نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الکَرِیْمo
اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ہمارا قرآنی تربیت گاہ کا پروگرام بخیر و خوبی اختتام کو پہنچا. اگرچہ اس بار ابتدا میںکچھ بددلی کا سامنا رہا تھا. ایک تو اس وجہ سے کہ اچانک کچھ انتظامی دشواریاں پیش آگئیں اور دوسرے موسم کی سختی اور خصوصاً برقی رو کی آنکھ مچولی کے باعث‘ تاہم اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے کچھ تو رفتہ رفتہ انتظامات درست ہو گئے‘ کچھ آپ حضرات نے ؏ ’’زمانہ باتونہ سازد تو بازمانہ بساز!‘‘ کے مصداق موسم کے ساتھ ساز گاری اختیار کر لی اور کچھ ہم نے پروگرام میں تخفیف کرتے ہوئے ایک ماہ کے بجائے تین ہفتوں پر اکتفا کر لیا. بہر حال بفضل اللہ تعالیٰ و عونہٖ پروگرام پورا ہو گیا. گویا ؏ ’’شکر‘ صد شکر کہ جمازہ بمنزل رسید!‘‘
جیسا کہ آپ کو معلوم ہے اس تربیت گاہ کے پروگراموں میں مرکزی حیثیت مطالعۂ قرآن حکیم کے اس منتخب نصاب کے درس کو حاصل تھی جس کا آغاز یکم جولائی کو سورۃ العصر سے ہوا تھا اور اختتام آج سورۃ الحدید پر ہوا ہے ‘اور جس کے بارے میں مَیں نے آغاز میں بھی عرض کر دیا تھا اور بعد میں بھی متعدد بار واضح کیا کہ اس کی ترتیب میں اصل مقصدیہ پیش نظر رہا ہے کہ ہمارے سامنے اللہ کے دین کا ایک صحیح‘ ہمہ گیر اور جامع تصور بھی آجائے اور ہم پر اپنی ذمہ داریاں اور فرائض بھی منکشف ہو جائیں.
گویا ہم پر یہ بھی واضح ہو جائے کہ ہمارا دین ہے کیا؟ اور یہ بھی منکشف ہو جائے کہ وہ ہم سے چاہتا کیا ہے!!
اور آج اس نصاب کی تکمیل کے بعد مجھے یقین ہے کہ آپ میرے ساتھ اتفاق فرمائیں گے کہ تربیتی پروگرام کے دوسرے حصوں میں چاہے کوئی کمی رہ گئی ہو‘ جہاں تک اس بنیادی مقصد کا تعلق ہے وہ بتمام و کمال نہ سہی ضروری حد تک بہرحال پورا ہو گیا ہے. چنانچہ ایک طرف تو یہ واضح ہو گیا کہ
’’ہمارا دین عام مذہبی تصورات کے مطابق صرف چند عقائد اور رسوم کا مجموعہ نہیں ہے ‘بلکہ پوری زندگی پر حکمرانی چاہتا ہے اور زندگی کے ہر ہر گوشے پر عمل داری کا طالب ہے ‘اور اپنے ماننے والوں سے اس کامطالبہ یہ ہے کہ اولاً وہ اسے خود اپنی زندگیوں میں بتمام و کمال رائج کریں اور پھر اسے ہیئت ِاجتماعیہ حتیٰ کہ
پورے کرۂ ارضی پر نافذ و غالب کرنے کی کوشش کریں اور اس میں تن من دھن سب کچھ کھپا دیں. اور دوسری طرف اس نہ صرف محدود بلکہ مسخ شدہ (perverted) تصورِ دین کی غلطی بھی پوری طرح واضح ہو گئی ہے جس نے اُمت ِمسلمہ کی عظیم اکثریت کے قویٰ شل کر دیے ہیں اور اسے بحیثیت ِمجموعی جمود اور تعطل کا شکار بنا کر رکھ دیا ہے! ‘‘
اب ظاہر ہے کہ اصل مسئلہ نیت اور ارادے کا ہے. مشہور کہاوت ہے کہ ’’سوتے کو جگایا جا سکتا ہے‘ جاگتے کو جگانا ممکن نہیں!‘‘ اگر کوئی سمجھنے کا ارادہ ہی نہ رکھتا ہو تو بات دوسری ہے‘ لیکن اگر کوئی واقعتہً جاننا چاہے کہ ازروئے قرآن انسان کی نجات کے ناگزیر لوازم کیا ہیں اور اللہ تعالیٰ کے یہاں فوز و فلاح سے ہمکنار ہونے اور عفو و درگزر کے مستحق قرار پانے کی کم از کم شرائط کیا ہیں تو اس کے لیے اجمالاً سورۃ العصر بھی کفایت کرتی ہے اور تفصیلاً یہ پورا نصاب تو حرفِ آخرکا درجہ رکھتا ہے. اس کے بعد اب اصل مسئلہ ’عمل‘ کا ہے ‘اور ظاہر ہے کہ یہی مرحلہ سب سے کٹھن ہے اور اصل دشواری یہیں پیش آتی ہے. اور یہی وہ معاملہ ہے جس سے متعلق اپنی زندگی کے ایک اہم فیصلے کے اظہار و اعلان اور اس کے پس منظر کی وضاحت کے لیے میں اِس وقت آپ حضرات کے سامنے حاضر ہوا ہوں.
اس سے پیشتر کہ میں وہ فیصلہ آپ حضرات کے سامنے رکھوں‘ اس امر کی وضاحت ضروری ہے کہ میرے اب تک کے کام کی نوعیت صرف درس و تدریس کی رہی ہے نہ کہ کسی ہمہ گیر دعوت کی! اور میں یہ بات مسلسل واضح کرتا رہا ہوں کہ میری حیثیت اصلاً صرف ایک طالبعلم کی اور زیادہ سے زیادہ ایک مدرّس یا معلّم کی ہے نہ کہ داعی یا مبلغ کی!
حضور نبی کریمﷺ کے خطباتِ مبارکہ میں ایک جملہ آتا ہے. حضورﷺ فرمایا کرتے تھے: ’’اُوْصِیْـکُمْ وَنَفْسِیْ بِتَقْوَی اللّٰہِ‘‘ یعنی میں تمہیں بھی تقویٰ کی وصیت کرتا ہوں اور اپنے نفس کو بھی! میں اپنے لیے تو وصیت یا نصیحت کا لفظ بھی استعمال نہیں کر سکتا. میرے اب تک کے درس و تدریس اور تعلیم و تعلّمِ قرآن کی نوعیت محض یہ رہی ہے کہ میرے نزدیک ازروئے قرآن ہر مسلمان پر اس کے دین کی جانب سے جو ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں وہ یہ ہیں جو میں آپ حضرات کو بھی بتا رہا ہوں اور خود اپنے آپ کو بھی! ہم سب حسبِ صلاحیت و استعداد ان پر مکلف بھی ہیں اور عند اللہ مسئول اور جوابدہ بھی! اور ہمیں ان سے عہدہ بر آ ہونے کی فکر کرنی چاہیے!
مجھے خوب معلوم تھا کہ یہ راہ یوں تو ویسے بھی بڑی کٹھن اور پر صعوبت ہے اور اس پر چلنے کے لیے
’’چیتے کا جگر چاہیے شاہیں کا تجسس!‘‘ اس لیے کہ بفحوائے آیۂ قرآنی اِنَّ ذٰلِکَ مِنۡ عَزۡمِ الۡاُمُوۡرِ ﴿ۚ۱۷﴾ (لقمٰن) ’’بے شک یہ بہت ہمت کے کاموں میں سے ہے!‘‘لیکن اس میں پہل کرنے والا تو گویا ایک بہت ہی بھاری بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھا لیتا ہے ‘اور اَنَا اَوَّلُ الۡمُسۡلِمِیۡنَ ﴿۱۶۳﴾ (الانعام) اور اَنَا اَوَّلُ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ ﴿۱۴۳﴾ (الاعراف) کہتے ہوئے اس پرخطر وادی میں اتر جانا اور پھر پکارنا کہ مَنۡ اَنۡصَارِیۡۤ اِلَی اللّٰہِ ؕ (الصف:۱۴) ’’کون ہے میرا مدد گار اللہ کی راہ میں؟‘‘ہرگز کوئی آسان کام نہیں! ُ
یہی وجہ ہے کہ تاحال میں ’درس و تدریس‘ کے گوشۂ عافیت ہی میں پناہ گزیں رہا اور میں نے یہی موقف اختیار کیے رکھا کہ دین کی یہ حقیقت ہے جو مطالعۂ قرآن سے مجھ پر واضح ہوئی اور دین کے یہ فرائض ہیں جو کلامِ الٰہی سے مجھ پر منکشف ہوئے. میں اس کا مدّعی نہیں کہ میں خود ان کو بجالا رہا ہوں اور آپ کو دعوت دے رہا ہوں کہ ان کی ادائیگی میں میرے ساتھ شریک ہو جائیں. بلکہ مقصود محض اظہارِ حقیقت ہے‘ اس خیال سے کہ کیا عجب کہ اللہ تعالیٰ آپ میں سے کسی کو اس خدمت کے لیے قبول فرما لے اور سامعین میں سے کوئی باصلاحیت اور باہمت شخص ایسا نکل آئے جو اُٹھ کھڑا ہو اور خلقِ خدا کو دعوت دے کہ ’’اِلَیّ عِبَادَ اللّٰہِ !‘‘ اللہ کے بندو میری طرف آئو! اور اس طرح راہ حق پر چلنے کے لیے ایک قافلہ تیار ہو جائے.
لیکن اب بہت غور و فکر اور سوچ بچار کے بعد محض اللہ تعالیٰ کی تائید و توفیق پر توکل و اعتماد اور صرف اُسی کی امداد و اعانت کے سہارے اور بھروسے پر میں نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ آئندہ میری زندگی میں یہ کام صرف درس و تدریس تک محدود نہیں رہے گا‘ بلکہ ان شاء اللہ العزیز احیائے اسلام اور غلبہ ٔدین ِحق ہی عملاً میری زندگی کا اصل مقصد ہوں گے اور میری بہتراور بیشتر مساعی بالفعل دعوتِ دین اور خلق ِخدا پر دین ِحق کی جانب سے اتمامِ حجت میں صرف ہوں گی. گویا اِنَّ صَلَاتِیۡ وَ نُسُکِیۡ وَ مَحۡیَایَ وَ مَمَاتِیۡ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ
﴿۱۶۲﴾ۙ (الانعام) اور اسی کی دعوت َمیں اپنے تمام عزیزوں‘ دوستوں اور تمام جاننے والوں حتیٰ کہ بزرگوں تک کو دوں گا‘ اور پھر جو لوگ اس راستے پر ساتھ چلنے کے لیے تیار ہو جائیں انہیں ایک نظم میں منسلک کر کے ایک ہیئت ِاجتماعیہ تشکیل دوں گا جو ان مقاصدِ عالیہ کے لیے منظم جدوجہد کرسکے! وَمَا تَوفِیْقِی اِلَّا بِاللّٰہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْم
میں نے یہ فیصلہ دفعتہ نہیں کر لیا ہے بلکہ اس کا ایک طویل پس منظر ہے. اور چونکہ میں آپ حضرات کے سامنے اپنے آپ کو اس حیثیت سے پیش کرنے کا خواہش مند نہیں ہوں کہ جیسے یہ حقیقت بس مجھ ہی پر منکشف ہوئی ہے یا یہ کوئی ’وحی‘ ہے جو براہِ راست مجھ ہی پر ’نازل‘ ہوئی ہے‘ لہٰذا میں چاہتا ہوں کہ اجمالاً وہ پورا پس منظر آپ کے سامنے رکھ دوں تاکہ میرے فکر کا پورا ’شجرئہ نسب‘ آپ کے علم میں آ جائے.
اس سلسلے میں یہ معذرت پیشگی حاضر ہے کہ اس وقت میرے ذہن میں کوئی مرتب مواد موجود نہیں ہے. آپ کو خوب معلوم ہے کہ یہ اکیس دن مجھ پر کس قدر سخت مشقت کے گزرے ہیں. میری صحت پہلے ہفتے کے بعد ہی جواب دے گئی تھی اور بعد میں پندرہ دنوں کے دوران میں مَیں نہایت ثقیل بلکہ مضر ادویات کے سہارے اس فرض کو ادا کرنے کی کوشش کرتا رہا ہوں جو میں نے اپنے ذمے لے لیا تھا ‘یعنی پورے منتخب نصاب کا درس‘ اور خصوصاً آج کا دن تو بہت ہی سخت مشقت میں گزرا ہے. صبح کے اڑھائی گھنٹے اور عصر اور مغرب کے مابین ڈیڑھ گھنٹے کے درس کے بعد اب آپ مجھ سے کسی مرتب تقریر کی توقع بہرحال نہ رکھیں. اس وقت میرا اصل مقصد تو صرف اس فیصلے کا اظہار و اعلان تھا جو ہوگیا. جہاں تک اس کے پس منظر کا تعلق ہے تو اس میں سے جو چیزیں اس وقت ذہن میں بلاتکلف آجائیں‘ اور جن کی جانب اللہ تعالیٰ ذہن کو منتقل فرما دیں انہیں بیان کرنے کی کوشش کروں گا. اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اپنے فضل و کرم سے میری ’’بے ربطی ٔ‘تقریر‘‘ میں بھی ’’ربط ِ محکم‘‘ پیدا فرما دے!
میں ۲۶ اپریل ۱۹۳۲ء کو مشرقی پنجاب کے ایک قصبے حصار میں پیدا ہوا اور گورنمنٹ ہائی سکول حصار ہی سے میں نے ۱۹۴۷ء میں پنجاب یونیورسٹی کا میٹرک کا امتحان امتیازی حیثیت میں پاس کیا. (میں نے کُل ساڑھے آٹھ سو میں سے سات سو اٹھارہ نمبر لیے تھے اور یونیورسٹی میں چوتھی پوزیشن حاصل کی تھی!)
انسان کی عمر کے اِس دور کا اکثر حصہ تو ظاہر ہے کہ خالص بے شعوری کی حالت میں گزرتا ہے. اس کے آخری حصے کو بھی زیادہ سے زیادہ نیم شعوری کا زمانہ کہا جا سکتا ہے‘ تاہم واقعہ یہ ہے کہ اس دور میں جو نقش لوحِ ذہن پر ثبت ہو جائیں وہ بہت گہرے اور دیر پا ہوتے ہیں.
میں نے اپنی زندگی کے بالکل نا سمجھی کے دور میں بھی چونکہ اس فضا میں سانس لیا جس میں ہندومسلم کشمکش کے سائے گہرے ہونے شروع ہو چکے تھے اور مسلمانانِ ہند اپنے قومی تشخص کے تحفظ کے لیے جان توڑ کوشش پر مجبور ہو گئے تھے‘ لہٰذا میرے تحت الشعور کی سب سے نچلی سطح (substratum) میں مسلم قوم پرستی کا جذبہ رچ بس گیا. یہاں تک کہ مجھے خوب یاد ہے کہ ۱۹۳۸ء میں جبکہ میری عمر کل چھ سال کی تھی میں نے علامہ اقبال مرحوم اور مصطفی کمال پاشا کے انتقال کو نہ صرف ایک قومی نقصان بلکہ ذاتی صدمے کی حیثیت سے محسوس کیا تھا.
یہی وجہ ہے کہ ’نیم شعوری‘ کے دور کے آغاز پر میرے ذہن نے اولین اثرات علامہ اقبال مرحوم کی ملّی شاعری سے قبول کیے. میں پانچویں جماعت میں پڑھتا تھا جب میرے بڑے بھائی صاحب نے مجھے ’’بانگِ درا‘‘ لا کر دی جسے میں گھنٹوں کچھ سمجھے اور کچھ بغیر سمجھے ترنّم کے ساتھ پڑھتا رہتا تھا.
بانگِ درا کی نظموں میں سے مجھے سب سے زیادہ پسند وہ تھیں جن میں ملت ِاسلامی کے مستقبل کے بارے میں ایک امید افزا نقشہ کھینچا گیا تھا اور اسلام کی نشأۃِ ثانیہ اور اُمت ِمرحومہ کی تجدید کی خوشخبری دی گئی تھی ‘اور فی الجملہ یہ رنگ موجود تھا کہ: ؎
اقبال کا ترانہ بانگ درا ہے گویا
ہوتا ہے جادہ پیما پھر کارواں ہمارا
خصوصاً ’طلوعِ اسلام‘ کے یہ اشعار تو مجھے بے حد پسند تھے:
سرشک چشم مسلم میں ہے نیساں کا اثر پیدا
خلیل ؑ اللہ کے دریا میں ہوں گے پھر گہر پیدا
کتابِ ملت بیضا کی پھر شیرازہ بندی ہے
یہ شاخِ ہاشمی کرنے کو ہے پھر برگ و بر پیدا
اگر عثمانیوں پر کوہِ غم ٹوٹا تو کیا غم ہے؟
کہ خونِ صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا!!
نوا پیرا ہو اے بلبل کہ ہو تیرے ترنم سے
کبوتر کے تن نازک میں شاہیں کا جگر پیدا
سبق پھر پڑھ صداقت کا‘ عدالت کا‘ شجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا!
اور ان اشعار کو بھی میں بہت کیف اور سرور کے عالم میں پڑھا کرتا تھا : ؎
دیارِ مغرب کے رہنے والو خدا کی بستی دکاں نہیں ہے
کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو وہ اب زرِ کم عیار ہو گا
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہو گا!
نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو اُلٹ دیا تھا
سنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے وہ شیر پھر ہوشیار ہو گا!
