اگر والدِ محترم کی انجمن کے قیام سے آج تک دعوتی و تبلیغی سرگرمیوں کی ایک رپورٹ مرتب کرنا ہو تو اس کے لیے بلا مبالغہ کئی ہزار صفحات پر مشتمل ایک ضخیم تصنیف درکار ہوگی.... اس ضمن میں ان کے جذبے اور جوش و خروش کا عالم بعینہ وہی رہا ہے جو فیض کے ان اعشار سے ہویدا ہے ؎

واپس نہیں پھیرا کوئی فرمانِ جنوں کا
تنہا نہیں لوٹی کبھی آواز جرس کی
خیریتِ جاں، راحتِ تن، صحت داماں
سب بھول گئیں مصلحتیں اہل ہوس کی

اور صورت یہ نہیں کہ یہ کیفیت صرف ابتداء کے پانچ چھ سال ہی رہی ہو بلکہ آج بھی "اگر سورۃ العصر" کا درس دینا ہو تب بھی شوق اور لگن اور مخاطب کو قائل (Convince) کرنے کا وہی جذبہ نظر آتا ہے جو آج سے ۲۴ سال پہلے تھا. حالانکہ بلا مبالغہ سورۃ العصر کا درس انہوں نے سینکڑوں مرتبہ دیا ہوگا. اسی طرح کل ۲۴ صفحات پر مشتمل کتابچہ "اسلام کی نشاۃ ثانیہ" بھی بیسیوں مرتبہ پڑھانے کے باوجود حال ہی میں ایک سالہ کورس کے طلباء کو جن کی تعداد ۱۸ سے زیادہ نہیں ہے، یہ کتاب پڑھانے کا موقع ملا تو اس طرح ڈوب کر پڑھایا کہ چار دن میں تقریباً دو گھنٹے روزانہ کے لیکچر سے اس کی تکمیل ہوئی. "ذلک فضل اللہ یوتیہ من یشاء واللہ ذو الفضل العظیم" ۱. خطبات جمعہ 

ہمارے دین میں عوام کے اذہان کو قرآنی تعلیمات کی جانب موڑنے اور ذہنی و فکری تطہیر کے ضمن میں جمعۃ المبارک کے خطاب کی بہت اہمیت ہے. ہر وہ شخص جس کا کچھ تعلق بھی اسلام کے ساتھ ہے وہ کم از کم جمعہ کی نماز یا اس سے متصل تقریر کا آخری حصہ ضرور سنتا ہے. اب یہ ہمارے خطباء اور علمائے دین کی ذمہ داری ہے کہ وہ قصہ کہانیوں یا گروہی تعصبات کے فروغ کی بجائے صحیح اسلامی روح پیدا کرنے کی کوشش کریں. والد محترم کے خطبات جمعہ کا آغاز لاہور میں مسجد خضراء سمن آباد سے ۱۹۶۸ء میں ہوا. جہاں بالکل آغاز ہی میں "مسلمانوں پر قرآن مجید کے حقوق" کے عنوان سے دو تفصیلی خطاب ہوئے، جنہیں بعد میں ایک کتابچے کی صورت میں شائع کیا گیا جو بلاشبہ دعوتِ رجوع الی القران کے ضمن میں ایک اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے. مسجد خضراء میں خطاب جمعہ کا سلسلہ تقریبا دس سال تک یعنی ۱۹۷۷ء تک جاری رہا. اور اس زمانے میں پورے شہر میں ایک یہی مسجد تھی جس میں نماز جمعہ ادا کرنے اور خطبہ جمعہ سننے کے لیے باذوق حضرات لاہور کے دور دراز گوشوں کے علاوہ بیرون لاہور سے بھی آتے تھے. 

