۱۹۶۷ء تا۱۹۷۵ء
ماہنامہ ’’میثاق‘‘ کے اجراء اور ’’تحریک جماعت اسلامی: ایک تحقیقی مطالعہ‘‘ کی اشاعت کے بعد 1967ء کے اوائل ہی سے محترم ڈاکٹر صاحبؒ نے اپنے ان دیرینہ ساتھیوں سے جو 1957ء میں جماعت اسلامی سے علیحدہ ہوئے تھے‘ رابطوں کا سلسلہ تیز کر دیا. اس معاملے میں مولانا عبدالغفار حسن ؒ اور شیخ سلطان احمد صاحب نے بھی بھرپور تعاون کیا‘ جس کے نتیجے میں جون 1967ء میں رحیم آباد میں چند افراد جمع ہوئے اور ایک نئی جماعت کے قیام کے حوالے سے ایک قرارداد متفقہ طور پر منظور کی گئی اور اسے جولائی 1967ء کے ’’میثاق‘‘ میں ’’قراردادِ رحیم آباد‘‘ کے نام سے شائع کر دیا گیا. اس کاوش کے نتیجے میں 1957-58ء میں جماعت اسلامی سے نکلنے والے کم و بیش چالیس حضرات کا ایک مشاورتی اجلاس مولانا امین احسن اصلاحی مرحوم کی صدارت میں 6-7ستمبر 1967ء میں رحیم یار خان میں ہوا اور مذکورہ بالا قرارداد کو اس کی توضیحات سمیت معمولی کمی بیشی کے بعد متفقہ طور پر منظور کر لیا گیا (یہ قرارداد اور اس کی توضیحات اصلاً ڈاکٹر صاحبؒ ہی کے مرتب کردہ تھے) اور اس طرح ایک نئی جماعت کا قیام عمل میں آیا جس کا نام مولانا اصلاحی صاحب نے تنظیم اسلامی تجویز کیا.

قرارداد تاسیس کے بعض نکات کی مزید تشریح کے ضمن میں مولانا امین احسن اصلاحی صاحب اور مولانا عبدالغفار حسن صاحب نے بہت عمدہ تقاریر کیں. طے پایا کہ نئی اجتماعیت کے لیے کنوینر مولانا امین احسن اصلاحی صاحب ہوں گے. وہ پورے پاکستان کا دورہ کریں گے اور خدمتِ دین کا جذبہ رکھنے والوں کو نئی اجتماعیت کے مقاصد اور طریقۂ کارسے آگاہ کریں گے. بعد ازاں اِس اجتماعیت میں شمولیت کا ارادہ کرنے والوں کا ایک ملک گیر اجتماع ہوگا جس میں اجتماعیت کے قیام کا باقاعدہ اعلان کیا جائے گا. 

حسبِ پروگرام مولانا امین احسن اصلاحی صاحب مختلف شہروں کے دورہ پر نکلے. سکھر میں ایک اجتماع عام کے دوران ایک حادثہ پیش آگیا اور بعض دوسرے حوادث اس کے کچھ عرصے بعد رونما ہوگئے جن کے نتیجے میں ایک جانب تو مولانا اصلاحی کی طبیعت تو بُجھ کر رہ گئی اور دوسری جانب بعض اہم رفقاء کے مزاج میں بھی تکدّر پیدا ہوگیا. لہٰذا ’’حسرت اُن غنچوں پہ ہے جو بن کھلے مرجھا گئے ‘‘ کے مصداق ایک اجتماعیت کے قیام کامعاملہ آگے نہ بڑھ سکا. بعد ازاں جب ڈاکٹر صاحبؒ نے تنظیم اسلامی قائم کی تو مذکورہ قراردادتاسیس ہی کو تنظیمِ اسلامی کی اساس کے طور پر اختیار کیا.