مولانا حالیؔ سے اس دور میں َمیں قطعاً متعارف نہ ہوا تھا ‘لیکن بعد میں اندازہ ہوا کہ تاریخی اعتبار سے حالیؔ کی ’مسدس‘ مسلمانانِ عالم کی پستی کی انتہا اور ملت ِاسلامی کے زوال و انحطاط اور نکبت و ادبار کے نقطۂ عروج سے مطابقت رکھتی ہے. یہی وجہ ہے کہ ا ن کے اشعار پر مایوسی اور دل شکستگی کی گہری چھاپ ہے اور ان کی شاعری تمام تر مرثیہ خوانی پر مشتمل ہے ‘جیسے:
پستی کا کوئی حد سے گزرنا دیکھے
اسلام کا گر کر نہ ابھرنا دیکھے
مانے نہ کبھی کہ مد ہے ہر جزر کے بعد
دریا کا ہمارے جو اترنا دیکھے!
اور:
اے خاصۂ خاصانِ رسل وقت ِدُعا ہے
اُمت پہ تری آ کے عجب وقت پڑا ہے
جو دین بڑی شان سے نکلا تھا وطن سے
پردیس میں وہ آج غریب الغربا ہے!
حالیؔ اور اقبال ؔہم عصر بھی قرار دیے جا سکتے ہیں اور تاریخ ہائے وفات کے اعتبار سے ان کے مابین ایک نسل کا فاصلہ بھی ہے ‘اور اسی ’وصل مع الفصل‘ اور ’جمع مع الفرق‘ کی کیفیت ان کے اشعار میں نظر آتی ہے. یعنی جہاں مولانا حالیؔ کے اشعار صرف مرثیہ خوانی پر مشتمل ہیں وہاں اقبالؔ کے یہاں ماضی پر حد درجہ زور دار مرثیہ خوانی بھی ہے (ملاحظہ ہوں ’بانگِ درا‘ کی نظمیں ’صقلیہ‘ اور ’بلادِ اسلامیہ‘) اور مستقبل کے لیے نہایت جذبات انگیز اور جذبہ پرور حُدی خوانی بھی!
بہر حال اپنی عمر کے نیم شعوری دور میں میرے ذہن پر اوّلین چھاپ علامہ اقبال (۱) کی ملی شاعری کی پڑی اور اس سے احیائے دین اور اسلام کی نشأۃِ ثانیہ اور ّملت اسلامی کی تجدید اور تشکیل ِنو کا ایک جذبہ میرے قلب کی گہرائیوں میں رچ بس گیا.
یہاں یہ اعتراف کرنا بھی مناسب ہے کہ اس جذبۂ ملی کی آبیاری ایک زمانے میں حفیظؔ جالندھری صاحب کے ’شاہنامۂ اسلام‘ سے بھی ہوئی. مجھے یاد ہے کہ جن دنوں میں آٹھویں جماعت میں پڑھتا تھا میری ایک پوری رات ’شاہنامہ‘ کی دوسری جلد کو اس کے مخصوص طرزِ ترنم میں پڑھ کر والدہ صاحبہ کو سنانے میں بسر ہوئی‘ اس طرح کہ ادھر جلد ختم ہوئی اور اُدھر صبح نمودار ہو گئی!
۴۷.۱۹۴۶ء کے دوران مسلمانانِ ہند کی قومی جدوجہد اپنے نقطۂ عروج پر تھی اور پورے برصغیر کے مسلمانوں کے اعصاب پر تحریک ِمسلم لیگ کا کامل تسلط تھا. چنانچہ میں بھی اپنی اسی نیم شعوری کیفیت میں پوری تندہی کے ساتھ اس سے وابستہ تھا. اس زمانے میں میںَ مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کا ایک فعّال ورکر تھا ‘اور اس دور میں ہمارے جذبۂ ملی کے جوش و خروش کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ ہم فیڈریشن کے کارکن روزنامہ ’نوائے وقت‘ کے استقبال کے لیے بالعموم ریلوے سٹیشن پہنچ جایا
(۱) یہاں یہ ذکر بھی دلچسپی سے خالی نہ ہو گا کہ پانچویں جماعت کے دوران ’بانگ درا‘ کو کچھ سمجھے اور کچھ بغیر سمجھے ’پی‘ جانے کے بعد میں نے چھٹی جماعت کے دوران ’بالِ جبریل‘ اور ’ضربِ کلیم‘ کو ایک صاحب سے عاریۃً لے کر پڑھ ڈالا اور ساتویں جماعت کے زمانے میں ایک لطیف سا بہانہ بنا کر بڑے بھائی صاحب سے ’بالِ جبریل‘ ’ضربِ کلیم‘ اور ’ارمغانِ حجاز‘ تینوں کتابیں حاصل کر لیں اور گویا علامہ مرحوم کا پورا اردو کلام نظر سے گزار لیا! ’ضربِ کلیم‘ اور ’بالِ جبریل‘ کو عاریۃً حاصل کرنے کا واقعہ بھی بہت دلچسپ ہے. مجھے معلوم ہوا کہ علامہ کی کتابوں کا مکمل سیٹ خان عزیز الدین حمزئی کے یہاں موجود ہے جو حصار کے معروف وکلاء میں سے تھے. ان کا انتقال چند سال قبل ملتان میں ہوا. میں اپنے والد صاحب مرحوم و مغفور کے ساتھ ان کی خدمت میں حاضر ہوا. مجھے خوب اچھی طرح یاد ہے کہ اس وقت وہ ایک عجیب سے شش و پنج میں مبتلا ہو گئے تھے کہ نہ انکار کیے بنتی تھی نہ طبیعت کتابیں دینے پر آمادہ ہوتی تھی. بالآخر انہوں نے ایک تدبیر سوچی اور علامہ کے ان اشعار کا مطلب مجھ سے دریافت کیا کہ ؎
پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضا میں
کرگس کا جہاں اور ہے شاہیں کا جہاںاور
الفاظ و معانی میں تفاوت نہیں لیکن
ملا کی اذاں اور مجاہد کی اذاں اور!
اور کہا کہ اگر ان اشعار کا مفہوم بیان کر دو تو کتابیں لے جا سکتے ہو. پھر جب میں نے ان کا مفہوم بیان کر دیا تو وہ کچھ حیران سے تو ہوئے‘ تاہم انہوں نے کتابیں میرے حوالے کر دیں! کرتے تھے. کچھ عرصہ مَیں حصار ڈسٹرکٹ مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کا جنرل سیکرٹری بھی رہا ‘اور ۱۹۴۶ء میں ایک بار میں نے لاہور میں منعقدہ فیڈریشن کے ایک مرکزی اجلاس میں ضلع حصار کے نمائندے کی حیثیت سے بھی شرکت کی!
تحریک مسلم لیگ کے ساتھ اس عملی تعلق بلکہ انہماک کے ساتھ ساتھ اُسی زمانے میں میں ایک نئی دعوت سے روشناس ہوا. یہ دعوت تھی مؤسس ِجماعتِ اسلامی مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ کی! جس نے میرے جذبۂ ملی کو ایک نئی وسعت (dimension) عطا کی اور دل میں تجدید و احیائے ملت کے ساتھ ساتھ بلکہ اس سے بھی مقدم اور پیشتر ’’تجدید و احیائے دین‘‘ کا جذبہ پیدا کیا. یا یوں کہہ لیں کہ علامہ اقبال مرحوم کے عطا کردہ جذبۂ ملی کے خاکے میں ایک دینی فکر کا رنگ بھر دیا!
اپنے میٹرک کے زمانۂ تعلیم کے دوران اگرچہ میں عملاً تحریک مسلم لیگ ہی سے وابستہ رہا اور یہ نیا دینی فکر مجھ پر اس درجہ غالب نہ آ سکا کہ میں عملاً بھی اسی کا ہو رہتا تاہم اس کا اثر مجھ پر اس حد تک ضرور ہوا کہ مسلم لیگ یا مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے حلقوں میں جب بھی مولانا مودودیؒ یا جماعت اسلامی پر کوئی تنقید ہوتی یا طنز و طعن کا معاملہ ہوتا تو میں ان کی جانب سے مدافعت میں پورا زور صرف کر دیتا.
اس نئی دینی تحریک کے لٹریچر کے پڑھنے یا سمجھنے میں مجھے زیادہ دِقت اس لیے نہ ہوئی کہ میں نے سکول میں اختیار ی مضمون کی حیثیت سے عربی لی ہوئی تھی. اور ایک تو ویسے بھی میرا شمار سکول کے ذہین اور ہوشیار طلبہ میں تھا اور دوسرے عربی سے مجھے اللہ تعالیٰ نے خصوصی شغف عطا فرما دیا تھا‘ چنانچہ جماعت کی بنیادی دعوت پر مشتمل چھوٹے کتابچے میں نے تمام کے تمام جناب مسرت مرزا صاحب اور چودھری نذیر احمد صاحب (یہ دونوں حضرات اب ملتان میں مقیم ہیں!) (۱) سے حاصل کر کے پڑھ ڈالے اور ایک حد تک سمجھ بھی لیے. میرے بھائی اظہار احمد صاحب ان دنوں جماعت کا لٹریچر گہرے انہماک کے ساتھ پڑھ رہے تھے‘ یہاں تک کہ انہوں نے بہت سی کتابوں کے مفصل نوٹس (notes) بھی تیار کر لیے تھے.
۱۲ جولائی ۱۹۴۷ء کو میرا میٹرک کا نتیجہ نکلا. ۲۰؍۲۱ اگست کو عید الفطر تھی اور اس کے دوسرے ہی روز سے حصار میں مسلمانوں کے محلوں پر ہندوؤں کے منظم حملے شروع ہو گئے اور ستمبر کا پورا مہینہ ہم لوگوں نے محصوری کے عالم میں بسر کیا. (۱) افسوس کہ اس دوران میں دونوں حضرات انتقال فرماگئے!
اسی محصوری کی حالت میں میں تفہیم القرآن سے پہلی بار متعارف ہوا. مجھے خوب اچھی طرح یاد ہے کہ اُس زمانے میں‘ میں اور میرے بڑے بھائی‘ ہم دونوں محلے کی ایک مسجد میں ماہنامہ ’ترجمان القرآن‘ کے تازہ پرچوں سے تفسیر سورۂ یوسف پڑھا کرتے تھے. عام فہم تو ظاہر ہے کہ ان کا زیادہ تھا‘ لیکن عربی میری بہتر تھی. اس طرح ہمارا اجتماعی مطالعہ بہت مفید بھی رہتا تھا اور دلچسپ بھی.
اور مجھے اس اعتراف میں ہرگز کوئی باک نہیں کہ میرے دل میں قرآن مجید کو سمجھ کر پڑھنے کی رغبت اوّلاً اسی کے ذریعے پیدا ہوئی‘ بلکہ قرآن حکیم سے میرا اوّلین تعارف اسی کی وساطت سے ہوا…!
اپنے میٹرک کے ان دو سالوں کے دوران میرا تعارف ابوالکلام آزاد مرحوم کی تحریروں سے بھی ہوا. ’الہلال‘ کے بعض پرانے پرچے بھی دیکھنے میں آئے اور کتابی صورت میں مطبوعہ ’مضامینِ الہلال‘ بھی میں نے پڑھے. (۱) اس سے یہ حقیقت مجھ پر منکشف ہوئی کہ جس تحریک کا َعلم اس وقت جماعت اسلامی کے ہاتھ میں ہے اور جو دعوت اس وقت مولانا مودودیؒ پیش کر رہے ہیں‘ اس دور میں اُس کے داعی ٔاوّل کی حیثیت دراصل مولانا آزادؒ کو حاصل ہے. اس کا ایک نتیجہ تو یہ نکلا کہ کانگرس اور مسلم لیگ کی کشمکش اور اس میں تلخی کی شدت ّکے باعث جو نفرت مولانا آزاد سے تھی وہ ختم ہو گئی اور اس کی جگہ ایک حسرت آمیز تاسف نے لے لی کہ اتنا عظیم کام چھوڑ کر وہ اب کن وادیوں میں سرگرداں ہیں ‘اور دوسرا اور اہم تر نتیجہ یہ نکلا کہ میرے ذہن میں یہ بات راسخ ہو گئی کہ اصل اہمیت اشخاص کی نہیں بلکہ مقاصد کی ہے اور نگاہیں شخصیتوں پر نہیں بلکہ کام پر مرتکز رہنی چاہئیں.
اکتوبر ۱۹۴۷ء کے اوائل میں انڈین ملٹری نے حصار میں ہماری قلعہ بندیاں زبردستی توڑ ڈالیں اور
(۱) مولانا ابو الکلام آزادؒ کی تصانیف کے حصول کا واقعہ بھی بہت دلچسپ ہے. حصار کے صنعتی اسکول کے ایک انسٹرکٹر غلام محمد بھٹی صاحب کو کتابیں جمع کرنے کا شوق جنون کی حد تک تھا. وہ خود ایک بہت ماہر جلد ساز تھے اور ان کے پاس نہایت اعلیٰ مجلد کتابوں کا ایک بہت بڑا ذخیرہ تھا. میں نے جب مولانامرحوم کی تصانیف ان سے عاریۃً برائے مطالعہ مانگیں تو وہ بھی خان عزیزالدین حمزئی ہی کی طرح شش و پنج میں مبتلا ہو گئے اور انہوں نے بھی جان چھڑانے کی وہی تدبیر اختیار کی ‘یعنی ’مجموعۂ مضامینِ الہلال‘ کھول کر ایک فارسی شعر جو سامنے آ گیا اس کے معنی مجھ سے پوچھ لیے. میں نے فارسی بالکل نہ پڑھی تھی‘ اس لیے پہلے تو ذرا جھجکا‘ لیکن جب ذرا غور کیا تو اندازہ ہوا کہ یہ تو اردو ہی کے الفاظ ہیں جو بس ذرا آگے پیچھے کر دیے گئے ہیں‘ چنانچہ میں نے معنی بیان کر دیے اور کتاب حاصل کر لی!
پوری مسلمان آبادی کو ایک نوتعمیر شدہ جیل کے احاطوں میں قائم شدہ ‘کیمپ میںمحبوس کر دیا. کچھ عرصہ وہاں قیام کے بعد ہم لوگ ایک پیدل قافلے کے ساتھ بیس روز میں ایک سو ستر میل کا فاصلہ طے کر کے‘ اگر حافظہ غلطی نہیں کر رہا تو غالباً ۷ نومبر ۱۹۴۷ء کو براستہ سلیمانکی ہیڈ ورکس پاکستان میں داخل ہو ئے‘ اور اس طرح زندگی کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا!
پاکستان میں والد صاحب مرحوم و مغفور اوّل تو لاہور ہی میں تعینات ہوئے‘ لیکن‘جلد ہی ان کا تبادلہ قصور ہو گیا اور میں ایف ایس سی (میڈیکل) کی تعلیم کے لیے‘گورنمنٹ کالج لاہور میں داخل اور محلہ کرشن نگر میں اپنے ایک عزیز کے مکان پر مقیم ہوگیا.
ایف ایس سی کی تعلیم کے دو سالوں کے دوران میں نے حلقہ ہمدردانِ جماعت اسلامی سے باقاعدہ منسلک ہو کر بہت مستعدی اور جانفشانی کے ساتھ کام کیا. اُس وقت کے خصوصی جوش و خروش میں بہت سے عوامل کو دخل حاصل تھا. ایک تو پاکستان کا قیام ہی کچھ کم جذبات انگیز واقعہ نہ تھا .پھر جس قسم کے حالات میں سے گزر کر پاکستان پہنچنا نصیب ہوا تھا اس نے فوری طور پر ملی اور دینی جذبات کو بہت بھڑکا دیا تھا اور کچھ صورت حال بھی بظاہر ایسی نظر آتی تھی کہ جیسے احیائے اسلام کی منزل بہت قریب ہے. قیامِ پاکستان سے گویا اصل مرحلہ تو طے ہو ہی گیا ہے ‘اب کسر صرف اتنی ہے کہ اس میں ’اسلامی نظام‘ قائم کر دیا جائے. (۱) پھر اسے بنیاد (Base) بنا کر اسلام کے عالمی غلبے کی سعی و ُجہد بہت آسان ہو جائے گی. منزل کے قرب کے اس احساس نے آتش ِشوق کو مزید بھڑکا دیا تھا. ان حالات میں جب جماعت اسلامی پاکستان میں ’’قیامِ نظامِ اسلامی‘‘ کی داعی بن کر سامنے آئی تو گویا اس نے جملہ قومی و ملی اور دینی و مذہبی جذبات کو اپیل کیا اور دوسرے بے شمار کارکنوں کی طرح میں بھی حد درجہ کیف و سرور کے عالم میں اس کی جدوجہد میں عملاً شریک ہو گیا.
اُسی زمانے میں مَیں نے جماعت کے لٹریچر کا بھی بالاستیعاب مطالعہ کیا. مولاناامین احسن اصلاحیؒ کی تصانیف تو اس زمانے میں کچھ ثقیل اور کچھ روکھی اور پھیکی معلوم‘ہوتی تھیں‘ لیکن مولانا مودودیؒکی تصانیف کا ایک ایک حرف نظر سے گزار لیا. بایں ہمہ میں تحریک اسلامی کے ساتھ اپنے اس دور کے تعلق کو بھی شعوری نہیں‘ نیم شعوری قرار دیتا ہوں. اَواخر ۱۹۴۹ء میں مَیں میڈیکل کالج لاہور میں داخل ہوا اور ساتھ ہی میری رہائش بھی کالج کے
(۱) اُس وقت یہ خیال بھی نہ آتا تھا کہ ’’زعشق تابہ صبوری ہزار فرسنگ است!‘‘
ہاسٹل میں منتقل ہو گئی. نتیجتاً تنظیمی اعتبار سے میرا تعلق جماعت اسلامی سے منقطع اور اسلامی جمعیت طلبہ سے قائم ہو گیا.