مسجد دار السلام لاہور. میں خطاب جمعہ کا آغاز ۷۷ء میں ہوا. کرنل سلامت اللہ مرحوم و مغفور کی شدید خواہش کا احترام کرتے ہوئے والد محترم نے اس مسجد میں جمعہ کے خطابات کا ذمہ لیا. یہ خطابات انتہائی باقاعدگی کے ساتھ لگ بھگ ڈیڑھ پونے دو گھنٹے دورانیے پر محیط ہوتے ہیں. ان میں صرف دروسِ قران پر ہی اکتفا نہیں کیا جاتا بلکہ ملک و ملت کو درپیش مسائل اور ان کے صحیح حل کی نشان دہی کی جاتی ہے. جمعۃ المبارک کے دن ساڑھے گیارہ بجے سے ڈیڑھ بجے تک اس مسجد میں جو رونق رہتی ہے وہ اپنی مثال آپ ہے اگرچہ لگ بھگ دو ڈھائی ہزار نمازیوں میں سے بڑی تعداد ان کی بھی ہوتی ہے جو تقریر کے آخری نصف گھنٹہ یا بیس منٹ میں شریک مجلس ہوتے ہیں لیکن دور دراز کے مقامات سے درس قرآن کو سننے یا درپیش صورت حال میں والد محترم کی رائے معلوم کرنے کے لیے ابتداء ہی سے شریکِ محفل رہنے والے بھی سینکڑوں میں ہوتے ہیں. 

یہی معاملہ خطبات عید کا بھی ہے. چنانچہ اول وقت میں نماز عید کی ادائیگی اور بعد میں نصف یا پون گھنٹے کے خطاب کو سننے کے لیے ’باغ جناح‘ میں لوگوں کا ہجوم ’قابل دید‘ ہوتا ہے. اندازہ یہ ہے کہ سینکڑوں کی تعداد میں شرکاء تو نماز فجر کے فوراً بعد ہی باغ جناح کے لیے روانہ ہوجاتے ہیں تاکہ ’ڈاکٹر صاحب‘ کے نزدیک جگہ پاسکیں! 
۲. منھج انقلابِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم 

"اسلامی انقلاب اور اس کے تقاضے" اور سیرت النبی  سے "منھج انقلابِ نبوی" یعنی طریق انقلاب اسلامی کا استنباط وہ موضوع ہے جو ہمیشہ سے والد محترم کے پیش نظر رہا ہے. لہٰذا جب کبھی سیرت النبی کے جلسوں یا مجلسوں سے خطاب کرنے کا موقع میسر آیا تو وہ صرف فضائل و مناقب رسول اللہ  کے بیان کرنے پر ہی اکتفا نہیں کرتے بلکہ سیرت مطہرہ کے حوالے سے اسی دعوتی اور انقلابی جذبے کی آبیاری کی امکانی کوشش کرتے ہیں جو اگر اللہ تعالیٰ کو منظور ہوا تو عالمگیری اسلامی انقلاب کا پیش خیمہ بن سکتا ہے. 

یوں تو سیرت النبی کے موضوع پر تقریروں کا آغاز والد محترم کے اوائل عمری سے ہوگیا تھا، پھر جیسے کہ پہلے بیاں ہوچکا ہے قرآن اکیڈمی کے قیام اور وہاں رہائش اختیار کرنے کے فوراً بعد گویا ۱۹۷۸ء کو تو مرکزی انجمن خدام القرآن لاہور کے "سیرت النبی کا سال" کی حیثیت حاصل ہے. اس کے بعد جب مرحوم صدر ضیاء الحق صاحب نے سیرت کانفرنسوں کے انعقاد کا سلسلہ شروع کیا تو ۷۹ء تا۸۳ء ملک کے طول و عرض میں بلا مبالغہ سینکڑوں تقاریر والد محترم نے سیرت النبی کے موضوع پر کیں. جن کے دوران خود ان کے بقول سیرت مطہرہ کے بہت سے گوشے ان پر پہلی بار منکشف ہوئے. چنانچہ ۱۹۸۴ء کے اواخر میں مسجد دار السلام باغ جناح میں سیرت النبی  سے اخذ کردہ "انقلاب اسلامی کا منھج" کے موضوع پر گیارہ تقاریر ہوئیں. بعد میں یہی خطابات "منھج انقلاب نبوی" کے عنوان سے مکتبہ انجمن نے تین صد چوراسی (۳۸۴) صفحات پر مشتمل ایک ضخیم کتاب کی صورت میں شائع کیے. اس کو مرتب کرنے میں ہمارے بزرگ رفیقِ کار جناب شیخ جمیل الرحمن صاحب کی شب و روز کی محنت شامل ہے. ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ شیخ صاحب موصوف کی اس گراں قدر محنت کو قبول فرمائے، انہیں صحت سے نوازے اور آخرت میں ان کو بہترین اجر و ثواب عطا فرمائے. (آمین). اس لیے کہ ان خطابات کو صفحۂ قرطاس پر منتقل کرنے کا کام اس قدر مشکل کام ہے کہ دانتوں پسینا آتا ہے. 
"فجزاہ اللہ عنا خیر الجزاء" 
۳. نماز تراویح کے ساتھ دورہ ترجمہ قرآن

