بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے ڈاکٹر صاحبؒ پربے مثال عنایات کی بارش کردی.ڈاکٹر صاحبؒ کی شخصیت قول و فعل میں مطابقت‘اصولوں پر سختی سے عمل‘کلمہ ٔ حق کہنے کی زبردست جراء ت‘ خوداری‘ قناعت ‘ سادگی ‘ استقامت‘بے پناہ قوتِ عمل اورنیک مقاصد کے ساتھ سچی لگن سے آراستہ تھی.اُن کی زندگی پاکیزگی کا ایک انمول نمونہ دکھائی دیتی ہے. وہ بچپن سے لے کر بڑھاپے تک قرآن و دین کی خدمت کی لائق ِ تحسین داستان بنے رہے. زندگی کے آخری ساعتوں تک اللہ کی کتاب کی تبلیغ اور اللہ کے دین کے غلبہ کی جدوجہد ایک بہت بڑی سعادت ہے جو ڈاکٹر صاحبؒ کے حصہ میں آئی. ایسی زندگی بلاشبہ حافظ شیرازی کے اِس شعر کا مصداق نظر آتی ہے کہ :
حاصلِ عمر نثارِ رہِ یارے کردم
شادم از زندگی خویش کہ کارے کر دم
’’میں نے اپنی زندگی کا کل سرمایہ محبوب کی راہ میں نچھاور کردیا. میں خوش ہوں اپنی بیتی ہوئی زندگی سے کہ میں نے وہی کیا جو مجھے کرنا چاہیے تھا‘‘.
ڈاکٹر اسرار احمدؒ کوخراجِ عقیدت پیش کرنے کا اصل طریقہ یہ ہے کہ اُن کے مشن کو نہ صرف زندہ وجاری رکھا جا ئے بلکہ تیز سے تیز تر کرکیا جائے اور اُن کے لیے صدقہ ٔ جاریہ بننے کی سعادت حاصل کی جائے..عنقریب روزِ قیامت ہمیں ڈاکٹر صاحبؒ سے ملاقات کا شرف حاصل ہونا ہے .یہ ملاقات خوشگوار ہوگی اگر ہم نے ڈاکٹر صاحبؒ کے مشن سے وفا کی.اِس کے برعکس اگر اِس مشن سے پہلو تہی کی تو ڈاکٹر صاحبؒ سے آنکھیں چار کرنا ممکن نہ رہے گا اور ہمیشہ ہمیش کی شرمندگی ہماری گردن کا طوق بن جائے گی.اللہ ہمیں اِس رسوائی سے محفوظ فرمائے!آمین