طوفانی دوروں کی ایک مثال

تبلیغ قرآن اور دعوتِ دین کے عظیم مقاصد کے لیے انجمن خدام القرآن کے صدر موسس اور امیر تنظیم اسلامی کے طوفانی دوروں کی ایک مثال

(ماخوذ از میثاق فروری ۸۲ تحریر ڈاکٹر اسرار احمد )
دوروں اور تقریروں کے جس طوفان کا ذکر اس وقت کرنا مطلوب ہے اس کا آغاز اواخر دسمبر ۸۱ء میں پشاور کے دورے سے ہوا.

وہاں سے ۲۸ دسمبر کی رات کو واپسی ہوئی.

۲۹ کو راقم نے سیرت النبی کے موضوع پر "العادل" کے عنوان سے ریڈیو پاکستان لاہور کے ایک سیمینار میں تقریر کی.

۳۰ کو ایک درس قرآن پاکستان ایڈمنسٹریٹو سٹاف کالج میں ساڑھے گیارہ سے ایک بجے تک ہوا. پھر شام کو حقیقت و مدارج جہاد فی سبیل اللہ کے موضوع پر ایک تقریر مسجد شہداء میں عصر تا مغرب اور پھر مغرب تا عشاء ہوئی. 

۳۱ دسمبر کو پھر ایک درس اسٹاف کالج میں ہوا اور سیرت النبی پر ایک تقریر جامع مسجد جی.او. آر ۳ میں مغرب اور عشاء کے مابین ہوئی. 

یکم جنوری ۸۲ء کو جمعہ تھا. چنانچہ حسبِ معمول خطبہ و خطاب جمعہ مسجد دار السلام میں ہوا، اور درسِ قرآن بعد نماز مغرب، جامع القرآن، قرآن اکیڈمی، جہاں ایک عقد نکاح کے ضمن میں کسی قدر مفصل خطاب ہوا. 

۲ جنوری کو بذریعہ ہوائی جہاز کراچی جانا ہوا. جہاں عصر تا مغرب تنظیمِ اسلامی کے دفتر واقع ۱۱ داؤد منزل، شارعِ لیاقت میں رفقائے تنظیم اسلامی کراچی کے ایک اجتماع میں شرکت ہوئی اور بعد میں نماز عشاء کے ڈی اے سکیم میں واقع جناب محمد فاروق صاحب کے مکان پر اعلیٰ سطح کے کاروباری 
حضرات اور سرکاری افسروں کے ایک بڑے اجتماع میں "حقیقتِ ایمان" کے موضوع پر تقریر ہوئی.

۳ جنوری کو ایک تقریر بوقت دوپہر نیپا 
(NIPA) کراچی میں ہوئی. پھر ایک تقریر مغرب تا عشاء سیرت النبی پر خالقدینا ہال، بند روڈ میں ہوئی. وہاں سے بھاگم بھاگ ناظم آباد ۴ پہنچنا ہوا جہاں عشاء کا وقت خاص طور پر مؤخر کردیا گیا تھا. چنانچہ بعد نماز عشاء وہاں درس قرآن کی محفل ہوئی. 

۴ جنوری کو حسبِ روز ِ گذشتہ ایک تقریر مغرب اور عشاء کے مابین پاکستان سنی کونسل کے زیر اہتمام خالقدینا ہال میں ہوئی اور دوسری یومِ فاروقِ اعظم آرگنائزنگ کمیٹی کے زیرِ اہتمام رات کے گیارہ سے بارہ بجے تک میدان جامع مسجد فاروق اعطم نارتھ ناظم آباد میں منعقدہ ایک جلسۂ سیرت النبی میں. 

۵ جنوری کا دن غالباً سخت ترین تھا. چنانچہ ایک تقریر ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائٹی میں واقع جناب کیپٹن عبدالکریم صاحب کے مکان پر قبل از ظہر ہوئی. (اس میں بھی کراچی کی "ٹاپ جنٹری) کے کثیر التعداد حضرات شریک تھے) پھر دو تقریریں، ایک بعد نماز مغرب اور دوسری بعد نماز عشاء خالقدینا ہال میں ہوئیں. اور پھر ایک تقریر رات کے بارہ سے ایک بجے تک ایبی سینالائن میں منعقدہ جلسہ سیرت النبی میں ہوئی .