1967ء ہی میں ڈاکٹر صاحبؒ کے قلم سے وہ معرکۃ الآراء تحریر منصہ شہود پر آئی جو بعد میں ’’اسلام 
کی نشاۃ ثانیہ: کرنے کا اصل کام‘‘ کے عنوان سے پمفلٹ کی صورت میں شائع ہوئی. اس تحریر میں اولاً انہوں نے واضح فرمایا کہ دورِ حاضر کا اصل المیہ یہ ہے کہ مادہ پرستانہ فکر نے پوری نوع انسانی کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے. یورپ میں بے پناہ سائنسی ترقی ہوئی لیکن چونکہ پاپائیت کے اُس غلط تصورِ مذہب کے باعث جو خلافِ عقل و فطرت بھی تھا‘ عیسائی دنیا نفسِ مذہب سے پہلے ہی شدید متنفر ہو چکی تھی‘ لہٰذا پوری عیسائی دنیا میں یہ سوچ مستحکم ہوتی چلی گئی کہ مذہب اور اس کے ماورائی تصورات کے مقابلے میں اصل قابل لحاظ اور قابل توجہ چیزیں یہ مادی کائنات اور ہماری مادی ضروریات و تقاضے ہیں جو حقیقی اور واقعی ہیں چنانچہ مادہ پرستانہ سوچ نے مغرب کے فکروفلسفہ پر بھی فیصلہ کن تسلط حاصل کر لیا. نتیجتاً ماورائی حقائق کا وہ علم جو آسمانی وحی کی صورت میں نوع انسانی کو عطا کیا گیا اور جس پر ایمان لانے کا مطالبہ پہلے ہی قدم کے طور پر ’’الذین یومنون بالغیب‘‘ کی صورت میں سامنے آتا ہے‘ مسلمانوں کے ذہنوں میں بھی دھندلانے لگا ہے اور نظر کو خیرہ کرنے والی سائنسی ترقی اور مغربی اقوام کی مرعوبیت نے ایمان و یقین کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے. ڈاکٹر صاحبؒ نے حالات کا تجزیہ کرتے ہوئے واضح فرمایا کہ مادہ پرستانہ سوچ و فکر کا یہ سیلاب اتنا شدید تھا کہ مسلمان اقوام میں مغرب کے خلاف علمِ جہاد بلند کرنے والی دینی جماعتیں بھی اس کے اثرات سے محفوظ نہ رہ سکیں.

لہٰذا عالمی سطح پر احیاء اسلام کے لیے اصل ضرورت اس بات کی ہے کہ قرآن کے ابدی پیغام کے ذریعے تجدید ِ ایمان کی ایک عمومی تحریک برپا کی جائے اور اس کے ساتھ ایک زبردست علمی تحریک ایسی اُٹھے جو اُن کے اپنے الفاظ میں:

’’جو سوسائٹی کے اعلیٰ ترین طبقات اور معاشرے کے ذہین ترین عناصر کے فکرونظر میں انقلاب برپا کر دےاور انہیں مادیت و الحاد کے اندھیروں سے نکال کر ایمان و یقین کی روشنی میں لے آئے اور خداپرستی و خودشناسی کی دولت سے مالامال کر دے. خالص علمی سطح پر اسلامی اعتقادات کے مدلل اثبات اور الحاد و مادہ پرستی کے پُرزور ابطال کے بغیر اس مہم کا سر ہونا محال ہے! ساتھ ہی یہ بھی واضح رہنا چاہیے کہ چونکہ موجودہ دور میں فاصلے بے معنی ہو کر رہ گئے ہیں اور پوری نوع انسانی ایک کنبے کی حیثیت اختیار کر چکی ہے. لہٰذا علمی سطح کا تعین کسی ایک ملک کے اعتبار سے نہیں بلکہ پوری دنیا کے اعلیٰ ترین معیار کے مطابق کرنا ہو گا.‘‘

۱۹۶۸ء میں ڈاکٹر صاحبؒ کے قلم سے ’’مسلمانوں پر قرآنِ مجید کے حقوق‘‘کے موضوع پر ایک اور معرکۃ الآرا تحریر صادر ہوئی‘ جو ایک اعتبار سے اُس تحریک رجوع الی القرآن کا نقطہ آغاز ثابت ہوئی جو بعدمیں 
مرکزی انجمن خدام القرآن لاہور اور اس کے تحت قرآن اکیڈمی کے قیام کی صورت میں موثر طور پر آگے بڑھی. بعدازاں‘ اسی نہج پر خدمت ِقرآنی کے ادارے کراچی‘ ملتان‘ فیصل آباد‘ جھنگ‘ پشاور‘ سرگودھا اور اسلام آباد میں بھی قائم ہوئے. اِس تحریر کے ذریعہ ڈاکٹر صاحبؒ نے واضح کیا کہ قرآن حکیم اﷲ تعالیٰ کا کلام ہی نہیں‘ نوع انسانی کے لیے اﷲ کا عظیم ترین تحفہ بھی ہے. یہ کتابِ ہدایت بھی ہے اور منبع ایمان و سرچشمہ یقین بھی ہے. لہٰذا ضروری ہے کہ قرآنِ مجید کے حقوق ادا کر کے اُس کے ساتھ اپنے تعلق کو زندہ اور مضبوط کیا جائے. اِس کتاب کے کئی زبانوں میں تراجم ہوئے لاکھوں کی تعداد میں یہ کتاب دنیا کے طول و عرض میں تقسیم ہو ئی .

۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۱ء کا دور ڈاکٹر صاحبؒ کے لئے دو اعتبا ر ات سے بہت مشکلا ت کا دو ر تھا .جسما نی اعتبا ر سے تھکا دینے والی محنت اور مالی اعتبا ر سے شدت کے ساتھ وسائل کی کمی . ڈاکٹر صاحبؒلاہور شہر میں درسِ قرآن کے کئی حلقے جاری رکھے ہوئے تھے .دروسِ قرآن کے لیے لا ہو ر کے علا وہ ملتا ن ، رحیم یا ر خا ن ، صادق آبا د ، سکھر اور کراچی تک اسفارکاسلسلہ جا ری تھا .۱۹۶۷ء سے جامع مسجد خضراء سمن آباد میں اجتماعِ جمعہ سے خطاب کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا. ما ہا نہ میثاق کے لئے مضا مین کی تیا ری ‘اُن کی کتابت‘ طبا عت کے لئے کا غذ کی فرا ہمی اورپھر طباعت کے کا م کی نگرانی بذات خو د کر تے رہے .اپنے مطب کی ضرور یا ت کی فرا ہمی کا بو جھ بھی آپ کے کاندھوں پر تھا . مزید یہ کہ رہا ئش گا ہ مطب کے ساتھ ہو نے کی وجہ سے آرا م کے وقت بھی مر یضو ں کی آمد اُن کے لئے مشقت کا با عث تھی .اس ہمہ جہت مشقت کا صحت پر منفی اثر ظاہر ہونے لگا اور مسلسل بخار کی سی کیفیت نے ایک دائمی مرض کی صورت اختیار کرلی. اور ڈاکٹرصاحب یہ سوچنے پر مجبور ہوئے کہ دینی اور تحریکی مساعی اور مطب دونوں کو ساتھ لے کر چلنا ممکن نہیں، اب کسی ایک جانب یکسو ہونے کی ضرورت ہے. دوسری طرف مالی صورت حال بھی کچھ حوصلہ افزا نہیں تھی.مالی اعتبا ر سے ڈاکٹر صاحبؒ کی جمع پونجی کا بڑ ا حصّہ ’’دار الاشاعت الاسلامیہ ‘‘ میں منجمد ہو گیاتھا . ماہنا مہ میثا ق کی اشاعت کے لیے ہر ما ہ کثیر مالی وسا ئل در کا ر رہتے تھے .لہٰذا مطب یکسر بند کردینا بھی ظاہرمیں ممکن نظر نہ آتا تھا.

