موجودہ احیائی مساعی کا اجمالی جائزہ اور تنظیمِ اسلامی کا محل ومقام



جہاں تک تجدیدی مساعی کا تعلق ہے واقعہ یہ ہے کہ تاریخِ اسلام کا کوئی دور بھی ان سے بالکل خالی نہیں رہا اور ہر زمانے اور ہر ملک میں ایسے اولوالعزم لوگ پیدا ہوتے رہے جنہوں نے اپنے حالات کے تقاضوں کے مطابق اصلاحی اور تجدیدی کارنامے سرانجام دیئے. لیکن بیسویں صدی عیسوی سے قبل کی ایسی تمام کوششوں کے بارے میں ایک اصولی بات پیش نظر رہنی چاہئے اور وہ یہ کہ ان کی اصل نوعیت ’احیاءِ دین‘ کی نہیں بلکہ حفاظت ومدافعتِ دین کی تھی. اس لئے کہ ابھی اسلام کا قصرِ عظیم بالکل زمین بوس نہیں ہوا تھا اور خواہ دین کی حقیقی روح کتنی ہی مضمحل اور پژمردہ ہو چکی ہو بہرحال اسلام نے جو تہذیبی اور عمرانی نظام دنیا میں قائم کیا تھا اس کا ڈھانچہ برقرار (Intact) تھا حتیٰ کہ شریعتِ اسلامی تمام مسلمان ممالک میں بالفعل نافذ تھی. چنانچہ تمام تجدیدی مساعی کا اصل ہدف یہ رہا کہ دین کا نظامِ عقائد واعمال محفوظ اور اپنی اصل صورت میں قائم رہے اور خارجی وبیرونی اثرات دین کو مسخ نہ کر دیں. 

یہی وجہ ہے کہ امام الہند حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے دور تک کے تمام مجدّدینِ امت علیہم الرحمۃ کی مساعی اکثر وبیشتر علم وفکر کے میدان ہی تک محدود رہیں اور عقائد ونظریات کی تصحیح واصلاح ہی کو ان کے اصل ہدف کی حیثیت حاصل رہی. اور اس سے آگے اگر قدم بڑھا بھی تو زیادہ سے زیادہ اصلاحِ اخلاق واعمال، تزکیہ نفس اور تربیتِ روحانی تک. اس سے آگے بڑھ کر گزشتہ صدی سے قبل کسی بھی مجددِ دین کی مساعی نے سیاسی یا عسکری تحریک کی صورت اختیار نہیں کی. 
(۱۱) اس کا ایک اہم سبب یہ تھا کہ نبی اکرم  نے مسلمان حکمرانوں کے خلاف ’’خروج‘‘ یعنی مسلح بغاوت پر نہایت سخت بندشیں عائد فرما دی تھیں اور جب تک ان کے ہاتھوں شریعتِ اسلامی کا نفاذ ہو رہا تھا اور کسی ’’کفرِ بواح‘‘ یعنی کھلے اور صریح کفر کی ترویج وتنفیذ نہیں ہوتی تھی ان کے ذاتی فسق وفجور اور ظلم وجور کے باوجود ان کے خلاف مسلح بغاوت ممکن نہ تھی. یہی وجہ ہے کہ جیسے ہی یہ صورتحال تبدیل ہوئی اور حکومت مسلمانوں کے ہاتھوں سے نکل کر غیر مسلم اقوام کے ہاتھوں میں آئی دفعتہ ان مساعی میں عسکریت بھی پیدا ہو گئی جس کی نہایت شاندار اور تابناک مثال خانوادئہ ولی اللّٰہی ہی کے زیر اثر برپا ہونے والی تحریک شہیدینؒ ہے. یہی وجہ ہے کہ بعض لوگوں کو سابق مجددین کا تجدیدی کام ’’جزوی‘‘ نظر آتا ہے اور انہیں حیرت ہوتی ہے کہ امتِ مسلمہ کی چودہ سو سالہ تاریخ میں کوئی ایک بھی ’’مجددِ کامل‘‘ پیدا نہیں ہوا.

حالانکہ بات بالکل واضح اور سیدھی ہے کہ ابھی عمارت بالکل منہدم ہوئی ہی نہ تھی کہ بالکل نئی تعمیر کی حاجت ہوتی بلکہ صرف شکستہ اور بوسیدہ ہوئی تھی اور ضرورت ہی صرف جزوی اصلاح واستحکام کی تھی. 

یہ تو، جیسا کہ ہم مفصل عرض کر چکے ہیں اس بیسویں صدی کے آغاز میں ہوا کہ ملتِ اسلامی کا بوسیدہ قصر گویا دفعۃً زمین پر آرہا اور اسلام اور مسلمان دونوں اپنے زوال وانحطاط کی آخری حدوں کو پہنچ گئے اور ایک طرف کروڑوں کی تعداد میں ہونے کے باوجود مسلمانوں کی حالت حدیثِ نبوی کے الفاظ کے مطابق غثاء السیل یعنی سیلاب کے جھاگ سے زیادہ نہ رہی اور دوسری طرف اسلام اور قرآن دونوں بھی آنحضور  کے الفاظ کے مطابق اس حال کو پہنچ گئے کہ 
لَا یَبْقٰی مِنَ الْاِسْلَامِ اِلَّااسْمُہٗ وَلَا یَبْقٰی مِنَ الْقُرْآنِ اِلَّا رَسْمُہ ٗ (۱لہٰذا قانونِ فطرت کے عین مطابق احیاء کا ہمہ جہتی عمل شروع ہو گیا. 