۶ جنوری کو راقم کے ایم بی بی ایس کے کلاس فیلو اور فی الوقت ایسوسی ایٹ پروفیسر نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیو ویسکلرڈیزیزز، کراچی کی تالیفِ لطیف، قلب، کی تقریب رونمائی تھی. اس میں شرکت بھی ہوئی اور مختصر خطاب بھی ہوا. سہ پہر کو ذیل پاک سیمنٹ فیکٹری کے ہیڈ آفس کے ملازمین کے زیر اہتمام جلسہ سیرت النبی میں تقریر ہوئی اور رات کو لاہور واپسی ہوگئی. 

جمعرات ۷ جنوری کو ذرا دم لے کر جمعہ ۸ جنوری سے پھر چکی کے دونوں پاٹ اسی تیز رفتاری سے چلنے شروع ہوگئے. مسجد دار السلام میں خطاب جمعہ "احکام ستر و حجاب" پر ہوا. وہیں نماز کے بعد برادرِ مکرم الطاف حسین صاحب کی بھتیجی کا عقدِ نکاح ہوا. جس میں حسبِ معمول خطبہ دیا. رات کو جامع القرآن، قرآن اکیڈمی میں ختم نبوت کے عنوان سے تقریر ہوئی جو غالباً سوا دو گھنٹے جاری رہی. 

۹ جنوری کو علی الصبح مرکزی انجمن خدام القرآن لاہور کی مجلس منتظمہ کا اجلاس تھا. اس کے فوراً بعد ملتان روڈ پر واقع اعوان کالونی میں ایک جامع مسجد کا سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب میں شرکت تھی اور وہاں بھی لامحالہ مختصر خطاب کرنا پڑا. ۳ بجے سہ پہر پاکستان ائر فورس کے چھوٹےطیارے مشاق کے ذریعے (جس میں پائلٹ کے علاوہ صرف ایک سیٹ زیرِ تربیت ہوا باز کے لیے ہوتی ہے) شورکوٹ کے قریب واقع رفیقی ائر بیس جانا ہوا. جہاں مغرب کے بعد مفصل خطاب ہوا. 

۱۰ جنوری کو اسی طیارے میں شورکوٹ سے اسلام آباد جانا ہوا. جہاں تیسرے پہر حکومت پاکستان 
کی وزارت مذہبی امور کے زیر اہتمام منعقد ہونے والی نیشنل سیرت کانفرنس میں اپنا مقالہ بعنوان "اخلاقیات کے میدان میں نبی اکرم کی اتمامی و تکمیلی شان کا اصل مظہر: عدل و اعتدال" پڑھا. پھر بعد نماز مغرب ایک مفصل تقریر سیرت النبی کے موضوع پر جامع مسجد عثمانیہ صدر راولپنڈی میں ہوئی.

۱۱جنوری سے وفاقی کونسل عرف مجلس شوری کا اجلاس شروع ہوگیا. یہ اجلاس ابتداءً ۱۱ تا۱۶ جنوری کے لیے بلایا گیا تھا. جمعہ ۱۵ جنوری کو صرف شام کا اجلاس رکھا گیا تھا. راقم نے اس سے رخصت کی درخواست دائر کردی تاکہ جمعہ کے لیے لاہور آنا ہوسکے.الحمد للہ کہ بعد میں جمعہ کو اجلاس کے مکمل ناغے کا اعلان کردیا گیا. اس طرح کونسل کا اجلاس ۱۱،تا ۱۴ جاری رہا. ان ایام کے دوران بھی اپنے اصل کام، کی چکی پورے زور و شور سے چلتی رہی.

چنانچہ گیارہ اور بارہ جنوری کو بعد نماز مغرب کمیونٹی سنٹر اسلام آباد میں درس قرآن کی نشستیں حسبِ پروگرام ہوئیں جن میں سورۂ حجرات کا از ابتداء تا آیت ۱۴ درس ہوا. 

۱۳ جنوری کو بعد نماز عشاء تو کلی مسجد، نزد چوک فوارہ، راولپنڈی میں "نبی اکرم سے ہمارے تعلق کی بنیادیں" کے موضوع پر مفصل خطاب ہوا. جس میں اہالیان راولپنڈی نے اسی جوش و خروش سے شرکت کی جس کا ذکر گذشتہ شمارے میں ہوچکا ہے. 

