۱۹۴۷ء تا۱۹۵۷ء
پاکستان آمد کے بعد محترم ڈاکٹر صاحبؒ نے گورنمٹ کالج لاہور میں ایف ایس سی میں داخلہ لیا. اُس وقت آپ جماعت اسلامی کے حلقہ ہمددردان میں شامل ہوگئے. اب آپ نے جماعت اسلامی کے لٹریچر کا تفصیلی مطالعہ کیا‘ جس کے نتیجے میں دین کا انقلابی فکر آپ کے قلب و ذہن میں رچ بس گیا اور غلبہ و اقامت ِ دین کی جدوجہد ترجیح اول بن گئی. اسی دوران جماعت اسلامی کی نفاذِدستور اسلامی مہم میں بھرپور حصہ لیا. اِس مہم کا نتیجہ یہ نکلا کہ مارچ ۱۹۴۹ میں قراردادِ مقاصد دستور ِ پاکستان میں شامل کردی گئی.اِس کے ذریعہ اصولی اعتبار سے طے کیا گیا کہ پاکستان میں کوئی قانون سازی قرآن و سنت کے منافی نہ ہوگی.

۱۹۵۰میں ڈاکٹر صاحبؒ کنگ ایڈ ورڈ میڈیکل کالج لاہور میں داخل ہوگئے اور باقاعدہ اسلامی جمعیت طلبہ میں شمولیت اختیار کرلی. جمعیت کے پلیٹ فارم نے آپ کی تحریری ‘ تقریری اور تدریسی صلاحیتوں کو خوب نکھرنے کا موقع فراہم کیا. جمعیت میں رہتے ہوئے آپ نے دعوتی مضامین تحریرکیے . جمعیت کے ترجمان کے طور پر ایک رسالہ ’’عزم‘‘ کے نام سے جاری کیا. لاہورکے علاوہ پاکستان کے دیگر شہروں میں جاکر بھی دروسِ قرآن دیتے رہے اور کچھ ہی عرصہ میں آپ ایک نمایاں مدرسِ قرآن کے طور پر مشہور ہو گئے. جمعیت میں فعال سرگرمیوں کی وجہ سے پہلے ناظمِ لاہور پھر ناظمِ پنجاب اور آخرکار ناظمِ اعلیٰ پاکستان کے منصب تک پہنچے. 

جمعیت میں مختلف مناصب کی ذمہ داری ادا کر تے ہوئے ڈاکٹر صاحبؒ نے کئی تربیت گاہوں کا انعقاد کیا. اِن تربیت گاہوں میں مولانا امین احسن اصلاحی صاحب کے دروسِ قرآن سے خوب استفادہ کرتے رہے او ر بذاتِ خود جماعت اسلامی کے تحریکی اور فکری لٹریچر کی تدریس کی ذمہ داری ادا کرتے رہے. 

۱۹۵۴ میں جب ڈاکٹر صاحبؒ نے MBBS کر لیا اور طالب علمی کا دور ختم ہوا تو اُنہوں نے جماعت اسلامی کی رکنیت کی درخواست دی. وہ نہیں چاہتے تھے کہ اُن کی زندگی کا ایک دن بھی جماعت کے بغیر بسر ہو. نومبر ۱۹۵۴ میں اُن کی درخواست منظور ہوئی اور وہ باقاعدہ جماعت اسلامی کے رکن بن گئے. تعلیم کی تکمیل کے بعد ڈاکٹر صاحبؒ سا ہیوال منتقل ہوگئے او ر وہاں جماعت اسلامی کی ایک ڈسپینسری میں ملازمت اختیار کی.اُنہیں کچھ ہی عرصہ میں جماعت اسلامی ساہیوال کا امیر بنا دیا گیا. 

۱۹۵۵ء میں جماعت اسلامی میں ایک بحران کی کیفیت پیدا ہونی شروع ہوئی . کئی اراکینِ جماعت نے محسوس کیا کہ جماعت کی سرگرمیوں کا رخ رفتہ رفتہ بدل گیا ہے. اب فرد کی اصلاح کے بجائے زیادہ زور نظام حکومت کی اصلاح کی طرف ہے جس سے اراکینِ جماعت کی ذاتی تربیت کا معیار گرتا جارہا ہے. اِس حوالے سے جب بے چینی زیادہ محسوس ہونے لگی تو امیر جماعت مولاناسید ابواعلیٰ مودودی رحمہ اللہ علیہ نے مولانا عبدالغفار حسنؒ ، مولانا عبدالرحیم اشرفؒ اور شیخ سلطان احمد پر مشتمل ایک جائزہ کمیٹی بنائی. کمیٹی کو ذمہ داری سونپی گئی کہ وہ پورے ملک میں اراکینِ جماعت سے رابطہ کرے اور جو لوگ بے چینی محسوس کررہے ہیں اُن کے احساسات کی ایک رپورٹ مرتب کرے.ڈاکٹر صاحبؒ نے ۲۵۰ صفحات پر مشتمل ایک بیان اِس کمیٹی کے حوالے کیا. ڈاکٹر صاحبؒ نے تجزیہ کیا کہ جماعت اسلامی کا رخ انتخابی سیاست میں شامل ہونے کی وجہ سے بدل گیا ہے. پہلے ہماری ترجیح افراد کی ذہن سازی، تطہیر افکار، تزکیہ ٔ نفس اورتعمیر سیرت تھی. اب ہمارا رُخ حکومت پر تنقید اور نظام حکومت کی اصلاح کی جانب ہے. ڈاکٹر صاحبؒ نے اِس تجزیہ کے لیے بطور دلیل جماعت کے اکابرین کی تحریروں کا ایک تقابلی جائزہ پیش کیا.یہ تقابل ۱۹۴۷سے قبل لکھی جانے والی تحریروں اور پھر ۱۹۴۷کے بعد کی شائع ہونے والی تحریروں کا تھا . 