اس احیائی عمل کے بارے میں بھی بعض بنیادی حقائق ذہن نشین رہنے چاہئیں مثلاً ایک یہ کہ یہ کوئی سادہ اور بسیط عمل نہیں ہے بلکہ اس کے متعدد گوشے ہیں، جن میں سے ہر ایک میں اولوالعزم افراد اور جماعتیں برسرکار ہیں جو بظاہر ایک دوسرے سے جدا اور مختلف بلکہ بعض پہلوئوں کے اعتبار سے متضاد ہونے کے باوجود اس وسیع تر احیائی عمل کے اعتبار سے ایک دوسرے کے لئے باعثِ تقویت ہیں. دوسرے یہ کہ اسلام کی نشاۃِ ثانیہ اور ملتِ اسلامی کی تجدید کا یہ کام دس بیس برس میں مکمل ہونے والا نہیں ہے بلکہ 
لَتَرْکَبُنَّ طَبَقًا عَنْ طَبَقٍ (۲کے مصداق درجہ بدرجہ بہت سے مراتب ومراحل سے گزر کر ہی پایۂ تکمیل کو پہنچے گا، لہٰذا اس ارتقائی عمل کا ہر درجہ اپنی جگہ اہمیت کا حامل ہے اور چاہے بعد کے مراحل سے گزر کر پہلوں کا کام بہت حقیر بلکہ کسی قدر غلط بھی نظر آئے، اپنے اپنے دور کے اعتبار سے اس کی اہمیت ووقعت سے بالکلیہ انکار ممکن نہیں. تیسرے یہ کہ اس ہمہ گیر تجدیدی جدوجہد میں اگرچہ افراد کی اہمیت اپنی جگہ مسلّم ہے (۳تاہم جماعتوں اور تنظیموں کے مقابلے میں کم تر ہے. پھر جماعتیں بھی تحریکوں کی وسعت میں گم ہو جاتی ہیں اور بالآخر تمام تحریکیں بھی اس (۱) ’’ایک زمانہ وہ آئے گا کہ اسلام میں سے سوائے اس کے نام کے کچھ باقی نہ رہے گا اور قرآن میں سے بھی سوائے اس کے رسم الخط کے اور کچھ نہ بچے گا.‘‘ (مشکوٰۃ شریف، کتاب العلم)

(۲) سورۃ الانشقاق آیت ۱۹: ’’تم لازماً چڑھو گے سیڑھی بہ سیڑھی‘‘

(۳) افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارا (اقبالؔ) 
وسیع احیائی عمل کی پہنائیوں میں گم ہو جاتی ہیں جو ان سب کو محیط ہے.

ماضی میں ان حقائق کے پیش نظر نہ رہنے کے باعث بہت سے لوگوں کے دلوں میں ’’مہدیٔ موعود‘‘ یا ’’مجددِ کامل‘‘ بننے کا شوق پیدا ہوتا رہا ہے جس کے نتیجے میں طرح طرح کے فتنے اٹھتے رہے ہیں اور اچھی بھلی تعمیری کوششوں کا رخ تخریب کی جانب مڑ جاتا رہا ہے!
اس احیائی عمل کا اولین مرحلہ مسلمان اقوام کا مغربی استعمار کے براہ راست تسلط سے نجات کا حصول تھا جو بحمدللہ گزشتہ تیس چالیس سال کے دوران تقریباً مکمل ہو چکا ہے. اور اگرچہ اب بھی ہم مغرب کی علمی وفکری اور تہذیبی وثقافتی غلامی میں مبتلا ہیں اور اقوامِ مغرب کی سائنسی وتکنیکی بالادستی کے باعث بہت سے پہلوئوں سے ان کے دست نگر بھی ہیں، تاہم خدا کا شکر ہے کہ ایک قضیۂ فلسطین سے قطع نظر اور صرف کشمیر اور اریٹیریاکے علاوہ پورے کرئہ ارضی پر مسلم اکثریت کا کوئی علاقہ براہِ راست غلامی ومحکومی کی لعنت میں گرفتار نہیں رہا. 

خالص اصولی ونظریاتی اور تصوریت پسندانہ 
(Idealistic) نقطۂ نظر سے تو ’’مسلمان اقوام‘‘ کی اصطلاح ہی قطعاً غلط ہے. اس لئے کہ ازروئے قرآن وحدیث مسلمانوں کی حیثیت ایک جماعت یا امت یا حزب کی ہے نہ کہ قوم کی. اور وہ ایک ناقابلِ تقسیم ’وحدتِ ملی‘ میں منسلک ہیں جس میں تعدد وتکثر کا امکان ہی موجود نہیں کہ اقوام کا لفظ صحیح قرار دیا جا سکے. لیکن واقعیت پسندانہ (Realistic) نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں نے ایک جماعت یا امت یا حزب کا کردار (Role) تو بہت پہلے ترک کر دیا تھا اور بالفعل ایک قوم ہی کی حیثیت اختیار کر لی تھی. البتہ وحدتِ ملی کا تصور اس صدی کے آغاز تک برقرار تھا. لیکن جیسا کہ ہم پہلے عرض کر چکے ہیں، اس صدی کے رُبع اول کے دوران مغربی استعمار کے ہتھکنڈوں نے اسے بھی ختم کر کے رکھ دیا تھا اور اس وقت فی الواقع روئے ارضی پر کوئی ایک ’امتِ مسلمہ‘ آباد نہیں ہے بلکہ بہت سی مسلمان اقوام آباد ہیں.

اسی طرح خالص تصوریت پسندانہ نقطئہ نظر سے دیکھا جائے تو ع ’’نشۂ مے کو تعلق نہیں پیمانے سے‘‘ کے مصداق مسلمانوں کی آزادی اور خود مختاری کا احیائے اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے. لیکن واقعیت پسندانہ نگاہ سے دیکھئے تو مستقبل کے بارے میں تو کچھ نہیں کہا جا سکتا، ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے دین کی علمبرداری کی سعادت کسی بالکل ہی نئی قوم کے حوالے فرما دے اور 
یَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَیْرَکُمْ کی شان دوبارہ ظاہر ہو. لیکن بحالاتِ موجود تو ع ’’کہیں ممکن ہے کہ ساقی نہ رہے جام رہے‘‘ کے مصداق اسلام کا مستقبل موجودہ مسلمان اقوام ہی کے ساتھ وابستہ ہے. اور دونوں باہم لازم وملزوم کی حیثیت رکھتے ہیں. 

اندریں حالات، مسلمان اقوام کا آزادی وخود اختیاری کی نعمت سے ہمکنار ہونا یقینا احیائے اسلام ہی کے سلسلے کی ایک کڑی ہے اور جن تحریکوں کے ذریعے یہ مشکل مرحلہ سر ہوا ہے ان کی سعی بھی اسلام کی نشاۃِ ثانیہ ہی کی جدوجہد کا جزو قرار پائے گی. رہا یہ شبہ کہ ان میں سے اکثر کے قائدین اور زعماء کا دین ومذہب کے ساتھ کوئی واقعی اور عملی تعلق نہ تھا تو اسی کا جواب ہے نبی اکرم کے ان الفاظ مبارکہ میں کہ 
اِنَّ اللّٰہَ یُؤَیِّدُ الدِّیْنَ بِالرَّجُلِ الْفَاجِرِ (بخاری: کتاب الجہاد) واقعہ یہ ہے کہ اللہ کے کام بہت نرالے ہیں اور اس کی تدبیریں بہت لطیف اور مخفی اور اس کے منصوبے بہت طویل الذیل اور وسیع الاطراف ہوتے ہیں اور وہ بسا اوقات فساق وفجار سے اپنے دین کی خدمت لے لیتا ہے. وَاللّٰہُ غَالِبٌ عَلٰٓی اَمْرِہٖ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لاَ یَعْلَمُوْنَ 