۱۴ کو مجلسِ شوریٰ کے دن کے اجلاس میں شرکت کرکے رات کو بذریعہ کار لاہور آنا ہوا. 

جمعہ ۱۵ جنوری کو مسجد دار السلام میں مجلس شوریٰ میں شرکت کے موضوع پر خطاب ہوا جس کا ذکر اوپر ہوچکا ہے اور بعد نماز مغرب قرآن اکیڈمی ماڈل ٹاؤن میں رفع و نزول مسیح کے عنوان سے تقریر ہوئی. اور راتوں رات پھر اسلام آباد واپسی ہوگئی. 

۱۶ جنوری کو دن میں شوریٰ میں شرکت رہی اور بعد نماز مغرب اسلام آباد کے زیرو پوائنٹ کے قریب نو تعمیر شدہ 
A.D.B.P کی بارہ منزلہ عمارت کے آڈیٹوریم میں حکومت پاکستان کے پلاننگ کمیشن کے شعبۂ شماریات کے زیر اہتمام منعقدہ ایک جلسۂ سیرت النبی سے خطاب ہوا. 

شوریٰ کا اجلاس ۱۶ کو ختم ہوجانا تھا. چنانچہ ۱۷ اور ۱۸ دو دن لاہور ٹیلی ویژن سنٹر پر الھدی کی مزید ریکارڈنگ کے لیے طے کرلیے تھے. لیکن وہاں شوریٰ کا اجلاس ایک دن کے لیے مزید بڑھا دیا گیا. میں اس سے رخصت لے کر بھی چلا آتا لیکن سوء اتفاق سے ۱۷ کی صبح میرے خلاف پیش شدہ تحریک استحقاق پر بحث طے پاگئی، چار و ناچار رکنا پڑا. البتہ ۱۷ کی صبح حکومت پاکستان کی فارن سروسز اکیڈمی میں زیر تربیت حضرات کے اجتماع سے اسلام اور پاکستان کے موضوع پر مفصل خطاب ہوگیا. جسے اسلام آباد سے شائع ہونے والے انگریزی روزنامے، مسلم، نے نہایت تفصیل سے شائع کیا. بہرحال ۱۷ کی شام کو لاہور واپسی ہوگئی. اور الحمد للہ کہ ۱۸ کو "الھدی" کے تین پروگرام ریکارڈ ہوگئے. 
"ملکِ خدا تنگ نیست" اور "پائے مرا لنگ نیست" کے مصداق ۱۹ کو پھر سفر شروع ہوگیا. اولاً لاہور سے ملتان بذریعہ پی آئی اے، پھر وہاں سے بہاولپوربذریعہ کار جانا ہوا. جہاں "تنظیم سپاس پاکستان" کے زیر اہتمام اور سابقہ امیر بہاولپور اور حالیہ وزیر امورِ مذہبی، حکومت پاکستان، کے زیر صدارت جلسہ سیرت النبی سے خطاب ہوا، جو عصر تا مغرب بھی ہوا اور پھر مغرب تا عشاء بھی. وہاں سے نصف شب کے وقت تیز گام سے سوار ہوکر ۲۰ کی صبح حیدر آباد پہنچنا ہوا جہاں محترم و مکرم جناب ڈاکٹر حمید اللہ صاحب حال مقیم پیرس کی ایک ہی دن میں دو تقریریں سننے کی سعادت حاصل ہوئی. ایک قبل از دوپہر سندھ یونیورسٹی جام شورو سے ملحق، انسٹی ٹیوٹ آف سندھالوجی ، کے آڈیٹوریم میں اور دوسری بعد مغرب مولانا وصی مظہری ندوی صاحب میئر آف حیدر آباد کے زیرِ صدارت کا رپوریشن ہال میں. بعد نماز عشاء جناب صلاح الدین صاحب کے زیر اہتمام ایک شاندار جلسۂ سیرت النبی حیدر آباد شہر کے قلب تلک چاڑی میں ہوا. جس میں بعض دوسرے مقررین کے ہمراہ راقم نے بھی مفصل تقریر کی. 

