الحمد للہ ثم الحمد للہ کہ جس "قرآن اکیڈمی" کا تصور ۱۹۷۶ء میں "اسلام کی نشاۃ ثانیہ" میں پیش کیا گیا تھا اس کا سنگ بنیاد ۱۰ محرم الحرام ۱۴۱۰ھ مطابق ۱۳ جنوری ۱۹۷۶ء کو رکھ دیا گیا. اس موقع پر دیگر حضرات کے علاوہ مولانا امین احسن اصلاحی صاحب بھی موجود تھے جنہوں نے ان مقاصد میں کامیابی کی دعا فرمائی جن کے لیے اکیڈمی کا قیام عمل میں آ رہا ہے. سنگ بنیاد رکھے جانے کے فورًا بعد تعمیر کا کام نہایت تیزی سے شروع کردیا گیا. چنانچہ دسمبر ۷۶ء میں انجمن کے مرکزی دفاتر سمن آباد لاہور کی کرایہ کی عمارت سے قرآن اکیڈمی میں منتقل ہوگئے. اب ایک بہت بڑا مرحلہ اس کی تعمیر کا تھا. چونکہ۶ کنال پر مشتمل ایک قطعہ ارضی انجمن کے مؤسسین ہی میں سے ایک صاحبِ خیر یعنی شیخ محمد عقیل صاحب کی جانب سے فراہم کردیا گیا تھا (جو اس وقت تو ۹۷۳۱۲ روپے کا خریدا گیا تھا لیکن آج کل اس کی مالیت ستر لاکھ روپے سے کم نہیں ہے) لہٰذا زمین کی فراہمی کے سلسلے میں کوئی پریشانی نہیں ہوئی تاہم جو نقشہ پیشِ نظر تھا اس کے لیے تعمیراتی اخراجات کے ضمن میں تیس چالیس لاکھ روپے کی خطیر رقم درکار تھی. بہرحال اللہ تعالیٰ کی مدد اور اس کی نصرت ہی کے بھروسے پر رہائشی کوارٹروں سے تعمیر کا آغاز کردیا گیا. ان آٹھ کوارٹرز کی "تیار چھتیں" انجمن کے صدر مؤسس کے ایک بھائی کی جانب سے بلا قیمت فراہم کردی گئیں اور اس طرح تعمیر کے ابتدائی اخراجات کے ضمن میں بڑی سہولت حاصل ہوگئی. چنانچہ یکم جنوری ۱۹۷۷ء کو صدر مؤسس اور بعض دوسرے کارکنانِ انجمن کی رہائش اور انجمن کے دفاتر قرآن اکیڈمی کی زیر تعمیر عمارت میں منتقل ہوگئے.

ایک محتاط اندازے کے مطابق قرآن اکیڈمی کی تعمیر پر آج تک ۲۹۵۷۴۰۷روپے کا زرِ کثیر خرچ ہوچکا ہے اور یہ سب کچھ اصحاب خیر کے ذاتی انفاق کی بدولت ہوا ہے. اس میں ایک پیسہ بھی حکومت پاکستان یا کسی دوسرے ملک کی گرانٹ یا کسی عرب شیخ کے عطیات پر مشتمل نہیں ہے. 

۱. دار المقامہ
قرآن اکیڈمی کے ہاسٹل کی ابتدائی دو منزلیں مکمل ہوتے ہی بعض ایسے نوجوانوں کو قیام کی سہولت فراہم کردی گئی جو لاہور کے مختلف کالجوں یا یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کر رہے تھے چنانچہ الحمد للہ لگ بھگ ابتدائی پانچ سال قرآن اکیڈمی کے قیام کا ایک مقصد ضمنی طور پر اسی صورت میں پورا ہوتا رہا کہ شام کے اوقات میں ان نوجوانوں کے لیے "عربی زبان کی تحصیل اور مختلف تدریسی پروگراموں" کا اہتمام کیا جاتا رہا...

