امیرِ تنظیم اسلامی حافظ عاکف سعید

دورِ حاضر کے عظیم داعیٔ قرآن اور دینی رہنما ڈاکٹر اسرار احمد رحمہ اللہ علیہ جو راقم کے محسن و مربی ہی نہیں‘ والد گرامی بھی تھے گزشتہ برس 14اپریل 2010ء بمطابق 28ربیع الثانی 1431ھ ہمیں داغ مفارقت دے گئے. اُن کی شخصیت مسلمانان پاکستان کے لیے ہی نہیں، دنیا کے ہر کونے اور گوشے میں بسنے والے اردو بولنے اور سمجھنے والے افراد کے لیے بھی محتاج تعارف نہیں تھی. تاہم اکثر لوگ ان کی ذات کے حوالے سے بس اسی قدر واقف ہیں کہ وہ ایک بے مثال مدرس ومعلّم قرآن تھے، انہیں اللہ نے غیرمعمولی قوتِ بیانیہ سے نوازا تھا اور ایسا دل پذیر اور موثر اندازِ خطابت عطا فرمایا تھا کہ جب وہ قرآن کو بیان کرتے تو نہ صرف یہ کہ قرآن کے حرف حرف میں پوشیدہ پیغام ہدایت پوری وضاحت کے ساتھ سننے والوں کو سمجھ میں آتا تھا بلکہ وہ قلب و ذہن میں سرایت کرتا اور ہلچل مچاتا محسوس ہوتاتھا. اُن کا درس قرآن‘ سننے والوں کے ایمان ویقین میں اضافے کا موجب بھی بنتا تھا اور اس سے قرآن حکیم کی عظمت کا ایک واضح نقش بھی ذہن و قلب پر ثبت ہوکر رہتا تھا. انہوں نے بے شمار اہم دینی موضوعات کو اپنے خطابات کا موضوع بنایا. ہر خطاب سننے والوں کی ذہنی الجھنوں کو رفع کرنے اور دینی شعور میں اضافے کا موجب بنتا.

اللہ نے اُنہیں وہ غیر معمولی قوتِ بیانیہ عطا فرمائی تھی کہ وہ کسی ایک دینی موضوع پر قرآن وسنت کی روشنی میں علمی اور تحلیلی (Analytical) انداز میں گھنٹوں خطاب فرماتے اور سننے والے ہزاروں سامعین کی محویت اور انہماک آخری لمحے تک برقرار رہتی. بین الاقوامی سطح پر ڈاکٹر صاحبؒ کے اس تعارف کے وسعت پذیر ہونے میں پاکستان کے مختلف ٹی وی چینلز بالخصوص QTV اور ARY کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر ذاکر نائیک کے قائم کردہ Peace TV کا کردار خصوصیت کے ساتھ قابل ذکر ہے. اللہ سبحانہ‘وتعالیٰ نے اُن کے دروس وخطابات سے استفادے کے دائرے کو بے پناہ وسعت دینے کے لیے عالم اسباب میں مذکورہ بالا چینلز کو ذریعہ بنایا. چنانچہ ان کی وفات کی خبر کو مسلمانانِ پاکستان کے ساتھ ساتھ بھارت اور مقبوضہ کشمیر کے کروڑوں مسلمانوں نے بھی ذاتی صدمے ورنج کے طور پر محسوس کیابلکہ دنیا کے کونے کونے سے ٹیلی فون اور ای میل کے ذریعے تعزیتی پیغامات کا ایک سیلاب اُمڈ آیا تھا جس سے اندازہ ہوا کہ پوری دنیا میں پھیلا ہوا اردو بولنے اور سمجھنے والے مسلمانوں کا ایک بہت بڑا طبقہ اپنے صدمہ و رنج کے اظہار کے لیے بے چین اور بے تاب تھا. چنانچہ تعزیتی پیغامات کا سلسلہ ان کی وفات کے مہینوں بعد تک جاری رہا. اسی طرح مرحوم کے جنازے میں اہل لاہور کی والہانہ شرکت اور عقیدت مندوں کا سیل رواں مرحوم کے حلقہ تعارف کی بے پناہ وسعت اور ان کے ساتھ اس بے پناہ قلبی تعلق خاطر کی چغلی کھارہا تھا جس کا واحد سبب یہی تھا کہ قرآن حکیم کا پیغام عوام الناس تک موثر انداز میں پہنچانے کی خدمت کو اللہ نے شرف قبول بخشا ہے.

ایں سعادت بزور بازو نیست تانہ بخشد خدائے بخشندہ!

