ضائع کردیا اور اگست ۱۹۶۶ء سے زیر سرپرستی مولانا امین احسن اصلاحی میثاق کی ادارت سنبھال لی.

۱۹۶۶ء ،۱۹۶۷ء کے دوران، میثاق کے ذریعے راقم نے ایک طرف تو یہ واضح کیا کہ ۱۹۵۶ء ،۱۹۵۷ء میں جماعتِ اسلامی میں جو اختلافِ رائے واقع ہوا تھا اس کی اصل نوعیت کیا تھی اور علیحدہ ہونے والے علیحدگی اختیار کرنے پر کس طرح مجبور کردیے گئے تھے.. اور دوسری طرف علیحدہ ہونے والوں کو للکارا کہ اگر وہ جماعتِ اسلامی میں کسی شخصی عقیدت کی بنا پر نہیں بلکہ فریضۂ 
اقامتِ دین کی ادائیگی کے لیے شامل ہوئے تھے تو جماعت سے علیحدگی سے وہ فرض تو ساقط نہیں ہوگیا. ان کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنے دینی فرائض کی ادائیگی کے لیے مجتمع ہوکر جدوجہد کریں. اس کا بحمد اللہ خاطر خواہ نتیجہ بر آمد ہوا اور اواخر ۱۹۶۷ء میں جماعتِ اسلامی سے علیحدہ ہونے والے بعض احباب کا ایک اجتماع رحیم یار خاں میں منعقد ہوا جس میں ایک نئی دینی تنظیم کے قیام کا فیصلہ کرلیا گیا. اس اجتماع میں مولانا بھی شریک تھے اور انہوں نے اس موقع پر بھی حسبِ عادت نہایت فراخدلی سے ان لوگوں کو خراج تحسین اور ہدیۂ تشکر پیش کیا تھا جنہوں نے انہیں بھولا ہوا سبق یاد دلانے کی کوشش کی تھی. ان کے مندرجۂ ذیل الفاظ راقم نے ستمبر اکتوبر ۱۹۶۷ء کے میثاق کے کور پر نمایاں حیثیت سے شائع کیے تھے: 

"عزیز ساتھیو!
اللہ تعالیٰ کی توفیق سے آپ نے ایک جماعتی نظم کے قیام کی قرار داد پر اتفاق کرلیا. میں اس پر آپ کو مبارک باد دیتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کام کے لیے عزم و ہمت عطا فرمائے اور ہر قدم پر ہماری دست گیری اور رہنمائی فرمائے. میں اس موقع پر آپ کے سامنے یہ اعتراف کرتا ہوں کہ ہر چند اس کی ضرورت، اور اہمیت مجھ پر واضح تھی لیکن میں دو سبب سے اس قسم کی کسی ذمہ داری سے گریز کرتا رہا. ایک تو یہ کہ اب میرے قویٰ ضعیف ہو رہے ہیں، کوئی بھاری بوجھ اٹھانا میرے لیے ممکن نہیں رہا. دوسرا یہ کہ زندگی کے آخری دور کے لیے اپنے ذوق کے مناسب جو کام میں نے تجویز کرلیا تھا اب وقت و فرصت کا لمحہ لمحہ اسی پر صرف کرنا چاہتا تھا. چنانچہ دوستوں کے شدید اصرار بلکہ دباؤ کے باوجود میں خود اس کے لیے پہل کرنے کی ہمت نہیں کرسکا. دوستوں نے جب کبھی اس فریضہ کی اہمیت کی طرف توجہ دلائی، میں ان کے دلائل کا تو انکار نہ کرسکا. لیکن اپنی کمزوریوں اور مجبوریوں پر نگاہ کرکے ان کی بات کو ٹالتا ہی رہا . میں یہ بھی محسوس کرتا رہا کہ اگرچہ میرے اوقات تمام تر دینی و علمی کاموں ہی میں بسر ہورہے ہیں. تاہم معاشرے سے متعلق مجھ پر جو فریضہ عائد ہوتا ہے اس میں مجھ سے کوتاہی ہورہی ہے جس کے سبب سے نہ صرف میری بعض صلاحیتیں سکڑ رہی ہیں بلکہ اندیشہ اس بات کا ہے کہ اس پر مجھ سے مواخذہ ہو. ان تمام احساسات کےباوجود میں اپنے آپ کو معذور سمجھتا رہا جس کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ آدمی اپنے آپ کو معذور سمجھنے میں بڑا فیاض ہوتا ہے.

بہرحال اب میں پورے شرح صدر کے ساتھ اس کام میں شریک ہوتا ہوں اور ان تمام دوستوں کا دل سے شکر گزار ہوں، جنہوں نے اس عظیم فرض کی اہمیت کو سمجھا اور ہم سب کو اس کے سمجھانے کا اہتمام کیا. اللہ تعالیٰ ہم سب کی طرف سے ان کو جزائے خیر عطا فرمائے. "امین احسن اصلاحی"

لیکن افسوس کہ سابقہ تمام مساعی کی طرح یہ کوشش بھی بالکل . ؏ . "اڑنے نہ پائے تھے کہ گرفتار 
ہم ہوئے" کے سے انداز میں ناکام ہوکر رہ گئی. 

یہ دور راقم کی زندگی میں ایک اہم موڑ 
(TRUNING POINT) کی حیثیت رکھتا ہے، اس لیے کہ اس وقت راقم نے یہ فیصلہ کرلیا کہ اب کسی بڑے کی طرف دیکھنے کی بجائے اپنے پاؤں پر کھڑے ہونا ہے اور کوئی چلے نہ چلے اور ساتھ دے نہ دے تن تنہا چلنا پڑا تب بھی سفر کا آغاز بہرحال کرنا ہے. گویا ۱۹۴۷ء تا ۱۹۵۷ء دس سال مولانا مودودی کے ساتھ اور ۱۹۵۸ء تا ۱۹۶۸ء دس سال مولانا اصلاحی کے ساتھ راقم کلیۃً و کاملۃً وابستہ رہا. لیکن ۱۹۶۸ء سے (لگ بھگ چھتیس برس کی عمر میں) اس نے آزادی کے ساتھ اپنی ڈگر پر چلنے کا فیصلہ کرلیا. تاہم بحمد اللہ، راقم اپنے ماضی سے منقطع نہیں ہوا اور اس نے ایک جانب حلقہ ہائے مطالعہ قرآن پر اپنی تمام تر مساعی صرف کردیں اور ان کے ذریعے اصلاً قرآن کی اس انقلابی دعوت کا پرچار کیا. جس کے برّصغیر میں موجودہ صدی کے داعئ اوّل تھے مولانا ابو الکلام آزاد اور جس کے تسلسل کو برقرار رکھا تھا مولانا ابو الاعلی مودودی نے اور دوسری جانب دار الاشاعت الاسلامیہ کے ذریعے اپنے جملہ وسائل و ذرائع کو کھپا دیا مولانا فراہی اور مولانا اصلاحی کی تصانیف کی اشاعت کے ذریعے تدبر قرآن کے اس اسلوب کی ترویج و اشاعت میں جس کے بانی ہیں مولانا حمید الدین فراہی اور شارح ہیں مولانا امین احسن اصلاحی... لیکن اب چونکہ راقم کسی ایک لکیر کا فقیر نہیں رہا تھا لہذا اس کی سوچ کے دوسرے اجزائئے ترکیبی بھی سامنے آنے لگے. اور ۱۹۶۸ء سے میثاق میں افاداتِ فراہی اور تدبر قرآن کے ساتھ ساتھ نہ صرف مولانا سندھی مرحوم کے تذکرے اور ڈاکٹر رفیع الدین مرحوم کے منشورِ اسلام، بلکہ مولانا ابو الحسن علی ندوی کے ربانیہ لا رھبانیۃ اور پروفیسر یوسف سلیم چشتی کے حقیقت تصوف اور تاریخ تصوف اسلامی ایسے مضامین کو بھی جگہ ملنے لگی. اور یہی مولانا اصلاحی کی راقم الحروف کی جانب سے گرانئ طبع کا سببِ اول بن گئی. اس لیے کہ مولانا برملا فرمایا کرتے ہیں کہ میں تصوف کو کل کا کل ضلالت و گمراہی سمجھتا ہوں! چنانچہ مولانا نے راقم سے مشفقانہ انداز میں فرمانا شروع کیا کہ عزیزم! تمہارے بارے میں مجھے دو اندیشے لاحق ہیں. ایک یہ کہ تم انتہائی ذہین ہو اور دوسرے یہ کہ تمہارے اندر تصوف کی لٹک موجود ہے! راقم اسے ہنس کر ٹال دیتا رہا اور مولانا کی مروت و شرافت کہ وہ تعلقات کو (اپنے بعض شاگردوں اور احباب کی شدید سرگرانی کے علی الرغم) نباہتے رہے! ۷۰.۷۱ء کے دوران ادھر تو مولانا علیل ہوگئے اور ان کی علالت تشویشناک صورت اختیار کرگئی اور اِدھر راقم کے حلقہ ہائے مطالعۂ قرآن وسعت اختیار کر گئے اور اس کے اعوان و انصار کا ایک خاصا بڑا حلقہ وجود میں آ گیا اور بالکل فطری طور پر کسی باقاعدہ ادارے کے قیام کی ضرورت محسوس ہوئی جس کے تحت کم از کم مالی امور منضبط کیے جا سکیں. یہی ضرورت تھی جس کے تحت مرکزی انجمن خدام القرآن لاہور کے قیام کا فیصلہ ہوا.

راقم اس سے بہت پہلے گہرے غور و خوض کے بعد اس حتمی نتیجے تک پہنچ چکا تھا کہ کسی دینی تنظیم میں شورائیت اس جمہوری طرز کی نہیں ہونی چاہیے جس میں بقول علامہ اقبال مرحوم ؏ . بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے!. بلکہ اس طرز کی ہونی چاہئے جو اسلام کے نظام امارت کے ساتھ مناسبت رکھتی ہو. جس میں امیر صرف دستوری صدر نہیں بلکہ صاحبِ امر ہوتا ہے. چنانچہ بلا خوفِ لومۃ لائم راقم نے اپنے اس خیال کو تحریر و تقریر دونوں صورتوں میں بیان بھی کیا اور انجمن کا مجوزہ دستوری خاکہ بھی اسی نہج پر تیار کیا. اللہ کا کرنا یہ ہوا کہ جیسے ہی یہ ڈھانچہ میثاق میں شائع ہوا، مولانا بھی بفضلہٖ تعالیٰ صحت یاب ہوگئے. اب جو ان کے علم میں یہ خاکہ آیا تو وہ سخت برہم ہوئے اس لیے کہ اس معاملے میں راقم کی اور ان کی رائے کے مابین بعد المشرقین پایا جاتا ہے. نتیجۃً وہ دو طرفہ تعلقات جو بیس سال سے نہایت خوشگوار چلے آ رہے تھے ایک شدید بحران (CRISIS) سے دوچار ہوگئے. بعض احباب نے بیچ بچاؤ کی کوشش کی لیکن راقم نے صاف عرض کردیا کہ اس کی بھی یہ سوچی سمجھی رائے ہے اور اب اس میں تبدیلی صرف اس طرح پیدا ہوسکتی ہے کہ اسے دلیل سے قائل کردیا جائے. محض پاسِ ادب اور لحاظِ بزرگی کی بنا پر وہ اپنی رائے تبدیل نہیں کرے گا. چنانچہ "ھذا فراق بینی وبینک" کا آغاز ہوگیا اور اس کے پہلے قدم کے طور پر طے پایا کہ میثاق کے سرورق پر سے زیرسرپرستی مولانا امین احسن اصلاحی کے الفاظ حذف کردیے جائیں. تاہم یہ مولانا کی عالی ظرفی ہے کہ اس کے بعد بھی نہ صرف یہ کہ ذاتی تعلقات برقرار رہے بلکہ جزوی تعاون بھی جاری رہا. 

مارچ ۷۴ء سے انجمن خدام القرآن کی سالانہ قرآن کانفرنسوں کا سلسلہ شروع ہوا. اور اس میں راقم نے تقریباً تمام مکاتبِ فکر کے علماء کو صدارت یا خطاب کے لیے دعوت دی جسے ان کی اکثریت نے ازراہ شفقت و عنایت منظور فرما لیا. یہ چیز راقم کے اور مولانا کے مابین مزید بعد و فصل کا سبب بن گئی 
ان کا فرمانا یہ تھا کہ "ان مولویوں کو سر پر بٹھا کر کیا لینا ہے؟ ان ہی کے خیالات و تصورات کی تو ہمیں تردید کرنی ہے! راقم نے اسے بھی خاموشی سے سنا ان سنا کردیا اس لیے کہ اس کی طبیعت کا رخ جیسا کہ اوپر تفصیل سے بیان ہوچکا، بالکل دوسرا ہے. تاہم اس نے محسوس کرلیا کہ اب مولانا کے مزاج میں تلخی بڑھتی جا رہی ہے.

جولائی ۷۴ء میں راقم نے اعلان کیا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ یہ چھوٹی سی تحریکِ اسلامی جس کا آغاز، دعوتِ رجوع الی القرآن سے ہوا تھا اور جس نے پہلی تنظیمی ہیئت انجمن خدام القرآن کی صورت میں اختیار کی تھی اگلے تنظیمی مرحلے میں قدم رکھے اور ٹھیٹھ دینی اصولوں پر جماعت کا قیام عمل میں لایا جائے جس کا ہیولی راقم کے پیشِ نظر وہی تھا جو ۶۷ء میں اجتماع رحیم یارخاں میں طے پایا تھا. چنانچہ میثاق کی ستمبر، اکتوبر اور نومبر ۷۴ء والی تقریر اور تنظیمِ اسلامی کا ۶۷ء والا خاکہ ایک طویل اداریے سمیت شائع کردیا. 

اس موقع پر راقم مولانا کی خدمت میں حاضر ہوا تو مولانا نے جو کچھ فرمایا اس کا حاصل یہ ہے کہ ’پرچہ کل ہی ملا تھا، میں نےرات ہی پورا پڑھ ڈالا. اور رات کے دو بجے تک لالٹین کی روشنی میں اسے پڑھتا رہا. تم نے خلا کی نشاندہی بالکل صحیح کردی ہے. اور کرنے کا کام بھی ٹھیک متعین کردیا ہےالبتہ تم نے بہت بھاری بوجھ اٹھا لیا ہے اور ایک بڑی ذمہ داری اپنے سر لے لی ہے. واقعہ یہ ہے کہ میرے اندر اس کی ہمت نہ تھی. لیکن اب جبکہ تم نے یہ بوجھ اٹھا ہی لیا ہے تو میں ہرگز یہ نہیں چاہتا کہ تم اس میں ناکام ہو بلکہ دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ تمہیں کامیاب کرے. اس لیے کہ میں ہرگز ان لوگوں میں سے نہیں ہوں جو اگر خود کوئی کام نہیں کرسکتے تو کسی دوسرے کو کرتا بھی نہیں دیکھ سکتے....،

مولانا کا یہی وہ حوصلہ افزا طرز عمل تھا جس سے راقم کو جرات ہوئی کہ مارچ ۷۵ء میں جب تنظیم اسلامی کا باضابطہ قیام عمل میں آیا. اور اس کا دستور طے پایا تو اس میں ایک حلقہ مشتشارین بھی رکھا گیا. جس کی زبانی اطلاع پر تو مولانا نے شیخ جمیل الرحمان صاحب اور کراچی کے بعض دوسرے رفقاء سے یہ فرمایا کہ آپ لوگوں نے یہ بالکل ٹھیک فیصلہ کیا ہے یہ خدمت میں بخوشی سر انجام دوں گا. لیکن جب باقاعدہ تحریری صورت میں وہ خاکہ ان کے سامنے آیا تو انہوں نے اس میں شمولیت سے 
انکار فرما دیا.

اس کے بعد بھی لگ بھگ ایک سال تک مولانا کی خدمت میں راقم کی حاضری کا سلسلہ جاری رہا. جنوری ۷۶ء میں "قرآن اکیڈمی" کی تعمیر کے آغاز کا مرحلہ آیا اور ساتھیوں نے اس موقع پر ایک اجتماعی دعا کا پروگرام بنایا تو اس میں شرکت کی دعوت راقم نے مولانا کو بھی دی. جسے انہوں نے کمال شفقت و مروّت سے منظور فرما لیا. اور وہ اپنے خوشِ کلاں نعمان علی صاحب کی معیّت میں تشریف لائے. لیکن بعد میں بعض حضرات سے سننے میں آیا کہ مولانا نے فرمایا کہ میری طبیعت بالکل آمادہ نہ تھی لیکن جب اس نے کہا تو میں انکار نہ کرسکا اور مجبوراً شریک ہوگیا. راقم کی اصل مشکل یہ تھی کہ مولانا سے ملنا جلنا بھی ہو اور پھر انہیں اپنے کاموں میں شرکت کی دعوت نہ دی جائے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ رہے سہے تعلق کو خود راقم نے ختم کردیا. 

اسی پس منظر میں راقم نے مارچ ۷۶ء میں تیسری سالانہ قرآن کانفرنس میں شرکت کی دعوت مولانا کو دی اور حسبِ سابق اسے بھی مولانا نے منظور فرما لیا لیکن بعد میں اپنے بعض دوستوں اور شاگردوں کے اصرار پر شرکت سے انکار کردیا. یہ گویا ان دو طرفہ تعلقات کے ضمن میں اونٹ کی کمر پر آخری تنکا، ثابت ہوا اور راقم نے فیصلہ کرلیا کہ آئندہ مولانا کی خدمت میں حاضری کا سلسلہ بھی بند کردیا جائے تاکہ وہ بار بار اس طرح کی پریشان کن صورتِ حال سے دوچار نہ ہوں. اور اس طرح ربع صدی پر پھیلے ہوئے وہ تعلقات اختتام پذیر ہوگئے جو پورے بیس سال نہایت گرم جوشی کے ساتھ قائم رہے اور بعد ازاں .؏ . کھنڈر بتا رہے ہیں عمارت عظیم تھی. کے مصداق پورے پانچ سال میں رفتہ رفتہ کم ہوکر اس حد کو پہنچے کہ وہی صورت پیدا ہوگئی کہ ؎

بس اتنا سا تعلق اب ان سے رہ گیا ہے
وہ مجھ کو جانتے ہیں، میں ان کو جانتا ہوں