۲. معہد ثانوی 
اسی طرح ۱۹۸۷ء تا ۱۹۸۰ء چند مڈل پاس طلبہ کو داخلہ کی سہولت فراہم کی گئی جو دو سال میں میٹرک کرلیں اور ساتھ ہی ان کی تعلیم و تربیت کا اہتمام ہوسکے. اس سلسلے میں صرف ایک 
Batch ہی لیا گیا اور بعد میں جب فیلوشپ اسکیم کے اجراء کے لیے زمین ہموار کرنے کا مرحلہ شروع ہوا تو معہد ثانوی کی اسکیم کو بند کردیا گیا. 

۳. شام کی عربی کلاسز 
پنجاب یونیورسٹی ہاسٹلز کے عقب میں قرآن اکیڈمی کی تعمیر کے ضمن میں بنیادی شے جو پیش نظر تھی وہ یہ کہ پنجاب یونیورسٹی کے وہ طلباء جو ہاسٹرلز میں مقیم ہوں ان سے رابطہ کیاجائے اور ان کی توجہات کو قرآن حکیم کی جانب منعطف کرانے کے لیے کوشش کی جائے. اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے گرمیوں کی تعطیلات میں خصوصاً اور بقیہ سال میں عموماً اب تک کثیر تعداد میں عربی کورسز کا اجراء ہوچکا ہے اور بے شمار افراد نے ان کلاسز سے استفادہ کیا. 
۴. ہفتہ وار درسِ قرآن 

اگرچہ قرآن اکیڈمی کی جامع مسجد کا اصل ہال تین چار سال بعد تعمیر ہوا. تاہم اس کے تہ خانے میں ایک بڑا کمرہ جو "لائبریری" کی غرض سے بنایا گیا تھا پنج وقتہ نماز باجماعت کی ادائیگی کے لیے مخصوص رہا.. اسی عرصہ کے دوران اس بیسمنٹ کو یہ شرف بھی حاصل ہوا کہ اس میں مولانا سید ابوالحسن علی ندوی مدظلہ کا ایک مفصل خطاب "قرآن فہمی کے اصول و مبادی" کے موضوع پر ہوا. اگرچہ بعد میں والدِ محترم کی شدید خواہش کے باوجود اپنی ناسازئ طبیعت کے باعث مولانا کسی قرآن کانفرنس یا محاضرات قرآنیہ میں شرکت نہ فرما سکے!

اسی لائبریری ہال میں انجمن کے صدر مؤسس کے ہفتہ وار درس کا آغاز بھی اس منتخب نصاب سے فوراً کردیا گیا تھا جو اس دعوت قرآنی کی اصل اساس ہے جسے انجمن لے کر چل رہی ہے. تاہم بعد میں وہ سلسلہ وار درس قرآن بھی جس کا آغاز ۱۹۶۰ء میں مسجدِ خضراء سمن آباد سے ہوا تھا اور جو بعد میں پہلے مسجد شہداء اور پھر مسجد دار السلام باغ جناح میں منتقل ہوگیا تھا بیسمنٹ کی تعمیر مکمل ہوتے ہی قرآن اکیڈمی منتقل کردیا گیا.. اس درس قرآن کا دورانیہ ہمیشہ لگ بھگ دو گھنٹے پر محیط رہا اور الحمد للہ ثم الحمد للہ جنوری ۱۹۹۰ء میں یہ درس سورۃ قیامہ تک پہنچ گیا ہے. 

