’’ڈاکٹراسرار احمدؒ ایک عہد ساز شخصیت ‘‘

مورخہ 14 اپریل 2010 کو عظیم مفکر قرآن اور بے لوث خادمِ دین ڈاکٹر سرار احمد اس جہانِ فانی سے کوچ کرگئے. انا للہ وانا الیہ راجعون. اِن سطور کے راقم کو تقریباً 25 برس محترم ڈاکٹر صاحب کی رفاقت کی سعادت ملی. اس دورن ڈاکٹر صاحب کے د روس قرآن اور خطابات سے بھرپور استفادہ کا ہی نہیں بلکہ اُن کی عملی زندگی کے معمولات کو انتہائی قریب سے دیکھنے کا موقع ملا. بلاشبہ دورِ حاضر میں محترم ڈاکٹر صاحب ایک بے مثال شخصیت کے حامل تھے. محترم ڈاکٹر صاحب کے جن اوصافِ حمیدہ نے راقم کو بہت متاثر کیا ان میں سے بعض کا تذکرہ قارئین کے پیش خدمت ہے: 
ڈاکٹر صاحب کی سب سے بڑی خوبی اُن کے قول و فعل کی مطابقت تھی. اس کا بین ثبوت ہے کہ اُن کے جملہ متعلقین نے اُن کے ساتھ بیعت سمع و طاعت کا عہد و پیمان کیا. ان متعلقین میں اُ ن کی اہلیہ، چاروں بیٹے ، پانچوں بیٹیاں، پانچوں داماد، چاروں بھائی اور دیگر کئی اقارب شامل ہیں. شرعی پردہ ، رزقِ حلال، دنیا سے کم سے کم تعلق، سادگی، دین کے لیے مال و جان کی قربانی کا جو درس اُنہوں نے لوگوں کو دیا اس پر سب سے پہلے خود عمل پیرا ہونے کی مثال پیش کی. ڈاکٹر صاحب مزاجاً انتہائی بے باک انسان تھے اور دوٹوک بات کہنے سے ذرا نہیںجھجکتے تھے. حکمرانوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کلمہ ٔ حق کہا. سیکولر سوچ رکھنے والے دانشوروں کے سامنے بڑے اعتماد سے اسلام کوبحیثیتِ دین یعنی مکمل نظامِ زندگی کے طور پرپیش کیا، اپنے مسلک کو ہی کل اسلام سمجھنے والو ں کی مضبوط دلائل سے اصلاح کی اور نیکی کا محددود تصور رکھنے والوں کی واشگاف الفاظ میں تردید کی. 

ڈاکٹر صاحب دنیا میں واقعتا 
کن فی الدنیاکانک غریب اوعابر سبیل یعنی ’’دنیا میں ایسے رہو جیسے اجنبی ہو یا راستہ عبور کرنے والے مسافر‘‘ کے مصداق مسافر کی طرح رہے. کوئی اثاثہ جات، جائدادیں، بینک بیلنس نہیں بنایا. عقیدت مندوں نے جو عمارات ہدیہ کی تھیں سب کی سب دینِ حق ٹرسٹ کے نام منتقل کردیں. عرب شیوخ سے مالی تعاون کی پیشکش کو قبول نہیں کیا، ملکی حکمرانوں کے عطیات لینے سے انکار کردیا اور عوام سے مالی تعاون کی اپیل سے حتی المقدور اجتناب کیا. وزارت اور اہم ملکی مناصب قبول کرنے سے معذرت کی. یہی وجہ ہے کہ حکمرانوں اور عوام کے سامنے حق بات بیان کرنے میں کوئی رعایت یا لحاظ کرنے کی ضرورت نہ پڑی. جو اصول طے کیا اس پر سختی سے عمل درآمد کیا اور کسی مصلحت کی خاطر اصولوں پر سودے بازی نہ کی. 

محترم ڈاکٹر صاحب کی فکر کی ایک اہم خوبی توازن و اعتدال تھا. شریعت اور طریقت کے درمیان حسین امتزاج پید ا کیا. تصوف کی لذت و چاشنی ان کے خطبات میں اہل باطن نے محسوس کی لیکن دین کے ظاہری احکامات پر عمل کی دعوت بھی پوری شدت سے جاری و ساری رکھی. عقائد و اعمال کے اعتبار سے اسلاف سے مضبوط تعلق استوار رکھنے کو فتنوں سے بچنے کا محفوظ راستہ قرار دیا لیکن اندھی اور جامد تقلید پر بھی آواز اٹھاتے رہے. تحریکی کاموں میں ہر دم بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی ترغیب دی لیکن ساتھ ہی ساتھ ذاتی اصلاح کی اہمیت کو بھی نمایا ں کیا. خدمتِ دین کے لیے جدید ذرائع ابلاغ کو بھرپور طریقہ سے استعمال کیا لیکن دین کی روایتی اقدار کو ہمیشہ ملحوظِ خاطر رکھا. انتہائی ٹھوس علمی کام کا خزانہ تحریروتقاریر کی صورت میں پیش کیا لیکن عملی اعتبار سے بھی ذاتی و اجتماعی دونوں سطحوں پر سرگرم عمل نظر آئے. تحریک علی گڑھ کے قومی احسانات کا اعتراف بھی کیا لیکن دین کے ماورائی تصورات کے حوالے سے اُس کی عقلی موشگافیوں کے بودے پن کو بھی بے نقاب کیا. تحریک دیوبند کی حفاظت دین کے حوالے سے خدمات کی خوب تحسین کی لیکن جدید علوم سے کنارہ کشی کی نشاندہی بھی کی. انتخابی سیاست کے راستے کو اقامت ِ دین کی منزل کے حصول کے حوالے سے غیر مفید قرار دیا لیکن ایسے غلو کا شکار نہیں ہوئے کہ اُسے حرامِ مطلق کے درجہ پر پہنچادیں. 

