۱۹۷۵ ء تا۲۰۰۲ء
ڈاکٹر صاحبؒ نے ۱۹۷۵ء میں تنظیمِ اسلامی تو قائم کردی لیکن ابتدا میں اِس جما عت کی امارت کی ذمہ دار ی قبول نہیں کی بلکہ کنوینر کے طو ر پر کام کر نے کا فیصلہ کیا . ڈاکٹر صاحبؒ کی خو ا ہش تھی کہ جماعت اسلا می سے علیحد ہ ہو نے والے اُن بزرگ حضرات کے لئے جو ۱۹۶۷ء میں تنظیم اسلامی کے قیام پر متفق ہوئے تھے، تنظیم کے دروازے کھلے رکھے جائیں. اور انہی میں سے کوئی بزرگ اِس جما عت کی امارت کا منصب سنبھالیں. ڈھائی سال کے انتظارکے با وجو د کو ئی بزرگ اِس کے لئے تیا ر نہ ہوئے. بالآخر اگست ۱۹۷۷ء میں تنظیم اسلامی کے تیسرے سالانہ اجتماع کے موقع پر ڈاکٹر صاحبؒ نے تنظیمِ اسلامی کی امارت کی ذمہ داری قبول کی اور طے کیا کہ اِس جماعت کی اساس قرآن و سنت اور سلف صالحین کے آثار سے ماخوذبیعت سمع و طاعت کے اصول پر ہو گی .

۱۹۷۷ء میں ڈاکٹر صاحبؒ نے باغ جناح لاہور میں واقع مسجد دار السلام میں خطابِ جمعہ دینے کا آغاز کیا. اِس سے قبل ڈاکٹر صاحبؒ یہ سعادت دس سال سے مسجد خضراء سمن آباد لاہو ر میں حاصل کر رہے تھے.مارچ ۹۷۷اء میں جب دینی و سیکولر جماعتوں کے اتحاد یعنی پاکستان قومی اتحادنے انتخا بات میں دھاندلی کے خلاف تحریک چلائی تو اُسے تحریکِ نظامِ مصطفی  کا نام دے دیا .مسجد خضراء کی انتظامیہ کی خواہش تھی کہ ڈاکٹر صاحبؒ اِس تحریک کی حمایت میں خطابِ جمعہ کے ذریعہ میں بیانات ارشاد فرمائیں .ڈاکٹر صاحبؒ کا موقف تھا کہ یہ تحریک نظامِ مصطفی  کے نفاذ کے لیے نہیں بلکہ فی الحقیقت یہ صرف بھٹو حکومت گرانے کے لیے ہے .عوام کو سڑکوں پر لانے کے لیے نظامِ مصطفی  کا نعرہ اختیار کیا گیا ہے .لیکن مسجد خضراء کی انتظامیہ کی مخالفت کے باعث ڈاکٹر صاحبؒ نے خطابِ جمعہ کی ذمہ داری سے سبکدوشی اختیار کی. بعد ازاں وقت نے ثابت کیا کہ ڈاکٹر صاحبؒ کا موقف کس قدربر حق تھا .

۱۹۷۷ء میں جنرل ضیاء الحق نے ملک میں مارشل لگا کر اقتدار پر قبضہ کر لیا. اُنہوںنے آتے ہی اسلام کے نفاذ کو اپنی حکومت کا مقصد قرار دیا اور دینی و مذہبی رہنماؤں سے قریبی ربط و ضبط رکھا .وہ ماضی میںڈاکٹر صاحبؒ کے دروسِ قرآنی میں شریک ہوتے رہے تھے لہٰذا اُنہوں نے ابتدا میں ڈاکٹر صاحبؒ کے لیے بھی پذیرائی کاخاص اہتمام کیا.کئی مقامات پر اعلیٰ فوجی افسران کے سامنے ڈاکٹر صاحبؒکو سیرت کے موضوع پر خطاب کے مواقع فراہم کیے .پاکستان ٹیلی ویز ن پر اپریل ۸۱ تاجون ۸۲الہدیٰ پروگرام ہر ہفتہ باقاعدگی سے نشر ہوتا رہا جس کی وجہ سے ڈاکٹر صاحبؒ اور ان کی فکر قرآنی کا وسیع پیمانے پر تعارف ہوا .جون ۸۲ء میں شرعی پردے کے حوالے 
سےڈاکٹر صاحبؒ کے موقف پرمغرب زدہ خواتین کی طرف سے مظاہرے ہوئے اور الہدیٰ پروگرام بند کر دیا گیا. ڈاکٹر صاحبؒ نے متبادل کے طور پر پاکستان کے کئی بڑے شہروں میں شامِ الہدیٰ کے عنوان سے دروسِ قرآن کا سلسلہ شروع کیا جن سے کثیر تعداد میں لوگوں نے استفادہ کیا. 

