جماعت اسلامی سے تنظیم اسلامی تک سفر: چند درمیانی مراحل

۱۹۵۷ء تا۱۹۶۷ء 
جماعتِ اسلامی سے علیحدگی کے بعد ڈاکٹر صاحبؒ نے جماعت کی ڈسپینسری کی ملازمت ترک کردی اور ساہیوال میں اپنا مطب قائم کرلیا. دینی سرگرمیوں کے اعتبار سے ڈاکٹر صاحبؒ نے دروسِ قرآن کے کئی حلقے قائم کیے. کالج کی سطح کے طلبہ کے لیے ایک ہاسٹل بنایا تاکہ وہاں مقیم طلبہ کی دین کے وسیع تصور کے اعتبار سے ذہن سازی کی جاسکے . جماعتِ اسلامی سے علیحدہ ہونے والے اکابرین سے بار بار رابطے کیے تاکہ ایک نئی اجتماعیت قائم کی جاسکے جو جماعت اسلامی کے ابتدئی طریقہ ٔ کار کو پھر سے اختیار کرکے افراد کی ذہن سازی اور عملی تربیت کا اہتمام کرسکے تاکہ غلبہ و اقامت ِدین کی راہ ہموار ہو سکے. ساہیوال میں قیا م کے دوران تبلیغی جماعت کے ساتھ بھی دو سال تک رابطہ رہا. ڈاکٹر صاحبؒ شبِ جمعہ کے بیان میں شرکت کرتے اور فجر کے بعد تبلیغی جماعت کے اجتماع میں دروسِ قرآن دیتے رہے. البتہ جب محسوس ہوا کہ تبلیغی جماعت کی اصل توجہ صرف افراد کی اصلاح پر ہے. وہ اقامتِ دین کے لیے کوئی واضح لائحہ عمل پیش کرنے کے لیے تیا ر نہیں تو ڈاکٹر صاحبؒ کا تبلیغی جماعت سے مزید ربط جاری نہ رہ سکا. ساہیوال میں ڈاکٹر صاحبؒ کی مذکورہ بالا سرگرمیاں ۱۹۵۷ء تا ۱۹۶۲ء جاری رہیں. 

۱۹۶۲ء میں ڈاکٹر صاحبؒ کے بڑے بھائی اظہار احمد صاحب کو اپنی تعمیراتی کمپنی قریشی کنسٹرکشن کہ جس میں ڈاکٹر صاحبؒ کے چھوٹے بھائی بھی حصہ دار تھے‘ میں ڈاکٹر صاحبؒ کی معاونت کی ضرورت بھی محسوس ہوئی. اُنہوں نے ڈاکٹر صاحبؒ کے سامنے تجویز رکھی تھی کہ آپ کراچی آکر میری کمپنی میں کچھ عرصہ معاونت کریں. اِس سے آپ مالی اعتبار سے اِس قابل ہوجائیں گے کہ بعد میں اپنے آپ کو کل وقتی دینی سرگرمیوں کے لیے وقف کرسکیں. ڈاکٹر صاحبؒ اُن کی تجویز پر ۱۹۶۲ء میں کراچی تشریف لے آئے. مذکورہ کمپنی میں آپ نے جنرل منیجر کی حیثیت سے کام کیا.