تاہم دنیا کے طول وعرض میں پھیلے ہوئے ان کروڑوں عقیدت مندوں کی ایک عظیم اکثریت انہیں محض ایک عظیم داعی ومدرس قرآن کی حیثیت سے جانتی ہے. بہت کم لوگ اس حقیقت سے واقف ہیں کہ انہوں نے جہاں قرآن کے آفاقی پیغام کو عام کرنے اور دنیا کے مسلمانوں کی دینی حوالے سے فکری وعلمی رہنمائی کا عظیم فریضہ سرانجام دیا، وہاں قرآن کی آفاقی ہدایت پر عمل پیرا ہونے اور دین کے عملی تقاضوں بالخصوص غلبہ و اقامت ِ ِدین کی جدوجہد کی خاطر ایک منظم جماعت کی داغ بیل بھی ڈالی اور اس کٹھن اور پُرصعوبت راہ پر عملی طور پر قدم رکھنے کی خاطر ایک قافلہ بھی تشکیل دیا جو گزشتہ کم و بیش 36برس سے اس مملکت ِ خداداد پاکستان میں ’’تنظیم اسلامی‘‘ کے نام سے نظام خلافت کے قیام کی جدوجہد میں سرگرم عمل ہے اور وہ اپنی زندگی کی آخری سانس تک اس تنظیمی قافلے کی بنیادوں کو مضبوط کرنے کی خاطر اپنے جسم و جاں کی تمام تر توانائیاں اس درخت کے سیراب کرنے میں خرچ کرتے رہے. اس حوالے سے ان کی پوری زندگی‘ ایک عظیم تحریکی شاعر ملک نصراﷲ عزیز کے اس شعر کی عملی تفسیر تھی کہ ؎

مری زندگی کا مقصد‘ تیرے دیں کی سرفرازی
میں اسی لیے مسلماں‘ میں اسی لیے نمازی

ان کے نزدیک اﷲ سے محبت اور اس کی رضا کے حصول کے دیگر لازمی تقاضوں کے ساتھ ساتھ ایک نہایت اہم تقاضا غلبہ و اقامت ِ دین کی جدوجہد میں تن من دھن لگا کر اﷲ اور اس کے رسول کی وفاداری کے 
امتحان میں پورا اترنا ہے. سورۃالحدید کی آیت 25 میں اسی اہم حقیقت کی طرف رہنمائی ملتی ہے: 

لَقَدۡ اَرۡسَلۡنَا رُسُلَنَا بِالۡبَیِّنٰتِ وَ اَنۡزَلۡنَا مَعَہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡمِیۡزَانَ لِیَقُوۡمَ النَّاسُ بِالۡقِسۡطِ ۚ وَ اَنۡزَلۡنَا الۡحَدِیۡدَ فِیۡہِ بَاۡسٌ شَدِیۡدٌ وَّ مَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَ لِیَعۡلَمَ اللّٰہُ مَنۡ یَّنۡصُرُہٗ وَ رُسُلَہٗ بِالۡغَیۡبِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ قَوِیٌّ عَزِیۡزٌ ﴿٪۲۵﴾ 

’’ہم نے بھیجے اپنے رسول نشانیاں دے کر اور اتارے اُن کے ساتھ کتاب اور ترازو تاکہ لوگ سیدھے رہیں عدل پر اور ہم نے اُتارا لوہا اس میں لڑائی کی سخت قوت ہے اور لوگوں کے لئے دیگر فائدے بھی، تاکہ معلوم کرے اللہ کون مدد کرتا ہے اُس کی اور اُس کے رسولوں کی بِن دیکھے. بے شک اللہ زور آور اور زبردست ہے‘‘