۱۹۵۰ء میں مَیں نے جمعیت کی رکنیت اختیار کی اور فوراً ہی نظامتِ حلقہ میڈیکل کالج کا بوجھ میرے کاندھوں پر ڈال دیا گیا. ۱۹۵۱ء میںمیں جمعیت لاہور کا ناظم بھی بنا دیا گیا اور جمعیت پنجاب کابھی ‘اور ۱۹۵۲ء میں مَیں جمعیت کا ناظم اعلیٰ منتخب ہو گیاواضح رہے کہ میں ان ’مناصب‘ کا ذکر کسی احساسِ فخر کے تحت نہیں کر رہا ہوں بلکہ صرف اس حقیقت کے اظہار کے لیے کر رہا ہوں کہ اس دور میں مَیں نے انتہائی جوش و خروش اور حد درجہ انہماک کے ساتھ اور تحریک کے تقاضوں کو دوسری ہر چیز پر مقدم جان کر کام کیا. یہاں تک کہ اپنی تعلیم کے نقصان (۱) اور اپنے پیشہ ورانہ مستقبل(professional career) کی تباہی کی بھی کوئی پروانہ کی… گویا : ؎
خیریت جاں‘ راحت تن صحت داماں
سب بھول گئیں مصلحتیں اہل ہوس کی!
یہاں کوئی صاحب یہ گمان نہ فرمائیں کہ مجھے اس پر کوئی پشیمانی یا پچھتاوا ہے‘ حقیقت اس کے بالکل برعکس یہ ہے کہ اپنی زندگی کا وہ دور مجھے انتہائی عزیز ہے اور اس کی یاد کو میں اب بھی اپنی ایک قیمتی متاع سمجھتا ہوں. او ر میں سمجھتا ہوں کہ آج دین کی جس خدمت کی توفیق مجھے بار گاہِ خداوندی سے ملی ہوئی ہے اس کی اساس اور بنیاد اسی دور میں قائم ہوئی تھی. گویا میرا معاملہ تو وہ ہے کہ ؎
ا ِس عشق‘ نہ اُس عشق پہ نادم ہے مگر دل
ہر داغ ہے اِس دل میں بجز داغِ ندامت!
چنانچہ تحریر و تقریر کی جو بھی تھوڑی بہت صلاحیت آج مجھ میں ہے وہ اُسی دور میں ابھری اور پروان چڑھی. اگرچہ یہ ایک حقیقت ہے کہ بطورِ زبان مجھے اردو پر نہ اُس وقت کوئی عبور حاصل تھا نہ اب حاصل ہے‘ تاہم ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں اظہار مافی ‘الضمیر کی جو بھی تھوڑی بہت استعداد مجھے حاصل ہے اس کی اوّلین تربیت اسلامی جمعیت طلبہ کے ہفتہ وار آرگن ’عزم‘ کی ادارت ہی سے حاصل ہوئی تھی. اسی
(۱) یہ تو مجھ پر اللہ کا فضل رہا کہ میرا پورا تعلیمی کیریر کسی امتحان میں فیل ہونے کے داغ سے بچا رہا‘ تاہم پرائمری‘ مڈل‘ میٹرک‘ ایف ایس سی اور میڈیکل کالج کے فرسٹ ایئر کے امتحانات میں جو شاندار کامیابیاں میں نے حاصل کیں وہ بعد میں برقرار نہ رہیں!
طرح کوئی شعلہ بیان خطیب یا جادو اثر مقرر تو میں نہ اُس وقت تھا نہ آج ہوں‘تاہم تقریروبیان کی جو بھی تھوڑی بہت صلاحیت مجھ میں موجود ہے وہ تمام تر اُسی دور کی مرہونِ منت ہے.
جہاں تک مولانا مودودیؒ کی تصانیف کا تعلق ہے ان کا تو میں اُس دور میں ’متعلّم‘‘ہی نہیں‘ ’معلم‘ بن گیا تھا ‘خصوصاً ان کی جو تحریریں تحریک جماعت اسلامی کے اصول و مبادی اور اس کے مختلف ادوار سے متعلق تھیں ان کا تو ایک حد تک ’حافظ‘ ہو گیا تھا ‘چنانچہ اس تحریک کی امتیازی خصوصیات اور اس کے مخصوص طریقِ کار کے بارے میں اُس دور میں میرا ذہن بالکل صاف ہو چکا تھا اور اس میں کوئی ابہام نہ رہا تھا.
مزید برآں اُس دور میں مجھ پر اللہ تعالیٰ کا خصوصی فضل و کرم یہ ہوا کہ مجھے اوّلاً مولانا امین احسن اصلاحی صاحب کی تصانیف اور پھر ان کی وساطت سے قرآن حکیم کے ساتھ ایک ذہنی مناسبت پیدا ہو گئی. مولانا کی تصانیف میں سے خصوصاً ’’دعوتِ دین اور اس کا طریق کار‘‘ سے مجھے عشق کی حد تک قلبی تعلق پیدا ہو گیا تھا ‘اور واقعہ یہ ہے کہ اسی کتاب کے ذریعے مجھ پر تحریک اسلامی کا ’دینی فکر‘ واضح ہوا اور فریضۂ تبلیغ و شہادتِ حق کی اصل اہمیت منکشف ہوئی. پھر جب مولانا کی ایک دوسری تالیف ’تدبر قرآن‘ کے نام سے شائع ہوئی تو اس کا مطالعہ بھی میں نے نہایت ذوق و شوق کے ساتھ کیا‘ اور حقیقت یہ ہے کہ قرآن حکیم کے ساتھ ایک پختہ ذہنی مناسبت اور محکم قلبی اُنس کی بنیاد اس کتاب سے قائم ہوئی.
دسمبر ۱۹۵۱ء کی کرسمس اور جولائی ۵۲ ۱۹ء کی موسم گرما کی تعطیلات میںمیں نے لاہور میں ’’تربیتی کیمپ‘‘ منعقد کیے جن میں قرآن حکیم کے چند منتخب مقامات کا درس مولانا اصلاحی نے دیا. میں خود ان دونوں کیمپوں میں بحیثیت ناظم شریک تھا ‘چنانچہ میں نے ان سے بھرپور استفادہ کیا ‘اور واقعہ یہ ہے کہ ان سے نہ صرف یہ کہ میرے قرآن حکیم کے ساتھ ذہنی و قلبی تعلق میں اضافہ ہوا بلکہ میری طبیعت میں تعلیم و تعلّمِ قرآن کا داعیہ شدت کے ساتھ بیدار ہو گیا.
قرآن حکیم کے ساتھ اس ذہنی و قلبی مناسبت اور اس قوت ِگویائی اور صلاحیت ِبیان نے جس کا ذکر میں پہلے کر چکا ہوں‘ مل جل کر مجھے اسی زمانے میں ’مدرّسِ قرآن‘ بنا دیا. چنانچہ جمعیت کے اجتماعات میں بھی ’درسِ قرآن‘ کی ذمہ داری اکثر و بیشتر مجھی پر رہتی تھی اور تعطیلات کے زمانے میں جب میں گھر آتا تھا (اُس وقت تک والد صاحب مرحوم منٹگمری حال ساہیوال میں اقامت اختیار فرما چکے تھے) تو جماعت اسلامی کے اجتماعات میں بھی درسِ قرآن کی فرمائش مجھ ہی سے کی جاتی تھی اور میرا درس بالعموم پسند کیاجاتاتھا. (۱)
قرآن حکیم کے ساتھ اس تعلق کا سب سے بڑا فائدہ جو مجھے پہنچا وہ یہ کہ دین کی اساسی تعلیمات بھی مجھ پر براہِ راست قرآن حکیم کی روشنی میں واضح ہو گئیں اور خاص طور پر دعوت و تبلیغِ دین کی اہمیت اور شہادتِ حق اور اقامت ِدین کی فرضیت بھی مجھ پر ازروئے قرآن منکشف ہو گئی.گویا فَقَدِ اسۡتَمۡسَکَ بِالۡعُرۡوَۃِ الۡوُثۡقٰی (البقرۃ:۲۵۶) کے مصداق میرے دینی فکر کا ایک براہِ راست تعلق قرآن حکیم سے قائم ہو گیا.
اس کی اہمیت کا اندازہ مجھے اُس وقت تو نہ تھا‘ لیکن بعد میں اُس کا احساس مجھے شدت کے ساتھ ہوا کہ اگر خدانخواستہ اس وقت اس پہلو سے کوئی کمی رہ جاتی تو بعد میں جب بعض شخصیتوں سے میرا عقیدت کا رشتہ کمزور پڑا‘ یہاں تک کہ بالکل منقطع بھی ہو گیا اور جمعیت اور جماعت دونوں سے تنظیمی رشتہ بھی ختم ہو گیا تو اس فکر کا پورا تانا بانا بھی درہم برہم ہو جاتا اور میں بھی ان بہت سے لوگوں کے مانند ہو جاتا جو جماعت اسلامی سے علیحدہ ہوئے تو ان کا تعلق نہ صرف تحریک اسلامی بلکہ بعض افسوسناک مثالوں کے اعتبار سے تو گویا اسلام ہی سے منقطع ہو گیا.
الغرض جمعیت طلبہ سے تعلق کا زمانہ میری زندگی کا اہم ترین دور ہے جس میں خود دین و مذہب کے ساتھ بھی میرا صحیح فکری تعلق قائم ہوا اور تحریک تجدید و احیائے دین کے ساتھ بھی میرے حقیقی اور شعوری تعلق کا آغاز ہوا اور احیائے اسلام اور تجدید ِملت ّکا وہ جذبہ جو بچپن میں علامہ اقبال مرحوم کی
(۱) ۱۹۵۳ء میں جمعیت کے سالانہ اجتماع کے موقع پر جو درس سورۂ آل عمران کے آخری رکوع کی ابتدائی آیات کا میں نے دیا تھا اس کا ذکر تقریباً بیس سال بعد ۱۹۷۲ء میں کراچی کے ایک سفر کے دوران میرے سامنے بہت عجیب طریقے سے آیا. ریل میں ایک ہم سفر سے گفتگو ہو رہی تھی جس میں تعلیم و تعلّمِ قرآن کی اہمیت کا ذکر چل نکلا. اس پر ان صاحب نے عجیب کیفیت کے ساتھ کہا کہ ’’صاحب! ایک درس ۵۳ء میں ہم نے سنا تھا‘ اس کی حلاوت کا احساس ابھی تک باقی ہے!‘‘ میں نے ذرا کریدا تو معلوم ہوا کہ دراصل میرے ہی درس کا ذکر ہے . چنانچہ میں نے بات وہیں ختم کر دی اور اپنا مزید تعارف مناسب نہ سمجھا! اسی طرح ۱۹۵۴ء میں ملتان میں منعقدہ جمعیت کی تربیت گاہ میں مولانا اصلاحی سے پڑھے ہوئے مقامات کا جو درس میں نے دیا تھا اس کا ذکر بہت سے احباب آج بھی کرتے ہیں. فللّٰہ الحمد والمنّۃ. شاعری سے پیدا ہوا تھا اور جس میں ایک دینی فکر کا پیوند ابتداء ًمولانا مودودیؒ کی تحریروں سے لگا تھا بالآخر مولانا اصلاحیؒ کی تصانیف کی وساطت سے قرآن حکیم کی محکم اساس پر استوار ہو گیا.
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ ھَدٰنَا لِھٰذَا قف وَمَاکُنَّا لِنَھْتَدِیَ لَوْلَا اَنْ ھَدٰنَا اللّٰہُج
۱۹۵۴ء میں مَیں نے ایم بی بی ایس کا آخری امتحان پاس کیا اور جیسے ہی میرا نتیجہ نکلا میں نے اسلامی جمعیت طلبہ کی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا اور جماعت اسلامی کی رکنیت کی درخواست داخل کر دی‘ اس لیے کہ میرے سامنے آنحضورﷺ کا یہ فرمان مبارک تھا کہ اَنَا آمُرُکُمْ بِخَمْسٍ‘ بِالْجَمَاعَۃِ وَالسَّمْعِ وَالطَّاعَۃِ وَالْھِجْرَۃِ وَالْجِھَادِ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ (سنن الترمذی و مسند احمد‘ عن حارث الاشعری) اور میں نہیں چاہتا تھا کہ میری زندگی میں چند دن بھی بغیر جماعت کے بسر ہوں.
لیکن افسوس کہ جماعت اسلامی میں میرا قیام بہت مختصر رہا.
رکن کی حیثیت سے جماعت میں شامل ہوتے ہی پہلی بات جو میں نے محسوس کی وہ یہ تھی کہ دینی اور اخلاقی اعتبار سے جماعت پر شدید انحطاط اور اضمحلال طاری ہو چکا ہے اور اس کے متوسلین میں کسی انقلابی تحریک کے بجائے عام سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کا سامزاج پیدا ہو گیا ہے. ساتھ ہی یہ بھی محسوس ہوا کہ جماعت کی دعوت اور اس کی اپیل کا رخ بھی اب وہ نہیں رہا جو آغاز میں تھا ‘بلکہ اس میں بھی ایک عام سیاسی جماعت کا سا انداز پیدا ہو چکا ہے.
میرے ذہن نے جب اس قلب ِماہیت کے اسباب و عوامل پر غور کرنا شروع کیا تو ساتھ ہی ایک اور سوال جو ابھر کر سامنے آکھڑا ہوا وہ یہ تھا کہ ۱۹۴۷ء میں پاکستان میں نظامِ اسلامی کا قیام جو اس قدر آسان اور بالکل قریب نظر آ رہا تھا وہ آٹھ سالہ جدوجہد کے باوجود روز بروز نگاہوں سے دُور ترکیوں ہوتا چلا جا رہا ہے؟
جیسے جیسے میں ان مسائل پر غور کرتا گیا مجھ پر یہ حقیقت منکشف ہوتی چلی گئی کہ‘تحریک جماعت اسلامی اپنے اصل رخ سے بھٹک گئی ہے اور ۱۹۴۷ء میں ملک کے بدلے ہوئے حالات میں ’مواقع‘ اور ’امکانات‘ کے ’دام ہمرنگ ِزمیں‘ میں گرفتارہوکرجماعت اسلامی کی قیادت نے طریق کار میں جو تبدیلی کی تھی اس نے تحریک کی ساری بلند پروازی کوختم کر کے رکھ دیا ہے اور اب جماعت کا ’’اصولی‘ اسلامی‘ انقلابی‘‘ کردار تو ع ’’خوش درخشید ولے شعلۂ مستعجل بود‘‘ کے مصداق داستانِ پارینہ بن چکا ہے ‘البتہ ایک اسلام پسند‘ قومی‘ سیاسی پارٹی کی حیثیت سے جماعت کا وجود باقی ہے!
ابتدا میں یہ انکشاف میرے لیے حد درجہ اذیت بخش تھا اور مجھ پر شدید رنج و غم اور مایوسی کا غلبہ ہو گیا تھا ‘مگر جیسے جیسے اس مسئلے کے دوسرے پہلو واضح ہوتے گئے اور ساتھ ہی یہ بھی معلوم ہوا کہ جماعت کی اس تبدیلی کو محسوس کرنے والا میں تنہا ہی نہیں ہوں بلکہ اور بھی بہت سے لوگ ہیں ‘جن میں ایک اچھی بھلی تعداد اس کے ’اکابر‘ کی بھی ہے تو ذرا ہمت بندھی کہ غلطی کا ازالہ ممکن ہے اور ذرا کوشش کی جائے تو اس تحریک کو دوبارہ اپنے اصل رخ پر ڈالا جا سکتا ہے.
اسی امید پر میں نے اڑھائی صد صفحات پر پھیلی ہوئی ایک تحریر کے ذریعے جماعت اسلامی کے قبل از تقسیم ہند موقف اور طریق کار اور بعداز تقسیم پالیسی کے تفاوت اور تضاد کو واضح کیا اور جماعت کے ارباب حل و عقد سے اپیل کی کہ وہ نئے طریق کار کو ترک کرکے سابق طریق کار ہی کی جانب رجوع کریں!
میری یہ تحریر اب ’’تحریک جماعت اسلامی: ایک تحقیقی مطالعہ‘‘ کے نام سے مطبوعہ موجود ہے‘ اور اس موضوع پر میں اس وقت مزید کچھ نہیں کہنا چاہتا سوائے اس کے کہ میں نے یہ تحریر ۱۹۵۶ء میں لکھی تھی اور اب ۱۹۷۴ء ہے‘ لیکن اٹھارہ سال گزر جانے کے بعد بھی میں اسے اتنا ہی صحیح سمجھتا ہوں جتنا اُس وقت سمجھتا تھا اور میرے موقف میں سرِموفرق واقع نہیں ہوا ہے ‘بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں پختگی ہی پیدا ہوتی چلی گئی ہے!
لیکن افسوس کہ جماعت اسلامی میں یہ اختلافِ رائے انتہائی ہنگامہ خیز بن گیا اور اَواخر ۵۶ء اور اوائل ۵۷ء کا تقریباً چھ ماہ کا عرصہ جماعت اسلامی پاکستان پر ایک سخت بحرانی کیفیت میں گزرا. جس کے نتیجے میں کم و بیش ستر اسّی ارکان جماعت سے علیحدہ ہوگئے‘ جن میں مجھ ایسے عام کارکنوں کے ساتھ ساتھ مولانا امین احسن اصلاحیؒ ، مولانا عبدالجبار غازیؒ ، مولانا عبدالغفار حسنؒ ،مولانا عبدالرحیم اشرفؒ ، شیخ سلطان احمد، سردار اجمل خان لغاریؒ ایسے اکابر بھی شامل تھے اور گویا جماعت کی قیادت کی پوری صف ِدوم جماعت سے کٹ گئی تھی.
یہ سب کچھ کیوں اور کیسے ہوا اور اس کی اصل ذمہ داری کس پر ہے؟ یہ ایک بڑی تلخ داستان ہے جس کے بیان کا یہ موقع نہیں ہے. تاہم میں نے آیۂ مبارکہ وَلَا تَـکُوْنُوْا کَالَّتِیْ نَقَضَتْ غَزْلَھَا مِنْم بَعْدِ قُوَّۃٍ اَنْکَاثًاط (النحل:۹۲) (۱) کے حوالے سے ’نقض غزل‘ کے عنوان کے تحت اس کے اہم حصے سپردِ قلم کر دیے تھے‘ جو حضرات دلچسپی رکھتے ہوں ان کا مطالعہ کرلیں. (۲)
میں نے جماعت کی رکنیت کی درخواست ۱۵ نومبر ۱۹۵۴ء کو تحریر کی تھی اور تقریباً ڈھائی سال بعد اپریل ۱۹۵۷ء کی کسی تاریخ کو میں نے انتہائی بوجھل دل کے ساتھ جماعت کی رکنیت سے استعفاء تحریر کر دیا. (۳)
لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں تھا کہ میں نے زندگی کا وہ نصب العین بھی ترک کر دیا جس کے حصول کے لیے میں نے جماعت میں شمولیت اختیار کی تھی اور احیائے اسلام و تجدیدِ دین اور شہادتِ حق و اقامت ِدین کی اس جدوجہد سے بھی لاتعلقی اختیار کر لی جسے میں نے پورے شعور و ادراک کے ساتھ اپنا دینی فرض سمجھ کر قبول کیا تھا.