۲۱ جنوری کو تو واقعہ یہ ہے کہ حد ہوگئی اور مولانا سید وصی مظہر ندوی صاحب نے نہ صرف یہ کہ اپنے بزرگانہ اختیارات کا بھرپور استعمال فرمایا بلکہ غالباً اگلے پچھلے سارے حساب چکوا لیے. ان سے طے تو صرف اس قدر تھا کہ ایک جلسۂ سیرت سے رات کو خطاب ہوگا. اور سہ پہر میں ان کے مدرسے (جامعہ اسلامیہ) کے طلبہ کا ایک جلسہ ہوگا جس میں تقاریر طلبہ ہی کریں گے، میری صرف شرکت ہوگی. لیکن ہوا یہ کہ بعد عصر تو ایک جلسہ حیدر آباد یونیورسٹی کے اولڈ کیمپس کے ہال میں ان ہی کی اجازت سے "راس" نامی ایک سندھی ادبی و ثقافتی انجمن کے تحت مولانا غلام مصطفی قاسمی کی صدارت میں ہوا. جس میں حاضرین کا ذوق و شوق دیکھ کر راقم نے خود ہی کھلے دل سے تقریر کی. مغرب کے بعد مولانا نے اپنے مدرسے میں جلسے کا اہتمام کیا تھا. وہاں بھی شرکاء کی کثرتِ تعداد اور پڑھے لکھے لوگوں کا ایک بڑا اجتماع دیکھ کر تقریر پر خود ہی انشراح صدر ہوتا چلا گیا. اس سے فراغت ہوئی تو معلوم ہوا کہ گلا بالکل بیٹھ چکا ہے اور آواز بمشکل نکل رہی ہے. اور ابھی اس روز کا اصل جلسہ باقی ہے! بہرحال جیسے تیسے اصلاً اللہ کی تائید و توفیق کی امید کے سہارے اور کسی قدر ادویات سے مدد حاصل کرکے کمر ہمت کس کر لطیف آباد کے لیے روانگی ہوئی. وہاں پہنچ کر جو دیکھاتو فی الواقع جشن کا سماں تھا وسیع و عریض پنڈال جس کے آخر تک نگاہ بمشکل پہنچ رہی تھی. روشنیوں کا سیلاب، پرچم کشائی کی تقریب، زرق برق ماحول اور فرزندانِ توحید کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر، اور اس پورے جشن کا واحد مقرر صرف یہ خاکسار. ایسے میں تو اگر جان ہونٹوں پر ہوتی تب بھی احقاق حق اور ابطال باطل کے لیے اللہ سے ذرا سی مہلت مانگ کر بھی تقریر کی کوشش ضرور کرتا. چنانچہ موضوع وہ لیا بظاہر اس قسم کی تقریب کے لیے بالکل نامناسب بلکہ متضاد تھا. یعنی وہی نبی اکرم  سے ہمارے تعلق کی بنیادیں. اور بحمد اللہ دو گھنٹے سے 
زاید تقریر ہوئی اور احقاقِ حق اور ابطالِ باطل کا حق ادا ہوگیا اور پورے مجمع سے کسی اختلافی صدا کا اٹھنا تو درکنار کسی جانب سے کسی بے چینی تک کا ظہور نہ ہوا. حالانکہ سامعین میں اکثریت ایسے لوگوں پر مشتمل تھی جو عرفِ عام میں بریلوی کہلاتے ہیں. ذلک فضل اللہ یوتیہ من یشاء واللہ ذوالفضل العظیم. 

جمعہ ۲۲ جنوری کو علی الصبح بذریعہ کار حیدر آباد سے کراچی آنا ہوا. جہاں پی ٹی آئی کے جناب عبدالصمد صاحب کی دعوت پر جامع مسجد عظمیٰ میں جمعہ کی نماز پڑھائی اور قبل از نماز سیرت النبی کے موضوع پر خطاب ہوا. وہاں بھی حاضری ہر حساب سے بالا تھی اس لیے کہ وہ مسجد آبادی کے بیچ میں واقع ہے. رات کو بعد نمازِ مغرب جامع مسجد قدوسی، ناظم آباد بلاک ۱ میں درس قرآن کی نشست ہوئی. جہاں سورۂ حجرات کی آیات ۱۴، ۱۵ کا درس ہوا. اس میں بھی لوگوں نے نہایت کثیر تعداد میں شرکت کی. 