کراچی میں قیام کے دوران ڈاکٹر صاحبؒ کی رہائش کچھ عرصہ کے لیے کورنگی میں دارلعلوم کراچی کے بالکل ساتھ اظہار لمیٹڈ کی فیکٹری میں رہی. اِس دوران ڈاکٹر صاحب رحمہ اللہ علیہ کو مفتی شفیع صاحبؒ ، مفتی رفیع عثمانی صاحب اور مفتی تقی عثمانی صاحب کی قربت بھی حاصل رہی. کراچی میں قیام کے دوران ڈاکٹرصاحب نے دروسِ قرآن دینے کا سلسلہ جاری رکھا. قبل ازیں‘ کراچی میں کچھ عرصہ ڈاکٹر مسعود عثمانی صاحب کے ساتھ بھی کام کیا تھا جو جماعت اسلامی سے علیحدہ ہوئے تھے. البتہ مسعود عثمانی صاحب کے مزاج میں بعض دینی تصورات بالخصوص توحید کے ضمن میں حد سے بڑھی ہوئی شدت کہ جس کے باعث بعض جلیل القدر اکابر امت بھی مشرک قرار پائے‘ ڈاکٹر صاحبؒ کا ان کے ساتھ اشتراکِ عمل زیادہ عر صہ جاری نہ رہ سکا. قیامِ کراچی کے دوران ۱۹۶۵ء میں ڈاکٹر صاحبؒ نے کراچی یونیورسٹی سے ایم اے اسلامیات کا امتحان پاس کیا اور پہلی پوزیشن کے حق دار ٹھہرے.

ڈاکٹر صاحبؒ نے ۱۹۶۵ء میں قریشی کنسٹرکشن اور کمپنی سے قطع تعلق کرلیا اوروالدین سمیت ساہیوال آگئے. والد صاحب اِسی سال وفات پاگئے.اب ڈاکٹر صاحبؒ نے شہرِ لاہور کو اپنی دینی سرگرمیوں کامرکز بنا نے کا فیصلہ کیا. 

لاہورمیں ڈاکٹر صاحبؒ نے اپنی اب تک کی جمع شدہ پونجی سے کرشن نگر میں ایک مکان خریدا.اِس مکان میں اپنامطب قائم کیا.مکان کی بالائی منزل پررہائش اختیار کی اوردعوتی کتب کی اشاعت کے لیے دارالاشاعتِ الاسلامیہ قائم کیا. دارالااشاعت سے ڈاکٹر صاحبؒ نے کئی دعوتی کتب شائع کیں اور مولانا امین احسن اصلاحی صاحبؒ کی تفسیر تدبر قرآن کی اشاعت کابھی آغازکیا.لاہورمیں آپ نے دروسِ قرآن کے کئی حلقے قائم کیے اور جماعت اسلامی سے علیحدہ ہونے والے اکابرین سے رابطوں میں تیزی پیداکردی تاکہ احیائِ اسلام کے لیے ایک نئی اجتماعیت قائم کی جاسکے. 

۱۹۶۶ء میں ڈاکٹرصاحبؒ نے ماہنامہ میثاق کادوبارہ اجراکیا جسے مولانا اصلاحی صاحبؒ نے ۱۹۵۹ء میں جاری کیاتھا لیکن اب وہ مالی دشواریوں کی وجہ سے شائع نہیں ہورہاتھا . اِسی سال ڈاکٹر صاحبؒنے جماعت اسلامی کے حوالے سے اپنے اختلافی بیان کو ’’تحریک ِ جماعت اسلامی: ایک تحقیقی مطالعہ ‘‘ کے نام سے کتابی صورت میں شائع کر دیا. علمی حلقوں میں ایک طرف تو اِس بیان کی خوب تحسین ہوئی، اہلِ علم نے حیرت کااظہارکیاکہ ڈاکٹر صاحبؒ نے محض ۲۴برس کی عمر میں جماعتِ اسلامی کے طریقۂ کار میں تبدیلی کا کتنا مدلل تجزیہ کیا اور معین کرکے بتایا کہ جماعت کے طریقۂ کار اور ترجیحات میں تبدیلی کا سبب کیا تھا؟ دوسری طرف علمی حلقوں کی طرف سے اُن حضرات پر تنقید بھی کی گئی جنہوں نے پالیسی کے اختلاف کی بنیاد پر جماعت سے علیحدہ ہونے کے بعد کوئی اجتماعی جدوجہد شروع نہ کی. اِس تنقید کا مثبت اثر اِن حضرات پر یہ ہوا کہ اُنہوں نے ایک اجتماعیت کے قیام پر سنجیدہ غوروفکر شروع کر دیا. چوتھا دور…