از قلم: جمیل الرحمن
(ماخوذ از میثاق مارچ ۱۹۷۷ء 

لاہور

بفضلہٖ تعالی و عونہ لاہور میں مسجد شہداء میں ہر اتوار کی صبح کو ۹ بجے درسِ قرآن کا سلسلہ جاری ہے. آج کل سورۃ النساء زیر مطالعہ ہے. الحمد للہ! تا دمِ تحریر اس سورۂ مبارکہ کے نو رکوع کا مطالعہ کیا جا چکا ہے. اس درسِ قرآن کو لاہور میں مرکزی حیثیت حاصل ہے. حاضری اکثر پانچ سو سے بھی متجاوز ہوجاتی ہے جن میں عظیم اکثریت اعلیٰ تعلیم یافتہ حضرات کی ہوتی ہے. خواتین کے لیے پردے کا بھی انتظام ہوتا ہے. 

مسجد خضراء میں خطبۂ جمعہ سے قبل "اربعین نووی" سے درسِ حدیث ہوتا ہے. تادمِ تحریر تیس احادیث کا مطالعہ مکمل ہوچکا ہے. نمازِ جمعہ کے بعد درسِ قرآن ہوتا ہے. اس مسجد میں تقریباً ساڑھے چار سال قبل سلسلہ وار درسِ قرآن شروع ہوا تھا. آجکل سورۂ مریم زیر مطالعہ ہے، جس کے چار رکوع مکمل ہوچکے ہیں. اس درس میں اوسط حاضری دو سو کے لگ بھگ ہوتی ہے. اس مسجد میں بھی خواتین کے لیے پردے کا انتظام ہوتا ہے. 
یکم جنوری ۱۹۷۷ء کو ۱۰ محرم الحرام کی تاریخ تھی. چنانچہ اس روز بعد نمازِ مغرب ڈاکٹر صاحب نے مسجدِ خضراء میں "عظمتِ صحابہ" پر تقریر فرمائی. اس مجلس کے دوسرے مقرر جناب میاں عبدالرشید صاحب تھے. 

لاہور میں مختلف کالجوں اور دینی، رفاہی اور ثقافتی اداروں سے ڈاکٹر صاحب کو مسلسل خطاب اور درس کے دعوت نامے موصول ہوتے رہتے ہیں. ڈاکٹر صاحب کی مختص مصروفیات کے پیش نظر ہرجگہ وقت دینا بڑا مشکل ہوتا ہے، تاہم امکان بھر کوشش کی جاتی ہے کہ دعوت پہنچانے کے ہر موقع سے فائدہ اٹھایا جائے. چنانچہ ۸ جنوری ۱۹۷۷ء کو ایف سی کالج کی جونئیر بیالوجی سوسائٹی کے عہدیداران کی رسمِ حلف برداری میں ڈاکٹر صاحب نے شرکت کی اور اس موقع پر کالج میں ارتقائے انسان اور قرآن کے موضوع پر خطاب کیا. اس موقع پر کالج کے وائس پرنسپل اور شعبے کے تمام پروفیسرز اور لیکچررز صاحبان نے برملا کہا کہ ہمیں آج معلوم ہوا ہے کہ سائنسی حقائق کے لیے قرآن مجید میں محکم شواہد اور واضح اشارات موجود ہیں.

۲۷ جنوری ۱۹۷۷ء کو ڈاکٹر صاحب نے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف پبلک ایڈمنسٹریشن لاہور میں اسلام میں ترقی کا مفہوم کے موضوع پر لیکچرد یا. اس ادارے کے تحت وفاقی اور صوبائی حکومت کے اعلی افسران کی تربیت کے لیے مختلف کورسوں کا انتظام ہوتا ہے. اسی ادارے میں ڈاکٹر صاحب نے ۲ فروری کو دوسرا لیکچر "اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے لیے احیائی عمل" کے موضوع پر دیا. یہ دونوں لیکچرز بے حد پسند کیے گئے. 

۴ فروری ۱۹۷۷ء کے جمعہ کو ڈاکٹر صاحب نے مسجد خضرا کے بجائے پی.اے. ایف بیس لاہور 
چھاؤنی کی جامع مسجد میں خطبۂ جمعہ سے قبل "اسلام کا فلسفۂ شہادت و جہاد" کے موضوع پر خطاب کیا. اس بیس میں چار مساجد ہیں، لیکن ڈاکٹر صاحب کے خطاب کی وجہ سے اس جمعہ کو تین مساجد میں جمعہ کا اہتمام نہیں کیا گیا تاکہ تمام نمازی جامع مسجد میں ڈاکٹر صاحب کے خطاب میں شریک ہوسکیں. جامع مسجد کھچا کھچ بھری ہوئی تھی. مسجد کے باہر میدان میں کافی صفوں کا انتظام تھا. تقریبا صفیں ایک بجے تک ہی پر ہوگئیں. 

