۲۰۰۲ء تا۲۰۱۰ء
تنظیمِ اسلامی کی امارت سے سبکدوش ہونے کے بعد ڈاکٹر صاحبؒ نے اپنی ساری توجہ کو علمی‘فکری اور تبلیغی امور کی طرف مرکوز کردیا.روز نامہ نوائے وقت اور جنگ میں کالم تحریر کرتے رہے‘اہم ملکی اداروں میں لیکچرز دیتے رہے اور ملک کے طول وعرض میں دروسِ قرآن اور مختلف موضوعات پر خطابات ارشاد فرماتے رہے.جب بھی کہیں سے بیان کی دعوت آئی ڈاکٹر صاحبؒ نے نہ فاصلوں کی صعوبتوں کو دیکھا‘نہ راستوں کی دشوار گزاری کو رکاوٹ سمجھا‘نہ اپنی بیماری اور معذوری کی پروا کی اور نہ ہی اپنی پیرانہ سالی کی کمزوریوں کو عذر بنایا .ڈاکٹر صاحبؒ نے ہر ایسی دعوت پر لبیک کہا اور جاکر اللہ کا پیغام پورے جذبہ کے ساتھ پہنچانے کی پھرپور کوشش کی.

۲۰۰۴ء میں ڈاکٹر صاحبؒ نے مایہ ناز اسکالر ڈاکٹرذاکر نائیک کی دعوت پربھارت کا دورہ کیا.وہاں بڑے بڑے عوامی اجتماعات سے کئی کئی گھنٹے خطاب کیا اور اسٹوڈیو میں کئی لیکچرز ریکارڈ کرائے. 
Peace ٹی وی چینل پر یہ خطابات اور لیکچرز نشر ہورہے ہیں.اِس کے علاوہ بھی بھارت کے کئی اور شہروں میں بھی خطابات و دروس کی سعادت حاصل کی. ۲۰۰۹ء میں جنوبی افریقہ کا دورہ کیا اور وہاں بھی کئی مقامات پر خطابات ارشاد فرمائے.

مورخہ ۴ تا ۹ اپریل ۲۰۱۰ء تنظیمِ اسلامی کے ذمہ داران کا ایک تربیتی کورس قرآن اکیڈمی فیصل آباد میں منعقد ہوا.ڈاکٹر صاحبؒ نے اِس کورس کے مجوزہ نصاب کو بہت پسند کیا اور خود بھی اِس کورس میں ہمہ وقت شرکت کرنے اور چند اہم مضامین پڑھا نے کا ارادہ کیا.اُنہوں نے ۴ اور۵ اپریل کو دو دو گھنٹے کے دورانیے پر مشتمل پروگرام کیے.۵ اپریل کی شام کو ایک پروگرام کے لیے بھی پوری تیاری سے تشریف لائے لیکن بجلی کے نظام کی خرابی کی وجہ سے یہ پروگرام نہ ہوسکا.البتہ ڈاکٹر صاحبؒ اِس انتظار میں کہ شاید بجلی بحال ہو جائے تشریف فرما رہے.کمر کی تکلیف کے ساتھ طویل وقت تک بیٹھنا ڈاکٹر صاحبؒ کے لیے انتہائی تکلیف دہ ثابت ہوا.رات سوتے وقت کمر سے درد کے مارے ایسی ٹیسیں اٹھیں کہ ڈاکٹر صاحبؒ تڑپ اُٹھے اور اُن کی چیخیںنکلتی رہیں.۶ اپریل کو دن ۱۱ بجے تشریف لائے اور اعلان کیا کہ اب میرے لیے مزید اِس کورس میں وقت دینا ممکن نہیں رہا.ساتھ ہی فرمایا کہ شاید میری یہ آپ سے آخری ملاقات ہے.محترم ڈاکٹر صاحبؒ نے شرکاء کے چند سوالات کے جوابات دیے اور اِس دوران بھی بار بار اُن پر رقت طاری ہوتی رہی.آخر میں ایک ساتھی کی درخواست پر دعا کرائی اور دعا کے دوران بلک بلک کر روتے رہے.اللہ اُن کی دعائیں قبول فرمائے اور اُن پر اپنے لطف و کرم کی بارش فرمائے.آمین!

۱۰؍ اپریل کو فیصل آباد ہی میں تنظیم کی مرکزی شوریٰ کا اجلاس تھا.ڈاکٹر صاحبؒ باوجود بیماری اور نقاہت 
کے اِس اجلاس میں شرکت کے لیے لاہور سے تشریف لائے.فرمایا کہ شاید آخری بار آپ سے ملاقات کے لیے آیا ہوں.یہ پیغام دینے کے لیے آیا ہوں کہ اِس ظالمانہ نظام کے خلاف اپنے جذبات کو سرد نہ ہونے دینا اوردینِ حق کی سربلندی کے لیے اپنی جدوجہد کو تیز سے تیز تر کرنا یعنی ساتھیو!مشعلوں کو تیز کرو.حالات بڑی تیزی سے تباہی کی طرف جارہے ہیں. دین‘ ملت اور ملک کے خیر خواہوں کو چاہیے کہ اپنے زیادہ وسائل‘ا وقات اور توانائیاںحالات کا مقابلہ کرنے کے لیے وقف کردیں.اللہ ہمیں ڈاکٹر صاحبؒ کی اِس وصیت پر عمل کی توفیق عطا فرمائے.آمین

مورخہ ۱۳ اپریل کو رات ساڑھے گیارہ بجے ڈاکٹر صاحبؒ کے فرزند ڈاکٹرعارف رشید صاحب نے محسوس کیا کہ ڈاکٹر صاحبؒ کی طبیعت مضمحل ہے اور کمر کی تکلیف شدت اختیار کرگئی ہے.اس حوالے سے ڈاکٹر صاحبؒ کے معالج ملک کے نامور سرجن ڈاکٹر عامر عزیز سے رابطہ کیا گیا، وہ تشریف لائے اور ضروری ادویات تجویز کیں. طبیعت مزید مضمحل ہوئی تو ہسپتال لے جانے کا سوچا گیا لیکن ڈاکٹر صاحبؒ نے منع کردیا. رات ڈھائی بجے ڈاکٹر صاحبؒ کے خادم نے محسوس کیا کہ آپ کی سانس کی آواز نہیں آرہی.قریب جاکر دیکھا تو آپ ساکت وساکن تھے.خادم نے ڈاکٹر عارف رشید صاحب کو فون کرکے بلایا . اُنہوں نے آکر ڈاکٹر صاحبؒ کا معائنہ کیا اور بتایا کہ اللہ کے دین کا خادم اللہ کے پاس پہنچ گیا ہے. 
اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ .اللہ نے اپنے بندے پر کرم کیا اور اُس پر موت کی سختیوں کو آسان فرمادیا.اللہ ہم سب کو دین کی خدمت والی زندگی اور راحت والی موت عطا فرمائے. آمین!