ڈاکٹر صاحبؒ کے اختلافی بیان نے جماعت اسلامی کی شوریٰ کے کئی اراکین کو بہت متاثر کیا. مولانا امین احسن اصلاحیؒ کا تا ثر یہ تھا کہ اِس نوجوان نے ہمیں ہمار ی تحریروں کی صورت میں ایک آئینہ دکھادیا ہے. شوریٰ میں شامل اکابر کی اکثریت کی رائے تھی کہ جماعت کو انتخابی سیاست میں حصہ نہیں لینا چاہیے. مولانا موودودیؒ کو اِس رائے سے اتفاق نہ تھا . اُنہوں نے جماعت کی امارت سے مستعفی ہونا چاہا . اصلاحی صاحب کا موقف تھا کہ جماعت کے فطری امیر مولانا مودودیؒ ہیں اورجماعت صرف اُن کی امارت ہی میں کام کرسکتی ہے.البتہ مولانا مودودیؒ کو شوریٰ کی اکثریت کی رائے پر عمل کرنا چاہیے . مولانا مودودیؒ اس بات کو ماننے کے لیے تیار نہ تھے کہ امیرِ جماعت ‘شوریٰ کی اکثریت کی رائے کا پابند ہو. اُنہوں نے دلچسپ بات کہی کہ آپ چاہتے ہیں کہ امامت تو میں کروں لیکن رکوع اس وقت کروں جب شوریٰ 
اللّٰہ اکبر کہے اور رکوع سے اُس وقت اُٹھوں جب شوریٰ سمع اللّٰہ لمن حمدہ کہے. امیر کو اراکین کو گننا نہیں تولنا چاہیے.

جائزہ کمیٹی نے اپنی رپورٹ جماعت اسلامی کی مرکزی شوریٰ کے اجلاس منعقدہ نومبر/دسمبر۱۹۵۶ء میں پیش کی.اس اجلاس میں مجلس شوریٰ کے تمام فعّال اور بااثر ارکان واضح طور پر دو گروہ میں منقسم ہوگئے. ایک گروہ کی رائے یہ تھی کہ جماعت ِ اسلامی غلط رخ پر بڑھ آئی ہے. ۴۷ء میں طریق کار میں جو تبدیلی کی گئی وہ اصولاً اور مصلحتاً دونوں ہی اعتبار سے غلط تھی اور اب خیریت اسی میں ہے کہ فوراً اس سے رجوع کیا جائے اور ’’اوپر سے نیچے‘‘ انقلاب لانے کے خواب دیکھنا چھوڑ کر پھر وہی ’’نیچے سے اوپر‘‘ کی طرف تبدیلی لانے کا طریقہ اختیار کیا جائے. جبکہ دوسرے گروہ کا خیال تھا کہ یہ فیصلہ جماعت اسلامی کے حق میں مہلک ثابت ہوگا. جماعت کو اسی موجودہ طریقِ کار پر کاربند رہنا چاہئے. مولانا مودودیؒ نے جائزہ کمیٹی کی سفارشات سے اتفاق نہیں کیا اور اسی طریق کار کو جاری رکھنے پر اصرار کیا. ماچھی گوٹھ کے اجتماع منعقدہ فروری ۱۹۵۷ء میں ارکان جماعت اسلامی کی اکثریت نے مولاناؒ کی رائے پر صاد کیا. چنانچہ اس اجتماع کے بعد جماعت اسلامی اندرونی طور پر شدید اختلاف و انتشار کا شکار ہو گئی جس کے نتیجے میں جماعت کے اکابرین کی قابل ذکر تعداد نے جماعت اسلامی سے علیحدگی اختیار کر لی. ان اکابر کے ساتھ کچھ ’’اصاغر‘‘ بھی اسی زمانے میں جماعت سے علیحدہ ہوئے جن میں ایک ڈاکٹر صاحبؒ بھی تھے. 
تیسرا دور…