اس ضمن میں ایک اور حقیقت بھی پیش نظر رہنی چاہئے کہ اگرچہ مختلف مسلمان ممالک میں حصولِ آزادی کی تحریکوں کی تقویت کے لئے جن علاقائی یا نسلی عصبیتوں کو استعمال 
(Invoke) کیا گیا، انہیں بھی خاص اصولی اور نظری اعتبار سے اسلام کے نظامِ فکر کے ساتھ سوائے تبایُن وتضاد کے کوئی نسبت حاصل نہیں ہے، لیکن عالمِ واقعہ میں اس کے سوائے کوئی چارہ کار موجود نہ تھا. اس لئے کہ اسلام کے ساتھ مسلمانوں کا ذہنی وقلبی رشتہ اتنا قوی نہ رہا تھا کہ اسے کسی جاندار اور فعال تحریک کی اساس بنایا جا سکتا اور حصولِ استقلال کے لئے جس مؤثر مزاحمت (Effective Resistance) کی ضرورت ہوتی ہے اس کی بنیاد خیالی یا جذباتی نہیں بلکہ حقیقی اور واقعی اساسات (Concrete Ground) ہی پر رکھی جاسکتی ہے. واقعہ یہ ہے کہ اگر ترک نیشنلزم کا جذبہ فوری طور پر بیدار نہ ہو گیا ہوتا تو شاید آج ترکی کا نام ونشان بھی صفحۂ ارضی پر موجود نہ ہوتا. اسی طرح اسلام سے جتنا کچھ حقیقی اور واقعی تعلق اس وقت مسلمانانِ عرب کو ہے وہ کسے معلوم نہیں، اندریں حالات عرب نیشنلزم ہی یورپی سامراج کے چنگل سے نکلنے کی جدوجہد کے لئے واحد موجود (The Only Available) بنیاد بن سکتا تھا اور ایک وقتی ضرورت اور دفاعی تدبیر کی حد تک اس کے استعمال میں کوئی قباحت بھی نہیں ہے، بشرطیکہ اسے نظامِ فکر کی مستقل اساس کے طور پر قبول نہ کر لیا جائے اور حصولِ آزادی کے عبوری مقصد کی تکمیل کے بعد صحیح اسلامی فکر اور وحدتِ ملی کے شعور واحساس کو اجاگر کیا جائے.

اس پس منظر میں دیکھئے تو تحریکِ پاکستان کا معاملہ بالکل منفرد نظر آتا ہے. برصغیر کے مسلمان بھی اگر 
برطانوی استعمار سے نجات حاصل کرنے کے لئے ہندی قومیت کی اساس پر غیر مسلموں کے ساتھ اشتراکِ عمل کرتے تو اس کے لئے بھی وجہ جواز موجود تھی. (۱لیکن یہ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل وکرم ہے کہ یہاں کے مخصوص حالات کے باعث مسلمانانِ ہند نے اپنی سیاسی جدوجہد کا آغاز ہی ’’مسلم قومیت‘‘ کی اساس پر کیا جس کے نتیجے میں وہ ملک وجود میں آیا جوحضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کی طرح جو اپنا نام ’’سلمان ابن اسلام‘‘ بتایا کرتے تھے، صرف اور صرف ’فرزندِ اسلام‘ قرار دیا جا سکتا ہے اور جس کے قیام اور بقا کے لئے کوئی وجہ جواز سوائے اسلام کے موجود نہیں ہے. گویا پاکستان ع ’’خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی ؐ ‘‘ کے مصداق اپنی پیدائش (Genesis) اور ہیئت ترکیبی کے اعتبار سے تمام مسلمان ممالک سے ایک قدم آگے ہے اور دوسروں کو ع ’’قبائل ہوں ملت کی وحدت میں گم‘‘ کا جو کٹھن مرحلہ ابھی طے کرنا ہے وہ کم از کم اصولی اور نظری اعتبار سے یہاں پہلے ہی سے طے شدہ ہے.

مسلمانانِ ہند کی سیاسی جدوجہد کو اس رخ پر ڈالنے والے اسباب وعوامل میں سلبی ومنفی طور پر سب سے زیادہ دخل ہندوئوں کی روایتی تنگ نظری اور تنگ دلی اور اس سے بھی بڑھ کر مسلمانوں سے اپنی ’’ہزار سالہ شکست کا انتقام‘‘ لینے کے اس جذبے کو حاصل ہے جو ان کے سینوں میں کھولتے ہوئے لاوے کی طرح پک رہا تھا. اس اعتبار سے دیکھا جائے تو گویا ان کا یہ طرزِ عمل بھی اسلام کی نشاۃ ِثانیہ کے لئے ممد ومعاون بن گیا اور ہم اپنے سابق ابنائے وطن کی خدمت میں بجا طور پر عرض کر سکتے ہیں کہ؎

تو نے اچھا ہی کیا دوست سہارا نہ دیا
مجھ کو لغزش کی ضرورت تھی سنبھلنے کے لئے

مثبت اسباب کے ضمن میں ایک تو یہ حقیقت پیش نظر رہنی چاہئے کہ مسلمانانِ ہند کے دلوں میں پہلے بھی جذبہ ملی باقی تمام دنیا کے مسلمانوں سے زیادہ تھا. جس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ تنسیخِ خلافت 
(Abolition of Caliphate) پر جس قدر شدید ردعمل یہاں ظاہر ہوااس کا عُشرِ عشیر بھی کہیں اور نہیں ہوا. حتیٰ کہ ایک وقت تھا کہ برصغیر کے ہندوئوں اور مسلمانوں سب کی مشترک سیاسی جدوجہد کا عنوان ہی ’تحریک خلافت‘ بن گئی تھی. اور دوسرے یہ کہ اس خطے میں علامہ اقبال مرحوم ایسی عظیم شخصیت پیدا ہوئی (۱) چنانچہ جمعیت علمائے ہند کی سیاسی جدوجہد اسی اصول پر مبنی تھی، بلکہ مولانا حسین احمد مدنی رحمۃاللہ علیہ نے اپنی خودنوشت سوانح ’نقشِ حیات‘ میں تو ثابت کیا ہے کہ خود مجاہد ِ کبیر حضرت سید احمد بریلوی رحمۃ اللہ علیہ مسلمانانِ پنجاب کو ’سکھا شاہی‘ سے نجات دلانے کے بعد اسی اساس پر انگریزوں کے خلاف تحریک چلانے کا ارادہ رکھتے تھے. جس کی انتہائی پُر درد وپُرتاثیر حُدی خوانی نے قافلۂ ملی کو خوابِ غفلت سے بیدار کر دیا اور مسلمانانِ ہند کو جذبۂ ملی سے سرشار کر دیا. حقیقت یہ ہے کہ یہ پوری امتِ مسلمہ پر علامہ مرحوم کا ایک بہت بڑا احسان ہے اور بلاشبہ ان کی ملی شاعری کو اسلام کی نشاۃِ ثانیہ اور تجدید واحیائے دین کی وسیع الاطراف جدوجہد میں ایک اہم مقام حاصل ہے. 
اور اس پس منظر 
(Context) میں دیکھا جائے تو عالمی اسلامی سربراہی کانفرنس کا پاکستان اور خاص طور پر اس شہر لاہور میں انعقاد بہت معنی (۱خیز ہے، جہاں قریباً ثلث صدی قبل قرارداد پاکستان بھی منظور ہوئی تھی اور جہاں دور حاضر میں قافلۂ ملتِ اسلامیہ کا وہ سب سے بڑا حدی خواں بھی مدفون ہے جو آخری دم تک یہ صدا لگاتا رہا کہ ؎