۵. فیلوشپ اسکیم 
قرآن اکیڈمی کے قیام کا اصل مقصد یہ تھا کہ ذہین اور اعلی تعلیم یافتہ نوجوانوں کو علمی و فکری سطح پر قرآن حکیم کے علوم و معارف سے روشناس کرایا جائے، کیا عجب کہ چند نوجوان ایسے نکل آئیں جو اپنی زندگیاں "تعلیم و تعلم" قرآن کے لیے وقف کردیں.. یکم جنوری ۱۹۸۲ء میں یہ خواب اس صورت میں شرمندۂتعبیر ہوا کہ پانچ نوجوانوں نے اپنے آپ کو اس مشن اور بلند ترین نصب العین کے لیے وقف کرنے کا فیصلہ کرلیا جنہیں "قرآن اکیڈمی" کے "رفیق" یا فیلو 
(Fellow) قرار دیا گیا. ان پانچ نوجوانوں میں دو ڈاکٹر تھے، ایک ایم. اے فلسفہ، ایک ایم ایس سی بیالوجی، اور ایک ایم ایس سی کیمسٹری. بعد کے دو سالوں میں دو مزید نوجوان جن میں سے ایک ایم اے اسلامیات اور دوسرے ایم ایس سی (جیالوجی) تھے اس فیلو شپ اسکیم سے وابستہ ہوگئے.

مذکورہ بالا سات نوجوانوں میں سے الحمد للہ چار ابھی تک فیلو شپ اسکیم کے ساتھ وابستہ ہیں اور اپنی مقدور بھر سعی و جہد کے ساتھ "دعوت رجوع الی القرآن" کے قافلے میں شامل 
ہیں. ایک ساتھی ڈاکٹر عبدالسمیع صاحب جو ڈینٹل سرجن ہیں واپس فیصل آباد چلے گئے اور وہاں درس قرآن کے علاوہ "تنظیم اسلامی" کی امارت کے فرائض سر انجام دے رہے ہیں. ایک نوجوان ریاض الحق علم حیاتیات میں پی. ایچ ڈی کرنے کا ارادہ رکھتے تھے ان کو پنجاب یونیورسٹی ریسرچ اسکالر کے طور پر کام کرنے کی اجازت دے دی گئی... البتہ ایک ساتھی کو عدم دلچسپی کے باعث فیلوشپ اسکیم سے علیحدہ کردیا گیا. 

فیلو شپ اسکیم کے اجراء کو لگ بھگ ساڑھے آٹھ برس بیت چکے ہیں لیکن الحمد للہ کہ اسکیم سے وابستہ نوجوانوں کی بیشتر صلاحیتیں اور اوقات "دعوتِ رجوع الی القرآن" کے لیے ہی وقف ہیں، خواہ وہ قرآن کالج میں تدریس کی ذمہ داریاں ہوں خواہ انجمن خدام القرآن کی ایڈمنسٹریشن کا کام ہو... خواہ حکمت قرآن اور میثاق کی ایڈیٹنگ ہو، خواہ لاہور کے طول و عرض میں پھیلے حلقہ ہائے دروسِ قران کی ذمہ داریاں ہوں... الغرض جملہ رفقاء اکیڈمی اس ہمہ جہتی کام میں انجمن کے صدر مؤسس اور تنظیم اسلامی کے امیر کے دست و بازو ہیں اور اس طرح گویا "دعوت رجوع الی القرآن" کے قافلے کے ہمراہی بھی ہیں اور انقلاب اسلامی کے "سپاہی" بھی!

۶. دو سالہ تعلیمی و تدریسی کورس 
۸۵.۱۹۸۴ء میں انجمن کے زیر اہتمام ایک دو سالہ کورس کے اجراء کا اہتمام کیا گیا اور نوجوانوں کو اس کی جانب متوجہ کرنے کے لیے ماہنامہ حکمت قرآن اور میثاق سے بھرپور مدد کے علاوہ اخبارات میں اشتہارات کا مہنگا ذریعہ بھی اختیار کیا گیا. 

مزید بر آں، مرکزی انجمن خدام القرآن لاہور کی مجلس منتظمہ نے اتفاق رائے سے ایک بڑے پراجیکٹ کی منظور دیدی اور وہ یہ کہ دو سالہ تعلیمی و تدریسی کورس کے بعض شرکاء کو جو ذہین بھی ہوں اور گریجوایشن اور پوسٹ گریجوایشن کرچکے ہوں لیکن مالی طور پر مستحکم نہ ہوں علی الترتیب مبلغ ایک ہزار روپے اور آٹھ صد روپے ماہانہ اسکالر شپ دیا جائے... الحمد للہ کہ اس نتیجے میں کئی نوجوان جو ہماری دعوتِ رجوع الی القرآن کے ساتھ ذہنی و فکری مناسبت رکھتے تھے، اس اسکیم میں شامل ہوگئے. 