سمن آباد سے قرآن اکیڈمی میں منتقل ہونے کے بعد سے الحمد للہ کہ شاید ہی کوئی ماہِ رمضان المبارک ایسا گزرا ہو جس کے دوران قیام اللیل یا تراویح میں پڑھے جانے والے حصے کی مختصر تشریح کا سلسلہ جاری نہ رہا ہو. پانچ سال قبل یہ معاملہ اپنے نقطۂ عروج (Climax) کو پہنچ گیا جب نماز تراویح کے ساتھ کامل دورۂ ترجمہ قرآن کا پروگرام شروع ہوا... یہ قرآن حکیم کے اعجاز ہی کا ایک پہلو ہے کہ نماز عشاء سے صبح سحری کے وقت تک پورے ماہ مبارک کے دوران لگ بھگ دو صد یا ڈھائی صد اور شب جمعہ کو، اور آخری عشرے میں پانچ صد سے زائد افراد (جن میں اچھی بھلی تعداد خواتین کی بھی شامل ہوتی ہے) کامل دلجمعی کے ساتھ قرآن حکیم کے بیان کو سنتے رہتے ہیں. اوسطاً ساڑھے تین گھنٹے روزانہ کا بیان القرآن اور لگ بھگ دو گھنٹے جو نماز تراویح اور فرض نماز کی ادائیگی میں صرف ہوتے ہیں اور اگر گھر سے آمد و رفت کا وقت بھی شامل کریں تو لگ بھگ ساڑھے چھ گھنٹے روزانہ رات کو جاگنے کا پروگرام اور وہ دبھی دن کے اوقات میں دفتری اور کاروباری امور کی انجام دہی کے ساتھ، یہ اللہ تعالیٰ کے اس کلامِ پاک کا اعجاز نہیں تو اور کیا ہے؟ مزید بر آں دن میں روزے کی مشقت اور بھوک پیاس برداشت کرنے اور افطاری کے بعد طبیعت میں ایک نوع کی کسل مندی اور استراحت کی جانب رجحان کا پایا جانا ایک طبعی امر ہے. لیکن قرآن حکیم کے بیان میں وہ حلاوت اور مقناطیسیت موجود ہے کہ ایک عام فہم انسان بھی اس کے ساتھ ایک لگاؤ اور دلچسپی محسوس کرتا ہے. جنہوں نے بھی ماہِ رمضان المبارک کی راتیں اس کیفیت کے ساتھ بسر کی ہیں ان کا بیان جو عموماً سننے میں آیا وہ یہ ہے کہ ایک ماہ کی مدت میں پورے قرآن حکیم میں سے "گزر" جانا اور وہ بھی آیات کے باہمی ربط اور ہر سورت کے مرکزی مضمون کی وضاحت ایک ایسا تجربہ ہے جس کی اثر آفرینی اور حلاوت و شیرینی بیان سے باہر ہے. ؏ . "لذت ایں بادہ نہ دانی بخدا تا نہ چشی". 

اس "دورۂ ترجمہ قران" کو آڈیو کیسٹ میں تو بہت پہلے محفوظ کرلیا گیا تھا. ۱۹۸۸ء کے رمضان المبارک میں اسے ویڈیو کیسٹس پر بھی محفوظ کرلیا گیا. اور اس کی ایک صد سے زائد کاپیاں چند ماہ ہی میں نکل گئیں. ۳۰ عدد ویڈیو کیسٹس کا سیٹ جس کا ہدیہ مبلغ پانچ ہزار دو صد پچاس روپے بنتا ہے اتنی بڑی تعداد میں نکل جانا اس بات کا ثبوت ہے کہ دورۂ ترجمہ قرآن کا یہ پروگرام نہ صرف تذکیر بالقرآن بلکہ خود تعلیم قرآن کے اعتبار سے انتہائی افادیت کا حامل ہے. 
"ولقد یسرنا القرآن للذکر فہل من مدکر" 