ان کا مؤقف تھا کہ قرآن حکیم کی تعلیم و تعلّم کا کام یقینا اپنی جگہ نہایت فضیلت کا حامل ہے‘ اور اس ضمن میں نبی اکرم کا یہ فرمان کہ 
’’خیر کم من تعلم القرآن وعلمہ‘‘ (تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جو قرآن کا علم حاصل کرے اور دوسروں کو قرآن کی تعلیم دے) بلاشبہ حرفِ آخر کا درجہ رکھتا ہے‘ لیکن قرآن حکیم کے تعلّم و تعلیم کے نتیجے میں اس کے جو عملی تقاضے اور دینی ذمہ داریاں واضح طور پر ہمارے سامنے آتی ہیں اُن سے پہلوتہی اور کوتاہی کرنا اپنے ایمان کو خطرے میں ڈالنے اور نفاق کا خطرہ مول لینے کے مترادف ہے. لہٰذا ہر مسلمان کو نہ صرف اپنی انفرادی دینی ذمہ داریوں کی ادائیگی کی فکر کرنا ہو گی بلکہ فی زمانہ امت کی اجتماعی ذمہ داریوں یعنی شہادتِ حق اور غلبہ و اقامت ِ دین کی جدوجہد میں بھی اپنا حصہ ڈالنا ہو گا‘ اس لیے کہ آج دین مغلوب ہے. روئے ارضی پر کسی ایک مقام پر بھی حقیقی معنوں میں اﷲ کا کلمہ سربلند نہیں ہے. ستم بالائے ستم یہ کہ اُن 57 ممالک میں بھی جہاں مسلمانوںکی عددی اکثریت ہے اور ان ممالک میں اکثر و بیشتر اقتدار و اختیار بھی مسلمانوں ہی کے ہاتھوں میں ہے‘ اﷲ کا دین قائم ہے نہ اُس کے رسول کی لائی ہوئی شریعت نافذ ہے !!! آج پوری دنیا میں مسلمانوں کی ذلت و رسوائی اور بے بسی و زبوں حالی کا اصل سبب بھی یہی ہے. یعنی قرآن کی ہدایت اور اﷲ کے دین سے عملی پہلوتہی اور گریز کی روش!

وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر

والد محترم رحمہ اللہ علیہکے نزدیک مسلمانوں کا یہ مجرمانہ طرز ِعمل ان کے لیے دنیا اور آخرت دونوں کی تباہی و 
خسارے کا موجب بن سکتا ہے. اﷲ کے دین سے اس کھلی بے وفائی اور بے اعتنائی کے نتیجے میں آج اﷲ کی طرف سے پوری امت پر ذلت و مسکنت کا عذاب مسلط ہے. اور اگر ہم نے اپنی روش تبدیل نہ کی تو عاقبت برباد ہونے کا بھی شدید اندیشہ ہے. اعاذنا اللّٰہ من ذٰلک! 

بہرکیف‘ غلبہ و اقامت ِ دین کی اس جدوجہد کی ضرورت و اہمیت کا احساس انہیں زمانۂ طالب علمی ہی میں ہو گیا تھا. اسی کا مظہر تھا کہ لاہور میں میڈیکل کی تعلیم کے دوران انہوں نے اسلامی جمعیت طلبہ کی رکنیت اختیار کی اور اس میں نہایت فعال کردار ادا کیا. 1954ء میں ایم بی بی ایس مکمل کرنے کے فوراً بعد اسی مقصد کے لیے جماعت اسلامی میں شمولیت کے لیے درخواست دے دی اور وہاں بھی بہت جلد اپنی غیرمعمولی صلاحیتوں‘ جذبۂ صادق اور فعالیت کے باعث ایک مقام حاصل کیا بعد میں جب حکمت عملی اور لائحہ عمل کے اختلاف کے باعث جماعت اسلامی کو خیرباد کہا تب بھی مقصدیت کی لگن نے انہیں چین سے بیٹھنے نہ دیا. ابتدا میں انہوںؒ نے مذکورہ بالا اختلاف کی بنیاد پر جماعت اسلامی سے الگ ہونے والے افراد کو جن میں بعض اکابر بھی شامل تھے‘ جمع کر کے غلبہ و اقامت ِ دین کی جدوجہد کے لیے ایک نیا قافلہ تشکیل دینے کی سرتوڑ کوشش کی. لیکن جب یہ کوشش بوجوہ بارآور نہ ہو سکی تو تن تنہا اس مقصد عظیم کی خاطر دروس قرآن کی شکل میں قرآن حکیم کے انقلابی پیغام کے ابلاغ کی بنیاد پر ’’تنظیم اسلامی‘‘ کے نام سے ایک قافلہ ترتیب دیا جس نے مارچ 1975ء میں بفضل اﷲ تعالیٰ اپنے سفر کا آغاز کیا. اور اپنی زندگی کے آخری سانس تک وہ اسی قافلے کی آبیاری اور اس کے ذریعے غلبہ و اقامت ِ دین کی جدوجہد میں سرگرم رہے. بحمد اﷲ تعالیٰ و بفضلہ غلبہ و اقامت ِ دین کا یہ قافلہ ان کی وفات کے بعد بھی جانب منزل رواں دواں ہے. سچی بات یہ ہے کہ وہ عصرحاضر کے عظیم داعی ٔ قرآن ہی نہیں‘ غلبہ و اقامت ِ دین کی جدوجہد کے نہایت عظیم داعی اور اس راہ کے بے مثال مجاہد بھی تھے!
زیرنظر کتاب میں والد محترم ڈاکٹر اسرار احمد رحمہ اللہ علیہ کی شخصیت کے مختصر تعارف کے بعد ان کی کتابِ زندگی کے انہی ابواب کو اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے جو غلبہ دین حق کی ایک بے مثال اور پیہم جدوجہد سے عبارت ہیں‘ اس لیے کہ اس کے بغیر ان کا شخصی تعارف ہر اعتبار سے ادھورا اور تشنہ رہے گا. ان کی زندگی کا یہ گوشہ ان کے قریبی ساتھیوں اور پاکستان کے تمام دینی تحریکی حلقوں پر تو خوب روشن ہے لیکن عوام الناس کی عظیم اکثریت جو ان کی خدمت قرآنی سے تو متعارف بھی ہے اور اس کی معترف بھی‘ ان کی زندگی کے اس 
نہایت اہم گوشے سے قطعی نابلد ہے جو اپنی جگہ نہایت اہم بھی ہے اور درخشاں بھی!