ہفتہ ۲۳ جنوری کو قبل از دوپہر سندھ میڈیکل کالج میں خطاب ہوا. اور سہ پہر کو چیمبر آف کامرس کراچی میں جس کے بارے میں متعدد لوگوں نے بتایا کہ چیمبر کے زیرِ اہتمام کسی جلسے میں آج تک اتنی حاضر نہیں ہوئی. اسی رات کو پی آئی اے سے لاہور آنا ہوا لیکن صرف ایک رات کے لیے. 

۲۴ کی شام کو پھر ملتان کے لیے شدِّ رحال ہوگیا. جہاں مدرسہ تعلیم الابرار کے مولانا ابوالحسن قاسمی صاحب کے زیر اہتمام ملتان کارپوریشن کے جناح ہال میں جلسہ سیرت النبی سے خطاب ہوا. جہاں ہال میں تو صدر جلسہ جناب میجر جنرل راجہ سروپ خاں صاحب (ڈی ایم ایل اے) کے بقول واقعۃً "تل دھرنے کو جگہ نہ تھی" اور ہال کی تنگ دامانی کے باعث بہت سے لوگوں کو نامراد واپس جانا پڑا. اسی رات کو بذریعہ شاہین ایکسپریس ملتان سے ڈہرکی جانا ہوا. 

۲۵ جنوری کی شام کو ڈہرکی میں واقع "ایکسون" کے عظیم الشان کھاد بنانے کے کارخانے میں ایک اجتماعِ خواتین میں شرکت ہوئی اور رات کو جلسۂ سیرت النبی  سے خطاب ہوا. 

۲۶ کی صبح ڈہرکی سے بذریعہ کار سکھر جانا ہوا جہاں (۱) بعد نماز ظہر ایک ظہرانہ جمخانہ کلب میں ہوا جس میں خاصی تعداد میں شہر کے کاروباری حضرات اور ضلعی افسران شریک ہوئے. (۲) عصر تا مغرب ایک تقریر ریلوے ہائی اسکول میں ہوئی اور (۳) بعد نماز عشاء اللہ والی مسجد، بند روڈ، میں سیرت النبی  پر تقریر ہوئی جو شرکاء کی تعداد اور ان کے ذوق و شوق کے باعث سوا دو گھنٹے سے بھی تجاوز کر گئی. چنانچہ بھاگم بھاگ ہی روہڑی ریلوے سٹیشن پہنچنا ہوا. جہاں تیز گام پلیٹ فارم پر گویا منتظر ملی جس سے ۲۷ جنوری دوپہر کے وقت لاہور واپسی ہوئی. 

اور آج ۲۸ جنوری ۸۲ ءکو جب یہ سطور سپرد قلم ہورہی ہیں تو ذہن پر ایک خوف کی سی کیفیت طاری ہے . کہ کل جمعہ ہے، اور پرسوں پھر پشاور اور راولپنڈی و اسلام آباد کے لیے روانگی ہے. واپسی
پر دو دن تنظیم اسلامی کی مرکزی مجلسِ مشاورت کا اجلاس جاری رہے گا. پھر جمعہ آئے گا اور اس کے بعد پھر آزاد کشمیر کے لیے رخت سفر باندھنا ہوگا. الغرض. .چکر ہے مرے پاؤں میں زنجیر نہیں ہے. اور ادھر خدا گواہ ہے کہ حال یہ ہے کہ طبیعت تقاریر سے اکتا ہی نہیں گئی شدید بیزار ہوچکی ہے. مولانا امین احسن اصلاحی نے ایک بار بتایا تھا کہ اوائل عمر میں کسی دینی خدمت کے سلسلے میں انہیں کچھ عرصہ رنگون رہنا پڑا تھا تو وہاں روٹی دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے مجبوراً مسلسل ڈبل روٹی کھانی پڑی. نتیجۃً اس کے بعد ان کی طبیعت ڈبل روٹی کی جانب کبھی مائل نہ ہوئی. کچھ ایسا ہی حال اس وقت تقریروں کے باب میں راقم الحروف کا ہے. لیکن تقاضوں اور مطالبوں کا سیلاب ہے کہ بڑھتا جا رہا ہے. اور التجاء اور خوشامد کے علاوہ سفارشوں کا سلسلہ بھی چل نکلا ہے. گویا ؎

رو میں ہے رخشِ عمر کہاں دیکھئے تھمے
نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں