اسی عبارت میں آگے تنظیم اسلامی کے قیام کا ذکر ہے، اس لیے کہ یہی نوجوان جنہوں نے تعلیم و تعلم قرآن کے اس مبارک کام کے لیے پیش قدمی کی تنظیم اسلامی کا ابتدائی سرمایہ بنے. چنانچہ راقم نے اس وقت تحریر کیا تھا کہ:

"مزید برآں... اور نَافِلَۃً لَّکَ کے درجے میں یہ کہ "تنظیم اسلامی" کے نام سے ایک چھوٹا سا قافلہ فرمان نبوی 
اِنِّیْ اٰمُرُکُمْ بِخَمْسٍ: بِالْجَمَاعَۃِ وَالسَّمْعِ وَالطَّاعَۃِ وَالْھِجْرَۃِ وَالْجِھَادِ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ میں بیان شدہ مقاصد کے پیش نظر سفر کا آغاز کر چکا ہے اور اس راہ کے پہلے اقدام یعنی تجدید ایمان، توبہ اور تجدید عہد کی دعوت زبانوں پر آنے اور کانوں سے ٹکرانے لگی ہے. یہ صحیح ہے کہ قافلہ بھی بہت ہی چھوٹا ہے اور اس کا قائد بھی حد درجہ حقیر پر تقصیر. لیکن یہ اطمینان پوری طرح حاصل ہے کرنے کا کام ہے یہی! ؎

آئی صدائے جبرئیل تیرا مقام ہے یہی
اہل فراق کے لیے عیش دوام ہے یہی 

راقم کو جو ساتھی ملے ہیں وہ راقم کے لیے اللہ کا عطیہ ہیں. اور راقم تو قائل ہی اس کا ہے کہ ع "ہر چہ ساقئ ما ریخت عین الطاف است" کبھی ان میں سے کسی کی سست رفتاری یا سہل انگاری سامنے آتی ہے تو راقم اپنے آپ سے کہتا ہے ؎

نو مید نہ ہو ان سے اے رہبر فرزانہ
کم کوش تو ہیں لیکن بے ذوق نہیں راہی

اور اس عاجز پر اللہ کا یہ بڑا فضل ہے کہ جب کسی ساتھی سے کسی کمزوری کا ظہور ہوتا ہے تو وہ یہ سمجھتا ہے کہ یہ لامحالہ اس کی اپنی کسی کمزوری کا مظہر ہے!

تنظیمِ اسلامی کے قیام کے ضمن میں اپنے ذاتی فیصلے کا اعلان تو راقم الحروف نے اس اکیس روزہ قرآنی تربیت گاہ کے اختتام پر اپنے الوداعی خطاب میں کردیا تھا جو جولائی ۱۹۷۴ء میں انجمن خدام القرآن کے زیر اہتمام مسلم ماڈل ہائی اسکول لاہور میں منعقد ہوئی تھی. (راقم کا یہ خطاب اب "عزمِ تنظیم" کے نام سے کتابی صورت میں مطبوعہ موجود ہے) تاہم اس کے بعد راقم بالفعل اقدام سے قبل مزید استخارہ کے لیے مع اہلیہ حج کے لیے گیا. الحمد للہ کہ اس سفرِ حج میں برادرم قمر سعید قریشی اور محترم ڈاکٹر نسیم الدین خواجہ کی رفاقت بھی راقم کو حاصل رہی. بہرحال وہاں ارادہ بفضلہٖ تعالیٰ مزید مستحکم ہوگیا. چنانچہ مارچ ۱۹۷۵ء میں ایک قافلہ آمادۂ سفر ہوگیا جس میں جیسے کہ اس سے قبل عرض کیا جا چکا ہے، تقریباً سب کے سب لوگ وہی تھے جو میری دعوت رجوع الی القرآن اور تعلیم و تعلم قرآن سے منسلک تھے. (یہی وجہ ہے کہ تنظیم کا تاسیسی اجتماعی انجمن کی تیسری سالانہ قرآن کانفرنس سے ملحق رکھا گیا تھا.)

اس طرح تنظیم اسلامی اگرچہ میرے سابقہ تعلق اور میری ذہنی و فکری نشوونما کے اعتبار سے تو یقیناً اولاً مولانا ابو الکلام آزاد مرحوم کی "حزب اللہ، ثانیاً سید ابو الاعلی مودودی مرحوم کی جماعت اسلامی اور پھر اس اسلامی تنظیم کے تسلسل کی حیثیت رکھتی ہے ۱۹۶۷ء میں جماعت سے علیحدہ ہونے 
والے حضرات نے قائم کرنے کی کوشش کی تھی تاہم اس کی موجودہ ہیئتِ تنظیمی کی حیثیت فی الواقع اس "دعوتِ رجوع الی القرآن" کے شجرِ مبارکہ کے برگ و بار کی ہے جس کا آغاز راقم الحروف نے اواخرِ ۶۵ء میں کیا تھا!