ڈاکٹر صاحب کا سب سے نمایا ںکارنامہ امت کو قرآن مجید کے فہم و تدبر کی طرف راغب کرنا ہے.قرآنِ کریم کی علمی اعتبار سے عظمت کو بھی خوب واضح کیا اور عوامی دروسِ قرآن کے ذریعہ عام لوگوں کے لیے بھی فہمِ قرآن کی راہیں کھولیں. قرآن کریم اس انداز سے بیان کیا کہ لوگوں کو اس میں اپنے مسائل کا حل دکھائی دینے لگا. حالاتِ حاضرہ کا تجزیہ قرآن حکیم کی روشنی میں ایسے مدلل اسلوب میں کیا کہ آیاتِ قرآنی انہیں حالات حاضرہ کے حوالے سے اترتی ہوئی محسوس ہونے لگیں. رمضان المبارک میں نمازِ تراویح کے ساتھ دورۂ ترجمہ قرآن کے مبارک سلسلے کو امت کے لیے پورے قرآن کریم کی سالانہ تذکیر کا ذریعہ بنایا. قرآن اکیڈمیوں کے ذریعہ ایسے مدرسین تیار کردیے جو خدمتِ قرآن کے چراغ سے چراغ جلاتے رہیں گے. کتب اور 
CDs کے ذریعہ علومِ قرآنی کی نشرواشاعت کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری کردیا. ڈاکٹر صاحب بلاشبہ دورِ حاضر میں شارح کلامِ اقبال بھی تھے. ڈاکٹر صاحب نے اقبال کے کلام اور فکر کو سمجھا اور بڑے عام فہم لیکن تحریکی انداز میں لوگوں کو سمجھایا. اقبال جو ولولہ ٔ تازہ دلوں میں پیدا کرنا چاہتے تھے، ڈاکٹر صاحب اِس کا ایک بہت مؤثر ذریعہ بن گئے. خاص طور پر اقبال کی ترجمانِ القرآن ہونے کی حیثیت کو نمایاں کرکے ڈاکٹر صاحب نے نہ صرف اقبال کی قدرومنزلت سے قوم کو آگا ہ کیا بلکہ قرآنِ کریم کی اُس عظمت کو بھی آشکارہ کیا جس تک اقبال کی رسائی ہوئی تھی.

بلاشبہ حالاتِ حاضرہ کی نبض پر ڈاکٹر صاحب کا ہاتھ تھا . اُن کے سیاسی تجزیے نہ صرف فکر انگیز بلکہ بڑے صائب ہوتے تھے. مسائل کا بھرپور تجزیہ کرنا اور اِن کا قابل عمل حل تجویز کرنا ڈاکٹر صاحب کی فہم و فراست کی دلیل تھا. اربابِ اقتدار کی بد قسمتی ہے کہ انہوں نے ڈاکٹر صاحب کے تجزیوں سے استفادہ نہ کیا اور وطنِ عزیز کو شدید خطرات سے دوچار کردیا . مثلاً 1971ء میں ڈاکٹر صاحب نے تجویز دی تھی کہ اپنے بنگالی بھائیوں کو زبردستی اپنے ساتھ رکھنے کی کوشش سودمند نہ ہو گی. بہتر ہے کہ ریفرنڈم کے ذریعہ ان کی رائے معلوم کرلی جائے .اگر وہ ساتھ رہنا نہیں چاہتے تو خوبصورتی سے علیحدہ کردیں . اربابِ اختیار نے یہ مشورہ نہ مانا اور طاقت کا اندھا دھند استعمال کیا. نتیجتاً ملک دولخت ہوا اور شکست کی ذلت ہمارے لیے کلنک کا ٹیکہ بن گئی. 

ڈاکٹر صاحب نے اقامت ِ دین کی جدوجہد کے مشن کو نہ صرف آگے بڑھایا بلکہ اس میں جوش و جذبہ کی ایک نئی روح پھونک دی. تجدید و احیاء دین کی مساعی کو نہ صرف بڑی خوبصورتی سے واضح کیا بلکہ اِس حوالے سے ہونے والے کام کو برصغیر میں گزشتہ چار سو سال سے ہونے والی تجدیدی محنتوں کا بارِ امانت قرار دیا اور امت کو اس امانت کا حق ادا کرنے کے لیے بڑے جوش و ولولہ سے متوجہ کیا. 

ڈاکٹر صاحب کے لیے ہرگز مشکل نہ تھا کہ وہ اپنی میڈیکل کی تعلیم ، ذہانت اورپھرپور قوتِ کارکی صلاحیت کی بنیاد پر خوب مال و دولت جمع کرلیتے. لیکن ڈاکٹر صاحب نے 
ھوخیرمما یجمعون کے مصداق خدمتِ قرآنی کی دولت جمع کی جو دنیوی سازوسامان سے کہیں اعلیٰ و ارفع ہے. ڈاکٹر صاحب کے دروس و خطابات کے ذریعہ لاکھوں افراد تک قرآن کا پیغام پہنچا ، ہزاروں افراد کی زندگیوں کی اصلاح ہوئی اور سیکڑوں مبلغین قرآن تیار ہوئے. صدقہ ٔجاریہ کی یہ کمائی بلاشبہ انتہائی قیمتی اثاثہ ہے جو ڈاکٹر صاحب اس دنیا میں کما کر چلے گئے. اللہ ہمیں بھی اُن کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے قرآن کا سچا خادم اور دین اسلام کا سچا مجاہد بننے کی توفیق عطا فرمائے. آمین!