قبل ازیں۱۹۸۱ء میں جنرل ضیاء الحق نے ڈاکٹر صاحبؒ کو شوریٰ میں شمولیت کی دعوت دی تھی. ڈاکٹر صاحبؒ نے انکار کیا.البتہ تنظیم اسلامی کے بعض سینئر رفقاء نے ڈاکٹر صاحبؒ سے کہا کہ آپ مسجد کے منبر پر بیٹھ کر مشورے دیتے ہیں اب وہ باقاعدہ اِس کے لیے فورم بنا رہے ہیں تو آپ کیوں انکار کر رہے ہیں؟ ڈاکٹر صاحبؒ نے ساتھیوںکی دلیل کو تسلیم کرلیا اور شوریٰ میں شامل ہو گئے .ڈھائی ماہ کے دوران ڈاکٹر صاحبؒ کو اندازہ ہو گیا کہ شوریٰ کا ادارہ صرف خانہ پوری کے لیے ہے تاکہ عالمی برادری کو تأثردیا جائے کہ جنرل ضیاء الحق آمریت کے طور پر نہیں بلکہ مشاورت سے حکومت کا نظام چلا رہے ہیں. درحقیقت شوریٰ کا ادارہ صرف زبانی جمع خرچ کے لیے ہے. لہٰذا ڈاکٹر صاحبؒ نے ڈھائی ماہ بعد ہی شوریٰ سے استعفیٰ دے دیا .
۱۹۸۴ء میں ڈاکٹر صاحبؒ نے رمضان المبارک کے دوران نمازِ تراویح کے ساتھ دورہ ٔ ترجمہ ٔقرآن کا آغاز کیا .مقصد یہ تھا کہ لوگ قرآن کی ہدایت سے آشنا ہوں.مزید یہ کہ رات کا طویل حصہ قرآن کے ساتھ بسر ہو، تاکہ روزِ قیامت قرآن حکیم شرکا ء کے حق میںیہ سفارش کر سکے کہ یہ لوگ میری وجہ سے جاگتے رہے .اِس پروگرام کو اللہ نے خصوصی شرف قبولیت بخشا اور ہر سال اِس کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہو تا جا رہا ہے. ڈاکٹر صاحبؒ نے یہ پروگرام کرنے کی سعادت لاہور کے علاوہ کراچی ،ملتان ،ابو ظہبی ،اور امریکہ میں بھی حاصل کی.اب ڈاکٹر صاحبؒ کے کئی شاگرد ہیں جوہرسال خدمتِ قرآنی کی اِس صورت کو پاکستان کے متعدد شہروں میں جاری رکھے ہوئے ہیں.

۱۹۸۴ء کے اواخر میں ڈاکٹر صاحبؒ نے مسجد دارالسلام باغِ جناح لاہو میں’’ منہجِ انقلابِ نبوی ‘‘کے موضوع پر خطابات کا آغاز کیا.مجموعی طور پر ڈاکٹر صاحبؒ نے اِس موضوع پر گیارہ خطابات ارشاد فرمائے جنہیں بعد میں کتابی صورت میں مرتب کرلیا گیا.بلامبالغہ سیرت النبی کے عملی وانقلابی پہلو کے اعتبارسے یہ خطابات کا ایک معرکۃ الآراء مجموعہ ہے.

۱۹۸۵ء میں ڈاکٹر صاحبؒ نے اہلِ پاکستان کو خبردار کیا کہ اُنہیں آزادی حاصل کیے ہوئے ۴۰برس مکمل ہو رہے ہیں. اگر اب بھی اسلام کی طرف پیش قدمی نہ کی تو نہ صرف یہ کہ اسلام کے نام پر بننے والا یہ ملک مسلسل عدمِ استحکام کا شکار رہے گا بلکہ اس کی بقاء وسالمیت بھی شدید خطرات سے دوچار ہوجائے گی. اِس حوالے سے اُنہوں نے ایک کتاب ’’استحکامِ پاکستان‘‘تحریر کی اور اس موضوع پر کئی شہروں میں خطابات کیے . قوم نے ڈاکٹر صاحبؒ کی دعوت پر لبیک نہ کہی اور اُس کے بعد سے وطن عزیز پاکستان مختلف قسم کے مسائل اور عذابو ں سے دوچار 
ہے اور اس کی سالمیت معرضِ خطر میں ہے.
۱۹۸۷ء میں سینیٹر مولانا سمیع الحق اور قاضی عبداللطیف نے ملک میں نفاذِ شریعت کے لیے سینیٹ میں ایک شریعت بل پیش کیا. تمام دینی جماعتیں اِس بل کی منظوری کے لیے’’ متحدہ شریعت محاذ‘‘ کے نام سے متحد ہوگئیں. حکومت کو دھمکی دی گئی کہ اگر۷ ۲ رمضان المبارک تک شریعت بل منظور نہ کیا گیا تودینی جماعتوں کے اراکین اسمبلی و سینیٹ سے استعفیٰ دے دیں گے اور حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک چلائیں گے .ڈاکٹر صاحبؒ اِس محاذ کی سرگر میوں میں انتہائی فعال طور پر سرگرم ہوئے .کراچی کے ایک جلسہ میں کئی اکابر علما ء کی موجودگی میں اُنہوں نے تجویز دی کہ ہمیں منظم احتجاج کے لیے ایک امیر کی قیادت پر متفق ہونا ہو گااور اُس سے بیعت سمع و طاعت کرنی ہو گی.اُنہوں نے امیر کے لیے مولانا سمیع الحق کے والد مولانا عبد الحق ؒ کا نام پیش کیا .افسوس کہ دیگر علماء نے شریعت کے نفاذ کی اہمیت پر تو خوب زور دیا لیکن عملی جدو جہد کے لیے ڈاکٹر صاحبؒ کی تجویز کا ذکر تک نہیں کیا .لیکن جب ۲۷ رمضان المبارک کی تاریخ آئی تو دینی جماعتوں کے اراکین نے اسمبلی اور سینیٹ سے استعفیٰ دینے سے انکار کر دیا . بہر حال دینی جماعتوں کے اِس طرزِ عمل نے ڈاکٹر صاحبؒ کو شدید مایوس کیااور ڈاکٹر صاحبؒ نے اس روش کو ایک بہت بڑا المیہ قرار دیا. 

مرکزی انجمن کے قیام کے فوراً بعد ۷۳ء سے انجمن کے تحت سالانہ قرآن کانفرنسوں کے انعقاد کا اہتمام کیا گیا.۸۰ء کی دہائی میں کانفرنس کے لفظ کو بدل کر سالانہ بنیادوں پر محاضرات قرآنی کے انعقاد کا سلسلہ شروع ہوا. یہ محاضرات اہم دینی موضوعات پر منعقد ہوئے جن میں مختلف مکاتبِ فکر کے جید علماء اور دانشوروں نے گراں قدرخطابات دیے اور مقالے پیش کیے.اِن کانفرنسوں اور محاضرات کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ مختلف مکاتبِ فکر کے علماء ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوئے‘ایک دوسرے کے خیالات سے مستفید ہوئے اور باہم دوریوں میں کمی آئی.

۱۹۹۱ء میں امریکہ نے عراق پر حملہ کیا تو ڈاکٹر صاحبؒ نے وطن عزیز کے طول و عرض میں امریکہ کے اصل عزائم یعنی عظیم ترین اسرائیل کے قیام کو بے نقاب کیا .اِسی سال ڈاکٹر صاحبؒ نے تحریکِ خلافت کے قیام کا اعلان کیا .آپ نے کئی شہروں میں ’’نظامِ خلافت کیا کیوں اور کیسے؟ ‘‘کے موضوع پر خطابات ارشاد فرمائے.

ستمبر۱۹۹۲ء میں ڈاکٹر صاحبؒ نے رفقاءِ تنظیمِ اسلامی کو آگاہ کردیا کہ وہ قمری اعتبار سے مسنون عمر یعنی ۶۳برس کے ہو چکے ہیں لہٰذا اب دنیا میں مزید رہنے کی خواہش نہیں اور وہ رخصت ہونے کی تیاری شروع کر رہے ہیں . انہو ں نے بعض املاک جو اُن کے ذاتی نام پر تھی اقامتِ دین اور دینِ حق ٹرسٹ کے نام منتقل کر دیں تا کہ اُن کے بعد اِن املاک پر اُن کاکوئی وارث ملکیت کادعوی نہ کر سکے او ر اِن املاک کا استعمال دینی مقاصد کے لیے ہو تا رہے. ڈاکٹر صاحبؒ نے یہ واضح کر نے کے لیے کہ اُنہوں نے دین کی خدمت کو مالی منفعت کے حصول کا ذریعہ 
نہیں بنایا ایک کتاب’’ حسابِ کم و بیش‘‘ کے نام سے تحریر کی .اِس کتاب میں اُنہوں نے زندگی بھر ہونے والی آمدنی اور اخراجات کا حساب پیش کر دیا .اپنی خدماتِ قرآنی کا جائزہ پیش کرنے کے لیے ایک کتاب دعوت رجوع الی القرآن کا منظر و پس منظر تحریر کی.تنظیم اسلامی کے امیر کے طور پراپنے جانشین کا فیصلہ کرنے کے حوالے سے وسیع تر مشاورت کا آغاز کیا.مسلسل چھ برس کی مشاورت کے بعد فروری۱۹۹۸ء میں محترم حافظ عاکف سعید صاحب کو اپنا جانشین مقرر کرنے کا اعلان کیا .

ڈاکٹر صاحبؒ نے اگست ۱۹۹۴ ء میں حزب التحریر کے تحت عالمی خلافت کانفرنس لندن میں’’ منہجِ انقلاب نبوی  ‘‘کے موضوع پر انگریزی میں خطاب کیا .پھر۱۹۹۵ء اور ۱۹۹۶ء میں امریکہ جا کر انگریزی میں دورہ ٔ ترجمہ ٔقرآن ریکارڈ کرایا.

۱۹۹۷ء میں مسلم لیگ کوعام انتخابات میں شاندار کامیابی حاصل ہوئی اور اُسے قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت حاصل ہوگئی.اب ڈاکٹر صاحبؒ نے نواز شریف سے کئی ملاقاتیں کیں اور اُسے دستورِ پاکستان میں شامل کرنے کے لیے ایسی ترامیم مرتب کر کے دیں جن سے وطنِ عزیز میں اسلامی قوانین کا نفاذ ممکن ہو سکے .رفقاءِ تنظیمِ اسلامی نے بھی اِس حوالے سے بھر پور مہم چلائی اور لاکھوں کی تعداد میں مجوزہ ترامیم کا خاکہ حکومت کو بذریعہ ڈاک بھیجا .بد قسمتی سے مسلم لیگ کی حکومت نے دستور پاکستان کو اسلامی بنانے اور اُس میں سے منافقانہ شقیں خارج کرنے کابہترین موقع گنوا دیا.

۱۹۹۸ء میں ڈاکٹر صاحبؒ نے کراچی میں دورۂ ترجمۂقرآن کیا جس کی ویڈیو ریکارڈنگ جدید 
Digital کیمروں کے ذریعہ کی گئی .یہ ریکارڈنگ QTV اورکئی دیگر ٹی وی چینلز پر نشر ہوئی اور ۱۲۶ممالک میں لاکھوں مسلموں اور غیر مسلموں تک قرآن کا پیغام پہنچا .
۱۹۹۸ء میں ڈاکٹرصاحبؒ کے دونوں گھٹنوں کا آپریشن ہوا .اِسی سال آپ نے دینی جماعتوں کو متحد کرنے کی ایک اور کوشش کی اور متحدہ اسلامی انقلابی محاذ قائم کیا جس کا مطالبہ یہ تھا کہ دستور پاکستان میں شریعت کی بالادستی کو تسلیم کیا جائے .کسی بڑی جماعت نے اِس محاذ میں شمولیت اختیار نہیں کی اور یہ کوشش بھی کامیابی سے ہمکنار نہ ہوئی. اِس محاذ کے تحت ڈاکٹر صاحبؒ نے کئی بڑے شہرو ں میں منہجِ انقلاب نبوی کے عنوان سے پروگرام کیے اور جید علما کو اِس موضوع پر اظہار خیال کے لیے جمع کیا .

۲۰۰۲ء میں ڈاکٹر صاحبؒ نے بڑھاپے کے باعث لاحق ہونے والے گوناگوں عوارض اور بعض دیگر عوامل کی وجہ سے تنظیم کی امارت سے سبک دوش ہونے کا فیصلہ کیااور امارت کی ذمہ داری محترم حافظ عاکف سعید صاحب کو منتقل کر دی . مرکزی شوریٰ کے جس اجلاس میں ڈاکٹر صاحبؒ نے اپنے فیصلے کا اعلان کیا اُسی اجلاس میں 
سب سے پہلے ڈاکٹر صاحبؒ نے خود حافظ عاکف سعید صاحب کے ہاتھ پر بیعت کی.