اسی روز ریواز گارڈن کی جامع مسجد میں نمازِ عصر کے بعد ڈاکٹر صاحب نے ایک خطبۂ نکاح ارشاد فرمایا. اس موقع پر لوگوں کو توجہ دلائی گئی کہ شادی بیاہ کی تقاریب کو سنت کے مطابق انجام دینے کی کوشش و اصلاح معاشرہ کے نقطۂ نظر سے بہترین کاموں میں سے ہے. 
۱۶ فروری ۱۹۷۷ء کو ڈاکٹر صاحب نے پنجاب ایمپلائز سوشل سیکورٹی انسٹی ٹیوٹ میں "اسلام اور ضبطِ ولادت" پر لیکچر دیا. 

چنیوٹ

جناب حاجی محمد رفیق سہگل صاحب کا عرصہ سے بے حد اصرار تھا کہ ڈاکٹر صاحب چنیوٹ آ کر "دعوت رجوع الی القرآن" پیش کریں. اس مقصد کے لیے وہ لاہور بھی تشریف لائے تھے چنانچہ ۲۴جنوری کی صبح کو ڈاکٹر صاحب چنیوٹ تشریف لے گئے. ایک روز قبل لاہور اور اس کے تمام قریبی اضلاع میں خوب بارش ہوچکی تھی، چنیوٹ میں بھی بارش اور سردی کے شدید اثرات موجود تھے.۲۴جنوری کو چنیوٹ میں ڈاکٹر صاحب نے خواتین کے ایک اجتماع کو سورۂ تحریم اور سورۂ احزاب کی آیات کی روشنی میں خطاب کیا. جس کے ذریعے ازروئے قرآن مسلمان خواتین کی ذمہ داریوں پر روشنی ڈالی. اسی شب کو شاہی مسجد میں بعد نماز عشاء ڈاکٹر صاحب نے "عظمتِ صحابہ" کے موضوع پر خطاب کیا. شدید سردی کے باوجود کثیر تعداد میں لوگوں نے شرکت کی. ۲۵ جنوری کو بعد نماز فجر ڈاکٹر صاحب نے مسجد شیخاں میں درسِ قرآن دیا، جس میں سورۂ جمعہ کی آیت ہُوَ الَّذِیۡ بَعَثَ فِی الۡاُمِّیّٖنَ رَسُوۡلًا مِّنۡہُمۡ یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیۡہِمۡ وَ یُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ ٭ وَ اِنۡ کَانُوۡا مِنۡ قَبۡلُ لَفِیۡ ضَلٰلٍ مُّبِیۡنٍ ۙ﴿۲﴾ کی روشنی میں انقلابِ نبوی علی صاحبہ الصلوۃ والسلام کے اساسی طریق منہاج کو بیان کیا. اسی روز ۱۰ بجے ڈاکٹر صاحب نے اصلاح ہائی اسکول کے طلبہ واساتذہ کو نوجوانوں کے دینی و ملی فرائض کے موضوع پر خطاب کیا. اسی دن بعد ظہر ڈاکٹر صاحب لاہور واپسی کے لیے روانہ ہوگئے.
 

سکھر

دسمبر میں کراچی جاتے ہوئے ۲۱، اور ۲۲ دسمبر، دو دن ڈاکٹر صاحب نے سکھر میں قیام کیا. وہاں کی روداد جناب عبداللطیف صاحب نے قلم بند کرکے ارسال کی تھی، جو پیش خدمت ہے:. 