اس مد میں مرکزی انجمن خدام القرآن لاہور نے مبلغ دو لاکھ پچاسی ہزار تین صد چھیاسٹھ (۲۸۵۳۶۶) روپے خرچ کیے.

الحمد للہ کہ اس دو سالہ تعلیمی و تدریسی کورس کو تین گروپوں نے خاطر خواہ کامیابی 
کے ساتھ مکمل کیا اور تقریباً پچاس اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں نے بنیادی عربی قواعد کے علاوہ مطالعہ قرآن حکیم کا منتخب نصاب تفصیلی وضاحت کے ساتھ اور پورے قرآن حکیم کا قواعد کے اجراء کے ساتھ ترجمے کے علاوہ حدیث نبوی اور اصول حدیث اور فقہ اور اصول فقہ کی بھی بنیادی معلومات کی تحصیل کی. ہماری دعا ہے کہ یہ سب آیہ مبارکہ. فَلَوۡ لَا نَفَرَ مِنۡ کُلِّ فِرۡقَۃٍ مِّنۡہُمۡ طَآئِفَۃٌ لِّیَتَفَقَّہُوۡا فِی الدِّیۡنِ وَ لِیُنۡذِرُوۡا قَوۡمَہُمۡ اِذَا رَجَعُوۡۤا اِلَیۡہِمۡ 
ترجمہ: اور کیوں نہ نکلی ان کے ہر گروہ میں سے ایک جماعت تاکہ سمجھ حاصل کرے دین کی، اور پھر باخبر کرے اپنی قوم کو جبکہ ان کے پاس واپس جائے. 

اور نبی کریم  کے اس قول مبارک کو اپنی زندگیوں کا مشن اور نصب العین بنا لیں 
خیرکم من تعلم القرآن و علمہ (دو سالہ کورس کے پہلے گروپ کے سال اول کی روداد انجمن کے صدر مؤسس نے خود اپنے قلم سے تحریر کی تھی جو اس کتاب کے آخر میں بطور ضمیمہ شامل ہے).

کچھ عرصے کے بعد محسوس ہوا کہ بہت سے نوجوانوں کے لیے دو سال نکالنا مشکل ہے، لہٰذا ایسے نوجوانوں کے لیے 
مالا یدرک کلہ لایترک کلہ کے مطابق ایک سالہ کورس جاری کیا گیا جس سے کثیر تعداد میں نوجوان استفادہ کرچکے ہیں.

ہم اس پر اللہ تعالیٰ کا جس قدر شکر ادا کریں کم ہے کہ اس دور میں بھی نوجوانوں میں ایسی سعید روحیں موجود ہیں جو "تابناک مستقبل" کو تج کر تعلیم و تعلم قرآن کو اپنی زندگی کا مشن بنا لیں. اس ضمن میں ایک تازہ ترین مثال دوسروں کی حوصلہ افزائی کے لیے مفید ہوگی ... ایک نوجوان نے جو سرزمین امریکہ سے سٹرکچرل انجینئرنگ 
(Structural Engg.) میں ایم ایس سی کرکے حال ہی میں پاکستان واپس آئے تھے، میثاق اور حکمت قرآن میں ایک سالہ تعلیمی و تدریسی کورس کے بارے میں پڑھا تو اس میں شمولیت کے لیے لاہور پہنچ گئے: کورس کے تمام امتحانات امتیازی حیثیت میں پاس کیے اور اب چراغ سے چراغ روشن کرنے کے مصداق قرآن کالج اور ایک سالہ تربیتی کورس میں تدریس عربی کی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں. اور اب فلسفہ میں ایم اے کا امتحان پاس کرنے کی تیاری کر رہے ہیں تاکہ حکمتِ قرانی کو فلسفہ کی اعلیٰ سطح پر پیش کرسکیں. اللہم زد فزد.