اس کے برعکس واقعہ یہ ہے کہ بحمد اللہ گزشتہ سترہ اٹھارہ سالوں کے دوران میں مجھ پر کوئی ایک دن بھی ایسا نہیں گزرا کہ میری نگاہوں سے احیائے اسلام اور اقامت ِدین کا بلند و بالا نصب العین اوجھل ہوا ہو یا مجھے اپنے ان فرائض کے بارے میں کوئی شک یا شبہ لاحق ہوا ہو. سبب اس کا پہلے ہی بیان کر چکا ہوں ‘یعنی یہ کہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے میرا تعلق پہلے ہی اشخاص سے نہیں بلکہ قرآن حکیم سے قائم ہوچکا تھا اور یہ بات مجھ پر ازروئے قرآن منکشف ہو چکی تھی کہ شہادتِ حق میری ذمہ داری اور اقامتِ ِدین میرا فرض ہے. اگر کوئی جماعت ایسی موجود ہو جس میں انشراحِ صدر کے ساتھ شریک ہو کر اپنے ان فرائض کو ادا کر سکوں تو فبہا‘ اس جماعت کا وجود میرے لیے ایک نعمت ِغیرمترقبہ ہے. لیکن اگر ایسا نہ ہو تب بھی فرض تو ساقط نہیں ہو جاتا‘ اگرچہ کام کٹھن ضرور ہو جاتا ہے‘ یعنی یہ کہ انسان از خود کھڑا ہو اور اپنے دینی فرائض کی ادائیگی کے لیے دوسروں کو دعوت دے اور ایک جماعت تشکیل دے کر ان فرائض
(۱) ’’نہ بن جائو اس بڑھیا کے مانند جس نے اپنا سوت کاتنے کے بعد اسے ٹکڑے ٹکڑے کر کے رکھ دیا!‘‘
(۲) یہ داستان اب مکمل صورت میں ’’تاریخ جماعت ِاسلامی کا ایک گمشدہ باب‘‘ کے عنوان سے کتابی صورت میں شائع ہو چکی ہے!
(۳) درخواستِ رکنیت اور تحریر استعفادونوں ’’تاریخ جماعت ِاسلامی کا ایک گمشدہ باب‘‘ میں شامل ہیں. سے عہدہ برآہو ‘یا بصورتِ آخر کم از کم اپنی ذاتی حیثیت میں تن تنہا کوشاں رہے.
اشخاص آئیں گے اور چلے جائیں گے‘ جماعتیں بنیں گی اور منتشر ہو جائیں گی‘ لیکن اللہ کا دین بھی دائم و قائم رہے گا اور اس کی کتاب بھی! انسان کا فرض یہ ہے کہ فرمانِ نبوی قَدْ تَرَکْتُ فِـیْکُمْ مَا لَنْ تَضِلُّوْا بَعْدَہٗ اِنِ اعْتَصَمْتُمْ بِہٖ‘ کِتَابُ اللّٰہِ (۱) کے مصداق قرآن ہی کو اپنا رہنما اور ہادی و امام بنائے اور اس کے بتائے ہوئے راستے پر گامزن رہے ‘اور اگر اللہ تعالیٰ اپنے دین کی کسی خدمت کی توفیق مرحمت فرما دے تو اسے سراسر اُسی کا فضل و کرم اور انعام و احسان سمجھے. گویا: ؎
منت منہ کہ خدمت سلطاں ہمی کنی!
منت شناس ازو کہ بخدمت بداشتت!
جماعت اسلامی سے علیحدگی کے بعد ابتداء ً قوی امید تھی کہ علیحدہ ہونے والے حضرات ایک نئی تنظیمی ہیئت ِتشکیل دے کر جماعت کے سابق طریق کار کے طرز پر عملی جدوجہد شروع کر دیں گے ‘اور یہ امید ہرگز بے بنیاد نہ تھی ‘اس لیے کہ علیحدہ ہونے والوں میں نہ اہل علم کی کمی تھی نہ اصحابِ فضل کی‘ اور ان میں چار حضرات وہ بھی تھے جن کے کاندھوں پر مولانا مودودیؒ کی اسیری و نظر بندی کے مختلف مواقع پر جماعت کی امارت کا بوجھ آ چکا تھا‘ گویا تنظیمی اعتبار سے بھی جماعت میں ان کا مقام بلند رہا تھا!
یہی وجہ ہے کہ ابتدائی دوسال یعنی وسط ۵۷ء سے وسط ۵۹ ء کا عرصہ اس حال میں بیتا کہ آج لاہور کا سفر ہے تو کل لائل پور کا ‘اور ابھی رحیم آباد سے لوٹا ہوں تو سکھر کے لیے رخت ِسفر باندھ رہا ہوں. وَقِس علٰی ہٰذا. یہاں تک کہ ایک بار یعنی دسمبر ۱۹۵۸ء میں تو ساہیوال میں اپنا مطب بند کر کے اہل و عیال سمیت کراچی منتقل ہو گیا. اگرچہ وہاں سے چھ یا سات ماہ بعد ہی والد صاحب مرحوم کی علالت کے باعث لوٹ آ نا پڑا.
اس دوران میں متعدد اہم مشاورتی اجلاس بھی منعقد ہوئے جن میں سب سے بڑا خود میرے زیر اہتمام عزیز ٹینریز ہڑپہ میں منعقد ہوا تھا جس میں تقریباً تمام اہم لوگ شریک ہوئے اور جو غالباً تین روز تک جاری رہا.
(۱) آنحضرتﷺ کے خطبہ ٔ حجۃ الوداع کا ایک فقرہ: ’’میں چھوڑ چلا ہوں تمہارے مابین وہ چیز کہ اگر تم نے اسے مضبوطی سے تھام لیا تو کبھی گمراہ نہ ہو گے. یعنی کتاب اللہ!‘‘ (صحیح مسلم‘ باب حجۃ النبی ﷺ ) لیکن افسوس کہ یہ ساری بھاگ دوڑبے نتیجہ رہی اور مختلف اسباب کی بنا پر جماعت سے علیحدہ ہونے والے حضرات کسی نئی ہیئت ِاجتماعیہ کے قیام پر متفق نہ ہو سکے اور رفتہ رفتہ سب نے اپنے اپنے ذوق اورمزاجِ طبع کی مناسبت سے انفرادی طور پر مختلف تعمیری سرگرمیوں کا آغاز کر دیا جو تقریباً سب کی سب علمی و تعلیمی نوعیت کی تھیں. مثلاً مولانا اصلاحی صاحبؒ نے لاہور میں حلقہ تدبر ِقرآن قائم کر لیا‘ ماہنامہ ’میثاق‘ جاری فرمایا اور تفسیر تد ّبر ِقرآن کی تسوید کا آغاز کر دیا. حکیم عبدالرحیم اشرفؒ نے لائل پور میں ’جامعہ تعلیمات اسلامیہ‘ قائم کر لیا اور ہفت روزہ ’المنبر‘ پرمحنت شروع کر دی. مولانا عبدالغفار حسنؒ ابتداء ًان کے شریک ِکار رہے اور بعد میں میرے ساتھ اشتراکِ عمل کے لیے ساہیوال منتقل ہو گئے. مولانا عبدالجبار غازیؒ نے راولپنڈی میں ایک ہائی سکول قائم کیا اور وہ اس کی تعمیر و ترقی میں ہمہ تن منہمک ہوگئے‘ سردار اجمل خان لغاریؒ نے ’ادارہ اجمل باغ‘ کے نام سے جامعہ ّملیہ دہلی کے طرز پر ایک ادارہ قائم کر لیا. وَقِس علٰی ہٰذا.
میں نے بھی وسط ۵۹ء میں کراچی سے واپس ساہیوال آکر دو کاموں کا آغاز کر دیا. یعنی ایک حلقہ مطالعۂ قرآن اور دوسرے کالج میں زیر تعلیم طلبہ کی دینی تعلیم و تربیت کے لیے ایک ہاسٹل کا قیام . ان دونوں سے مقصود ایک ہی تھا‘ یعنی مقدم الذکر کے ذریعے عوام میں اور مؤخر الذکر کے ذریعے کالج کے طلبہ میں قرآن حکیم سے ایک قلبی لگاؤ اور ذہنی تعلق پیدا کرنے کی کوشش. اس غرض کے لیے میں نے ان مقامات پر بعض اضافے کر کے جو میں نے مولانا اصلاحی صاحبؒ سے پڑھے تھے ایک قدرے وسیع تر منتخب نصاب مرتب کیا اور اس کا درس دیا.
تقریباً ڈھائی برس (یعنی اواخر ۱۹۶۱ء تک) میں ساہیوال میں اپنے مطب کے ساتھ ساتھ ان دونوں کاموں میں پورے انہماک کے ساتھ مشغول رہا.
اوائل ۶۲ء میں بڑے بھائی صاحب کی طرف سے دین اور دنیا یعنی معاش اور معاد دونوں کے لیے مشترکہ کوشش کی ایک نہایت دل آویز اور خوش آئند تجویز کے تحت میں کراچی منتقل ہو گیا‘ اور اگرچہ بہت جلدمحسوس ہو گیا کہ یہ بھی ایک ’’دامِ ہمرنگ ِزمیں‘‘ ہی ہے‘ تاہم ایک دفعہ اس میں گرفتار ہونے کے بعد کم و بیش تین سال اس سے رہائی حاصل کرنے میں لگے اور ۶۵ء میں مَیں واپس ساہیوال آ سکا.
کراچی کے اس قیام کے دوران میں بھی میرا جنون بالکل بیکار نہ بیٹھ سکا. چنانچہ وہاں بھی میں نے مقبول عام ہائی سکول میں ایک ’’حلقۂ مطالعہ ٔ‘قرآن‘‘ قائم کیا جس کے ہفتہ وار اجتماعات میں مَیں اُسی منتخب نصاب کا درس دیتا رہا جس کا ذکر پہلے آ چکا ہے! دوسرے اس زمانے میں مَیں نے کراچی یونیورسٹی سے ایم اے اسلامیات کا امتحان بھی پاس کرلیا جس میں اتفاقاً میں یونیورسٹی میں اول بھی آگیا!
ساہیوال اور کراچی میں قرآن حکیم کے منتخب نصاب کے درس سے کسی اور کو کوئی نفع پہنچا ہو یا نہ پہنچا ہو کم از کم مجھے ضرور یہ فائدہ پہنچا کہ تحریک اسلامی سے مسلسل آٹھ نو سال تک تنظیمی اعتبار سے لا تعلق رہنے کے باوجود اس کی اساسی دعوت سے بھی میرا ذہنی اور قلبی تعلق برقرار رہا اور اپنے دینی فرائض کے احساس اور ذمہ ّداریوں کے شعور سے بھی میرا ذہن فارغ نہ ہو سکا .گویا مجھے اپنا سبق یاد رہا اور میری حالت اس شعر کے مصداق رہی کہ ؎
گو میں رہا رہین ستم ہائے روزگار
لیکن ترے خیال سے غافل نہیں رہا!
کراچی سے واپس ساہیوال آکر میں ابھی اپنے آئندہ پروگرام کے بارے میں سوچ ہی رہا تھا کہ اچانک ۱۱ نومبر ۱۹۶۵ء کو والد صاحب انتقال فرما گئے‘ اِنّا للّٰہ وانّا الیہ رَاجِعُون. نتیجتاً سرزمین ساہیوال سے جو ایک محکم رشتہ ان کی وجہ سے قائم تھا وہ ختم ہوگیا. ادھر دوبار نقل مکانی کے بعد اب ازسرِنوساہیوال میں پریکٹس شروع کرنے میں بھی کچھ حجاب سامحسوس ہوتا تھا. سلبی طور پر ان دو عوامل اور اثباتی طور پر اس خیال نے کہ ’مقصد ِزندگی‘ کے اعتبار سے سرزمین ِلاہور ہی میں کسی کام کا آغاز مناسب ہو گا‘ مجھے اواخر ۶۵ء میں ساہیوال سے لاہور لا بٹھایا‘ اور اس طرح زندگی کے ایک نئے دور کا آغاز ہو گیا!
لاہور میں میرا اوّلین پروگرام یہ تھا کہ میں ’حلقۂ تدبر ِقرآن‘ میں شامل ہو کر مولانااصلاحی کے سامنے باقاعدہ زانوئے تلمذتہہ کروں گا اور عربی کی تکمیل بھی کروں گا اور علمِ قرآن کی تحصیل بھی. لیکن کچھ عرصہ حلقے میں شرکت کرنے کے بعد میں نے بھی محسوس کیا کہ مولانا پر پہلے گروپ پر محنت کے نتائج کے پیشِ نظر کچھ تکان سی طاری ہو چکی ہے اور اب وہ دوبارہ اس نوعیت کی محنت پر آمادہ نہیں ہیں اور خود مولانا نے بھی واضح الفاظ میں یہ بات فرما دی. نتیجتاً میرا یہ ارادہ پایۂ تکمیل کو نہ پہنچ سکا.
اب جو آئندہ کے پروگرام کے بارے میں غور کیا تو وہ چنگاری پھر پوری شدت کے ساتھ بھڑک اٹھی جو گزشتہ آٹھ نو سالوں کے دوران بھی ؏ ’’آگ بجھی ہوئی نہ جان آگ دبی ہوئی سمجھ!‘‘ کے مصداق سلگتی رہی تھی‘ چنانچہ نگاہیں دو کاموں پر مرتکز ہو گئیں. ایک یہ کہ جماعت اسلامی سے علیحدہ ہونے والے سابق رفقاء میں سے زیادہ سے زیادہ جتنے لوگ ذہنی یکسوئی اور فکری یک جہتی کے ساتھ مجتمع ہو سکیں انہیں ایک نظم میں منسلک کیا جائے تاکہ عمومی دعوت و تبلیغ اور اصلاح و تربیت کا کام منظم طریق پر کیا جا سکے اور ّفریضہ شہادتِ حق اور اقامت ِدین کے لیے اجتماعی جدوجہد دوبارہ انہی خطوط پر شروع کی جا سکے جن پر جماعت اسلامی نے اپنے دورِ اوّل میں کام کا آغاز کیاتھا ‘اور دوسرے یہ کہ علومِ قرآنی کی نشر و اشاعت کا وسیع بندوبست کیا جائے تاکہ ذہین نوجوان قرآن حکیم کی جانب متوجہ ہوں اور اس چشمہ ٔ‘علم و حکمت سے کماحقہ سیراب ہو کر اس کی ہدایت و رہنمائی کو خالص علمی انداز میں پیش کر سکیں.
پہلے مقصد کے لیے میں نے اولاً ۱۹۵۶ء کا تحریر شدہ بیان پورے دس سال بعد (۱) ’’تحریک جماعت ِاسلامی: ایک تحقیقی مطالعہ‘‘ کے نام سے کتابی صورت میں شائع کیا‘ تاکہ ایک طرف تو وہ لوگ جو جماعت اسلامی سے بھی دلچسپی رکھتے ہیں اور علیحدہ ہونے والوں سے بھی کسی قدر حسن ِظن رکھتے ہیں اور لا علمی کے باعث حیران ہیں کہ جماعت میں ۵۷.۱۹۵۶ء میں جو اختلافِ رائے پالیسی اور طریق کار کے بارے میں پیدا ہوا تھا اس کی صحیح نوعیت ّکیا تھی‘ ان کے سامنے اختلاف کی صحیح صورت آ سکے. دوسری طرف جماعت اسلامی سے منسلک احباب بھی اپنے موقف پر نظر ثانی کر سکیں اور گزشتہ نو دس سالہ جدوجہد کے نتائج کی روشنی میں غور کر سکیں کہ ۵۷.۱۹۵۶ء میں پالیسی کے بارے میں صحیح موقف کس کا تھا؟ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ علیحدہ ہونے والے حضرات بھی غور کریں کہ وہ جماعت میں کس مقصد سے شامل ہوئے تھے‘ کس بنیاد پر علیحدہ ہوئے تھے اور اب کیا کر رہے ہیں؟ (۲) (۱) مولانا محمد منظور نعمانی ؒ مدیر ’الفرقان‘ لکھنؤ نے مولانا اصلاحی صاحبؒ کے نام اپنے ایک خط میں جو ’میثاق‘ بابت نومبر ۱۹۶۶ء میں شائع کر دیا گیا تھا کتاب اور اس کے مؤلف کے بارے میں اس تأثر کا اظہار فرمایا کہ ’’کتاب بہت خوب ہے اور آٹھ دس سال تک اس کو روکے رکھنے کا ان کا عمل تو بہت ہی قابل داد اور لائق سبق آموزی ہے‘‘.
