سالانہ قرآن کانفرنسیں اور قرآنی محاضرات

۱۹۷۳ء سے انجمن نے سالانہ قرآن کانفرنسوں کا سلسلہ شروع کیا جو نہ صرف دعوتِ رجوع الی القرآن کا ایک اہم سنگ میل ثابت ہوئیں بلکہ ملک کی سماجی و ثقافتی زندگی کا ایک مستقل نشان بن گئیں. اسی کا نتیجہ ہے کہ اب ملک کے دیگر ادارے بھی ملک کے مختلف مقامات پر ایسے اجتماعات منعقد کر رہے ہیں جن کا عنوان "قرآن کانفرنس" ہوتا ہے. بعد میں ہم نے اس کی بجائے "محاضرات قرآنی" کا عنوان اختیار کرلیا. حاضرین کی تعداد، شرکاء کے ذوق و شوق، اجتماعات کے نظم و ضبط اور مقالوں اور تقاریر کے معیار کے علاوہ حاضرین کے جوش و خروش، کارکنوں کی مستعدی اور حسنِ انتظام یہاں تک کہ اجتماع گاہ کی تزئین و آرائش، غرض ہر اعتبار سے انجمن کے زیر اہتمام قرآن کانفرنسیں معیاری ہی نہیں مثالی قرار دی گئیں. جنہوں نے اہل وطن ہی سے نہیں بیرون ملک مقیم حضرات سے بھی زبردست خراجِ تحسین حاصل کیا. ایک خوشگوار رجحان اور حیرت افزاء بات لوگوں کو یہ محسوس ہوئی، اور ہم اس پر اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرتے ہیں، کہ اختلاف اور افتراق و انتشار کے اس دور میں انجمن نے اپنی قرآن کانفرنسوں کے ذریعے تقریباً تمام مسلمہ فرقوں اور مسلکوں کے اہل علم و فضل حضرات کے لیے ایک پلیٹ فارم مہیا کیا. 

اب تک الحمد للہ آٹھ قرآن کانفرنسیں اور نو محاضرات قرآنی منعقد ہوچکے ہیں جن میں قرآن حکیم کی تعلیمات کو بلند ترین علمی و فکری سطح پر متعارف کرانے کے ضمن میں بلا مبالغہ سینکڑوں مفکرین قرآن اور علمائے دین نے اپنے قرآنی فکر کا نچوڑ پیش کیا. 

(۱). ان میں سے بہت سے حضرات ان ۱۸ برسوں میں اپنے رب کے حضور پہنچ گئے اور اللہ تعالیٰ کی رحمت سے قوی امید ہے کہ وہ سورۃ یونس کی آیات ۱۹ اور ۱۰ کے مصداق بن چکے ہوں گے: 

اِنَّ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ یَہۡدِیۡہِمۡ رَبُّہُمۡ بِاِیۡمَانِہِمۡ ۚ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہِمُ الۡاَنۡہٰرُ فِیۡ جَنّٰتِ النَّعِیۡمِ ﴿۹﴾دَعۡوٰىہُمۡ فِیۡہَا سُبۡحٰنَکَ اللّٰہُمَّ وَ تَحِیَّتُہُمۡ فِیۡہَا سَلٰمٌ ۚ وَ اٰخِرُ دَعۡوٰىہُمۡ اَنِ الۡحَمۡدُ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿٪۱۰﴾ 


ان میں سے جن حضرات کے اسمائے گرامی حافظے میں محفوظ ہیں وہ ذیل میں درج ہیں:

۱. مولانا سید محمد یوسف بنوری رحمہ اللہ تعالی .
۲. مولانا شمس الحق افغانی رحمہ اللہ تعالی 
۳. مولانا حافظ محمد گوندلوی رحمہ اللہ تعالی . ۴.
۵۶. مولانا محمد حنیف ندوی رحمہ اللہ تعالی 
۷. مولانا عبیداللہ انور رحمہ اللہ تعالی . ۸. مولانا سید حامد میاں رحمہ اللہ تعالی 
۹. مولانا سید منتخب الحق قادری ۱۰. مولانا محمد مالک کاندھلوی رحمہ اللہ تعالی 
۱۱. ڈاکٹر منظور احسن عباسی رحمہ اللہ تعالی ۱۲. پروفیسر یوسف سلیم چشتی رحمہ اللہ تعالی 
۱۳. مولانا سید ابوبکر غزنوی رحمہ اللہ تعالی ۱۴. خواجہ غلام صادق صاحب مرحوم
(۲). انجمن کے صدر مؤسس ڈاکٹر اسرار احمد صاحب اور قرآن اکیڈمی کے اعزازی ڈائریکٹر ڈاکٹر ابصار احمد صاحب کے علاوہ وہ حضرات جن کا انجمن کی قرآن کانفرنسوں اور محاضرات کے ساتھ مستقل تعاون رہا، ان میں سے بعض معروف شخصیات کے اسماء گرامی حسب ذیل ہیں. 