ڈاکٹر صاحب کے گزشتہ دورہ سکھر کے اختتام پر جناب سید حسن میاں ایڈووکیٹ نے باصرار اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ آئندہ پروگرام کے موقع پر کم از کم ایک نشست مسجد سے باہر کسی ایسی جگہ رکھی جائے جہاں مسجد میں نہ آنے والے حضرات شرکت کرسکیں. موصوف کا استدلال یہ تھا کہ ڈاکٹر صاحب کا درسِ قرآن جدید تعلیم یافتہ اور مغرب زدہ نوجوانوں کو سنوارنے کے لیے زیادہ مفید اور سود مند ہے. اس سے قبل ایک مرتبہ 
سید حسن میاں صاحب اور جناب ڈاکٹر خالد مسعود میاں کی تحریک پر شہر کے سب سے فیشن ایبل ہوٹل "انٹر پاک ان" میں ڈاکٹر صاحب نے روٹری کلب کے زیر اہتمام کلب کے ممبران اور معززین شہر کی ایک بڑی تعداد سے خطاب فرمایا تھا. جس سے تمام سامعین بے حد متاثر ہوئے تھے اور تقریباً تمام حضرات نے باصرار اور بصد شوق اس مجلس میں انجمن خدام القرآن کی جانب سے بلا قیمت تقسیم کردہ پمفلٹ سورۃ العصر کی تفسیر پر ڈاکٹر صاحب سے دستخط حاصل کیے تھے. 
"انٹر پاک ان" میں ڈاکٹر صاحب کی تقریر کے اختتام پر روٹری کلب کی جانب سے شکریہ ادا کرتے ہوئے سید حسن میاں نے فرمایا تھا کہ "میں آج تک ہی سمجھتا تھا کہ قرآن کریم میں اکثر و بیشتر قصے کہانیاں بیان کی گئی ہیں، جن میں آپس میں کسی قسم کا ربط نہیں مگر ڈاکٹر صاحب کی تقریر سن کر آج یہ بات منکشف ہوئی کہ قرآن کریم نہ صرف باہم مربوط ہے بلکہ واقعی کتابِ رشد و ہدایت ہے اور قرآنِ کریم پر میرے تمام ہی شکوک و شبہات کا ازالہ ہوگیا ہے". روٹری کلب کے صدر جناب اخلاق حسین صاحب (موصوف اے سی سی سیمنٹ فیکٹری کے جنرل منیجر ہیں) نے صدارتی تقریر میں کہا کہ مجھے یہ بات بہت عجیب سی معلوم ہوتی تھی کہ ایک ایم بھی بی ایس ڈاکٹر کا درسِ قرآن سے کیا تعلق ہوسکتا ہے. مگر تقریر سن کر یہ محسوس ہوا کہ ڈاکٹر صاحب نے قوم کے جسمانی علاج کا پیشہ ترک کرکے روحانی علاج کا جو سلسلہ شروع کیا ہے وہ بے حد مفید اور اشد ضروری ہے. 

چنانچہ ۲۱ دسمبر کو بعد نماز عشاء مکی مسجد میں درسِ قرآن اور ۲۲ دسمبر کو بعد نمازِ مغرب ریلوے انسٹی ٹیوٹ ہال میں "اسلام میں نیکی کا تصور" کے موضوع پر تقریر کا پروگرام بنایا گیا. پروگرام میں خصوصاً ریلوے انسٹی ٹیوٹ والے پروگرام کی تشہیر کے سلسلے میں پیرانہ سالی کے باوجود سید حسن میاں صاحب نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا. تمام عدالتوں میں جج حضرات اور وکلا کی بڑی تعداد کو بہ نفسِ نفیس پروگرام کے ہینڈ بل تقسیم کیے اور تفصیل سے ڈاکٹر صاحب کا تعارف کرانے کے بعد تقریر میں شرکت کا وعدہ لیا. 

۲۱ دسمبر کو بعد نماز عشاء مکی مسجد نزد ابن قاسم پارک میں ڈاکٹر صاحب نے سورۃ الکہف کے آخری رکوع کا درس دیا. باشندگان سکھر گرمی برداشت کرنے کے معاملہ میں اپنا ثانی نہیں رکھتے لیکن سردی کے معاملہ میں بے حد کمزور واقع ہوئے ہیں. اس روز صبح سے ہی مطلع ابر آلود تھا اور ہوا میں کافی خنکی تھی، جس سے شدید خدشہ تھا کہ آج حاضری بہت کم رہےگی، مگرخلاف توقع مسجد کا ہال کھچا کھچ بھر گیا اور کافی حضرات کو بر آمدے میں بیٹھنا پڑا. ڈاکٹر صاحب نے اس سورت کے عمود اور اس کے مرکزی مضمون پر قدرے تفصیل سے گفتگو کی. 