(۲)ظاہر ہے کہ اگر مجھے جماعت پر کیچڑ اچھالنا مطلوب ہوتا تو میں یہ کتاب جماعت سے علیحدہ ہوتے ہی فوراً شائع کر دیتا ‘لیکن اس وقت کتاب تو کیا شائع ہوتی میرے استعفے کی خبر بھی اخبار میں شائع نہ ہوئی. پھر جب کتاب شائع ہو گئی تو فطری طور پر اس پر اخبارات اور جرائد میں بھی تبصرے ہوئے اور بہت سے حضرات نے انفرادی خطوط میں بھی اظہارِ خیال فرمایا. ان ’تبصروں‘ اور ’آراء‘ میں دو باتیں نہایت نمایاں تھیں. ایک یہ کہ کتاب کے مؤلف کے خلوص کے بارے میں بھی بالعموم اطمینان کا اظہار کیا گیا اور خود کتاب کے اسلوبِ نگارش کو بھی سراہا گیا ‘اور خود جماعتی حلقوں کی جانب سے یا تو حیرت کے اندازمیں یا الزامی جواب کے طور پر یہ بات کہی گئی کہ جب جماعت سے علیحدہ ہونے والوں کا موقف یہ ہے تو آخر انہوں نے علیحدگی کے بعد انہی خطوط پر کسی مثبت جدوجہد کا آغاز کیوں نہیں کیا؟
اس دوسرے سوال یا الزام کے جواب میں میں نے واضح طور پر تسلیم کیا کہ اگرچہ اس کے بہت سے اسباب ہیں تاہم ہے یہ بہرحال ایک اجتماعی تقصیر اور مجموعی کوتاہی جس کی تلافی جماعت سے علیحدہ ہونے والے حضرات پر فرض ہے.
بحمداللہ ان تمام امور کا خاطر خواہ نتیجہ برآمد ہوا اور ۶۷.۱۹۶۶ء میں جماعت سے علیحدہ ہونے والے حضرات کے حلقے میں ایک ہلچل پیدا ہو گئی جسے کسی مفید اور مثبت رخ پر ڈھالنے کی کوشش میں دو بزرگوں یعنی مولانا عبدالغفار حسن اور شیخ سلطان احمد صاحب نے خصوصی حصہ لیا. نتیجتاً اواخر ۶۷ء میں ایک خاصا بڑا اجتماع رحیم یار خاں میں منعقد ہوا اور اس میں ایک قرار داد اور اسی کی قدرے مفصل تشریح پر اتفاق ہو گیا اور خاصی قوی امید قائم ہو گئی کہ اب یہ قافلہ واقعتا سفر کا آغاز کر دے گا. (۱)
لیکن معاملہ وہی ہوا کہ ؏ ’’اے بسا آرزو کہ خاک شدہ!‘‘ اور بعض ’کرم فرماؤں‘ کی ’کرم فرمائی‘ سے یہ کوشش نہ صرف یہ کہ پروان چڑھنے سے پہلے ہی ختم ہو گئی بلکہ اپنے پیچھے مایوسی و بددلی اور تشتت و انتشار کے گہرے سائے چھوڑ گئی. میں یہاں کسی کا نام لینا نہیں چاہتا ‘اس لیے کہ جس نے جو کچھ کیا اس کی جزا یا سزا وہ اپنے رب کے یہاں پا لے گا. لَہَا مَا کَسَبَتۡ وَ عَلَیۡہَا مَا اکۡتَسَبَتۡ ؕ(البقرۃ:۲۸۶)
بہرحال اس مرحلے پر میں نے خوب سوچ سمجھ کر پوری دلجمعی کے ساتھ یہ فیصلہ کر لیا کہ اب جو کچھ کرنا ہے انفرادی طور پر اور از خود کرنا ہے. نہ بزرگوں کے انتظار میں رہنا ہے کہ وہ آگے بڑھیں تو میں بھی چلوں ‘نہ سابق رفقاء کی راہ تکنی
(۱) اس قرار داد اور اُس کی توضیحات کو اس کتاب کے آئندہ باب میں سمو دیا گیا ہے (مرتب) ہے کہ وہ ساتھ قدم ملائیں تو میں بھی سفر کا آغاز کروں. ہر شخص خدا کی عدالت میں انفرادی طور پر پیش ہو گا اور اپنی اپنی جوابدہی کرے گا. وَ کُلُّہُمۡ اٰتِیۡہِ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ فَرۡدًا ﴿۹۵﴾ (مریم) لہٰذا کوئی اور آگے بڑھے یا نہ بڑھے اور ساتھ دے یا نہ دے‘ مجھے اپنی ذمہ داری کی ادائیگی کی فکر بہرحال کرنی ہے!
اب جو میں نے اپنا جائزہ لیا تو نظر آیا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب حکیم کے ساتھ ایک ذہنی مناسبت بھی عطا فرما دی ہے اور کچھ قوتِ گویائی اور تحریر و تقریر دونوں کے ذریعے اپنے مافی الضمیر کے اظہار پر کسی قدر قدرت سے بھی نواز دیا ہے. لہٰذا دین کی ایک حقیر سی خدمت جو مجھ سے بن آ سکتی ہے اور احیائے اسلام اور شہادتِ حق کی عظیم جدوجہد میں ایک حقیر سا حصہ جو میں لے سکتا ہوں وہ یہ ہے کہ لوگوں کو قرآن حکیم سے روشناس اور متعارف کراؤں‘ کتاب اللہ کی عظمت کو اُجاگر کروں اور لوگوں کو اس کے پڑھنے اور سمجھنے کی ترغیب دلاؤں. یہ خدمت میری نسبت سے چاہے کتنی ہی حقیر کیوں نہ ہو اپنی جگہ نہایت عظیم ہو گی. اس لیے کہ علم و حکمت کا اصل سرچشمہ قرآن حکیم ہی ہے. اس سے دلوں میں ایمان اور یقین کی شمعیں روشن ہوں گی‘ فکر بدلے گا‘ سوچ بدلے گی‘ نقطۂ نظر تبدیل ہو گا اور اقدار (values) بدل جائیں گی. نتیجتاً کردار و عمل میں بھی انقلاب برپا ہو گا ‘اور اگر اللہ نے چاہا تو یہی عمل (process) کسی ہمہ گیر انقلابی جدوجہد کا پیش خیمہ بن جائے گا. وَمَا ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ بِعَزِیْزٍ!
لہٰذا میں نے اللہ کا نام لیا اور جنوری ۱۹۶۸ء سے اپنی بہتر اور بیشتر مساعی اور اپنے بہتر اور بیشتر اوقات کو اسی مقصد عظیم کے لیے وقف کر دیا ‘اور آج جبکہ مجھے ان خطوط پر کام کرتے سات
(۱)سال کا عرصہ ہونے کو آیا ہے میں پوری
(۱) واضح رہے کہ یہ تقریر ۱۹۷۴ء کی ہے.اور بانیٔ محترمؒ اپنی حیاتِ دنیوی کے آخری لمحے تک اسی اطمینانِ کامل کے ساتھ اسی ’’مقصدِ عظیم‘‘ کے لئے وقف رہے اور زبانِ حال سے یہ شعر پڑھتے ہوئے باری تعالیٰ کی جناب میں حاضر ہوگئے ؎
حاصلِ عمر نثارِ رہِ یارے کردم
شادم از زندگیٔ خویش کہ کارے کردم
حافظؒ (مرتب) طرح مطمئن ہوں کہ میرا یہ فیصلہ بالکل صحیح تھا اور واقعتا ’’کرنے کا اصل کام‘‘ یہی تھا! فَلِلّٰہِ الْحَمْدُ وَالْمنّۃ!!
اپنے پیش نظر مقصد کے لیے میں نے سب سے پہلے اس امر کی کوشش کی کہ وہ چشمہ ٔ فیض پھر پورے زور شور کے ساتھ جاری ہو جائے جس کے طفیل مجھ میں قرآن حکیم کے مطالعے کا ذوق و شوق اور اس کے علم و حکمت کے نشر و اشاعت کا جذبہ پیدا ہوا تھا ‘ یعنی مولانا امین احسن اصلاحیؒ اور ان کے استاذ امام حمید الدین فراہیؒ کا فکر قرآنی اور اسلوب تدبرِ قرآن!
اس غرض سے اوّلاً میں نے تفسیر تدبّرِ قرآن کی جلد اوّل کی طباعت و اشاعت کا بیڑا اٹھایا‘ اور یہ سراسر اللہ تعالیٰ ہی کا فضل و احسان ہے کہ میں اس کٹھن وادی سے سرخرو ہو کر نکلا (۱) . اس کے معاًبعد میں نے مولانا کی وہ دو تصانیف شائع کیں جن سے میں ابتداء ہی سے بہت متأثر تھا. یعنی ’’مبادیٔ تدبّرِ قرآن‘‘ اور ’’دعوتِ دین اور اس کا طریق کار‘‘. ان پر مستزاد تھے دو چھوٹے کتابچے یعنی ’’قرآن اور پردہ‘‘ اور ’’اقامت دین کے لیے انبیاء کرام کا طریق کار‘‘.
ثانیاً مولانا اصلاحیؒ کے ایک ہفتہ وار درسِ قرآن کا اہتمام کرشن نگر میں پہلے اپنے مکان پر اور بعدازاں ایک مسجد میں کیا. اگرچہ وہ زیادہ عرصہ جاری نہ رہ سکا اور مولانا کی علالت کے باعث جلد ہی بند ہو گیا.
ماہنامہ ’میثاق‘ جو مولانا نے جون ۱۹۵۹ء میں جاری فرمایا تھا اور جس کی اشاعت کچھ عرصے سے بند تھی اس کا دوبارہ اجرا میرے اہتمام میں اور میرے ہی زیر ادارت جولائی ۱۹۶۶ء میں ہو چکا تھا(۲) (۱)مولانا عبدالماجد دریا بادی مدیر ’صدق جدید‘ لکھنؤ نے تدبّرِ قرآن جلد اوّل پر تبصرہ کرتے ہوئے تحریر فرمایا: ’’حسنِ معنوی سے قبل نظر کتاب کے جمال ظاہری پر پڑتی ہے اور جم کر رہ جاتی ہے. کوئی تفسیر قرآن اتنی حسین و جمیل چھپی ہوئی دیکھنا یاد نہیں پڑتی. کاغذ‘ کتابت‘ چھپائی‘ جلد بندی ہر اعتبار سے اپنی نظیر آپ ہے!‘‘ اور خود راقم نے لکھا کہ ’’کسی کام کی تکمیل کے بعد ’فی کم فرغتَ؟‘ کے بجائے اصل سوال ’ما صنعتَ؟ ‘ کا ہوتا ہے تو اس پر میں اللہ تعالیٰ کا جتنا شکر بجا لاؤں کم ہے کہ کتاب کی اشاعت میں دیر چاہے ہو گئی اس کی کتابت‘ طباعت‘ جلد بندی سب کی سب نہایت عمدہ ہوئیں. مولانا اصلاحی کے لیے شاید کتاب کی تصنیف بھی اتنی بڑی بات نہ ہو جتنی میرے لیے اس کی طباعت اور اشاعت. میں اسی پر خوش ہوں ۥ؏ ’’شادم از زندگی ٔ خویش کہ کارے کردم!‘‘ (میثاق مارچ و اپریل ۱۹۶۸ء) جس کے ذریعے اس فکر کی اشاعت بھی ایک وسیع حلقے میںہو رہی تھی اور مولانا اصلاحیؒ کی تفسیر اور مولانا فراہیؒ کے ’افادات‘ کی اشاعت کا سلسلہ بھی جاری تھا!
طباعت اور اشاعت کے اس سلسلے کے لیے میں نے ’’دارالاشاعت الاسلامیہ‘ کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا ‘جسے کوئی اور صورت موجود نہ ہونے کے باعث مجبوراً ذاتی ملکیت کی شکل دی اور واضح کر دیا کہ جیسے ہی کوئی اجتماعی ہیئت قائم ہوئی‘ یہ پورا سلسلہ اس کو منتقل کر دیا جائے گا.
دوسری طرف میں نے خود اپنے درس قرآن اور اپنی بعض تحریروں اور تقریروں کی اشاعت کا سلسلہ بھی پورے اہتمام کے ساتھ شروع کر دیا.
جہاں تک درس قرآن کا تعلق ہے اس کا آغاز اگرچہ میں نے ۱۹۶۷ء کے دوران ہی میں کر دیا تھا‘ چنانچہ کرشن نگر میں بھی درس کے دو حلقے قائم تھے اور ایک حلقہ کچھ عرصہ دِل محمد روڈ پر واقع ایک رفیق کے مکان پر بھی قائم رہا تھا‘ تاہم لاہور میں میرے درسِ قرآن کا اصل آغاز جنوری ۶۸ء میں سمن آباد میں ہوا.
تقریب اس کی یہ ہوئی کہ میرے ایک عزیز نے اپنے مکان واقع سمن آباد میں کچھ ترمیم اور کچھ تعمیر مزید کے سلسلے میں دو کمروں کے درمیان میں سے ایک دیوار نکلوا دی جس سے ایک بڑا سا کمرہ وجود میں آ گیا جس میں کم و بیش ایک صد آدمی بیٹھ سکتے تھے. ادھر َمیں اس فکر میں تو تھا ہی‘ میں نے فوراً تجویز پیش کر دی کہ یہاں درس قرآن ہونا چاہیے. ظاہر ہے انہیں اس میں کیا عذر ہو سکتا تھا. پس ہر اتوار کی صبح کو درس کی ہفتہ وار نشست شروع ہو گئی.
ابتدا میں حاضری ۳۵.۳۰ تھی‘ کچھ ہی عرصے بعد کمرہ بھر گیا. صاحب ِخانہ نے ہمت کی اور ایک لائوڈ سپیکر خرید لیا اور کمرے کے باہر برآمدے اور پھر اس کے بعد لان میں بھی نشست کا انتظام کر دیا. لیکن جلد ہی محسوس ہوا کہ ع ’’کچھ اور چاہیے وسعت مرے بیاں کے لیے!‘‘
مسجد ِخضراء سمن آباد سے اوّل روز ہی سے ُپرزور فرمائش تھی کہ درس یہاں ہونا چاہیے! میں مساجد کے معاملے میں بہت خائف تھا. اس لیے کہ اول تو مسجدیں اکثر و بیشتر فرقوں اور گروہوں کی ہوتی ہیں اور وہاں ایک مخصوص مسلک سے ہٹ کر کچھ کہنا ممکن نہیں ہوتا. پھر ان میں چودھراہٹ کے
(حاشیہ صفحہ گذشتہ) زندہ کر لو. چنانچہ میں نے ڈیکلریشن ضائع کر دیا اور ’میثاق‘ ہی کا اجرا کر دیا. اتفاق کی بات ہے کہ ان ہی دنوں مولانا وحید الدین خاں دہلی سے لاہور آئے ہوئے تھے. انہیں ’’الرسالہ‘‘ کا نام اس درجہ پسند آیا کہ اُسی کو اپنے جریدے کے لیے اختیار کر لیا! لیے رسہ کشی بھی ہوتی رہتی ہے‘ تاہم جب ضرورت متقاضی ہوئی تو میں نے دعوت قبول کر لی اور درس گھر سے مسجد میں منتقل ہو گیا. وہاں اجتماعِ جمعہ میں تقریر کا سلسلہ پہلے ہی سے شروع ہو چکا تھا. اس طرح مسجد خضراء اس قرآنی تحریک کا مرکز بن گئی.
بعد میں مسجد خضراء میں ایک طویل عرصے تک جو غیر معمولی اور مثالی حالات رہے ان کے پیش نظر مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ کی جناب میں اس کام کو شرفِ قبول حاصل ہو چکا تھا اور اس کی خصوصی تائید و توفیق اسے حاصل تھی.
اسی تائید ایزدی کا نتیجہ تھا کہ جلد ہی لاہور میں اس حلقہ ٔدرس کی دھوم ہو گئی اور اتوار کی صبح کو جبکہ عموماً طبائع پر کسل کا غلبہ بھی ہوتا ہے اور اکثر لوگوں نے بہت سے کام بھی ہفتہ وار چھٹی کے خیال سے رکھے ہوئے ہوتے ہیں بغیر کسی جماعتی تعلق یا تنظیمی بندھن کے‘ اور بغیر کسی ہنگامی یا سیاسی مسائل کی چاشنی کے‘ خالصۃً قرآن مجید کا درس سننے کے لیے آنے والے لوگوں کی تعداد تین ساڑھے تین صد تک پہنچ گئی‘ جن میں اکثریت پڑھے لکھے ہی نہیں‘ اعلیٰ تعلیم یافتہ حضرات کی ہوتی تھی.
در آنحالیکہ درس دینے والا نہ عالم تھا نہ فاضل‘ نہ اس کے پاس کسی دارالعلوم کی سند تھی نہ کسی خانقاہ کا اجازت نامہ! بلکہ خود اپنے قول کے مطابق اس کی حیثیت محض ایک طالب علم کی تھی ؎
ایں سعادت بزورِ بازو نیست
تا نہ بخشد خدائے بخشندہ!
اس حلقہ ٔ درس کا چرچا صرف لاہور تک محدود نہ رہا بلکہ کچھ تو لاہور آنے جانے والے لوگوں کے طفیل اور زیادہ تر ان حضرات کے ذریعے جو پہلے لاہور میں تھے اور درس میں شریک ہوتے تھے‘ بعدازاں تبدیل ہو کر یا نقل مکانی کر کے دوسرے مقامات پر چلے گئے‘ اس کا ذکر دور دراز تک پہنچ گیا ‘اور میں اس حقیقت کو چھپانے کا ہرگز خواہشمند نہیں بلکہ وَ اَمَّا بِنِعۡمَۃِ رَبِّکَ فَحَدِّثۡ ﴿٪۱۱﴾(الضحٰی) کے مصداق اس کا اظہار ضروری سمجھتا ہوں کہ مجھے بڑی خوشی ہوئی جب مجھے معلوم ہوا کہ اس حلقۂ درس کے چرچے حرمین شریفین میں بھی ہوئے اور ندوۃ العلماء لکھنؤ میں بھی. ذٰلِکَ فَضۡلُ اللّٰہِ یُؤۡتِیۡہِ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَ اللّٰہُ ذُو الۡفَضۡلِ الۡعَظِیۡمِ ﴿۲۱﴾ (الحدید)
اس حلقہ میں سب سے پہلے تقریباً چھ ماہ َمیں نے مطالعۂ قرآن حکیم کے اسی منتخب نصاب کا درس دیا جو اب ارتقائی مراحل طے کر کے گویا تکمیل کو پہنچ چکا تھا. بعد ازاں قرآن حکیم کا آغاز سے سلسلہ وار درس شروع کر دیا. ابتدا میں مجھے اندیشہ تھا کہ شاید اس مرحلے پر لوگوں کی دلچسپی برقرار نہ رہے لیکن صورت اس کے بالکل برعکس ہوئی اور بحمد ِاللہ شوق بڑھتا ہی گیا. ۱۹۷۰ء کے اواخر اور ۱۹۷۱ء کے آغاز میں علالت اور َسفر حج وغیرہ کے باعث چار ماہ کے تعطل کے بعد جب اس حلقے میں دوبارہ درس کا آغاز ہوا تو ایک بار پھر میں نے منتخب نصاب ہی کا درس دیا‘ اور اس کے بعد سلسلہ وار مطالعہ شروع کر دیا ‘اور اب تقریباً ساڑھے چھ سال بعد ہم اس حلقے میں قرآن مجید کے چودھویں پارے کا مطالعہ کر رہے ہیں! (یہ ذکر ۱۹۷۴ء کا ہے!)