۴. کتابچوں کی مفت تقسیم
انجمن کی جانب سے صدر مؤسس کے کتابچے طبع کراکے مختلف موقعوں پر لوگوں میں تقسیم کیے جاتے رہے ہیں. رمضان المبارک کے موقع "روزہ اور قرآن" سے متعلق رسول اکرم  کا خطبہ (جو رمضان کی آمد پر ارشاد فرمایا گیا) ہزاروں کی تعداد میں چھپوا کر لاہور اور کراچی میں تقسیم کیا گیا. یہ کتابچہ کئی سال تقسیم کیا گیا. اسی طرح عید الاضحیٰ کے موقع پر صدر مؤسس کا مضمون "حج اور عید الاضحیٰ اور ان کی اصل روح قرآن حکیم کے آئینہ میں" ہزاروں کی تعداد میں کتابچہ کی صورت میں چھپوا کر مفت تقسیم کیا جاتا رہا. صدر مؤسس کا ایک اور مضمون "انقلاب نبوی کا اساسی منہاج" بھی چھپوا کر مفت تقسیم کیا گیا. ایک صاحب خیر کے تعاون سے مکتبہ انجمن کی جانب سے شائع کردہ کتب "دعوت الی اللہ" اور "راہ نجات" دس دس ہزار کی تعداد میں چھپوا کر تبلیغی جماعت کے سالانہ اجتماع منعقدہ رائے ونڈ میں حاضرین میں تقسیم کی گئیں. "اسلام کی نشاۃ ثانیہ" دو ہزار کی تعداد میں اور "مسلمانوں پر قرآن مجید کے حقوق" ایک ہزار نسخے مفت تقسیم کیے گئے. مختلف اوقات میں ایسے دو ورقے بھی شائع کیے گئے. 

۵. اخبارات میں مضامین
ابلاغ عامہ کا ایک اہم ذریعہ اخبارات ہیں.ان میں جو چیز شائع ہوتی ہے وہ ان کے لاکھوں قارئین تک پہنچتی ہے. اس ذریعہ ابلاغ سے پورا فائدہ اٹھانے کی کوشش کی گئی اور صدر مؤسس کے اہم مضامین ان میں شائع کرائے گئے. مضامین کی اگر فہرست دی جائے تو وہ بہت طویل ہوجائے گی مختصراً یہ ہے کہ پاکستان کے تمام قومی اردو و انگریزی اخبارات جنگ، نوائے وقت، مشرق، جسارت، وفاق، امروز، پاکستان ٹائمز، ڈان اور مسلم میں وقتاً فوقتاً ڈاکٹر صاحب کے مضامین شائع ہوتے رہے. کراچی کے انگریزی روزنامہ "ڈان" میں تو ڈاکٹر صاحب کا مضمون "مسلمانوں پر قرآن مجید کے حقوق" قسط وار شائع ہوتا رہا.

پاکستان کے متعدد رسائل و جرائد میں بھی صدر مؤسس کے مضامین شائع ہوتے رہے. بیرون ملک انگریزی ہفت روزہ ریڈینس 
(Radiance) جو جماعت اسلامی ہند کا پرچہ ہے، میں بھی ڈاکٹر صاحب کے متعدد مضامین شائع کرائے گئے. اسی طرح رابطہ عالم اسلامی کے ترجمان ماہنامہ “Journal” مکہ مکرمہ میں بھی صدر مؤسس کے کئی مضامین شائع ہوئے، بعد ازاں روزنامہ "جنگ" کے جملہ ملکی اور غیر ملکی ایڈیشنوں میں جناب صدر مؤسس کی دو کتابیں "استحکام پاکستان" اور "مسئلہ سندھ" شائع ہوئیں اور پھر ایک عرصہ تک مطالعۂ قرآن حکیم کے منتخب نصاب کے اسباق شائع ہوتے رہے. 