۲۲ دسمبر کو بعد نمازِ مغرب ریلوے انسٹی ٹیوٹ میں "اسلام میں نیکی کا تصور" کے موضوع پر تقریر تھی. اسٹیج پر ڈاکٹر صاحب کی نشست اور ہال میں کرسیوں پر سامعین کی نشست کا انتظام تھا. باہر بر آمدہ میں مکتبہ بھی لگایا گیا تھا. حاضری اڑھائی سو کے لگ بھگ تھی. تقریر میں ڈاکٹر صاحب نے فرمایا کہ قرآن مجید کے دوسرے پارے کی آیت ۱۷۷، نیکی کے اسلامی تصور کی مکمل تصویر واضح کر رہی ہے. نیکی میں کیا مقدم ہے، کیا مؤخر ہے، اصول کیا ہیں اور فروع کیا ہیں! ڈاکٹر صاحب نے پوری تفصیل اور انتہائی دل نشین انداز میں اس آیت کی روشنی موجودہ مسلمان 
معاشرہ میں نیکی کے غلط تصورات پر تنقید و تبصرہ کیا اور نیکی کے صحیح تصور اور اس کے ایک ایک جز پر عمل در آمد کی ضرورت کو واضح کیا. بعد ازاں ڈاکٹر صاحب نے سامعین کو بتایا کہ گذشتہ دس برس سے انہوں نے قرآن کریم کے تعلیم و تعلم کو اپنی زندگی کا مقصدِ وحید بنا رکھا ہے اور اسی سلسلہ میں لاہور کے علاوہ کراچی اور سکھر کا سلسلہ بھی جاری رہا ہے. آپ نے فرمایا کہ انہوں نے قرآن کریم سے ایک نصاب مرتب کیا ہے، اگر کوئی شخص اس منتخب نصاب کا مطالعہ سنجیدگی سے اور تھوڑی سی محنت سے کرلے تو میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اس کو قرآن مجید سے ایک ذہنی اور قلبی مناسبت قائم ہوجائے گی. ڈاکٹر صاحب کی یہ تقریر تقریباً پونے دو گھنٹے جاری رہی. 

کراچی

یہ رپورٹ رفیقِ محترم قاضی عبدالقادر صاحب کی مرتب کردہ ہے. 

سکھر کے پروگرام سے فارغ ہوکر ۲۳ دسمبر بروز جمعرات ڈاکٹر صاحب کراچی پہنچے.سندھ ایکسپریس اس روز تقریباً پانچ گھنٹے لیٹ تھی، جس کے باعث نصف دن ضائع ہوگیا. اسی روز بعد نماز مغرب ڈاکٹر صاحب نے کراچی تھیوسوفیکل ہال میں تنظیم اسلامی کے زیر اہتمام ایک اجتماع عام کو ہمارے قومی، ملی اور دینی فرائض کے موضوع پر خطاب کیا . موصوف نے تنظیم اسلام کی دعوت کے اساسی نکات کا تعارف کراتے ہوئے بتایا کہ ہماری یہ تنظیم لوگوں کو تجدید ایمان، توبہ، اور تجدید عہد کی دعوت دینے کے لیے قائم کی گئی ہے جس کے بغیر ہمارے معاشرے کا نہ تعلق باللہ درست ہوسکتا ہے نہ ایمان بالآخرت صحیح ہوسکتا ہے اور نہ ہی ختم المرتبت، سید المرسلین، خاتم النبیین جناب محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر پختہ یقین حاصل ہوسکتا ہے. 

اس اجتماع کی صدارت تنظیم کے معتمد شیخ جمیل الرحمن صاحب نے فرمائی. اس شام کو چند دینی جماعتوں کےاپنے پروگرام ہونے کے باوجود، الحمدللہ، ہال سامعین سے بھرا ہوا تھا . اجتماع کی کارروائی تقریباً تین گھنٹے جاری رہی. اختتام پر عشاء کی نماز باجماعت قریب کی مسجد میں ادا کی گئی اس موقعہ پر تنظیمِ اسلامی کی دعوت کے بنیادی نکات پر مشتمل حاضرین میں ایک خوبصورت دو ورقہ بھی تقسیم کیا گیا. 

۲۴ دسمبر کو کراچی کے مشہور تجارتی علاقے میریٹ روڈ میں، بخاری مسجد میں ڈاکٹر صاحب نے خطبۂ جمعہ سے قبل خطاب فرمایا جس میں ایمان بالآخرت کی اہمیت کو واضح کیا اور بتایا کہ ہمارے معاشرے میں کوئی مستقل اور پائیدار اصلاح اس وقت تک ممکن نہیں جب تک لوگوں کو آخرت پر دل والا یقین حاصل نہ ہوجائے. ہمارے معاشرے میں دینی و اخلاقی خرابیوں کی اصل وجہ یہی ہے کہ ہمارے دلوں سے محاسبۂ اخروی کا خوف نکل گیا ہے، یا ا سکے بارے میں ہم مختلف مغالطوں اور غلط فہمیوں میں مبتلا ہوگئے ہیں. 