اس حلقے کا نقطۂ عروج تھا اگست ۱۹۷۲ء میں منعقد شدہ ایک دس روزہ تربیتی کیمپ جس میں پھر روزانہ تین اسباق کی شرح سے پورے منتخب نصاب کا درس دیا گیا اور جس کے دوران میں مسجد خضراء کا منظر واقعی ایسا تھا جیسے قرآن حکیم کا ایک حقیقی جشن منایا جارہاہو.
اس کے علاوہ لاہور میں متعدد مقامات پر درس کے حلقے قائم ہوئے جس میں کہیں ہفتہ وار او ر کہیں ماہوار درس ہوتے رہے اور اس طرح لاہور کی آبادی کے ایک خاصے قابل لحاظ حصے تک قرآن کی دعوت پہنچا دی گئی!
لاہور میں میرے اس کام کا ذکر سن کر کراچی سے بھی چند اصحاب جن کی اکثریت سے تعارف جماعت اسلامی کے سابق تعلق ہی کی بنا پر تھا غالباً اگست ۱۹۷۱ء میں لاہور آئے اور اس طرح کراچی میں بھی اس دعوتِ قرآنی کا آغاز ہوا ‘اور خود میری آمد و رفت کا بھی ایک مستقل سلسلہ شروع ہو گیا! جس کے دوران گاہے گاہے ملتان‘ رحیم یار خان‘ صادق آباد اور سکھر میں بھی قیام ہو جاتا تھا اور درسِ قرآن کی نشستیں منعقد ہو جاتی تھیں.
درس قرآن کے اس روز افزوں سلسلے کے ساتھ ساتھ میں نے اپنی بعض تحریریں بھی کتابچوں کی صورت میں شائع کرنی شروع کیں. اس سلسلے کی پہلی کڑی تھی ’’اسلام کی نشاۃِ ثانیہ: کرنے کا اصل کام‘‘ جس کاعلمی حلقوں میں بہت خیر مقدم ہوا. چنانچہ پروفیسر یوسف سلیم چشتی نے ایک مفصل تحریر اس کی تحسین اور تائید میں لکھی (۱) اور جناب صفدر میرنے ایک پورا مقالہ ’پاکستان ٹائمز‘ کے ادارتی صفحات میں شائع کیا .بحمداللہ اس کے کئی ایڈیشن شائع ہو گئے ہیں یہ اس لیے کہ اس کی حیثیت گویا اس قرآنی تحریک کے اساسی مینی فسٹو کی بن گئی تھی اور ہے!
دوسرے نمبر پر میری ایک تقریر شائع ہوئی ’’قرآن اور امن عالم‘‘.
اور پھر شائع ہوا وہ کتابچہ جسے اللہ نے وہ قبولِ عام عطا فرمایا کہ باید و شاید! یعنی ’’مسلمانوں پر قرآن مجید کے حقوق‘‘ جس کا پہلا ایڈیشن دیکھتے ہی دیکھتے ختم ہو گیا‘ چنانچہ دوسری بار اسے دس ہزار کی تعداد میں شائع کرنا پڑا اور وہ بھی اب قریباً قریباً ختم ہے. (۲) جس کا انگریزی ترجمہ پروفیسر محمد ابراہیم مرحوم و مغفور نے ایسی محبت اور عقیدت کے ساتھ کیا جو الفاظ میں بیان نہیں ہو سکتی ‘اور جس کا عربی ترجمہ پہلے ندوۃ العلماء لکھنؤ سے شائع ہونے والے ماہنامے ’’البعث الاسلامی‘‘ میں قسط وار شائع ہوا اور بعد میں کتابچے کی صورت میں‘ اور جسے عوام نے بھی پسند کیا اور خواص نے بھی‘ جس کی حضرات علماء نے بھی تحسین و تصویب فرمائی اور انگریزی تعلیم یافتہ حضرات نے بھی قدر کی اور داد دی. جس کے بارے میں پروفیسر چشتی صاحب نے فرمایا کہ ’’بلاشبہ یہ مضمون لکھ کر ڈاکٹر صاحب نے اپنے لیے سعادتِ اخروی کا بڑا ذخیرہ جمع کر لیا ہے!‘‘ اور مولانا اصلاحی صاحب نے دعا دی کہ ’’ اللہ تعالیٰ ڈاکٹر صاحب کے قلم میں برکت دے کہ وہ ایسی بہت سی چیزیں لکھنے کی توفیق پائیں!‘‘ فللّٰہ الحمد والمنّۃ!
قصّہ مختصر یہ کہ ان حلقہ ہائے درسِ قرآن اور اس سلسلۂ مطبوعات نے مل جل کر اس ’دعوتِ قرآنی‘ کو ایک تحریک کی صورت دے دی جس نے ۱۹۷۲ء میں پہلے تنظیمی مرحلے میں قدم رکھ دیا.
(۱) میرے اس اصل مضمون اور چشتی صاحب کی تائیدی تحریر کے بارے میں مولانا عبدالماجد دریابادیؒ نے ’’صدقِ جدید‘‘ بابت ۷ فروری ۱۹۶۹ء میں تحریر فرمایا:
’’دونوں مقالے ماہنامہ ’میثاق‘ لاہور میں قسط وار نکل چکے ہیں‘ دونوں کا موضوع نام سے ظاہرہے. دونوں فکر انگیز ہیں اور ایک طرف جوش و اخلاص اور دوسری طرف دانش اور باریک بینی کے مظہر ہیں. مرض کی تشخیص اور تدبیر علاج دونوں میں دیدہ ریزی سے کام لیا گیا ہے. تشخیص اورعلاج اناڑیوں اور عطائیوں کا سا نہیں. رسالہ ہر پڑھے لکھے کے ہاتھ میں جانے کے قابل‘ہے…‘‘
(۲) اس کے بعد اس کے متعدد مزید ایڈیشن طبع ہو کر ختم ہو چکے ہیں ‘اور یہ کتابچہ لاکھوں کی تعداد میں شائع ہو چکا ہے. جون۲۰۰۹ء میں اس کا ۳۸واں ایڈیشن طبع ہوا ہے. دین کی اس چھوٹی سی خدمت کا آغاز‘ جس نے بعد میں ’دعوت رجوع الی القرآن‘ اور ’تحریک تعلیم وتعلمِ قرآن‘ کی شکل اختیار کر لی‘ میں نے اوائل ۱۹۶۸ء میں بالکل تن تنہا کیا تھا اور اس میں مجھے سوائے مولانا امین احسن اصلاحیؒ کی دعا اور اشیرواد کے کسی پرانے بزرگ یا رفیق کا تعاون حاصل نہیں تھا ‘بلکہ ان میں سے کچھ حضرات کی جانب سے تو مجھے باقاعدہ مخالفت کا سامنا بھی کرنا پڑا ‘جو بعض کی طرف سے تو اعلانیہ اور کھلم کھلا تھی اور بعض کی طرف سے خفیہ اور درپردہ… اور یہ صرف اللہ تعالیٰ ہی کا فضل و کرم ہے کہ میں ان سے دل برداشتہ نہیں ہوا بلکہ کامل یکسوئی کے ساتھ اپنے کام میں لگا رہا.
تاہم یہ واقعہ ہے کہ ابتدا میں مجھے محنت بہت شدید کرنی پڑی. چنانچہ ایک طرف مطب اور اس کی ذمہ داریاں‘ دوسری طرف درس ہائے قرآن اور خطاباتِ عام‘ تیسری‘طرف ماہنامہ ’میثاق‘ کی ادارت اور اس کا اہتمام و انتظام (۱) ‘ اور چوتھی طرف‘دارالاشاعت اور اس کی گوناگوں مصروفیات. الغرض بالکل مختلف بلکہ متضادالنّوع مصروفیات کی کشاکش کا نتیجہ یہ نکلا کہ دو ہی سال کی مد ّت میں صحت نے جواب دے دیا اور مستقل حرارت رہنے لگی جو شام کے وقت باقاعدہ بخار کی صورت اختیار کر لیتی تھی.
ابتدا میں مَیں نے اسے نظر انداز کرنے کی کوشش کی‘ پھر مجبوراً تشخیص کی طرف توجہ کرنی پڑی‘ لیکن بہت سی تحقیق و تفتیش سے جب کوئی حتمی نتیجہ برآمد نہ ہوا تو طے پایا کہ آرام کیا جائے. چنانچہ دو تین ہفتوں کے لیے لاہور سے باہر جا کر آرام کیا. لیکن واپس آ کر دوبارہ کام شروع کیا تو پھر وہی صورت پیدا ہو گئی. بالآخر کچھ اسی بد دلی کے باعث اور کچھ بعض دوسرے اسباب کی بنا پر میں نے طے کیا کہ چار چھ ماہ ملک سے باہر بسر کیے جائیں. اب ظاہر ہے کہ بیرونِ ملک ارضِ مقدس سے بہتر جگہ اور کون سی ہو سکتی تھی‘ چنانچہ اواخر ِاکتوبر ۱۹۷۰ء میں مَیں عازمِ حجاز ہو گیا.
رمضان المبارک ۱۳۹۰ھ میں نے پورا مدینہ منورہ میں مولانا عبدالغفار حسن صاحبؒ کی معیت میں بسر کیا. اس کے بعد میں ایک ماہ کے لیے برادرِ عزیز ڈاکٹر ابصار احمد سلّمہ کی دعوت پر لندن چلا گیا. وہاں سے واپس پھر حجاز آیا اور فروری ۱۹۷۱ء میں جامیؔ کے اس شعر کے مصداق کہ؎ (۱) اب غور کرتا ہوں تو حیرت ہوتی ہے کہ ۱۹۶۹ء کے دوران ’میثاق‘ ہر ماہ ۸۰ صفحات پر مشتمل شائع ہوتا رہا تھا اور اس کی کل ذمہ داری مجھ پر تھی! مشرف گرچہ شد جامیؔ زلطفش
خدایا آں کرم بارے دگر کن!
حجِ بیت اللہ سے دوسری بار مشرف ہوا. اس پورے عرصے کے دوران میں میں مسلسل آئندہ کے لائحہ عمل کے بارے میں سوچتا رہا اور بالآخر سرزمین حجاز میں حج ہی کے مبارک موقع پر میں نے اپنی زندگی کا اہم فیصلہ کر لیا… یعنی یہ کہ آئندہ مطب کا سلسلہ بالکل بند اور جتنی بھی مہلت ِعمر بقایا ہے سب کی سب وقف برائے خدمت ِکتاب اللہ وسعیِ اعلاءِ کلمۃ اللہ!
نتیجتاً مارچ ۱۹۷۱ء میں ارضِ مقدس سے واپسی پر جب بالکل یکسو ہو کر از سر نو کام کا آغاز کیا تو چند ہی ماہ میں اس نے اتنی وسعت اختیار کر لی کہ ایک تنظیمی ڈھانچے کی ضرورت محسوس ہونے لگی.
اس ضرورت کے احساس کو کچھ تقویت اس سے بھی حاصل ہوئی کہ اس وقت تک طباعت و اشاعت کا سارا کام میرے ایک ذاتی ملکیتی ادارے کے تحت ہو رہا تھا ‘اور اگرچہ اس میں یافت کچھ بھی نہ تھی تاہم لوگوں کو ان مطبوعات کی اشاعت کی ترغیب دلانے میں مجھے خود بھی حجاب محسوس ہوتا تھا‘ اور بعض بزرگوں نے بھی توجہ دلائی کہ یہ بات کچھ اچھی نہیں لگتی!چنانچہ خیال آیا کہ کوئی ادارہ قائم کیا جائے اور طباعت و اشاعت کا سارا سلسلہ اس کے حوالے کر دیا جائے ‘تاکہ دوسرے مصنفین کی کتابوں کی اشاعت سے بھی اگر کچھ بچت ہو تو وہ کسی فرد کی کمائی نہ بنے بلکہ ادارے کی ملکیت ہو. رہی میری تحریریں تو ان پر تو نہ کوئی منفعت ادارہ حاصل کرے نہ میں ہی کوئی حق ِتالیف وصول کروں ‘تاکہ میں پورے انشراحِ صدر کے ساتھ کہہ سکوں کہ میرا کوئی مفاد ان کے ساتھ وابستہ نہیں ہے.اس لیے کہ اس پورے کام کو محض رسماً تو کرنا مقصود نہیں تھا ‘اصل پیش‘نظر تو یہ تھا کہ یہ ایک صحیح اسلامی دعوت کی تمہید بنے اور دعوتِ حق کے مزاج سے اس چیز کو کوئی ادنیٰ مناسبت بھی حاصل نہیں کہ داعی اپنی دعوتی تحریروں کی رائلٹی کو اپنی معاش کا ذریعہ بنائے. ’داعی الی اللہ‘ کا مقام اور مرتبہ تو بہت ہی بلند ہے اور اس کے لیے تو لازم ہے کہ واضح طور پر یہ کہہ سکے کہ وَ مَاۤ اَسۡـَٔلُکُمۡ عَلَیۡہِ مِنۡ اَجۡرٍ ۚ اِنۡ اَجۡرِیَ اِلَّا عَلٰی رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۱۰۹﴾ۚ (الشعراء) دین کی کسی ادنیٰ خدمت میں بھی کوئی شخص کسی ادارے یا جماعت سے ایک معین مشاہرہ بقدرِ کفاف لے لے تو اس کی گنجائش تو نکل سکتی ہے‘ لیکن کسی دینی خدمت کے ضمن میں تحریر یا تقریر کو ذریعہ ٔمعاش بنانا تو کسی درجے میں بھی مناسب نہیں! چنانچہ ماضی قریب تک ہمارے بزرگوں کا دستور یہ رہا کہ ساری عمر مختلف اداروں یا دارالعلوموں میں نہایت قلیل مگر معین مشاہروں پر گزارہ کرتے ہوئے بسر کر دی اور اس پورے عرصے کے دوران میں جو کچھ لکھا اسے ہوا اور پانی کی طرح مباح کر دیا کہ جو شخص چاہے شائع کرے‘ اپنا کوئی حق ِتصنیف اس پر نہیں رکھا میں اگرچہ ذاتی طور پر تو پہلے ہی اس طریق پر عمل پیرا ہو چکا تھا ‘چنانچہ ’’مسلمانوں پر قرآن مجید کے حقوق‘‘ کا پہلا ایڈیشن اگرچہ شائع تو ’’دارالاشاعت الاسلامیہ‘‘ کے تحت ہوا تھا‘ لیکن اس پر لکھ دیا گیا تھا کہ ’’اس کتابچے کی طباعت و اشاعت کی ہر شخص کو کھلی اجازت ہے! (۱) ‘‘ تاہم اب ضرورت محسوس ہوئی کہ پورے سلسلۂ طباعت کو ایک نظام کے تحت لے آیا جائے.
بہرحال‘ ان گوناگوں اسباب سے ایک ہیئت ِتنظیمی کی ضرورت محسوس ہوئی‘ اور چونکہ یہ بات بالکل واضح تھی کہ ’’سمع و طاعۃ‘‘ کے ٹھیٹھ اسلامی اصولوں پر مبنی نظم ِجماعت کا قیام ابھی بہت قبل از وقت تھا ‘لہٰذا ذہن ایک انجمن کی تشکیل کی جانب منتقل ہوا کہ ’’SERVANTS OF BIBLE SOCIETY‘‘ کے طرز پر ’’انجمن خدام القرآن‘‘ کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا جائے.
اب جو غور کیا تو محسوس ہوا کہ تنظیمی اعتبار سے ’انجمن‘ اِنَّ اَوْھَنَ الْـبُـیُوْتِ لَـبَـیْتُ الْعَنْکَبُوْتِ (۲) کا کامل مصداق ہوتی ہے اور عام طور پر اس کے قواعد و ضوابط کا جو ڈھانچہ بنایا جاتا ہے اس کی بنا پر وہ موم کی ناک بن کر رہ جاتی ہے کہ جدھر چاہے موڑ لی جائے ‘بلکہ بسا اوقات انجمن اپنے مؤسسین کے مقصد و منشا کے بالکل خلاف رُخ پر چل پڑتی ہے اور ایسی مثالیں بھی موجود ہیں کہ وہ مؤسس یا مؤسسین جنہوں نے کسی انجمن کی تأسیس اور داغ بیل ڈالنے میں خون پسینہ ایک کیا ہوتا ہے اس طرح نکال دیے جاتے ہیں جیسے دودھ سے مکھی.
دوسری طرف ایک عرصہ تک غور و فکر کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچ چکا تھا اور مجھ پر یہ بات شدت (۱) اس کتابچے کا انگریزی ترجمہ بھی پروفیسر محمد ابراہیم مرحوم و مغفور نے بالکل بلا معاوضہ کیا اور جب وہ طبع ہوا تو اس پر بھی تصریح کر دی گئی کہ اس پر کسی فرد یا ادارے کا کوئی حق ’محفوظ ‘ نہیں ہے‘ جو چاہے شائع کرے. بعدازاں اس کا فارسی ترجمہ بھی پروفیسر ڈاکٹر بشیر احمد مرحوم نے از خود اور بالکل بلا معاوضہ کیا!