۱. مولانا مفتی محمد حسین نعیمی. لاہور. ۲. مولانا محمد طاسین. کراچی
۳. مولانا اخلاق حسین قاسمی. (دہلی) ۴. علامہ سید غلام شبیر بخاری. لاہور. 
۵. ڈاکٹر برہان احمد فاروقی صاحب. لاہور ۶. ڈاکٹر سلیم فارانی صاحب. لاہور
۷. مولانا سید وصی مظہر ندوی. حیدر آباد ۸. مولانا سعید الرحمن علوی صاحب
۹. پروفیسر مرزا محمد منور صاحب. لاہور. ۱۰. جناب خالد ایم اسحاق صاحب. کراچی. 
۱۱. چوہدری مظفر حسین صاحب. لاہور ۱۲. پروفیسر حافظ احمد یار صاحب. لاہور
۱۳. حافظ نذر احمد صاحب. لاہور. ۱۴. مولانا محمد اسحاق بھٹی صاحب. لاہور 
۱۵. مولانا عبدالرحمان مدنی. لاہور ۱۶. ڈاکٹر بشیر احمد صدیقی صاحب
۱۷. ڈاکٹر امان اللہ ملک. لاہور ۱۸. پروفیسر محمد اسلم صاحب. لاہور. 
۱۹. ڈاکٹر خالد علوی صاحب. لاہور

ایسے حضرات جو وقتاً فوقتاً ان قرآن کانفرنسوں کی سرپرستی فرماتے رہے ہیں، ان کی فہرست تو بہت طویل ہے تاہم کچھ کے اسمائے گرامی یہ ہیں: 

۱. مولانا امین احسن اصلاحی صاحب (لاہور). ۲. مولانا ظفر احمد انصاری صاحب (کراچی)
۳. مولانا محمد اسحاق صدیقی صاحب (کراچی). ۴. مولانا عبدالرشید نعمانی صاحب (کراچی)
۵. مولانا محمد اجمل خان صاحب (لاہور) ۶. مولانا عبدالرحمن صاحب (جامعہ اشرفیہ)
۷. مولانا محمد مظہر بقا صاحب (کراچی) ۸. مولانا عبدالکریم پاریکھ صاحب ناگپور (انڈیا)
۹. ڈاکٹر ابو سلمان شاہجہان پوری (کراچی). ۱۰. جسٹس شیخ ظہور الحق صاحب (کراچی)
۱۱. جسٹس تنزیل الرحمن صاحب (کراچی). ۱۲. ڈاکٹر عبدالواحد ہالے پوتہ (حیدرآباد)
۱۳. حکیم عبدالرحیم اشرف صاحب (فیصل آباد) ۱۴. شاہ بلیغ الدین صاحب (کراچی)
۱۵. پروفیسر محمد اقبال (علی گڑھ) ۱۶. پروفیسر عضد الدین صاحب (علی گڑھ)
۱۷. ڈاکٹر عبدالواسع (علی گڑھ) ۱۸. ڈاکٹر محمد یوسف گورایہ (لاہور)
۱۹. پروفیسر رفیع اللہ شہاب صاحب ۲۰ج. علامہ پروفیسر طاہر القادری صاحب. 
۲۱. پروفیسر ڈاکٹر عبدالخالق (لاہور) ۲۲. پروفیسر ڈاکٹر خواجہ امجد سعید صاحب.
۲۳. قاری میر قطب الدین علی چشتی حیدر آباد دکن
۲۴. مولانا محمد موسی خان صاحب (لاہور) ۲۵. مولانا سید محمد متین ہاشمی صاحب (لاہور. 
۲۶. قاری محمد عبدالعلیم (حیدر آباد . دکن)

۱۹۸۱ء سے قرآن کانفرنس کی بجائے قرآنی محاضرات “Quranic Seminars” کے عنوان سے سالانہ پروگرام ترتیب دئیے جاتے رہے جن میں حاضرین بھی تحریری شکل میں مقرر یا مقالہ نگار سے سوال کرتے اور ان کا جواب دیا جاتا. اس طرح ان محاضرات کی وجہ سے ان پروگراموں کی افادیت میں بہت اضافہ ہوگیا. 

