راقم نے اپنی اس دعوتِ قرآنی کی اساس مطالعۂ قرآن حکیم کے ایک منتخب نصاب، کو بنایا تھا، اور واقعہ یہ ہے کہ جو کامیابیاں اسے حاصل ہوئیں ان کا سب سے بڑا راز اسی منتخب نصاب میں مضمر ہے. اس لیے کہ ان حضرات سے قطع نظر جنہیں قسمت ابتدا ہی سے عربی مدارس میں پہنچا دیتی ہے اور وہ اسی قدیم مذہبی نظامِ تعلیم سے فراغت حاصل کرتے ہیں اور اس طرح ان کے تو گویا شب و روز قال اللہ اور قال الرسول کی فضا ہی میں بسر ہوتے ہیں، سکولوں اور کالجوں کے تعلیم یافتہ لوگوں کے لیے قرآن مجید کا ابتدا سے انتہا تک تسلسل کے ساتھ مطالعہ نہایت کٹھن کام ہے اور اس کے لیے ایک نہایت مضبوط قوت ارادی درکار ہے. جبکہ یہ منتخب نصاب جو حجم کے اعتبار سے زیادہ سے زیادہ دو پارے کے لگ بھگ یعنی کل قرآن کے پندرہویں حصے کے بابر ہے، ایک نہایت حکیمانہ تدریج اور منطقی ترتیب کے ساتھ نہ صرف یہ کہ ، فقہی اور تاریخی مباحث کے سوا، قرآن حکیم کے جملہ بنیادی مضامین اور تعلیمات کو بخوبی ذہن نشین کردیتا ہےبلکہ ایک جانب قرآن کے مخصوص اسلوب اور طرزِ بیان، اور دوسری جانب اس کے فطری منہجِ استدلال (LINE OF ARGUMENT) سے بھی واقفیت ہی نہیں گہری مناسبت عطا کردیتا ہے. اور اس کے ساتھ ساتھ قرآن حکیم کی عظمت کا ایسا نقش دل پر قائم کردیتا ہے کہ وہ مضبوط قوت ارادہ خود بخود پیدا ہوجاتی ہے جو پورے قرآن کے مسلسل مطالعے کے لیے ضروری ہے.

اب سے دس بارہ سال پہلے جب اس منتخب نصاب میں شامل آیات و سوَرِ قرآنی کو پہلی بار یکجا کتابی صورت میں شائع کیا گیا تو راقم نے اس کا تاریخی پس منظر تفصیلاً بیان کردیا تھا. جو درج ذیل ہے:

"آغاز ہی میں یہ بات عرض کردینی مناسب ہے کہ یہ نصاب راقم کا طبعزاد نہیں ہے بلکہ اس کا اصل ڈھانچہ مولانا امین احسن اصلاحی کا تیار کردہ ہے. تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ ۵۲ء ۱۹۵۱ء میں جب راقم الحروف اسلامی جمعیت طلبہ لاہور و پنجاب کا ناظم تھا 
اس نے جمعیت کے زیر اہتمام طلبہ کے دو تربیتی کیمپ منعقد کیے تھے ایک دسمبر ۱۹۵۱ء میں کرسمس کی تعطیلات میں اور دوسرا۱۹۵۲ء کی تعطیلاتِ موسم گرما میں ... ان تربیت گاہوں میں قرآن حکیم کا درس مولانا اصلاحی مدظلہ نے دیا تھا اور اس غرض سے انہوں نے ایک نصاب تجویز کیا تھا جو درج ذیل ہے:

1. انسان کی انفرادی زندگی کی رہنمائی کے لیے سورۃ لقمان کا دوسرا اور سورۂ فرقان کا آخری رکوع.
2. عائلی زندگی سے متعلق. سورۂ تحریم مکمل.
3. قومی، ملی اور سیاسی زندگی کی رہنمائی کے ذیل میں سورۂ حجرات مکمل.
4. فریضۂ اقامتِ دین کے ذیل میں سورۂ صف مکمل.
5. اور تحریکِ اسلامی سے متعلق مختلف مسائل میں رہنمائی کے ذیل میں سورۂ عنکبوت مکمل.