(۲) ’’یقینا تمام گھروں میں کمزور ترین گھر مکڑی کا ہوتاہے‘‘. (العنکبوت:۴۱) کے ساتھ منکشف ہو چکی تھی کہ اسلام کا تنظیمی مزاج نہ صرف یہ کہ دورِ جدید کی جماعت سازی کے طریقوں سے کوئی مناسبت نہیں رکھتا بلکہ اس سے یکسر مختلف ہے. عہد‘حاضر میں کسی بھی ہیئت ِتنظیمی کی اصل اساس اس کے ’دستور اور قواعد و ضوابط‘ ہوتے ہیں جن سے عہد ِوفاداری استوار کر کے لوگ اس ہیئت ِتنظیمی میں شریک ہوتے ہیں. پھر یہ لوگ اپنے میں سے کثرتِ رائے سے اپنا ایک صدر چنتے ہیں جسے صرف ایک آئینی سربراہ کی حیثیت حاصل ہوتی ہے اور جس کا انتخاب محض ایک معینہ ّمدت کے لیے ہوتا ہے. پھر اس صدر اور عام اراکین کے مابین ایک اور ادارہ مجلس عاملہ وغیرہ ناموں سے قائم کیا جاتا ہے جس کی اصل غرض اس صدر کی ’نگرانی‘ ہوتی ہے. آگے اس صدر اور مجلس عاملہ یا منتظمہ کے مابین حقوق و اختیارات کی تقسیم کے مختلف طریقوں کی بنیاد پر صدارتی یا پارلیمانی طرز ہائے جماعت وجود میں آتے ہیں‘ لیکن ان سب میں یہ امر بطور قدر ِمشترک موجود ہوتا ہے کہ تنظیمی ڈھانچہ نیچے سے اوپر کی جانب بڑھتا ہے. یعنی اس میں اصل حیثیت بنیادی رکنیت (primary membership) کو حاصل ہوتی ہے نہ کہ صدر یا سربراہ کو!
اس کے برعکس اسلام کا تنظیمی ڈھانچہ اوپر سے نیچے کی طرف بڑھتا ہے ‘یعنی کوئی شخص ِمعین جسے اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرماتا ہے ‘دین کی کسی خدمت کے داعیے سے سرشار ہوکر اٹھتا ہے اور لوگوں کو پکارتا ہے کہ ’’مَنْ اَنْصَارِیْ اِلَی اللّٰہِ ‘‘ کون ہے جو اللہ کے دین کی اس خدمت میں میرا دست و بازو بننے کے لیے تیار ہو؟ اور جنہیں اللہ توفیق دیتا ہے وہ اس کے گرد جمع ہو جاتے ہیں. اس طرح وہ شخص معین آپ سے آپ ان کا سربراہ بن جاتا ہے اور اسے کسی کے ووٹوں سے ’منتخب‘ ہونے کی ہرگز کوئی حاجت نہیں ہوتی. پھر یہ کہ وہ محض ایک دستوری اور آئینی سربراہ نہیں ہوتا بلکہ ’امیر‘ یعنی ’صاحب ِامر‘ ہوتا ہے اور رہنمائی کی اصل ذمہ داری اسی کے کاندھوں پر ہوتی ہے. وہ اپنے رفقاء سے مشورہ ضرور کرتا ہے لیکن اپنی ضرورت کے احساس کے تحت نہ کہ ان کا حق ادا کرنے کی خاطر… یہ ایک ایسا فطری نظم ِجماعت ہے جس میں قواعد و ضوابط اور دخول و خروج کے لمبے چوڑے قوانین وضع کرنے کی حاجت ہی نہیں ہوتی. جس شخص کو جس قدر اتفاق اس دعوت کے ساتھ اور جتنا اعتماد اس داعی کی ذات پر ہوتا ہے اتنا ہی وہ اس کے ساتھ تعاون کرتا ہے‘ اور جب اور جتنی کمی ان دونوں چیزوں میں واقع ہوجائے اسی مناسبت سے دوری اختیار کر لیتا ہے. یہاں تک کہ جنہیں اس کے ساتھ کامل اتفاق اور اس پر پورا اعتماد ہو جاتا ہے وہ اس کے ہاتھ پر ’’بیعت‘‘ کر کے اس کے ساتھ سمع و طاعت کے ایک شخصی رابطے میں منسلک ہوجاتے ہیں اوراسی کو اس ہیئت ِ تنظیمی کے اصل مرکز (nuclues) کی حیثیت حاصل ہو جاتی ہے!
بنا بریں میں نے یہ طے کیا کہ اگرچہ ابھی سمع و طاعت کے اصول پر مبنی ایک ٹھیٹھ اسلامی نظم جماعت کے قیام کا وقت تو نہیں آیا اور سر ِدست صرف ایک انجمن ہی قائم کی جائے جس کے تحت اس ’دعوت رجوع الی القرآن‘ اور ’تحریک تعلیم و تعلّم ِقرآن‘ کے کم‘ازکم ان جملہ امور کو منضبط کر لیا جائے جن کا تعلق روپے پیسے سے ہو‘ تاہم اس کا تنظیمی ڈھانچہ عام انجمنوں کی طرز پر نہ ہو جس کے بارے میں علامہ اقبال نے اپنے ظریفانہ کلام میں بہت خوب کہا ہے کہ:
الیکشن‘ ممبری‘ کرسی‘ صدارت
بنائے خوب آزادی نے پھندے
اٹھا کر پھینک دو باہر گلی میں
نئی تہذیب کے انڈے ہیں گندے
بلکہ اسی فطری طرز پر ہو جس کی وضاحت میں کر چکا ہوں‘ اور چونکہ مجھے اس پر پورا انشراحِ صدر حاصل تھا ‘لہٰذا میں نے اسے ہرگز مخفی نہیں رکھا بلکہ اواخر ۱۹۷۱ء ہی میں جبکہ ایک انجمن کے قیام کی تجویز ابتدائی مراحل میں تھی‘ میں نے متعد ّد بار مسجد خضراء میں درس قرآن کے بعد اپنا ذہن کھول کر حاضرین کے سامنے رکھ دیا اور پھر جو لائی ۱۹۷۲ء کے ’میثاق‘ میں ’مرکزی انجمن خدام القرآن لاہور‘ کے مجوزہ خاکے کے ساتھ بھی میں نے ’تذکرہ و تبصرہ‘ کے صفحات میں اپنا نقطہ ٔ‘نظر پوری وضاحت کے ساتھ پیش کر دیا.
اس کا ردِّعمل بھی وہی ہوا جس کی اس ’جمہوریت نواز‘ بلکہ ’جمہوریت پرست‘ دور میں مجھے پہلے سے توقع تھی‘ چنانچہ مذاق بھی اڑایا گیا اور پھبتیاں بھی کسی گئیں. لیکن الحمدللّٰہ والمنۃکہ لاہور میں جن لوگوں نے اس کام میں میرے ساتھ تعاون کا بیڑا اٹھایا تھا ان میں سے کسی ایک نے بھی اختلاف نہیں کیا اور بالآخر اواخر ۱۹۷۲ء میں ’مرکزی انجمن خد ّام القرآن لاہور‘ انہی اصولوں پر بالفعل قائم ہو گئی اور اس طرح یہ چھوٹی سی اسلامی تحریک اپنے پہلے تنظیمی مرحلے میں داخل ہو گئی.
اس مرحلے پر عام لوگوں کے استہزاء کی تو میں نے کوئی پروا نہ کی لیکن بعض بزرگوں کا شدید اختلاف میرے لیے بڑی آزمائش بن گیا. ان حضرات کی خدمت میں َمیں نے بصد ادب عرض کیا کہ دلائل سے میری رائے تبدیل ہو جائے تو میں یقینا رجوع کر لوں گا لیکن محض لحاظِ بزرگی کے باعث یا صرف پاسِ ادب کے طور پر میں اپنا قدم واپس نہیں لے سکتا. اس سے کچھ شکر رنجیاں بھی ہوئیں اور بعض معاملات میں Re-Adjustments بھی کرنی پڑیں‘ لیکن بحمد ِاللہ کام رُکا نہیں بلکہ قافلہ رواں ہی رہا!
اس کے بعد مرکزی انجمن خدام القرآن لاہور کی دو ڈھائی سال کی کارکردگی کا مختصر جائزہ پیش کیا گیا تھا جسے یہاں حذف کیا جا رہا ہے‘ اس لیے کہ اب بحمداللہ
’’دعوت رجوع الی القرآن کا منظر و پس منظر‘‘
نامی کتاب شائع ہو چکی ہے جس میں جملہ تفاصیل موجود ہیں. (شائع کردہ مرکزی انجمن خدام القرآن لاہور)
قصہ مختصر یہ کہ جہاں تک میری ذات کا تعلق ہے میں اس عرصے میں پوری طرح مصروف رہا ہوں اور جہاں تک میرے اوقات اور میری حقیر سی قوتوں اور صلاحیتوں کا تعلق ہے ان کا پورا مصرف انجمن ّخدام القرآن کے تحت ہو رہا ہے اور بحمد اللہ اپنی حقیر سی محنت کے نتائج سے بھی میں نہ بددل ہوں نہ مایوس‘ تاہم اس پورے عرصے کے دوران میں ایک خلش میرے دل میں مسلسل موجود رہی ہے اور یہ سوال بار بار ذہن میں اُبھرتا رہا ہے کہ کیا اس طرح میری تمام دینی ذمہ داریاں پوری ہو رہی ہیں اور میں اپنے جملہ فرائض ِدینی سے عہدہ بر آہو رہا ہوں؟ اور کہیں ایسا تو نہیں کہ میں نے اپنے اصل فرائض سے پہلو تہی کرنے کی غرض سے گریز کی راہ اختیار کر لی ہو. اور ایک باقاعدہ جماعت کے قیام اور شہادتِ حق اور اقامتِ دین ایسے کٹھن فرائض ِدینی کی ’’تپتی راہوں ‘‘ سے فرار کی خاطر ایک انجمن اور اس کے تحت صرف درس و تدریس اور طباعت و اشاعت کی ’’ٹھنڈی چھائوں‘‘ میں بسیرا کر لیا ہو ؟ (۱)
میں نے اپنی سوچ کا جو پس منظر اور اپنے فکر کا جو ’’شجرئہ نسب‘‘ آج تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے اس کے پیش نظر اس بات کا تو کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ میں اس محدود اور جزوی کام پر پوری (۱) تپتی راہیں مجھ کو پکاریں دامن پکڑے چھائوں گھنیری (جگرمرادآبادی) طرح مطمئن ہو سکتا. چنانچہ انجمن خدام القرآن کے مجوزہ خاکے کی اس اشاعت کے ساتھ ہی جولائی ۱۹۷۲ء کے ’میثاق‘ میں جو تصریحات میںنے شائع کی تھیں ان میں بھی یہ الفاظ موجود ہیں کہ:
’’واضح رہے کہ راقم الحروف اپنی ذہنی ساخت اور مزاج و طبع کی افتاد کے اعتبار سے محض انجمن سازی پر نہ کبھی پہلے مطمئن ہو سکا ہے اور نہ اب مطمئن ہو سکتا ہے‘ بلکہ اس کے پیش نظر بحمداللہ اعلائے کلمۃ اللہ اور اظہارِ دین ِحق کا بلند و بالا نصب العین ہے اور اس کے لیے ایک ہمہ گیر ّجدوجہد ہی اس کی زندگی کا اصل مقصد ہے… پھر یہ بات بھی اس پر بخوبی واضح ہے کہ یہ کام انجمنوں کے ذریعے نہیں ہو سکتا بلکہ اس کے لیے لازم ہے کہ نبی اکرمﷺ کے ایک قولِ مبارک کے مطابق سمع و طاعت اور جہاد و ہجرت کی بنیادوں پر باقاعدہ ایک جماعت قائم کی جائے‘ اور اسے امید واثق ہے کہ بفضلہ تعالیٰ اس کی زندگی میں یہ مرحلہ بھی ضرورآ کر رہے گا‘ تاہم ابھی نہیں کہا جا سکتا کہ اس کا مناسب وقت کب آئے گا اور فی الوقت ان مقاصد ِعظیمہ کی اصل ّجدوجہد کی تمہید کے طور پر صرف تعلیم و تعلّم ِقرآن کے جزوی کام پر اکتفا کیے ہوئے ہے اور پیش نظر انجمن کی حیثیت اس جزوی کام کے بھی ایک شعبے کی ہے. چنانچہ مجوزہ انجمن کی قراردادِ تاسیس کے الفاظ سے بالکل واضح ہو جاتا ہے کہ ’’منبع ِایمان و یقین یعنی قرآن حکیم کے علم و حکمت کی وسیع پیمانے پر تشہیر و اشاعت‘‘ بجائے خود مقصودنہیں بلکہ اصل مقصود یعنی ’’اسلام کی نشاۃِ ثانیہ اور غلبۂ دین حق کے دورِثانی‘‘ کی شرطِ لازم یعنی ’’تجدیدایمان کی عمومی تحریک‘‘ برپا کرنے کا ذریعہ اور وسیلہ ہے‘‘. (ماہنامہ ’’میثاق‘‘ بابت جولائی ۱۹۷۲ء)
بایں ہمہ مجھے اپنی کمزوریوں‘ خامیوں اور کوتاہیوں کا شدید احساس اس راہ میں پیش قدمی سے روکے رہا. اس لیے کہ جیسا کہ میں پہلے تفصیل سے بیان کر چکا ہوں میرے نزدیک مدرّس اور معلّم کا مقام اور ہے‘ داعی کا مقام اور (۱) ! مدرّس یا معلم کا کام بات سمجھا کر یا راستہ دکھا کر ختم ہو جاتا ہے جبکہ داعی کا فرض یہ ہوتا ہے کہ خود آگے بڑھے اور نہ صرف یہ کہ لوگوں کو اپنے ساتھ آنے کی دعوت دے بلکہ خود راہِ عزیمت پر گامزن ہوکر دوسروں کے لیے مثال اور نمونہ پیش کرے ‘اور ظاہر ہے کہ یہ ذمہ داری نہایت کٹھن ہے اور اس کی شرائط بہت سخت ہیں! میں نے جب بھی کبھی اپنے آپ کو ان تقاضوں (۱) بقول علامہ اقبال مرحوم : ؎
الفاظ و معانی میں تفاوت نہیں لیکن ملا کی اذاں اور! مجاہد کی اذاں اور!
پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضا میں کرگس کا جہاں اور ہے شاہیں کا جہاں اور کے اعتبار سے تولا تو محسوس ہوا کہ میں اس مقام کے کم از کم معیار پر بھی پورا نہیں اترتا. لہٰذا اپنے آپ کو اس راہ میں اقدام سے روکے رکھنے ہی میں عافیت نظر آئی.
لیکن اِدھر کچھ عرصے سے بعض باتیں ایسی سامنے آئیں جنہوں نے مجھے اپنے فیصلے پر نظرثانی کرنے پر مجبور کر دیا.
یہ خدشہ تو‘ جیسا کہ میں عرض کر چکا ہوں‘ مجھے پہلے بھی تھا کہ کہیں میرا نفس عافیت کوشی کی خاطر مجھے گریز اور فرار کی راہیں نہ سجھا رہا ہو. لیکن ایک بزرگ (۱) نے یہ اندیشہ بھی پوری شدت کے ساتھ پیش کیا کہ یہ کہیں شیطان کا وسوسہ ہی نہ ہو اور ایسا نہ ہو کہ اپنی کمزوریوں اور کوتاہیوں کے اقرار اور اعترافِ تقصیر کے پردے میں دراصل وہی دشمن ازلی راستہ روکے کھڑا ہو اور معاملہ وہی ہو کہ : ؎
خواب سے بیدار ہوتا ہے ذرا محکوم اگر
پھر سلا دیتی ہے اس کو حکمراں کی ساحری!
پھر یہ بات بھی سامنے آئی کہ معصومیت خاصۂ نبوت ہے اور نبوت کا دروازہ بند ہو چکا! امامت ِمعصومہ کے قائلین کے لیے تو گنجائش ہو سکتی ہے کہ وہ حالت ِانتظار ہی میں رہیں‘ لیکن دوسروں کے لیے تو ایک ہی صورت ممکن ہے اور وہ یہ کہ وہ جیسے بھی ہوں اپنی اصلاح اور تربیت کی فکر کرتے ہوئے فرائض کی انجام دہی پر کمر بستہ ہو جائیں. پھر یہ بات بھی چاہے کلیۃً صحیح نہ ہو‘ جزوی حقیقت ضرور ہے کہ کام خود بہترین مربی ہے اور اصلاح و تربیت کے بعض تقاضے اس کے بغیر پورے ہو ہی نہیں سکتے کہ انسان اللہ کا نام لے کر کام کا آغاز کردے اور منجدھار میں کود پڑے!