اسی شام بعد نماز عصر جمعیت الفلاح ہال میں سہ روزہ قرآنی تربیت گاہ کا آغاز ہوا، اس پروگرام کے لیے تین دن اور پانچ نشستیں مقرر کی گئی تھیں. چونکہ ہفتہ اور اتوار (۲۵، ۲۶ دسمبر) کو عام تعطیل تھی لہذا ان دو دنوں میں صبح اور شام دو نشستیں رکھی گئی تھیں. الحمد للہ پانچ دنوں میں سورۂکہف کا 
درس مکمل ہوگیا. اس تربیت گاہ میں سکھر اور لاہور سے بھی چند رفقاء نے شرکت فرمائی.

"الفلاح ہال" ہی میں اتوار ۲۶ دسمبر کو بعد نمازِ ظہر "تنطیم اسلامی" کے رفقاء کا ایک خصوصی اجتماع ہوا، جس میں کام کا جائزہ لیا گیا اور تنظیم کے معتمد شیخ جمیل الرحمن صاحب نے رفقاء کو آئندہ کام کے سلسلہ میں اہم ہدایات دیں.

اتوار کو درس کے اختتام پر ڈاکٹر صاحب نے اعلان فرمایا کہ جو حضرات ہمارے کام کو سمجھنا چاہیں اور تعلیم و تعلمِ قرآن کی دعوت میں ہمارے ساتھ کسی طرح سے بھی تعاون فرمانا چاہیں وہ اگلے روز بعد نماز مغرب جاپان مینشن میں تشریف لے آئیں. چنانچہ اگلے روز پرانے رفقاء کے علاوہ کچھ نئے حضرات بھی جاپان مینشن کے اجتماع میں شریک ہوئے، جہاں کافی دیر تک ڈاکٹر صاحب کے ساتھ تبادلہ خیال ہوتا رہا. 

دسمبر میں ڈاکٹر صاحب کی آمد کے موقع پر ہی یہ طے کرلیا گیا تھا کہ کراچی میں آئندہ درس کا پروگرام فروری کے آغاز میں رکھا جائے. چنانچہ اس پروگرام کے تحت ڈاکٹر صاحب اتوار ۶ فروری کی شام کو کراچی پہنچے اور الفلاح ہال میں پیر منگل اور بدھ (۷تا ۹ فروری) بعد نمازِ مغرب تا عشاء سورۂ مریم کا درس دیا. مغرب اور عشاء کی نمازیں ہال ہی میں ادا کی جاتی رہیں. بعض ساتھیوں کو یہ خدشہ تھا کہ انتخابات کی گہما گہمی کی وجہ سے درس کی مجالس کی حاضری متاثر ہوگی لیکن الحمد للہ! ایسا نہیں ہوا!حاضری معمول کے مطابق تھی بلکہ تیسرے دن حاضری کچھ زیادہ ہی تھی. ظاہر ہے کہ جو حضرات پابندی اور غایت درجہ کی دلچسپی کے ساتھ ڈاکٹر صاحب کے درس کی مجالس میں شریک ہوتے ہیں ان پر یہ وقتی ہنگامے اثر انداز نہیں ہوتے. 

۹ فروری کو عصر تا مغرب رفقاء تنظیم اسلامی کا ایک خصوصی اجتماع منعقد ہوا جس میں ڈاکٹر صاحب محترم نے بھی شرکت فرمائی. رفتارِ کار کا جائزہ، تنظیمی امور پر تبادلۂ خیال کے علاوہ دعوت کی توسیع کے سلسلہ میں بھی ڈاکٹر صاحب نے مفید مشورے دئیے.

اپنے اس دورہ میں ڈاکٹر صاحب نے دو کالجوں میں بھی طلباء کے اجتماعات کو خطاب فرمایا. پہلا اجتماع پیر ۷ فروری کو علامہ اقبال کالج میں اور دوسرا این.ای . ڈی 
(N.E.D) انجینئرنگ کالج کیمپس میں، منگل ۸ فروری کو منعقد ہوا. انتظامات اور حاضری کے اعتبار سے انجینئرنگ کالج کا اجتماع نہایت شاندار تھا. یہ اجتماع در اصل خلافتِ راشدہ کانفرنس تھی. جس میں ڈاکٹر صاحب کے علاوہ شاہ بلیغ الدین صاحب نے بھی تقریر فرمائی اور مولانا طاسین صاحب نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سیرت پر ایک مقالہ پڑھا جو امید ہے کہ ان شاء اللہ جلد ہی میثاق کے صفحات کی زینت بنے گا.