چنانچہ زیرنظر کتاب کے حصہ اوّل میں محترم ڈاکٹر اسرار احمد رحمہ اللہ علیہ کے حالاتِ زندگی اور دینی خدمات کے عنوان سے ان کے ایک شاگردِ رشید انجینئر حافظ نوید احمد صاحب کی ایک تحریر شامل ہے جس میں مرحوم کے سفرحیات کے چیدہ چیدہ سنگ ہائے میل کا تذکرہ بھی ہے اور ان کی ہمہ جہت دینی خدمات کا ایک مختصر جائزہ بھی. جبکہ حصہ دوم کا عنوان ہے: ’’تنظیم اسلامی کا تعارف اور تاریخی پس منظر‘‘. اس حوالے سے بانی تنظیمؒ کی بعض نہایت اہم تحریروں کو شامل کتاب کیا گیا ہے جس سے تنظیم کا ہمہ جہت تعارف نکھرکر سامنے آتا ہے. حصہ سوم ’’تنظیم اسلامی کی فکر اور طریق کار‘‘ کی وضاحت پر مشتمل ہے. اس میں بھی بانی تنظیمؒ کی تحریروں اور خطابات کو بنیاد بنایا گیا ہے جن کے ذریعے نہ صرف تنظیم اسلامی کے تحریکی افکار و تصورات کی عمدگی کے ساتھ وضاحت ہوتی ہے بلکہ غلبہ دین کے لیے عملی طریق کار اور منہج کیا ہو‘ اس اہم سوال کا واضح جواب بھی صراحت کے ساتھ مل جاتا ہے. آج اسلامی دنیا میں بالعموم غلبہ دین کی منزل کے حصول کے دو ہی طریقے رائج ہیں: بیلٹ یا بُلٹ‘ یعنی الیکشن کی سیاست کا راستہ یا مسلح عسکری جدوجہد. بانی تنظیم اسلامیؒ نے منہج انقلاب نبویؐ کو بنیاد بناتے ہوئے دین کے مسلمہ اصولوں کی روشنی میں آج کے دور کے لیے ایک تیسرا راستہ تجویز کیا ہے جو نہ صرف روح دین سے پورے طور پر ہم آہنگ ہے بلکہ روح عصر کے تقاضوں کا بھی عمدگی کے ساتھ احاطہ کرتا ہے اور اب روایتی علماء کے طبقوں میں بھی اس تصور کو پذیرائی مل رہی ہے. 
فالحمد للّٰہ علٰی ذٰلک! کتاب کے آخری حصے میں تنظیم کے دینی فکر اور عملی طریق کی مزید وضاحت کے لیے چند مختصر مضامین اور چند دستاویزات شامل کی گئی ہیں جو اپنی جگہ نہایت مفید مطلب ہیں.

اس کتاب کی تیاری میں راقم کے ایک بزرگ تحریکی ساتھی محترم عبدالرزاق کوڈواوی صاحب اور ایک نوجوان رفیق کار عزیزم اویس پاشا کی بے پناہ محنت‘ لگن اور خلوص شامل ہے. دعا ہے کہ اﷲ سبحانہ‘ و تعالیٰ ان دونوں حضرات کو اجرعظیم سے نوازیں اور بانی تنظیم اسلامیؒ کی دینی‘قرآنی اور تحریکی مساعی کو شرفِ قبول عطا فرمائیں اور ہمیں حقیقی معنوں میں ان کے لیے صدقہ جاریہ بنا دیں. آمین!

ایں دعا از من و از جملہ جہاں آمین باد!

۱۹ ؍ مئی ۲۰۱۱ء بمطابق ۱۵ جمادی الثانی ۱۴۳۲ھ خاکسار عاکف سعید عفی عنہ
امیر تنظیم اسلامی پاکستان