کتاب کے حصہ دوم کے آخری دو باب یعنی باب سوم و چہارم اولاً میثاق، دسمبر۱۹۷۶ء میں ایک مسلسل تحریر کی صورت میں شائع ہوئے تھے. اس پر جو حوصلہ افزا تائید و تحسین بے شمار حضرات کی جانب سے موصول ہوئی ان میں سے دو بزرگوں کی قدر افزائی راقم کے لیے سرمایۂ حیات کا درجہ رکھتی ہے.
چنانچہ مولانا سیّد محمد یوسف بنوری رحمہ اللہ تعالی نے ایک ملاقات میں نہ صرف یہ کہ اس تحریر کی کامل تصویب فرمائی بلکہ اپنی دو عربی تصانیف بھی ہدیہ فرمائیں جن میں سے ایک بعض جدید تفاسیر پر نقد و جرح ہی پر مشتمل تھی.
دوسری تحریری تائید و تحسین مولانا عبدالملک جامع مدظلہ مہاجر مدینہ کی جانب سے ایک خط کی صورت میں موصول ہوئی تھی جو مارچ ۱۹۷۷ء کے میثاق میں کور کے اندرونی صفحے پر بریدِ حرم کے عنوان سے شائع کردیا گیا تھا. (جس کا عکس اگلے صفحے پر ملاحظہ کیا جا سکتا ہے) اس میں انہوں نے جو ذاتی تاثرات بیان فرمائے ان پر مستزاد میرے لیے نہایت مسرت انگیز بات یہ تھی کہ.ع. ذکرا میرا مجھ سے بہتر ہے کہ اس محفل میں ہے. کے مصداق اس تحریر کا ذکر مدینۃ النبی ﷺ میں شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کی محفل میں ہوا. جیسے کہ مولانا جامعی کے خط سے ظاہر ہے اس سے قبل میرا ان سے کوئی تعارف نہ تھا. البتہ بعد میں ان سے جو دو ایک ملاقاتیں ہوئیں ان میں یہ تفصیل معلوم ہوئی کہ جب مولانا سیّد ابوالحسن علی ندوی مدظلہ ملاقات کے لیے حضرت شیخ الحدیث رحمہ اللہ تعالی کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انہوں نے دریافت فرمایا کہ یہ تحریر ان کی نظر سے گزری ہے یا نہیں؟ اور جب جواب نفی میں ملا تو ارشاد فرمایا: یہ میثاق لے جاؤ اور اسے ضرور پڑھو، لیکن پڑھنے کے بعد پرچہ مجھے واپس کرنا نہ بھولنا!
میرے لیے مولانا بنوری اور شیخ الحدیث کی یہ قدر افزائی اس اعتبار سے بہت وقیع اور اہم ہے کہ ؎
احب الصالحین و لستُ منہم
لعل اللہ یرزقنی صلاحا