۱۹۷۰ء میں ایک ایسی صورت پید ا ہو گئی کہ ڈاکٹرصاحب کوحجا زِ مقدس کا سفر کر نا پڑ ا . پاکستا ن میں عام انتخا با ت کا انعقاد ہو رہا تھا . جمعیت علما ء اسلا م کی طرف سے ڈاکٹر صاحبؒ کو صوبائی اسمبلی کے لئے ٹکٹ دینے کی پیشکش ہو ئی بلکہ اِس حوالے سے کا فی اصرار بھی کیا گیا . دوسری طرف جماعت اسلامی کی طرف سے بھی حمایت کی یقین دہا نی مو صو ل ہو ئی.اُنہو ں نے عافیت اِسی میں سمجھی کہ کچھ عرصہ کے لیے ملک سے باہر چلے جائیں.اُنہوں نے حجا زِ مقد س کے سفر کا ارادہ کیااور پو رے چارما ہ حجا ز میں رہے.وہاں عمر ہ اور حج دونوں کی سعادت حا صل کی . 
حج کے بعد حجا زمقدس ہی میں ڈاکٹر صاحبؒ نے اپنی زند گی کاوہ اہم ترین فیصلہ کیاجس کی ضرورت کا احساس گذشتہ کئی سالوں سے محسوس کررہے تھے. اُنہیں جب یہ احسا س ہو ا کہ وہ قمر ی اعتبا ر سے۴۰ بر س کی عمر کو پہنچ چکے ہیں تو طے کیا کہ اب بقیہ زندگی خا لصتاً خدمتِ دین کے لئے وقف کر دی جائے . ڈاکٹر صاحبؒ نے جب زندگی دین کے لئے وقف کر نے کا فیصلہ کیا تو اُس وقت اُنہیں معا شی اعتبا ر سے شدید قلت کا سامناتھا لیکن اُنہوں نے خا لصتاً اللہ پر تو کل کر تے ہو ئے یہ پر عزیمت فیصلہ کیا.وطن واپسی کے بعد اپنا مطب بند کر دیا اور مطب کے تمام اثاثہ جات فروخت کر دیے.

پیشِ نظرعلمی کا م کے لیے ڈاکٹر صاحبؒ نے ۱۹۷۲ء میں مر کز ی انجمن خدّام القرآن لا ہو رکے نام سے ایک ادارہ قائم کیا.دار الاشا عت الاسلا میہ کے تما م اثا ثہ جات انجمن نے خر ید لئے جس سے ڈاکٹر صاحبؒ کی ما لی مشکلا ت میں کمی آئی . انجمن کی طرف سے ڈاکٹر صاحبؒ کو رہا ئش فر اہم کی گئی . ڈاکٹر صاحبؒ نے اپنا کر شن نگر کا گھر کرائے پر دے دیا جس سے ڈاکٹر صاحبؒ کے گز ر اوقا ت کی سبیل پید ا ہو گئی .البتہ ڈاکٹر صاحبؒ نے طے کیا کہ ان کی مطبو عات پر اُن کا کو ئی حق نہیں ہو گا اور اُن سے ہونے والی تمام آمد نی انجمن کے لئے وقف ہو گی . بعد ازاں اِس انجمن کے تحت۱۹۷۷ء میں ما ڈل ٹا ؤ ن لا ہو ر میں قرآن اکیڈمی قا ئم ہو گئی.بلاشبہ یہ اکیڈمی خدمتِ قرآن اور دعوت رجوع الی القرآن کا ایک بڑا مرکز بن گئی جس میں پیش بہا تدریسی‘تبلیغی‘تصنیفی اور تحقیقی کام جاری و ساری ہیں.
1972ء میں مرکزی انجمن خدام القرآن لاہور کے قیام کے ساتھ ہی محترم ڈاکٹر صاحبؒ نے دستورِ انجمن میں اپنا یہ عزم ظاہر فرما دیا تھا کہ وہ انجمن کے قیام ہی کو اپنی منزل نہیں سمجھتے بلکہ ان کے پیش نظر اصل کام ایک ایسا تحریکی قافلہ تشکیل دینا ہے جو غلبہ و اقامت ِدین کی جدوجہد کے لیے اپنا تن من دھن نچھاور کر سکے. 1966ء تا 1974ء حلقہ ہائے دروسِ قرآن کے ذریعے شہر لاہور میں قرآن کے انقلابی پیغام کو پہنچانے کا نتیجہ یہ نکلا کہ پڑھے لکھے طبقات پر مشتمل ایک حلقۂ احباب وجود میں آ گیا جو اپنی تمام دینی ذمہ داریوں اور بالخصوص اقامت ِدین کی جدوجہد کے لیے قلباً و ذہناً آمادہ ہو چکے تھے. 1974ء کی قرآنی تربیت گاہ کے اختتام پر ڈاکٹر صاحبؒ نے اعلان کر دیا کہ وہ مذکورہ بالا مقصد کی خاطر ایک اجتماعیت تشکیل دینے کا پختہ ارادہ رکھتے ہیں.(ان کا یہ اہم خطاب زیرنظر کتاب میں ’’عزمِ تنظیم‘‘ کے عنوان سے شامل ہے). 
پانچواں دور…