بیاتاکارِ ایں امت بسازیم
قمارِ زندگی مردانہ بازیم
چناں نالیم اندر مسجدِ شہر
دِلے در سینۂ ملا گدازیم


اس ہمہ جہتی احیائی عمل کا دوسرا اہم گوشہ وہ ہے جس میں علمائے کرام کی مختلف جماعتیں اور تنظیمیں سرگرم کار اور اپنے اپنے مخصوص انداز میں اسلام اور مسلمانوں کی خدمت میں مصروف ومشغول ہیں.

اور واقعہ یہ ہے کہ اس پہلو سے بھی برصغیر ہندوپاک کو پورے عالمِ اسلام میں ایک امتیازی مقام حاصل ہے چنانچہ علماء دین کو جس قدر اثر 
(Hold) یہاں کے مسلمان عوام پر حاصل ہے وہ دنیا میں کہیں اور نظر نہیں آتا اور راسخ العقیدہ اسلام (Orthodox Islam) جتنی مضبوط جڑیں یہاں رکھتا ہے کہیں اور نہیں رکھتا. (۲حتیٰ کہ جزیرہ نمائے عرب بھی، جہاں اس صدی کے وسط تک محمد ابن عبدالوہاب ؒ کی تجدیدی مساعی کے گہرے اثرات قائم رہے ہیں اب اس معاملے میں بہت پیچھے رہ گیا ہے.

اس کی وجہ بھی بادنیٰ تامل سمجھ میں آجاتی ہے اور وہ یہ کہ امام الہند حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی ؒ ایسی جامع 
(۱) خیال رہے کہ یہ مضمون اکتوبر ۷۴ء میں لکھا گیا تھا.

(۲۶۰ء میں جو ایجی ٹیشن ڈاکٹر فضل الرحمن صاحب کی کتاب"Islam" کے خلاف ہوا تھا اور اب جو تازہ ’معجزہ‘ قادیانی مسئلے کے حل کی صورت میں صادر ہوا ہے وہ اس کے منہ بولتے ثبوت ہیں.
شخصیت گزشتہ تین سو سالوں کے دوران میں پورے عالمِ اسلام میں پیدا نہیں ہوئی اور انہوں نے مسلمانوں کی توجہ علمِ دین کے اصل سرچشموں یعنی قرآن اور حدیث کی جانب منعطف کرانے کے ساتھ ساتھ فکرِ اسلامی کی تدوینِ نو کا جو عظیم الشان کارنامہ سرانجام دیا اسی کا نتیجہ ہے کہ یہاں دین اور رجال دین کی ساکھ از سرنو مضبوط ہو گئی. 
اس ضمن میں یہ حقیقت بھی پیش نظر رکھنی چاہئے کہ علماء دین کی مساعی میں اصل زور 
(Emphasis) دور حاضر میں اسلام کی نشاۃِ ثانیہ اور تجدید واحیائے دین کے تقاضوں کو پورا کرنے کے بجائے دین کے نظامِ عقائد واعمال کی حفاظت ومدافعت ہی پر ہے. اس طرح گویا ظاہری اعتبار سے ان کی خدمات کو سابق مجددینِ اسلام کی مساعی کیساتھ ایک نوع کے تسلسل کی نسبت حاصل ہے. اگرچہ حقیقت کے اعتبار سے بعض اہم فرق بھی ہیں. مثلاً ایک یہ کہ جب سے اجتہاد کا دروازہ بند ہوا اور تقلیدِ جامد کا دور دورہ ہوا اور تشتّت وانتشار اور فرقہ پرستی وگروہ بندی نے پائوں جمالئے، ہر فرقے کے علمائِ کرام دین کے نظامِ عقائد واعمال کی خاص اسی صورت کی حفاظت ومدافعت پر سارازور صرف کر رہے ہیں جو ان کے مخصوص فرقے یا گروہ کے نزدیک معتبر ومستند ہے، جس سے فرقہ بندی کی جڑیں مضبوط تر ہوتی چلی جا رہی ہیں. دوسرے چونکہ انہوں نے علومِ جدیدہ اور دورِ حاضر کے افکار ونظریات کا مطالعہ اس طرح براہِ راست اور بالاستیعاب نہیں کیا جس طرح اپنے اپنے دور میں امام غزالی اور امام ابن تیمیہ رحمہما للہ نے کیا تھا لہٰذا وہ دورِ حاضر میں حفاظت ومدافعتِ دین کے اصل تقاضوں کو بھی صحیح طور پر پورا کرنے سے قاصر ہیں.

لہٰذا دور حاضر میں علماء دین کی حیثیت دین کے جہاز کو آگے بڑھانے والی قوت فراہم کرنے والے انجن کی تو نہیں ہے البتہ کم از کم برصغیر پاک وہند کی حد تک ایک ایسے بھاری لنگر کی ضرور ہے جو اس کشتی کو غلط رخ پر بڑھنے سے روکنے کی خدمت بہرحال سرانجام دے سکتا ہے. اور فی زمانہ یہ بھی ایک اہم خدمت ہے.

برصغیر میں اس سلسلے میں ایک اہم مقام اور مرتبہ دیوبندی مکتب فکر کو حاصل ہے جو امام الہندحضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے ’فکر‘ کا نہ سہی ’علم‘ کا وارث ضرور ہے. اور جس کی کوکھ سے دینی مدرسوں اور دارالعلوموں کے ایک عظیم سلسلے کے علاوہ ایک عظیم تحریک بھی برآمد ہوئی ہے جس نے راسخ العقیدہ اسلام کی جڑوں کی آبیاری کے ساتھ ساتھ توجہات کو حقائقِ ایمانی پر مرتکز 
(Focus) کر دیا اور جس کے زیر اثر کم از کم ایسے لوگ ضرور دین سے قریب ہو رہے ہیں جن کے اذہان فکری ونظری اشکالات سے خالی ہوتے ہیں اور جن کے قلوب میں نیکی کا ایک جذبہ خواہ نیم خوابیدہ حالت ہی میں سہی بہرحال موجود ضرور ہوتا ہے. ہماری مراد جماعتِ تبلیغی سے ہے جس نے اس دور میں دین ومذہب کے نام پر ایک عظیم حرکت عالمِ اسلام ہی نہیںِ دیارِ غیر میں بھی برپا کر دی ہے اور جس کے زیر اثر عوامی سطح ہی پر سہی بہرحال ’تجدیدِ ایمان‘ کی ایک تحریک بالفعل برپا ہو گئی ہے اور جسے بلاشبہ زیر بحث ’ہمہ جہتی احیائی عمل ‘ میں ایک اہم مقام حاصل ہے.

اس ’ہمہ جہتی احیائی عمل‘ کا تیسرا اور اہم ترین گوشہ وہ ہے جس میں وہ جماعتیں اور تنظیمیں برسرکار ہیں جو قائم ہی خالص احیائی مقاصد کے تحت ہوئیں اور جنہیں اب اس احیائی عمل کے اعتبار سے گویا مقدمۃ الجیش کی حیثیت حاصل ہے. مختلف مسلمان ممالک میں ایسی جماعتیں اور تنظیمیں مختلف ناموں کے تحت کام کرتی رہی ہیں لیکن ؎’’ہے ایک ہی جذبہ کہیں واضح کہیں مبہم‘‘ اور ’’ہے ایک ہی نغمہ کہیں اونچا کہیں مدھم‘‘ کے مصداق ان کی حیثیت ایک ہی تحریک کے تحت کام کرنے والی مختلف تنظیمی ہئیتوںکی ہے. 

ان جماعتوں میں سے اگرچہ ایک دور میں جوش اور جذبے کی شدت اور اثرونفوذ کی وسعت کے اعتبار سے مصر کی ’الاخوان المسلمون‘ توجہات اور امیدوں کا مرکز بن گئی تھی. لیکن واقعہ یہ ہے کہ احیائی عمل کے اس گوشے میں بھی اصل اہمیت برصغیر ہندوپاک ہی کو حاصل ہے.

برصغیر میں اس تحریکِ احیائے دین کے مؤسس اولین اور داعئی اول کی حیثیت مولانا ابوالکلام آزاد مرحوم کو حاصل ہے جنہوں نے اس صدی کے بالکل اوائل میں ’الہلال‘ اور ’البلاغ‘ کے ذریعے ’’حکومت الہٰیہ‘‘ کے قیام اور اس کے لئے ایک ’’حزب اللہ‘‘ کی تاسیس کی پُرزور دعوت پیش کی. مولانا کے مخصوص طرزِ نگارش اور اندازِ خطابت نے خصوصاً تحریکِ خلافت کے دوران میں ان کی شہرت کو برصغیر کے طول وعرض میں پھیلایا اور ان کی دعوت نے لاکھوں مسلمانوں کے دلوں کو مسخر کر لیا. لیکن اس کے بعد خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ کس سبب سے انہوں نے اس عظیم مشن کو خیرباد کہہ کر انڈین نیشنل کانگریس میں شمولیت اختیار کر لی اور باقی پوری زندگی پوری یکسوئی اور کمال مستقل مزاجی کے ساتھ ہندوستان کی نیشنلسٹ سیاست کی نذر کر دی.

مولانا کی زندگی کے اس عظیم انقلاب کے ممکن اسباب میں ان کی حد سے بڑھی ہوئی ذہانت کو بھی شمار کیا جا سکتا ہے کہ ع ’’اے روشنیٔ طبع تو برمن بلاشدی!‘‘ مولانا بلاشبہ عبقری تھے اور عبقری انسان زیادہ عملی نہیں ہوا کرتے. اس کا کچھ سراغ ان کے اس جملے میں بھی ملتا ہے کہ ’’ہم بیک وقت گلیمِ زہد اور رِدائے رندی اوڑھنے کے جرم کے مرتکب ہیں.‘‘ اور ایک خیال جو زیادہ قرینِ قیاس ہے یہ بھی ہے کہ مولانا کی حیثیت ایک سکہ بند اور مسلّم عالم دین کی نہ تھی اور اس وقت تک مسلمانان ہند پر علماء کی گرفت بہت مضبوط تھی لہٰذا مولانا کو گویا راستہ بند نظر آیا. اس کی تائید اس روایت سے بھی ہوتی ہے جو پروفیسر یوسف سلیم چشتی 
صاحب کے ذریعے ہم تک پہنچی اور جس کا حاصل یہ ہے کہ آٹھ سال کے عرصے میں (۱اپنے پیش نظر مقصد کے لئے تمہیدی مراحل کی تکمیل کے بعد اپریل ۱۹۲۰ء میں مولانا نے دہلی میں منعقدہ جمعیت علمائے ہند کی کانفرس میں مفتی کفایت اللہؒ مرحوم اور مولانا احمد سعیدؒ مرحوم کے تعاون سے اگلا قدم اٹھانے کی سکیم بنائی. چنانچہ پہلے خود انہوں نے تقریر کی اوراپنے جوشِ خطابت سے حاضرین کے جذبہ عمل کو ابھارا ہی نہیں للکارابھی اور پھر مولانا احمد سعیدؒ صاحب نے تقریر کی کہ حضرت شیخ الہندؒ کی رحلت کے بعد سے مسلمانانِ ہند کی قیادت کی مسند خالی ہے. اور اب جو مرحلہ درپیش ہے اس میں ’شیخ الہند‘ سے بھی بڑھ کر ’امام الہند‘ کی ضرورت ہے. اب غور کرو اور اس کے لئے کسی موزوں شخص کو تلاش کر کے اس کے ہاتھ پر بیعت کرو اور جدوجہد کا آغاز کر دو. لیکن اللہ تعالیٰ کو کچھ اور ہی مطلوب تھا. چنانچہ علامۃ الہند مولانا معین الدین اجمیریؒ اٹھے اور انہوں نے براہِ راست مولانا آزادؒ کو خطاب کر کے ان الفاظ سے اپنی تقریر کا آغاز کیا کہ ’’ ایاز قدرِ خود بشناس!‘‘ جس سے بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ پوری تقریر میں کیا کچھ ہو گا. بہرحال اس سے دل شکستہ اور دلبرداشتہ ہو کر مولانا اس کام ہی سے دست کش ہو گئے اور اس کے فوراً بعد ہی انہوں نے کانگریس میں شمولیت اختیار کر لی. (۲

اس طرح مولانا ابوالکلام آزادؒ مرحوم تو میدان چھوڑ گئے لیکن ان کی زوردار دعوت کی گھن گرج سے مسلم انڈیا کی فضائیں دیر تک گونجتی رہیں. اور پھر کم وبیش دس ہی سال بعد ایک باہمت نوجوان 
(۳)نے مولانا کو ان کی زندگی ہی میں مرحوم قرار دے کر ان کے ترک کردہ مشن کو اختیار کرنے کے عزمِ مصمم کے ساتھ ان کی تفسیر ’ترجمان القرآن‘ ہی کے ہم نام ماہنامے کی ادارت سنبھالی اور اس کے ذریعے اسی ’حکومت الہٰیہ‘ کے قیام کا نصب العین اور ’’تجدیدواحیائے دین‘‘ کی سعی کا ایک نقشہ مسلمانانِ ہند کے سامنے پیش کرنا شروع کر دیا. 

اس نوجوان میں مولاناؒ مرحوم کی بہ نسبت جوش کم تھا، ہوش زیادہ، ذہانت وفطانت قدرے کم تھی لیکن اسی نسبت سے محنت ومشقت کا مادہ بہت زیادہ تھا. لہٰذا اس نے پہلے چھ سات برس تک پورے صبرواستقلال کے ساتھ خالص انفرادی طور پر کام جاری رکھا. کچھ عرصہ’دارالاسلام‘ کے نام سے ایک ادارے کے تحت کام کیا اور بالآخر ۴۱ء میں ’جماعت اسلامی‘ کے نام سے ایک جماعت کی بنیاد رکھ دی اور 
(۱) ’الہلال‘ کا اجراء ۱۹۱۲ء میں ہوا تھا. 
(۲) اس موضوع پر تفصیلی بحث ہماری تالیف ’’جماعتِ شیخ الہندؒ اور تنظیمِ اسلامی‘‘ میں ملاحظہ فرمائیں.

(۳) مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ ، مؤسس جماعتِ اسلامی 
ایک منظم جدوجہد کا آغاز کر دیا. 
جماعت کے قیام سے قبل اس نوجوان نے پہلے انڈین نیشنل کانگریس میں شامل یا اس کے حلیف علماء کے موقف پر شدید تنقید کی اور اپنے زورِ استدلال سے ان کے طریقِ کار کا انجامِ کار کے اعتبار سے اسلام اور مسلمان دونوں کے حق میں سخت مضر ہونا ثابت کر دیا. پھر مسلمانوں کی قومی سیاست پر مدلل تنقید کی اور اسلام کے بلند ترین تصوریت پسندانہ موقف کے تقابل سے اس کا ’خلافِ اسلام‘ ہونا ثابت کیا اور خود اسی بلند ترین تصوریت پسندانہ سطح 
(Highest Idealistic Level) پر اپنی جماعت کی اساس رکھ دی.

چنانچہ جماعت اسلامی کے اساسی موقف کا خلاصہ یہ قرار پایا کہ:

۱. اسلام مذہب نہیں دین ہے اور اس کی اصل حیثیت ایک کامل نظریۂ حیات اور مکمل نظامِ زندگی کی ہے جو اپنی عین فطرت کے تقاضے کے طور پر اپنا کُلّی نفاذ اور کامل غلبہ چاہتا ہے.
۲. عبادت صرف مراسمِ عبودیت کا نام نہیں، بلکہ اس نظام کی کُلّی اطاعت کا نام ہے.

۳. مسلمان قوم نہیں، امت مسلمہ اور حزب اللہ ہیں اور ان کی اصل حیثیت ایک نظریاتی جماعت 
(Idealistic Party) کی ہے جس کااولین مقصد اپنے نظریات کے مطابق انقلاب برپا کرنا اور اپنے نظامِ زندگی کو بالفعل قائم کرنا ہے.

۴. دنیا کے موجودہ غیر مسلموں کی ایک عظیم اکثریت قانوناً تو کافر ہے لیکن حقیقتاً کافر نہیں. اس لئے کہ ان کے سامنے اسلام کی دعوت پیش ہی نہیں کی گئی کہ ان کے انکار یا رد کر دینے کا سوال پیدا ہو.

۵. اسی طرح دنیا کے موجودہ مسلمانوں کی ایک عظیم اکثریت بھی صرف ’قانونی اور نسلی‘ مسلمانوں پر مشتمل ہے، نہ کہ حقیقی مسلمانوں پر. اس لئے کہ نہ ان کے قلوب واذہان میں اسلام کی نظریاتی واعتقادی اساسات راسخ ہیں، نہ ان کے عمل میں اسلامی قانون کی پابندی اور شریعت کا التزام ہی پایا جاتا ہے.

۶. مسلمانوں کے قومی مفادات کے تحفظ اور ان کے سیاسی حقوق کی حفاظت یا ان کی آزادی اور خود اختیاری کے حصول کی جدوجہد کا اسلام کی نشاۃِ ثانیہ یا احیائے دین سے کوئی تعلق نہیں ہے.

۷. ’کرنے کا اصل کام‘ یہ ہے کہ اولاً … بلا لحاظ مذہب وملت پوری نوعِ انسانی کو بندگی ٔ رب کی طرف پکارا جائے اور اسلام کی نظریاتی اساسات کو شعوری طور پرقبول کرنے کی دعوت دی جائے اور … پھر سابق غیر مسلموں یا نسلی مسلمانوں میں سے جنہیں بھی اللہ تعالیٰ اسلام کو شعوری طور پر قبول کرنے کیتوفیق عطا فرما دے. ان کی قوتوں کو ایک ہیئت تنظیمی کے تحت مجتمع کر کے غلبۂ دینِ حق یا ’حکومت 
الٰہیہ‘ (۱کے قیام کی منظم جدوجہد کی جائے.

۸. ا س جدوجہد میں اولین اہمیت علمی وفکری انقلاب کو حاصل ہے، پھر عملی واخلاقی تبدیلی اور معاشرتی اصلاح کو. نظامِ حکومت کی تبدیلی کا مرحلہ ان سب کے بعد آتا ہے.
ہمارے نزدیک اس موقف میں انتہاپسندی کی شدت تو موجود ہے لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام کا ٹھیٹھ نظریاتی اور اصولی موقف یہی ہے. اور دوسری احیائی مساعی کے ساتھ ساتھ اس خالص اصولی اساس پر کسی تحریک کا اٹھنا وقت کی اہم ضرورت تھی جومولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ کے ہاتھوں پوری ہوئی اور ہم داد دیئے بغیر نہیں رہ سکتے اس پر کہ مولانا موصوف اور ان کے رفقائے کار حالات کی سخت نامساعدت کے علی الرغم اور ہر طرح کے طعن وطنز اور تمسخر واستہزاء کے باوجود مسلسل چھ سال اس موقف پر ڈٹے رہے. نتیجۃً عزیمت کی نہایت اعلیٰ مثالیں چشمِ فلک نے دیکھیں اور؏ ’’تاریخ دعوت وعزیمت‘‘ میں ایک نہایت درخشاں باب کا اضافہ ہو گیا. اس طرح گویا وہ کام جسے احیائے اسلام کے ’راست اقدام‘ سے تعبیر کیا جا سکتا ہے اورجس کا ابتدائی خاکہ 
(Blue Print) مولانا ابو الکلام آزاد مرحوم نے تیار کیا تھا، عملاً مولانا مودودیؒ کے ہاتھوں شروع ہوا. 

لیکن افسوس کہ ؏ ’’ خوش درخشید ولے شعلۂ مستعجل بود!‘‘ کے مصداق مولانا مودودیؒ اور جماعتِ اسلامی اس بلند وبالا موقف پر زیادہ دیر تک قائم نہ رہ سکے اور ۴۷ء میں جیسے ہی مسلمانانِ ہند کی قومی تحریک کامیابی سے ہمکنار ہوئی اور پاکستان کے نام سے ایک آزاد مسلمان ریاست قائم ہوئی اور متعدد اسباب سے ایک توقع سی نظر آئی کہ یہاں اسلام کے نام پر ایک سیاسی تحریک چلائی جا سکتی ہے، انہوں نے اپنے اصولی موقف کو ترک کر کے بغیر اس کے کہ کوئی عملی وفکری انقلاب آیا ہو یا اخلاقی وعملی تبدیلی معاشرے میں برپا ہوئی ہو، نظامِ حکومت کی ’اصلاح‘ کے لئے عملی سیاسیات کے میدان میں قدم رکھ دیا. لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا گیا وہ توقع تو موہوم سے موہوم تر ہوتی چلی گئی البتہ سیاست کی سنگلاخ وادی میں یہ تحریک 

وَ لٰکِنَّہٗۤ اَخۡلَدَ اِلَی الۡاَرۡضِ (۲کے مصداق پست تر موقف اختیار کرنے پر مجبور ہوتی چلی گئی.

پہلے خیال تھا کہ خالص اسلام کے نام اور محض اپنے زورِ بازو کے بل پر یہ مرحلہ سر ہو جائے گا لہٰذا کمال 
(۱) واضح رہے کہ جب جماعت اسلامی کے قیام کے کچھ عرصہ بعد مولانا اصلاحی کا قرآنی فکر بھی اس تحریک کے ساتھ آشامل ہوا تو ’حکومتِ الٰہیہ‘ کی اصطلاح سرے سے متروک ہو گئی اور اس کی جگہ ’شہادتِ حق ‘ اور ’اقامتِ دین‘ کی خالص قرآنی اصطلاحوں نے لے لی.

(۲) سورۃ الاعراف آیت ۱۷۶: ’’لیکن وہ تو زمین ہی میں دھنس کر رہ گیا‘‘ 
شانِ استغناء کے ساتھ دوسری سیاسی جماعتوں کی اشتراکِ عمل کی پیش کشوں کو ٹھکرادیاگیا. جب پنجاب کے ۵۱ء کے الیکشن کے بعد یہ مغالطہ دور ہوا تو خیال ہوا کہ مذہب کے نام پر دوسری مذہبی جماعتوں کے تعاون سے یہ مہم سر کی جائے. پھر جب معلوم ہوا کہ یہ بھی ممکن نہیں اور چڑھائی اتنی سخت ہے کہ گاڑی اس سیکنڈ گیئر میں بھی آگے نہیں بڑھ سکتی تو گویا پہلا گیئر آزمایا گیا اور ایک درجہ اور نیچے اتر کر محض جمہوریت کے نام پر مذہبی ولادینی تمام عناصر کے ساتھ مل کر آگے بڑھنے کی کوشش کی گئی. 

سابق صدر ایوب مرحوم کا پورا گیارہ سالہ دورِ حکومت اسی ’’بحالی ٔ جمہوریت ‘‘ کی مہم کی نذر ہو گیا. لیکن جب ان کے اقتدار کی عمارت گری تو اس کے ملبے سے کچھ ’اور‘ ہی برآمد ہو گیا.

ہمارے پیش نظر اس وقت نہ تو تاریخ نگاری ہے نہ ہی جماعتِ اسلامی کے مستقبل کے بارے میں کوئی پیش گوئی یا قیاس آرائی، نہ ہم اس وقت اس بحث ہی میں الجھنا چاہتے ہیں کہ مولانا مودودی ؒکے اس ’انقلابِ حال‘ کے اسباب کیا تھے (اس پر ہم اپنی تالیف ’’تحریک جماعتِ اسلامی: ایک تحقیقی مطالعہ‘‘ میں مفصل بحث بھی کر چکے ہیں) ہمیں اس معاملے کے جس پہلو سے اصل دلچسپی ہے وہ یہ ہے کہ جماعتِ اسلامی کے اس ’انتقالِ موقف‘ سے احیائے اسلام کے ہمہ جہتی عمل میں ٹھیٹھ اصولی اسلامی تحریک کی جگہ پھر خالی ہو گئی اور اس مہیب خلا کو پُر کرنے کی کوئی صورت تا حال پیدا نہیں ہوئی جو اپنے پیش رو مولانا آزاد اور ان کی جماعت حزب اللہ کی طرح مولانا مودودیؒ اور ان کی قائم کردہ جماعت اسلامی نے جیتے جی مرحوم ہو کر پیدا کیا ہے. چنانچہ اب اگرچہ سیاسی وقومی سطح پر بھی احیائی عمل جاری ہے اور علماء کرام کی سرگرمیاں بھی اپنے اپنے رنگ میں تیز سے تیز تر ہو گئی ہیں، احیائی عمل کا یہ تیسرا اور اہم ترین گوشہ ویران وسنسان پڑا ہے!

جماعتِ اسلامی کے موقف میں یہ تبدیلی اصولاً ۴۷ء ہی میں پیدا ہو گئی تھی لیکن کم وبیش دس سال یہ اپنی قوت کے زور میں بڑھتی چلی گئی اور اس تبدیلی کا احساس بھی لوگوں کو نہیں ہوا. لیکن۵۶-۵۷ء میں جماعت میں اس احساس نے زور پکڑا اور طریق کار کے بارے میں ایک اختلافِ رائے ظاہر ہواجس نے ایک ہنگامے کی صورت اختیار کر لی. نتیجۃً جماعت کے ’اکابر‘ کی اکثریت چند ’اصاغر‘ سمیت جماعت سے کٹ گئی. اُن ’اصاغر‘ میں سے ایک ان سطور کا راقم بھی ہے. بعد ازاں ’بڑے‘ تو اپنے اپنے ’بڑے‘ کاموں میں مشغول ومصروف ہو گئے لیکن یہ ’چھوٹا‘ ؎

ایک بلبل ہے کہ ہے محوِ ترنم اب تک
اس کے سینے میں ہے نغموں کا تلاطم اب تک
کے مصداق اپنے دل ودماغ کو اس جنتِ گم گشتہ کے خیال سے فارغ نہ کر سکا، بلکہ جیسے جیسے دن بیتے اس کا حال یہ ہوتا چلا گیا کہ ؎

تخم جس کا تو ہماری کشتِ جاں میں بو گئی
شرکتِ غم سے یہ الفت اور محکم ہو گئی

وہ جب جماعت سے علیحدہ ہوا اس کی عمر کُل پچیس برس تھی. بالکل نو عمری کا عالم، نہ علم نہ تجربہ، لہٰذا پورے دس برس اس نے اس انتظار میں بسر کئے کہ ’بڑوں‘ میں سے کوئی ہمت کرے اور از سرِ نو سفر کا آغاز کر دے. لیکن اللہ کو یہ بھی منظور نہ ہوا تا آنکہ ۶۶۶۷ء میں اس نے خود کمرِ ہمت کَسی اور بفحوائے الفاظ قرآنی 
اِنَّ ہٰذَا الْقُرْاٰنَ یَہْدِیْ لِلَّتِیْ ہِیَ اَقْوَمُ (۱درسِ قرآن کی صورت میں ٹھیٹھ اسلامی دعوت کے لئے ذہنی وفکری سطح پر میدان ہموار کرنے کا کام شروع کردیا. اس کے کام کو اللہ تعالیٰ نے شرفِ قبولیت عطا فرمایا ور چند ہی سالوں میں اس کے قائم کردہ ’حلقہ ہائے مطالعۂ قرآن‘ کی کوکھ سے ’مرکزی انجمن خدام القرآن لاہور‘ برآمد ہو گئی اور اب اس کے بھی دو ہی سال بعد وہ اسی ٹھیٹھ اصولی اسلامی تحریک کے احیاء کے لئے ’’تنظیمِ اسلامی‘‘ کے قیام کا ارادہ کر رہا ہے.

اسے خوب معلوم ہے کہ اس کے پاس نہ مولانا ابوالکلام آزاد مرحوم کی سی عبقریت اور ذہانت وفطانت ہے، نہ مولانا ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی سی صلاحیتِ کار اور محنت ومشقت کا مادہ. پھر نہ وہ شعلہ بیان خطیب ہے نہ صاحب طرز ادیب، بایں ہمہ ایک احساسِ فرض ہے جو چین نہیں لینے دیتا اور ایک عظیم تحریک کی امانت کے بار کا احساسِ گراں ہے جس نے اسے ؏ ’’ہرچہ باداباد، ماکشتی درآب انداختیم‘‘ کے مصداق اس پُرخطر وادی میں کود پڑنے پر مجبور کر دیا ہے. 
(۱) ’’یقینا یہی قرآن ہے جو رہنمائی فرماتا ہے اس راہ کی طرف جو سب سے سیدھی اور سب سے درست ہے.‘‘ عجب حسنِ اتفاق ہے کہ یہ الفاظ مبارکہ سورۃ بنی اسرائیل میں ان آیات کے فوراً بعد وارد ہوئے ہیں جو بنی اسرائیل اور امتِ مسلمہ کی تاریخ میں مماثلت ومشابہت کے بیان میں اس تحریر میں تفصیل کے ساتھ زیر بحث آچکی ہیں. مزید غور طلب نکتہ یہ ہے کہ بنی اسرائیل کی تاریخ کا ذکر شروع ہوا توراۃ کے ذکر سے وَاٰتَیْنَا مُوْسَی الْکِتٰبَ وَجَعَلْنٰہُ ہُدًی لِّبَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلَ اور اس کا اختتام ہوا قرآن کے ذکر پر. گویا سابق امت کی تاسیس بھی کتاب ہی کی بنیاد پر ہوئی تھی اورا س کے معزول کئے جانے کے بعد نئی امت ِ مسلمہ کی تاسیس بھی ’’الکتٰب‘‘ ہی کی بنیاد پر ہوئی ہے تو ظاہر ہے کہ اس کی ’تجدید‘ کے لئے بھی مبنیٰ و اساس قرآن کے سوا کوئی چیز نہیں بن سکتی ؎

گر تو می خواہی مسلماں زیستن نیست ممکن جز بہ قرآن زیستن (اقبالؔ) 
اب جو لوگ شخصیتوں اور جماعتوں کی سطح سے بلند ہو کر سوچنے اور غور وفکر کرنے کی ہمت اور صلاحیت ہی سے عاری ہوں ان کا معاملہ تو دوسرا ہے، البتہ وہ لوگ جو کسی تحریک کے بنیادی نظریات ومقاصد پر نظر رکھتے ہوئے اپنے موقف پر نظرثانی کی ہمت کر سکیں، ان کے لئے ایک لمحۂ فکریہ ہے. انہیں چاہئے کہ ٹھنڈے دل کے ساتھ ہمارے موقف پر غور کریں اور اگر انہیں اس میں صحت وصداقت نظر آئے تو ہمارا ساتھ دینے پر آمادہ ہوں اور کمر ہمت کسیں! بہرحال اپنی حد تک ہم نے فیصلہ کر لیا ہے کہ ؎

دریں دریائے بے پایاں، دریں طوفانِ موج افزا
سرافگندیم، بسم اللہ مجرٖھا ومرسٰھا