۶. ریڈیو اور ٹیلی ویژن
ٹیلی وژن کے آجانے کے بعد گو ریڈیو کی اہمیت اب پہلے جیسی نہیں رہی ہے لیکن اب بھی دور افتادہ مقامات یعنی دیہات جہاں ملک کی کثیر آبادی رہتی ہے اور بیرونی ممالک میں ہماری آواز ریڈیو ہی کے ذریعہ پہنچتی ہے. چنانچہ ریڈیو پر تقاریر اور درس قرآن کے لیے صدر مؤسس کو دعوت دی جاتی رہی اور موصوف نے بعض مرتبہ "قرآن حکیم اور ہماری زندگی" کے ہفتہ وار پروگرام میں پوری پوری سہ ماہی درس قرآن دیا. اس سلسلہ میں سورۂ انفال ، سورۂ اعراف اور سورۂ انعام کے بعض مقامات زیر درس رہے. "قرآن حکیم کی سورتوں کے پہلے تین گروپوں کے مضامین کا اجمالی تجزیہ" پندرہ نشری تقریروں میں کیا گیا. ان کے علاوہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ ، الحیاء شعبۃ من الایمان، اسلام کی عیدیں، نبی اکرم بحیثیت منتظم، صراط مستقیم، آیۃ الکرسی، انفاق فی سبیل اللہ، شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللہ تعالی اور اسی طرح کے دیگر عنوانات پر تقاریر کی گئیں.

ذرائع ابلاغ میں سب سے اہم ذریعہ ٹیلی وژن ثابت ہوا ہے. ٹیلی وژن پر صدر مؤسس کا سب سے پہلا پروگرام "الکتاب" کے عنوان سے ۸۷ء کے رمضان المبارک میں شروع ہوا. اس تیس روزہ پروگرام میں محترم صدر مؤسس روزانہ مختصر وقت میں ایک پارہ کا خلاصہ نہایت سلیس اور دلنشین انداز میں پیش فرماتے تھے. صدر مؤسس کو جب اس پروگرام کی دعوت دی گئی تو موصوف کو ٹیلی وژن پر پروگرام پیش کرنے پر تردد تھا اور آپ نے انکار کردیا تھا لیکن انجمن کی مجلس، منتظمہ کے اصرار پر قبول کیا. الحمد للہ یہ پروگرام اس قدر مقبول ہوا کہ ٹیلی وثن کے ارباب اختیار نے دوسرے سال رمضان المبارک میں دوبارہ اسے ٹیلی کاسٹ کیا. ۸۰ء کے رمضان المبارک میں روزانہ صدر مؤسس نے "الم" کے زیر عنوان پروگرام پیش فرمایا. یہ پروگرام در اصل حروفِ مقطعات سے شروع ہونے والی سورتوں کے دورس پر مشتمل تھا. ۸۱ء میں صدر مؤسس کے قرآنِ حکیم کے منتخب نصاب پر مشتمل دروسِ قرآن کا مشہور پروگرام "الہدیٰ" شروع ہوا. اس کا آغاز اپریل ۸۱ء کے آخری ہفتے سے ہوا. لوگوں کا کہنا ہے کہ پاکستان ٹیلی وژن اپنی پوری تاریخ میں اس سے بہتر پروگرام پیش نہیں کرسکا. اس کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ جس وقت یہ ٹیلی کاسٹ ہوتا تھا پورے پورے گھرانے اپنے تمام کام کاج سے قبل از وقت فراغت حاصل کرکے اس کے انتظار میں ٹیلی وژن کے سامنے بیٹھ جاتے تھے. کثیر تعداد ایسے لوگوں کی ہے جن کی زندگیوں میں اس پروگرام سے انقلاب آ گیا. یہ سب اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم تھا. لیکن الحاد و بے دینی کی قوتوں، مغربی تہذیب کے متوالوں، سرخ سویرے کے پجاریوں اور حاسدین و معاندین کو یہ کب گوارا تھا چانچہ اس پروگرام کو بند کرانے کے 
لیے اندرون خانہ سازشیں شروع کردی گئیں اور افسوس کہ اس پروگرام کے حق میں زبردست عوامی رد عمل کے باوجود سازشیں کامیاب ہوگئیں اور یہ پروگرام جون ۸۲ء میں بند کردیا گیا جب کہ قرآن حکیم کا منتخب نصاب نصف باقی تھا. 

ان کے علاوہ بھی صدر مؤسس کے متعدد پروگرام ٹیلی کاسٹ کیے گئے. جنوری ۸۱ء میں ماہ ربیع الاول کے ابتدائی بارہ روز "رسول کامل" کے عنوان سے بارہ تقاریر کی گئیں. "ام الکتاب" کے زیر عنوان تین تقاریر ہوئیں. اکل حلال، بنیادی حقوق، حی علی الصلوۃ، اسماء ربانی ، القرآن اور اسی طرح کے دیگر عنوانات کے تحت صدر مؤسس کی متعدد تقاریر ٹیلی کاسٹ ہوئیں. 