راقم کی خوش قسمتی تھی کہ اسے بطور ناظم ان دونوں تربیت گاہوں میں شرکت کا موقع ملا اور یہ مقامات اس نے دوبار مولانا اصلاحی صاحب سے براہ راست پڑھے اور راقم نے ان مقامات کو اس طرح اخذ کرلیا کہ 
بَلِّغُوْا عَنِّیْ وَلَوْ اٰیَۃً (پہنچاؤ میری جانب سے چاہے ایک ہی آیت) کے مصداق انہیں آگے پڑھانے کے لیے بھی کسی قدر اعتماد پیدا ہوگیا. چنانچہ زمانہ طالب علمی میں جمعیت کے اجتماعات میں بھی راقم مطالعۂ قرآن کی ذمہ داریاں نبھاتا رہا. تعطیلات کے زمانے میں ساہیوال میں. جماعت اسلامی کے اجتماعات میں بھی ان مقامات کا درس دیتا رہا اور رمضانِ مبارک کے ایک تربیتی پروگرام میں پورا نصاب بھی پڑھایا. ۱۹۵۴ء میں ملتان میں منعقدہ جمعیت کی ایک تربیت گاہ میں راقم نے پھر یہ نصاب اسی تدریج کے ساتھ پڑھایا. بعد میں جب ساہیوال میں راقم نے ایک اسلامی ہاسٹل قائم کیا تو اس میں مقیم طلبہ کو بھی راقم نے اس پورے نصاب کا درس دیا. اس کے بعد جب راقم کراچی میں تھا تو وہاں بھی مقبول عام ہاؤسنگ سوسائٹی میں ایک حلقہ قائم کرکے اسی منتخب نصاب کا درس دیا گیا

البتہ اس عرصے کے دوران میں وقتا فوقتا راقم اس بنیادی نصاب میں اضافے 
کرتا رہا. جن سے اس نصاب کی ایک واضح بنیاد بھی قائم ہوگئی اور مختلف مقامات کے مضامین میں جو فاصلے تھے وہ بھی بہت حد تک پاٹ دئیے گئے. ہوسکتا ہے کہ آئندہ بھی خود راقم یا کوئی اور شخص اس میں مفید اضافے کرسکے. تاہم اس وقت راقم کا گمان ہے کہ ایک خاص نقطۂ نظر سے قرآن حکیم کا جو انتخاب اس نصاب میں کیا گیا ہے وہ بہت حد تک مکمل بھی ہے اور نہایت مفید بھی آگے چلنے سے پہلے اس خاص نقطۂ نظر کی وضاحت بھی ہوجائے تو اچھا ہے. وہ نقطۂ نظر یہ ہے کہ ایک مسلمان کے سامنے یہ بات بالکل واضح ہوجائے کہ ا سکے دین کے تقاضے اس سے کیا ہیں اور اس کا رب اس سے کیا چاہتا ہے؟ گویا دین کے تقاضوں اور مطالبوں کا ایک اجمالی لیکن جامع تصور پیش کرنا اس انتخاب کا اصل مقصود ہے، ویسے ضمناً اس سے خود دین کا ایک جامع تصور بھی آپ سے آپ واضح ہوجاتا ہے اور محدود مذہبی تصورات کی جڑیں خود بخود کٹتی چلی جاتی ہیں"

اس نصاب کا نقطۂ آغاز سورۃ العصر ہے اور نقطۂ عروج سورۃ الحدید. چنانچہ اس کے حصۂ اول میں سورۃ العصر کے ساتھ تین مزید جامع اسباق شامل ہیں یعنی حقیقتِ برّ و تقویٰ کی وضاحت کے لیے سورۃ البقرہ کی آیت ۱۷۷ (آیت البر) حکمتِ قرآنی کی اساسات اور مقام عزیمت کی تشریح لیے سورۂ لقمان کا دوسرا رکوع اور "حظ عظیم" کی وضاحت کے لیے سورۂ حم السجدۃ کی آیات ۳۰ تا ۳۶، اور حصۂ آخر (ششم) مشتمل ہے مکمل سورۃ الحدید پر جو امتِ مسلمہ سے خطاب کے ضمن میں قرآنِ حکیم کی جامع ترین سورت ہے.