ان سالانہ محاضرات کے ضمن میں تین اہم موضوعات جن پر اس سال کے محاضرات کی جملہ نشستیں وقف رہیں. حسب ذیل ہیں. ۱۱۹۸۵ء میں "فرائض دینی کا جامع تصور" کے موضوع پر انجمن کے صدر مؤسس نے ایک مختصر تحریر مرتب کی اور اسے ایک صد سے زائد علماء اور فضلاء کی خدمت میں ارسال کیا تاکہ وہ اس کی تصویب، یا تصحیح کی زحمت گوارا فرمائیں اور انہیں دعوت دی کہ وہ مرکزی انجمن خدام القرآن لاہور اور تنظیم اسلامی کے مشترکہ اجتماع سے خطاب فرمائیں جہاں انجمن کے صدر مؤسس اور امیر تنظیم اسلامی مع اپنے جملہ رفقاء و احباب کے محض سامع ہوں گے تاکہ بحث مباحثہ کی فضا پیدا نہ ہو اور ہمارے جملہ ساتھی اہل علم سے بھرپور استفادہ کرسکیں. یہ محاضرات مسلسل چھ روز تک عصر تا مغرب اور پھر مغرب تا عشاء قرآن اکیڈمی کی کشادہ جامع مسجد میں منعقد ہوئے اور ان میں تقریبا تیس حضرات نے اپنے خیالات کا بھرپور اور بلا جھجک اظہار کیا. جن میں جہاں تصویب و تائید تھی، وہاں تردید و ابطال ہی نہیں تمسخر و استہزاء بھی تھا. اور اس طرح یہ بات عام طور پر تسلیم کی گئی کہ یہ ایک نرالی مثال ہے جس کی کوئی دوسری نظیر کم ازکم عہد حاضر میں موجود نہیں. فالحمد للہ علی ذالک. 

۲. انجمن کے صدر مؤسس نے "استحکام پاکستان" کے موضوع پر کتاب تصنیف فرمائی تو اس پر اسی قسم کے محاضرات جناح ہال لاہور میں چار روز تک منعقد ہوئے اور اس میں علماء اور دینی ذہن رکھنے والے دانشور حضرات کے ساتھ ساتھ سیکولر اور سوشلسٹ خیالات کے حامل حضرات کو بھی اظہار خیال کی کھلی دعوت دی گئی اور بحمد اللہ کوئی تلخ صورت پیدا نہیں ہوئی. 

۳. مارچ ۸۸ء میں لاہور میں حسب معمول جو محاضرات قرآنی جناح ہال میں منعقد ہوئے ان کا مجموعی عنوان "اسلام کا نظام حیات" تھا جس میں مقررین اور مقالہ نگار حضرات نے اسلامی نظام کی نظریاتی اساس یعنی ایمان، اور پھر اسلام کے اجتماعی نظام کے مختلف پہلوؤں یعنی اخلاقی، معاشرتی، معاشی اور سیاسی پر اظہار خیال کیا. 

۴. دسمبر ۱۹۸۸ء میں کراچی کے "ہاشو آڈیٹوریم" میں "اسلام کا نظام حیات" ہی کے موضوع پر دوبارہ محاضرات منعقد ہوئے اگرچہ اس کی نوعیت مختلف رہی. یعنی بجائے اس کے کہ مقتدر اصحاب علم و فضل اظہار خیال کریں ہر روز درج ذیل عنوانات کے تحت ... انجمن کے صدر مؤسس ہی کے نہایت جامع و مانع خطابات ہوئے اور ان کے خطاب کے بعد ماہرین کے ایک پینل کی جانب سے سوالات کے جواب میں اضافی و ضاحتیں ہوگئیں. اس پورے پروگرام کو پڑھے لکھے طبقے نے بہت سراہا. اگرچہ اس میں ایک مرحلے پر کسی قدر تلخی بھی پیدا ہوگئی. 

۱. اسلامی نظام کی نظریاتی اساس
۲. اسلام کا اخلاقی و روحانی نظام.
۳. اسلام کا سماجی و معاشرتی نظام.
۴. اسلام کا سیاسی و ریاستی نظام.
۵. اسلام کا معاشی و اقتصادی نظام.

یہ خطابات کم و بیش دو سوا دو گھنٹے کے دورانئے کے تھے اور لگ بھگ ایک ہزار افراد کے بیٹھنے کی گنجائش کے باوجود تمام راہداریاں اور اسٹیج پر موجود جگہ سامعین سے پر تھی. بہت سے افراد بر آمدوں میں براجمان تھے اور خاصی تعداد میں لوگ ڈاکٹر صاحب کو سننے کی خواہش دل میں لیے ہی واپس گھروں کو لوٹ گئے. تقریبا تین ہفتے بعد ہاشو آڈیٹوریم کراچی میں انجمن کے صدر مؤسس کا ایک اور خطاب اس موضوع پر ہوا کہ اسلامی نظام قائم کیسے کیا جا سکتا ہے اس میں بھی الحمد للہ حاضری بہت تھی. 

مارچ ۱۹۸۹ء میں جناح ہال لاہور میں مذکورہ بالا عنوانات کے تحت پھر تفصیلی خطابات صدر مؤسس ہی کے ہوئے. اگرچہ رونق کے اعتبار سے وہ کراچی کے محاضرات سے خاصے کم تھے!.