۷. شامِ الہدی. کراچی 

ستمبر ۸۴ء سے تاج محل ہوٹل کراچی کے وسیع و عریض آڈیٹوریم میں ہر انگریزی مہینے کے آخری سوموار کو پاکستان ٹیلی وژن کے مذہبی پروگراموں کے سلسلے "الھدی" کے عنوان سے درس قرآن کا سلسلہ شروع کیا گیا. اس میں شائقینِ علم قرآن اتنی کثیر تعداد میں شریک ہوتے تھے کہ تقریباً ڈیڑھ ہزار سے زائد افراد کی گنجائش ہونے کے باوجود آڈیٹوریم کا وسیع و عریض ہال تنگی داماں کا شکوہ کرتا نظر آتا تھا. جب تمام راہداریاں اور اسٹیج کی خالی جگہ بھی پر ہوجاتی تھی تو بہت سے لوگوں کو مایوس لوٹنا پڑتا تھا .... یہ اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم ہے کہ اس کتاب عزیز کو سمجھنے کی غرض سے اتنی بڑی تعداد میں پڑھے لکھے لوگ جمع ہوتے رہے اور تین سارھے تین گھنٹے کی طویل نشست میں ہمہ تن اور ہمہ گوش ہوکر قران حکیم کے درس کی سماعت فرماتے رہے. 

شامِ الہدیٰ کراچی کی افادیت کو دیکھتے ہوئے واپڈا آڈیٹوریم لاہور میں شامِ الہدی لاہور کا ماہانہ درس قرآن کا پروگرام شروع کیا گیا جو کراچی ہی کی طرح انتہائی کامیاب رہا. 

۸. کمیونٹی سنٹر اسلام آباد
اسی طرح اسلام آباد کے مرکزی حصے میں واقع کمیونٹی سنٹر کے وسیع و عریض ہال میں ہر ماہ کے پہلے سوموار کو دروس قرآن کے پروگرام شروع کیے گئے. اسلام آباد میں جو "بیوروکریٹس کا شہر" کے نام سے پہچانا جاتا ہے، ان پروگراموں میں اوسطاً چار پانچ صد اعلیٰ تعلیم یافتہ حضرات یکسوئی کے ساتھ سماعت فرماتے تھے. ایسا شہر، جہاں درس قران کے عنوان سے کسی جگہ چالیس پچاس افراد کا جمع ہونا بھی شاذ و نادر ہی ہوتا تھا، اہلیان اسلام آباد کے لیے بہت ہی انوکھی بات تھی اور وہاں کے دینی حلقوں میں اسے ایک نیک شگوں سمجھا گیا. ۳. ایڈمنسٹریٹو اسٹاف کالج اور "نیپا" 

(NIPA) 
کے تربیتی پروگراموں میں کچھ لیکچرز دینی موضوعات پر بھی شامل ہوتے ہیں. ان دونوں اداروں کے ماہانہ یا سہ ماہی پروگراموں میں انجمن کے صدر مؤسس بڑی باقاعدگی کے ساتھ حاضری دیتے رہے. تقریباً تین چار گھنٹے پر محیط ان پروگراموں میں لیکچر کے علاوہ سوال جواب اور دین کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کا کھلے دل سے موقع ہوتا تھا. چنانچہ ان پروگراموں میں شریک ہونے والے بہت سے اعلی افسروں کے خطوط موصول ہوتے رہے کہ دین کی بعض حقیقتوں کو جس انداز میں ڈاکٹر صاحب نے سمجھایا اس کی نظیر نہیں مل سکی. "ذلک فضل اللہ یوتیہ من یشاء"