درمیانی چار حصے سورۃ العصر میں بیان شدہ چار لوازمِ نجات کی تشریح و توضیح پر مشتمل ہیں. چنانچہ حصۂ دوم میں ایمان کی حقیقت و ماہیت اور اس کے اجزاء ترکیبی کی وضاحت کے لیےسورۃ الفاتحہ، سورۂ آل عمران کی آیت ۱۹۰ تا ۱96، سورۃ النور کا پانچواں رکوع، سورۃ التغابن کامل، اور سورۃ القیامہ کامل شامل ہیں. اسی طرح حصۂ سوم میں، عملِ صالح کی وضاحت کے لیے بندۂ مومن کی انفرادی سیرت کی تعمیر کے اساسی لوازم کے بیان میں سورۃ المؤمنون کی ابتدائی گیارہ آیات اور سورۃ المعارج کی آیات ۱۹ تا ۲۳۵، مردِ مومن کے اخلاقِ حسنہ اور اوصافِ عالیہ کی تصویر کشی 
کے لیے سورۃ الفرقان کا آخری رکوع، عائلی زندگی کے خدوخال نمایاں کرنے کے لیے سورۃ التحریم (کامل) مسلمانوں کی معاشرتی و سماجی زندگی کے اصولوں کی وضاحت کے لیے سورۂ بنی اسرائیل کا تیسرا اور چوتھا رکوع، اور مسلمانوں کی حیاتِ ملی و سیاسی کے اصولوں کے ضمن میں جامع ترین ہدایت نامہ کے طور پر سورۃ الحجرات (مکمل) شامل ہیں.

تواصی بالحق کے ضمن میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر اور دعوت الی اللہ کا ذکر تو جامع اسباق3 ، 4 میں موجود ہے اسی طرح ایمان حقیقی کی شرط لازم جہاد فی سبیل اللہ کا تذکرہ نہایت زور دار انداز میں سورۃ الحجرات کی آیت نمبر ۱۵ میں آجاتا ہے. لہٰذا منتخب نصاب کا حصۂ چہارم کل کا کل جہاد و قتال فی سبیل اللہ کی تشریحِ مزید کے لیے وقف ہے. چنانچہ اس میں اوّلاً سورۃ الحج کا آخری رکوع (جو بجائے خود نہایت ہی جامع مقام ہے) اور سورۃ التوبہ کی آیت ۲۴ اور پھر سورۃ الصف، سورۃ الجمعہ اور سورۃ المنافقون (کامل) شامل ہیں. اسی طرح تواصی بالصبر، ، کی بھی اصل اساسات تو حصہ اوّل میں شامل جامع اسباق میں موجود ہیں، حصۂ پنجم میں اوّلین اور اہم ترین حصہ تو مشتمل ہے سورۃ العنکبوت کے پہلے اور آخری تین رکوعوں پر ... اور ان پر مستزاد ہیں قتال فی سبیل اللہ کے ضمن میں صبر و مصابرت کی تاکید پر مشتمل سورۃ البقرہ کی آیات ۱۵۳ تا ۱۵۷ اور آیت ۲۱۴، سورۃ الانفال کا پہلا اور آخری رکوع، سورۂ آلِ عمران کی آیات ۱۲۱ تا ۱۲۹ اور ۱۳۹ تا ۱۴۸، سورۃ الاحزاب کا دوسرا اور تیسرا رکوع، اور بالآخر سورۃ التوبہ کا چھٹا اور ساتواں رکوع.

اور جیسے کہ عرض کیا جا چکا ہے، آخر میں آتی ہے ام المسبحات سورۃ الحدید جو ان تمام مباحث کو نہایت جامعیت کے ساتھ ایک بار پھر سامنے لے آتی ہے، اس سورۂ مبارکہ کی عظمت و جامعیت کا جو نقش راقم الحروف کے قلب پر قائم ہے وہ بیان میں نہیں آسکتا. مختصر یہ کہ اگر سورۃ العصر کو گلاب کے پودے کے بیج سے تعبیر کیا جائے تو سورۃ الحدید اس پودے کی چوٹی پر کھلے ہوئے حسین و جمیل پھول کے مانند ہے، اب اگر امام شافعی سورۃ العصر کے بارے میں یہ فرماتے ہیں کہ 
"لَوْ تَدَبَّرَ النَّاسُ ھَزِہِ السُّوْرَۃَ لَوَسِعَتْھُمْ... اور لَوْ لَمْ یُنَزَّلْ مِنَ الّقُرْاٰنِ سِوَاھَا لَکَفَتِ النَّاس" تو میں نہیں کہہ سکتا کہ سورۃ الحدید کے بارے میں کیا کہاجائے کہ اس کا حق ادا ہو سکے! راقم کے نزدیک تو یہ معاملہ خالصتاً .؏ . "اے بروں از وہم و قیل و قالِ من" والا ہے. اور یہاں گھٹنے ٹیک دینے ہی میں عافیت ہے!

راقم الحروف کے پاس کوئی ریکارڈ تو ظاہر ہے کہ محفوظ نہیں لیکن وہ یہ بات پورے اطمینان کے ساتھ کہہ سکتا ہے کہ اس نے اس پورے منتخب نصاب کے درس کی سعادت کم از کم پچاس مرتبہ تو ضرور حاصل کی ہوگی. اس لیے کہ لاہور میں جب ۶۸.۱۹۶۷ میں حلقہ ہائے مطالعۂ قرآن قائم کیے تو ان سب میں اسی کا درس دیا، پھر مسجد خضراء سمن آباد میں مرکزی درس کا آغاز ہو تو وہاں بھی دوبار اسی کا درس دیا. پھر یہ مرکزی درس مسجد شہداء میں منتقل ہوا تو وہاں بھی اس کا اعادہ کیا. پھر جابجا قرآنی تربیت گاہیں قائم کیں تو ان میں بھی ان ہی مقامات کا درس دیا. بیرونی ممالک میں جانا ہوا تو وہاں بھی.؏ . "الا حدیثِ دوست کہ تکرار می کنیم" کے مصداق اسی کو بیان کیا. پھر موقع اور مقام اور سامعین کی ذہنی سطح کے فرق کی مناسبت سے ان دروس میں طوالت یا اختصار کے اعتبار سے بھی فرق ہوتا رہا اور بین کی سلاست یا علمی ثقالت کے اعتبار سے بھی. چنانچہ اس نصاب میں بھی میں شامل ہر مقام کے راقم الحروف کے دو دو ڈھائی ڈھائی گھنٹے کے دروس بھی ٹیپ کی ریلوں
(SPOOLS) میں محفوظ ہیں اور نہایت مختصر اور آسان دروس کے کیسٹ بھی موجود ہیں.

اور اب کچھ عرصہ سے خود راقم کے اسی منتخب نصاب کے دروس کا سلسلہ بند ہوچکا ہےتو بحمد اللہ کم از کم پندرہ بیس نوجوان ایسے تیار ہوچکے ہیں جو اس کا درس نہایت خوش اسلوبی سے دے رہے ہیں. اللہ ان کے عزم اور ارادے کو برقرار رکھے. اور ان کی صلاحیت اور استعداد میں ترقی عطا فرمائے! ... یہ تو اللہ تعالیٰ کا خصوصی فضل و کرم ہے کہ ان میں میرے صلبی بیٹے بھی شامل ہیں، ورنہ میں تو ان سب کو اپنی معنوی اولاد اور صدقۂ جاریہ سمجھتا ہوں. اور علامۂ اقبال کے شعر میں تھوڑے سے تصرّف کے ساتھ دست بدعا ہوں کہ ؎

یہ ہیں صدف تو تیرے ہاتھ اِن کے گہر کی آبرو
یہ ہیں خزف تو تو انہیں گوہرِ شاہوار کر