دار الاشاعت الاسلامیہ لاہور اور سلسلۂ مطبوعات قرآن اکیڈمی

دعوت رجوع الی القرآن، اور تحریک تعلیم و تعلم قرآن کے دورِ اوّل کا تیسرا اہم سنگِ میل دار الاشاعت الاسلامیہ لاہور، اور اس کا سلسلۂ مطبوعات ہے.

میرا یہ خالص نجی اشاعتی ادارہ اوائل ۱۹۶۶ء ہی میں قائم ہوگیا تھا. چنانچہ تحریکِ جماعتِ اسلامی کا پہلا ایڈیشن بھی اسی کے زیر اہتمام اپریل ۶۶ء میں شائع ہوا.. اور ماہنامہ میثاق کا میرے زیر ادارت اجراء بھی اگست ۶۶ء میں اسی کے تحت ہوا.

اس ادارے کے قیام کا مقصد جو میثاق کے کور پر پہلے ٹائپ میں چھپتا رہا، بعد ازاں ستمبر ۶۸ء سے ایک خوشنما بلاک کی صورت میں مستقل طور پر شائع ہوتا رہا، مقابل کے صفحے پر دیکھا جا سکتا ہے، جس سے صاف معلوم ہوجاتا ہے کہ بحمد اللہ راقم کے اہداف بالکل آغاز ہی سے نہایت واضح تھے! اور ہر شخص دیکھ سکتا ہے کہ موجودہ زمانے میں ان مقاصد کے تحت قائم ہونے والے ادارے سے کسی مالی منفعت کے حصول کا امکان کسی ایسے ہی شخص کے ذہن میں آسکتا ہے جو عقل سے بالکل کورا ہو!

ایک اور اہم حقیقت واقعی بھی، جسے اس سے قبل راقم نے نجی گفتگوؤں میں تو بارہا بیان کیا ہے، تاہم آج تک تحریر میں نہیں آئی، آج مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اسے ریکارڈ پر بھی لے آیاجائے. اور وہ یہ کہ لاہور منتقل ہونے کے فورا بعد میں نے مولانا امین احسن اصلاحی کے سامنے یہ تجویز رکھی تھی کہ "اللہ تعالیٰ نے آپ کو قرآن حکیم کے علم سے حصہ وافر عطا فرمایا ہے، اور مجھے کسی قدر تنظیمی صلاحیت سے نوازا ہے، ہم دونوں مل کر ایک ادارہ قائم کرسکتے ہیں جو قرآن حکیم کے علم و حکمت کی اشاعت کا کام کرے اور خاص طور پر قرآن کے نام سنتِ رسول کے استخفاف اور مخالفت کا جو فتنہ غلام احمد پرویز کی تصانیف کے ذریعے پھیل رہا ہے اس کی بیخ کنی کریں. اس لیے کہ اب تک اس فتنے کے جواب میں علماء کرام نے صرف مدافعانہ روش اختیار کی ہے، یعنی حجیتِ حدیث اور اہمیت ِ سنت کے موضوع پر کتابیں شائع کی ہیں، جبکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس فتنے پر جارحانہ حملہ کیا جائے اور اس کے مقابلے میں ایک جوابی قرآنی تحریک برپا کی جائے جو.ع. عشق خود اک سیل ہے، سیل کو لیتا ہے تھام. کے انداز میں پرویزیت کے گمراہ کن اور نام نہاد فکرِ قرآنی کا استیصال کرے. البتہ اس سلسلے میں. معاملہ. کی یہ بات واضح طور پر طے ہوجانی چاہیے کہ مجوزہ ادارہ آپ کی اوسط معیار کے مطابق پوری مالی کفالت کا ذمہ لے گا، لیکن پھر آپ کی جملہ تصانیف اس ادارے کی ملکیت ہوں گی. اگرچہ آپ پر تحریر اور تصنیف و تالیف کے ضمن میں کسی مقدار کی کوئی پابندی ہرگز نہیں ہوگی. بلکہ آپ آزاد ہوں گے کہ فطری رفتار سے اطمینان کے ساتھ تصنیف و تالیف کا کام جاری رکھیں! لیکن افسوس کہ مولانا نے میری اس تجویز کو یہ کہہ کر رد کردیا کہ "آپ میرے حالات و مسائل سے واقف نہیں ہیں" اور مولانا کے اس انکار کے بعد ہی راقم نے مجبوراً اپنا نجی اشاعتی ادارہ قائم کیا. جس نے مولانا سے ان کی تصانیف کا حق اشاعت نقد معاوضے پر حاصل کیا. چنانچہ میثاق بابت نومبر ۶۸ء کے کور پر مولانا کی جانب سے یہ اہم اعلان جلی طور پر شائع ہوا کہ: 

میری تصنیفات میں سے اکثر کے پہلے ایڈیشن عرصہ سے ختم ہوچکے تھے. قدر دانوں کا شدت سے اصرار تھا کہ ان کی طباعت اور اشاعت کا کوئی قابل اطمینان انتظام کیا جائے. لیکن حالات مساعد نہ ہونے کی وجہ سے کوئی خاطر خواہ انتظام نہ ہوسکا تھا. اب میں نے ان کتابوں کی طباعت و اشاعت کا کام ڈاکٹر اسرار احمد صاحب، مالک 
دار الاشاعۃ الاسلامیہ لاہور
کوثر روڈ، اسلام پورہ (کرشن نگر) لاہور. 1 (فون69522)
 
کے سپرد کیا ہے، امید ہے کہ یہ انتظام قابل اطمینان ثابت ہوگا اور جلد یہ کتابیں چھپنی شروع ہوجائیں گی... 
یہاں اس بات کی مزید وضاحت ہوجائے تو بہتر ہے کہ مندرجہ بالا الفاظ میں جو حقیقت سامنے آتی ہے وہ واقعۃً اتنی سادہ نہیں تھی. صورتِ واقعی یہ تھی کہ مولانا کو جماعتِ اسلامی سے علیحدہ ہوئے دس سال بیت چکے تھے اور چونکہ اس عرصے میں کوئی ادارہ یا نئی ہیئتِ تنظیمی قائم نہیں ہوسکی تھی لہٰذا ان کی تصانیف بالفعل "نسیاً منسیا" کی مصداق بن چکی تھیں. اور جب دار الاشاعت الاسلامیہ نے ان کی طباعت کا سلسلہ شروع کیا تو مولانا نے فرطِ جذبات میں یہ الفاظ فرمائے تھے: "میں آپ کا ممنون ہوں کہ آپ نے مجھے دوبارہ زندہ کردیا" بالخصوص جب تفسیر تدبر قرآن کی جلد اول طبع ہوئی اور الفاظِ قرآنی: وَ صَوَّرَکُمۡ فَاَحۡسَنَ صُوَرَکُمۡ کے مصداق نہایت اعلی معیار پر اور حد درجہ آب و تاب کے ساتھ شائع ہوئی تب تو ان کا تشکر و امتنان انتہا کو پہنچ گیا. (اس لیے کہ اس کا مسودہ حکیم عبدالرحیم اشرف صاحب کے پاس گویا رہن تھا اور میں نے ہی اسے وا گذار کرایا تھا. واقعہ یہ ہوا تھا کہ مولانا نے اپنی ضروریات کے لیے وقتاً فوقتاً حکیم صاحب سے کچھ رقوم قرض لی تھیں، جن کی واپسی کی کوئی صورت ممکن نہیں ہو رہی تھی، ایک بار حکیم صاحب ملاقات کیلیے آئے تو مولانا نے تفسیر کی جلد اوّل کا تصحیح شدہ مسودہ ان کے سامنے رکھ دیا گویا زبان حال سے کہہ رہے ہوں کہ .ع. یہی کچھ ہے ساقی متاعِ فقیر. اسی سے فقیری میں ہوں میں امیر" چنانچہ حکیم صاحب اسے لے تو گئے لیکن ان کی "وہابیت" اس کی اشاعت میں حائل رہی اور وقت اِسی طرح گزرتا جا رہا تھا کہ میری لاہور منتقلی ہوگئی اور میں نے حکیم صاحب کی رقم ان کو ادا کرکے مسودہ حاصل کرلیا!

بہرحال دار الاشاعت الاسلامیہ لاہور، نے چھ سالوں کے عرصے میں تفسیرِ تدبر قرآن کی دو ضخیم جلدوں کے علاوہ مولانا اصلاحی کی دو معرکۃ الآرا تصانیف، جن سے مجھے آج تک عشق کی حد تک تعلقِ خاطر ہے، یعنی "دعوتِ دین اور اس کا طریقِ کار" اور مبادئ تدبر قرآن شائع کیں. اور ان کے علاوہ دو چھوٹے کتابچے بھی شائع کیے یعنی "قرآن اور پردہ" اور "اقامتِ دین کے لیے انبیاء کرام کا طریق کار" 

۱۹۷۲ء میں جیسے ہی انجمن خدام القرآن قائم ہوئی، راقم نے دار الاشاعت کی بساط لپیٹ دی، چنانچہ مولانا کی تصانیف کی اشاعت کے ضمن میں بھی ایک نیا معاہدہ انجمن اور مولانا کے مابین طے پا گیا اور یہ معاملہ ۷۶ء میں مولانا سے راقم کے ذاتی تعلقات کے انقطاع کے بعد بھی جاری رہا. تا آنکہ ۱۹۸۲ء میں یہ تعلق بھی منقطع ہوگیا. جس کے سبب کی وضاحت کے لیے حکمتِ قرآن بابت جولائی و اگست ۸۲ء میں راقم کی یہ عبارت شائع ہوئی: 

مولانا امین احسن اصلاحی سے وصل و فصل کی داستان کے آخر میں عرض کیا گیا تھا کہ: 
مولانا کے ساتھ تعلق کا جو تسمہ اب لگا رہ گیا ہے وہ صرف مصنف اور ناشر کے تعلق کی نوعیت کا ہے اور وہ بھی راقم اور مولانا کے مابین نہیں بلکہ انجمن خدام القرآن اور مولانا کے مابین ہے"
قارئین کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ اب یہ تعلق بھی ختم ہوچکا ہے اور انجمن نے اپنی ادا کردہ رقم واپس لے کر مولانا کو ان کی جملہ تصانیف کے حقوقِ اشاعت واپس لوٹا دئیے ہیں. 
سبب اس کا یہ ہوا کہ تدبر قرآن کی جلد چہارم میں سورۃ نور کی تفسیر کے ضمن میں مولانا نے حد رجم کے بارے میں جو رائے ظاہر کی ہے اس نے کم از کم اس مسئلے میں انہیں اہل سنت کی صفوں سے نکال کر منکرینِ حدیث کی صف میں لا کھڑا کیا ہے . جس وقت یہ جلد چھپی راقم نے ابھی اسے پڑھا نہیں تھا. بعد میں جب یہ بات راقم کے علم میں آئی تو سخت صدمہ ہوا کہ اس رائے کی اشاعت میں راقم الحروف اور اس کی قائم کردہ انجمن خدام القرآن بھی شریک ہے. تاہم جو تیر کمان سے نکل چکا تھا اس پر تو اب سوائے استغفار کے اور کچھ نہ کیا جا سکتا تھا. البتہ اس جلد کی دوبارہ اشاعت پر طبیعت کسی طور سے آمادہ نہ ہوئی ... ادھر یہ بھی کسی طرح مناسب نہ تھا کہ ایک مصنف کی تصنیف کی اشاعت صرف اس لیے رک جائے کہ وہ اس کے حقوقِ اشاعت کسی ادارے کے ہاتھ فروخت کرچکا ہے... بنا بریں تفسیر "تدبر قرآن" کی بقیہ چار جلدوں کے ناشر برادر ماجد خاور صاحب نے جیسے ہی مولانا کی جملہ تصانیف کے حقوقِ اشاعت کی واپسی کے سلسلہ میں گفتگو کی، راقم نے فوری آمادگی کا اظہار کردیا اور الحمد للہ کہ خاور صاحب کی مساعئ جمیلہ اور مرکزی انجمن خدام القرآن لاہور کی مجلسِ منتظمہ کی منظور ی سے یہ معاملہ بغیر کسی تلخی کے باحسنِ وجوہ طے پا گیا... الغرض مولانا سے اب یہ رشتہ بھی بالکلیہ منقطع ہوگیا ہے!

اسرار احمد بہرحال مولانا امین احسن اصلاحی اور ان کی تصانیف کی طباعت و اشاعت کا ذکر تو اس وقت جملۂ معترضہ اور اصلاً اس تحریر کے تکملہ کے حکم میں ہے جو راقم نے دسمبر ۷۶ء میں مولانا سے اپنے "وصل و فصل" کی داستان کے ضمن میں لکھی تھی، فی الوقت تاریخ دعوتِ رجوع الی القرآن کے سلسلے میں اصل اہمیّت راقم کے ان چار کتابچوں کو حاصل ہے جو اس تحریک کےد ور اول میں دار الاشاعت الاسلامیہ کے زیر اہتمام شائع ہوئے، اور جن میں سے دو کو تو بلاشبہ اس دعوت و تحریک کے سنگ ہائے میل ہی نہیں، سنگِ بنیاد کی حیثیت حاصل ہے، یعنی: 

ٍ1. اسلام کی نشاۃثانیہ: کرنے کا اصل کام، اور 
2. مسلمانوں پر قرآن مجید کے حقوق