؎ ایں سعادت بزور بازو نیست
تا نہ بخشد، خدائے بخشندہ

۱۰. بیرون ملک سفر 

جولائی ۱۹۸۷۹ء میں والد محترم کا پہلا تبلیغی سفر سرزمین امریکہ کا ہوا. وہاں پر اقامت گزیں ہونے والے بہت سے پاکستانی تعطیلات وغیرہ میں پاکستان آمد پر والد محترم کے دروسِ قرآن میں شرکت کرتے رہے تھے چنانچہ ان کی جانب سے امریکہ کا سفر کرنے کی پر زور دعوت موصول ہوئی تھی ... امریکہ کے اس پہلے سفر نے وہاں پر موجود برّصغیر کے پڑھے لکھے مسلمانوں میں ایک خوشگوار تاثر چھوڑا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ۷۹ء کے بعد سے سوائے ایک سال کے ہر سال امریکہ و کینیڈا کا سفر ہوتا رہا. اور ایک سال کے ناغے کا جرمانہ، اس شکل میں ادا کرنا پڑا کہ .... ایک سال دو بار جانا پڑا. بھارت کے شہر حیدار آباد دکن کے مسلمانوں کی بڑی تعداد بھی امریکہ میں آباد ہے. ان حضرات نے حیدر آباد دکن میں موجود اپنے اعزہ و اقارب کو والد محترم کے امریکہ کے دروس کے آڈیو کیسٹس ارسال کیے جو بہت ذوق و شوق سے سنے گئے. جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ حیدر آباد(دکن) سے پر زور تقاضا آگیا اور یوں وہاں بھی دعوت رجوع الی القرآن کی تخم ریزی کے مواقع فراہم ہو گئے. ۸۴ء سے ۸۹ ء تک بھارت کے چار بھرپور تبلیغی دورے ہوچکے ہیں. 

ریاست ہائے امریکہ وکینیڈا ہی سے بعض حضرات نے والد محترم کے کیسٹس ابو ظہبی ارسال کیے. وہاں بھی دین کا درد رکھنے والے حضرات کے سامنے "قرآن حکیم" کے بیان کا ایک نیا اسلوب سامنے آیا، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ۱۹۸۰ء دسمبر میں ابو ظہبی میں مقیم 
مسلمانانِ پاک و ہند کی جانب سے شدید تقاضے کے نتیجے میں ’المرکز الباکستانی‘ کے وسیع و عریض ہال میں مسلسل نو روز تک دروسِ قرآن اور خطابات کی محافل ہوتی رہیں. چونکہ ان محافل کے ویڈیو کیسٹس تیار کروالیے گئے تھے ، لہٰذا بعد میں ان نو ویڈیو کیسٹس کا سیٹ حد درجہ مقبول ہوا اور اس کی قبولیت کی صدائے باز گشت وقتاً فوقتاً سننے میں آتی رہتی ہے. 

ایک پندرہ سالہ میٹرک پاس نوجوان کی حیثیت سے ہندوستان سے پاکستان ہجرت کرتے وقت جو پاک ہند سرحد والد محترم نے ۱۹۴۷ء میں عبور کی تھی، اسے دوبارہ پاکستان سے بھارت کے پہلے سفر کے وقت پورے ثلث صدی بعد یعنی ۱۹۸۰ء میں عبور کی تھی، اس کے بعد بھی دو ایک سفر مزید ہوئے تاہم والد محترم کے بھارت کے تبلیغی دوروں کا آغاز ۱۹۸۴ء میں ہوا. اس کے بعد بعض موانع کے باعث ہر سال تو یہ دورہ نہیں ہوسکا اگرچہ اس کا شدید تقاضا بالخصوص حیدر آباد دکن کے احباب کی جانب سے جاری رہا البتہ ۱۹۸۴ء سے ۱۹۸۹ء تک کے عرصہ کے دوران، والد محترم، نے بھارت کے چار بھرپور دورے کیے. جن کے دوران زیادہ قیام اور سب سے زیادہ پرہجوم پروگرام تو حیدر آباد دکن ہی میں ہوئے البتہ دہلی، علی گڑھ، مدراس، بنگلور وغیرہ میں بھی کئی اجتماعات سے خطاب کا موقع ملا. جن کے ذریعے قرآن کی دعوتِ انقلاب صنم خانۂ ہند میں بھی گونجی. کیا عجب کہ اللہ تعالیٰ اس سرزمین کے بارے میں حضرت مجدد الف ثانی اور شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللہ تعالی کی خوش آئندپیشین گوئیوں کے پورا ہونے میں اس دعوت قرآنی کی تاثیر کو بھی شامل فرما دے. 
وما ذلک علی اللہ بعزیز.