پھر یہ حقیقت بھی سامنے آئی کہ اگرچہ راہ نہایت ُپر خطر ہے اور جو غلطیاں دوسروں سے ہوئیں کوئی ضمانت نہیں کہ ویسی ہی نہیں ان سے بھی کہیں زیادہ بڑی غلطیوں کا صدور تم سے نہ ہو گا‘ یا جو لغزشیں یا کوتاہیاں دوسروں سے ظاہر ہوئیں تم ان سے محفوظ رہو گے. بلکہ اس سے بھی بڑھ کر عین ممکن ہے کہ جس طرح ماضی میں بہت سے لوگ دین کی خدمت کے داعیے کے تحت کھڑے ہوئے اور وَ اَعۡطٰی قَلِیۡلًا وَّ اَکۡدٰی ﴿۳۴﴾ (النجم)(۲) کے مصداق تھوڑے سے خیر کے ساتھ بہت سا شر پیدا کر گئے اسی طرح تم بھی کسی فتنے کی داغ بیل ڈال کر چلتے بنو… لیکن ان خدشات و خطرات سے فرض (۱) حاجی عبدالواحد مرحوم (۲) ’’اور دیا کچھ تھوڑا سا اور فوراً رک گیا!‘‘ توساقط نہیں ہو جاتا اور خطرات کی پیش بندی کا یہ طریق تو بہرحال صحیح نہیں ہے کہ سرے سے کام ہی نہ کیا جائے. زندگی بذاتِ خود ایک عظیم چیلنج ہے جس کا مواجہہ ہر ذی حیات کے لیے لازم ہے‘ اِلّا آنکہ وہ زندگی ہی سے مستعفی ہو جائے. اسی طرح اسلام و ایمان بہت سی ذمہ داریوں کا بوجھ انسان کے کاندھے پر لا ڈالتے ہیں جن کے شعور سے انسان پر بجا طور پر لرزہ طاری ہوتا ہے. بقول علامہ اقبال مرحوم : ؎
چوں می گویم مسلمانم بلرزم
کہ دانم مشکلاتِ لا اِلٰہ را
…لیکن ان سے جی چرانا اور فتنوں کے اندیشے سے وہ روش اختیار کرنا جس پر قرآن حکیم کا وہ فتویٰ راست آئے کہ اَلَا فِی الۡفِتۡنَۃِ سَقَطُوۡا ؕ (التوبۃ:۴۹)(۱) یقینا دانش مندانہ روش نہیں!… جن لوگوں کو یہ معلوم ہی نہ ہو کہ صلوٰۃ و صوم اور حج و زکوٰۃ کے علاوہ بھی دین کا کوئی تقاضا اور مطالبہ ہے‘ وہ تو شاید اللہ تعالیٰ کے یہاں کوئی عذر پیش کر سکیں‘ لیکن جن پر یہ بات منکشف ہوچکی ہو کہ شہادتِ حق اور اقامت ِدین بھی مسلمان کے دینی فرائض میں شامل ہیں اور وہ ان کے بارے میں عنداللہ مسئول ہیں‘ ان کے لیے تو ایک ہی راہ ممکن ہے اور وہ یہ ہے کہ اللہ کی نصرت و حمایت کی امید پر اور اسی سے ہدایت و استقامت کی دعا کرتے ہوئے ان فرائض کی ادائیگی پر کمر بستہ ہو جائیں. اس کے سوا ’’مَعْذِرَۃً اِلٰی رَبِّکُمْ‘‘ کی بھی کوئی سبیل کم از کم قرآن حکیم سے تو معلوم نہیں ہوتی! گویا بقول شاعر: ؎
تاب لاتے ہی بنے گی غالبؔ
مرحلہ سخت ہے اور جان عزیز!
دوسری طرف بعض حضرات نے اس طرف بھی توجہ دلائی کہ تم لوگوں کے سامنے دین کے مطالبات تو بہت بلند و بالا بیان کرتے ہو لیکن ان کی ادائیگی کی کوئی عملی صورت ان کے سامنے نہیں آتی. تم نے خود جو کام عملاً شروع کیا ہے اس میں لوگوں کی شرکت کے مواقع بہت محدود ہیں. ’’تحریک تعلیم و تعلّمِ قرآن‘‘ میں بالفعل صرف وہی لوگ شریک ہو سکتے ہیں جو عربی سیکھ سکیں اور قرآن کا(۱) ’’ان میں سے بعض وہ بھی ہیں جو کہتے ہیں ہمیں رخصت عطا فرما دیجیے اور خواہ مخواہ کے امتحان میں نہ ڈالیے ! آگاہ ہو جائو کہ امتحان میں تو وہ پہلے ہی مبتلا ہو چکے!‘‘ علم اس حد تک حاصل کر سکیں کہ دوسروں تک پہنچانے کے قابل ہو سکیں اور ظاہر ہے کہ یہ سب کے لیے ممکن نہیں. اب جو شخص نہ عربی سیکھ سکتا ہو نہ قرآن مجید کا درس دے سکتا ہو وہ تمہارا شریک ِکار بنے تو کیونکر؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ آنحضورﷺ نے فرمایا ہے کہ خَیْرُکُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَہٗ لیکن ظاہر ہے کہ یہ ہر شخص کے کرنے کا کام نہیں ہے.
تمہارے درسِ قرآن سے تو معلوم ہوتا ہے کہ ایمانِ حقیقی کا رکنِ لازم جہاد فی سبیل اللہ ہے‘ جس کی غایت ِاولیٰ فریضۂ شہادت حق کی ادائیگی ہے اور غایت ِقصویٰ اعلاء کلمۃ اللہ اور غلبہ ٔ دین ِحق کی جدوجہد‘ لیکن تم یہ نہیں بتاتے کہ آخر ان فرائض کی ادائیگی کی عملی شکل کیا ہو؟ لوگ کیا کریں؟ کیسے جمع ہوں؟ کہاں سے سفر کا آغاز کریں؟ اور کس کی رہنمائی میں آگے چلیں؟ اگر تم ان سوالوں کا جواب نہیں دیتے اور لوگوں کے لیے عمل کی راہ نہیں کھولتے تو بجائے اس کے کہ تمہاری طرف سے ان پر حجت قائم ہو الٹی ان کی حجت تم پر قائم ہوئی جا رہی ہے!
بعض نے طنزاً اور بعض نے خلوص کے ساتھ یہ بھی کہا کہ تمہارے درسِ قرآن میں شریک ہونے والوں کی عظیم اکثریت محض روایتی اور رسمی طور پر حصولِ ثواب کی خاطر درس سنتی ہے. جیسے ہی تم نے عمل کے لیے پکارا اور ’’مَنْ انْصَارِیْ اِلَی اللّٰہِ!‘‘ کی ندادی تم خود دیکھ لو گے کہ ساری بھیڑ چھٹ جائے گی‘ گویا ؏ ’’دیکھنا اِن بستیوں کو تم کہ ویراں ہو گئیں!‘‘ تو اگرچہ ان کی یہ بات کلیۃً تو درست نہیں ہے اس لیے کہ متعدد مثالیں ایسی موجود ہیں کہ اس سلسلۂ درس سے منسلک ہو کر عملی اعتبار سے لوگوں کی زندگیوں میں عظیم انقلاب برپا ہو گیا‘ تاہم ادھر کچھ عرصے سے میں خود بھی نہایت شدت ّکے ساتھ محسوس کر رہا ہوں کہ ہمارے حلقہ ٔ احباب میں درسِ قرآن کے سلسلے کو واقعتہً ایک رسم اور روایت کی حیثیت حاصل ہوتی جا رہی ہے اور گویا خود درسِ قرآن ہی مقصود بالذات بنتا چلا جارہا ہے اور بہت سے لوگ اسے اپنے معمول (routine) میں داخل کر کے مطمئن ہو گئے ہیں!… یہ واقعہ ہے کہ ہم مسلمانوں نے اپنے دورِ انحطاط میں دین کے اعلیٰ سے اعلیٰ اعمال کو محض رسم بنا کر رکھ دینے کے فن میں ید ِطولیٰ حاصل کیا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمیں اس میں مہارتِ تامہ ّحاصل ہے ‘لیکن میں لرز جاتا ہوں اس خیال سے کہ اگر قرآن کا پڑھنا پڑھانا اور سیکھنا سکھانا محض ایک رسم بن کر رہ گیا تو پھر اور کون سی چیز رہ جائے گی جو لوگوں کو آمادۂ عمل کر سکے… اور میں کانپ اٹھتا ہوں اس احساس سے کہ اگر لوگ سورۃ الصف اور سورۃ الحدید کو بھی ’پی‘ گئے اور ٹس سے مس نہ ہوئے اور سورۃ العنکبوت‘ سورۃ الاحزاب‘ سورۃ المنافقون اور سورۃ التوبہ کو بھی بے سمجھے بوجھے نہیں بلکہ خوب سمجھ کر اور ایک بار نہیں بار بار پڑھ گئے لیکن معاملہ وہی رہا کہ ؏ ’’زمیں جنبدنہ جنبدگل محمد!‘‘ تو فَبِاَیِّ حَدِیۡثٍۭ بَعۡدَہٗ یُؤۡمِنُوۡنَ ﴿٪۵۰﴾ (المرسلات)(۱)
میرے لیے اس معاملے کا سب سے زیادہ قابل ِحذر پہلو یہ ہے کہ اگر لوگوں کی بے عملی اور ان کے تعطل و جمود میں کچھ دخل میری ہچکچاہٹ اور میرے تذبذب کو بھی حاصل ہوا تو کون سا آسمان مجھ پر سایہ کرے گا اور کون سی زمین مجھے پناہ دے گی! گویا میرے سامنے اب یہ معاملہ بالکل دو ٹوک طور پر آچکا ہے کہ یا تو یہ صورت حال ختم ہونی چاہیے کہ ’’یہ صور پھونک کے تم سو گئے کہاں آخر(۲) !‘‘ اور سیدھی طرح دین کے تقاضوں کے بیان کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی ادائیگی کے لیے واضح لائحہ عمل بھی پیش کیا جائے اور خود راہ عزیمت پر پیش قدمی کر کے لوگوں کے لیے راستہ کھولا جائے یا پھر قرآن مجید کے اس انقلابی درس کا کام بھی کسی ایسے باہمت اور صاحب ِعزیمت انسان کے لیے چھوڑ دیا جائے جو محض درس ہی نہ دے‘ سامنے آ کر لوگوں کی رہنمائی کا فرض بھی انجام دے سکے! گویا میرے نزدیک اب صورتِ مسئلہ یہ ہے کہ ’’یاچناں کن یا چنیں!‘‘ اور ؏ ’’یا سراپا نالہ بن جایا نواپیدانہ کر!‘‘
اندریں حالات‘ جیساکہ میں آغاز میں عرض کر چکا ہوں‘ میں نے اللہ تعالیٰ کی تائید و توفیق کے بھروسے پر یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ آئندہ میری مساعی صرف درس و تدریس اور تعلیم و تعلّمِ قرآن تک محدود نہیں رہیں گی بلکہ میں خالص دینی بنیادوں پر ایک نئی جماعت یا تنظیم قائم کرنے کی کوشش کروں گا جس میں وہ لوگ شامل ہوں جو:
اوّلاً … اللہ اور اس کے رسولﷺ کی جانب سے عائد کردہ حلال و حرام کی جملہ قیود کی پابندی کا عہد کریں اور اس معاملے میں رخصتوں کے بجائے عزیمت کی راہ پر گامزن ہونے کے لیے آمادہ ہوں.
ثانیاً… ’سمع و طاعت‘ کے ٹھیٹھ اسلامی اصول پر مبنی نظم ِجماعت کی پابندی کا عہد کریں اور معروف کے دائرے کے اندر اندر اطاعت ِامیر کے التزام کے لیے پوری طرح آمادہ ہوں،… اور
ثالثاً… یہ عہد کریں کہ دُنیوی زندگی اور اس کے لوازمات کے باب میں کم از کم پر قناعت اور قوُتِ لایموت پر اکتفا کرتے ہوئے اپنی بہتر اور بیشتر مساعی اور اپنے اموال اور اوقات کا معتدبہ حصہ احیائے اسلام اور تجدید ِدین کی کوشش اور شہادتِ حق اور اقامتِ دین کی جدوجہد میں کھپا دیں گے. (۱) ’’اب اس کے بعد وہ آخر کس بات پر یقین لائیں گے؟‘‘ (۲) جناب نعیم صدیقی کا مصرعہ. اپنی جگہ خود میں آپ سب کو گواہ بنا کر عہد کرتا ہوں کہ میرا جینا اور مرنا اللہ کے دین ہی کے لیے ہو گا اور میں ہر حال میں دین کو دنیا پر مقدم رکھتے ہوئے اپنے بہتر اور بیشتر اوقات اور اپنی بہتر اور بیشتر قوتیں جیسی کچھ اور جتنی کچھ وہ مجھ میں ہیں اور بیشتر صلاحیتیں جیسی کچھ اور جتنی کچھ وہ مجھے حاصل ہیں‘ فریضۂ شہادتِ حق کی ادائیگی اور اعلاءِ کلمۃ اللہ اور غلبۂ دین متین کی سعی و جہد کے لیے وقف کردوں گا. گویا:
قُلۡ اِنَّ صَلَاتِیۡ وَ نُسُکِیۡ وَ مَحۡیَایَ وَ مَمَاتِیۡ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۱۶۲﴾ۙلَا شَرِیۡکَ لَہٗ ۚ وَ بِذٰلِکَ اُمِرۡتُ وَ اَنَا اَوَّلُ الۡمُسۡلِمِیۡنَ ﴿۱۶۳﴾ (الانعام)
اللہ تعالیٰ مجھے اپنے عہد پر قائم رہنے کی توفیق عطا فرمائے‘ عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَاِلَیْہِ اُنِیْبُ.
اب آپ میں سے ہر شخص کو بھی اپنے آئندہ طرز عمل کے بارے میں واضح فیصلہ کرنا ہو گا.
جہاں تک میرا تعلق ہے اگر کوئی کامل رفاقت پر آمادہ ہو اور پوری طرح دست و بازو بننے کے لیے تیار ہو تب تو کیا ہی کہنے!’’دیدہ و دل فرشِ راہ!‘‘ کوئی جزوی طور پر تعاون کرنا چاہے تو بھی سر آنکھوں پر‘ کوئی صرف دعائوں اور نیک تمنائوں سے تائید کرے تو وہ بھی بسرو چشم قبول‘ اور اگر کوئی محض سامع کی حیثیت سے حسب سابق ہماری محفلوں اور مجلسوں کو رونق بخشتا ہے‘ تو وہ بھی شکریہ کا مستحق.
…لیکن اپنی جگہ آپ کو چند باتیں واضح طور پر سمجھ لینی چاہئیں:
اوّلین اور اہم ترین معاملہ دین کے مطالبوں اور تقاضوں کے بارے میں انشراحِ صدر کا ہے. اور میں نہیں سمجھتا کہ جو شخص اس دعوتِ قرآنی سے کسی درجے میں بھی منسلک رہا ہو اسے اس سلسلے میں کوئی اشتباہ لاحق ہو سکے! جیسا کہ میں عرض کر چکا ہوں اس ’تحریک تعلیم و تعلّم ِقرآن‘ کا پورا اٹھا ن مطالعۂ قرآن حکیم کے ایک منتخب نصاب کی اساس پر ہوا ہے جس کا مرکزی مضمون ہی یہ ہے کہ ازروئے قرآن انسان کی نجات کے لوازم کیا ہیں اور اللہ کی کتاب کی رُو سے ایک مسلمان کی دینی ذمہ داریاں اور فرائض کیا ہیں. اس منتخب نصاب کو میں سرزمین ِلاہور میں متعدد بار بیان کر چکا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ اگر کسی نے اسے تسلسل کے ساتھ ایک مرتبہ بھی پڑھ یا سن لیا تو اسے کم از کم اپنے دینی فرائض کے بارے میں ہرگز کوئی مغالطہ یا اشتباہ لاحق نہیں ہو سکتا. اس منتخب نصاب میں شامل مقامات میں سے ایمان اور عمل صالح کے تفصیلی مباحث سے قطع نظر کرتے ہوئے ذرا اس مرکزی مضمون کی ڈور پر نگاہ جمایئے جو گویا ان تمام مقامات کو پروئے ہوئے ہے تو بات پھر دو اور دو چار کی طرح واضح ہو جائے گی.
’سورۃ العصر‘ مختصر ترین سورتوں میں سے ہونے کے باوجود ایمان اور عمل ِصالح کے ساتھ تواصی بالحق اور تواصی بالصبر کو بھی انسان کی نجات کی لازمی شرائط کی حیثیت سے پیش کرتی ہے. آیۂ بِرّ(البقرہ:۱۷۷) نیکی کے صرف اسی تصور کو‘ مبنی برصداقت قرار دیتی ہے جس میں بدی سے پنجہ آزمائی کرنا اور اسے میدانِ جنگ میں للکارنا لازماً شامل ہو. سورۂ لقمان کا دوسرا رکوع اجتناب عن الشرک اور التزامِ توحید‘ شکرِ باری اور بّرِوالدین‘ اور ایمان بالمعاد اور اقامتِ صلوٰۃ کے ساتھ ساتھ ’امربالمعروف اور نہی عن المنکر‘ کو بھی لازمی قرار دیتا ہے. سورئہ حٰم السجدہ ّمیں دعوت الی اللہ کی ُپر زور ترغیب ملتی ہے. سورۃ الحجرات کے آخری حصے میں یقین ِقلبی کے ساتھ جہاد فی سبیل اللہ اور اس میں جان اور مال کھپانے کو بھی ایمانِ حقیقی کے لوازم میں سے شمار کیا گیا ہے. سورۃ الحج کا آخری رکوع ارۡکَعُوۡا وَ اسۡجُدُوۡا وَ اعۡبُدُوۡا رَبَّکُمۡ وَ افۡعَلُوا الۡخَیۡرَ کے ساتھ جَاہِدُوۡا فِی اللّٰہِ حَقَّ جِہَادِہٖ ؕ (آیت ۷۷) کا حکم بھی سناتا ہے اور اس کی غرض و غایت قرار دیتا ہے شہادتِ حق کو‘ بفحوائے الفاظِ قرآنی لِیَکُوۡنَ الرَّسُوۡلُ شَہِیۡدًا عَلَیۡکُمۡ وَ تَکُوۡنُوۡا شُہَدَآءَ عَلَی النَّاسِ (آیت ۷۸) . سورۃ الصف پھر عذابِ الیم سے چھٹکارا پانے کے لیے ایمان کے ساتھ ساتھ وَ تُجَاہِدُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ بِاَمۡوَالِکُمۡ وَ اَنۡفُسِکُمۡ ؕ (آیت ۱۱) کی شرط عائد کرتی ہے اور اس کا ہدف و مقصود قرار دیتی ہے غلبۂ دین ِحق کو‘ بفحوائے الفاظ قرآنی لِیُظۡہِرَہٗ عَلَی الدِّیۡنِ کُلِّہٖ (آیت۹) اور محبوبیت ِخداوندی کی شرط کے طور پر پیش کرتی ہے اس کی راہ میں اس طرح جنگ کرنے کو گویا سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں کہ کوئی رخنہ ڈالا ہی نہ جا سکے. سورۃ الحدید دین کے تمام تقاضوں کو دو الفاظ میں سمیٹ کر بیان کرتی ہے‘ ایک ایمان اور دوسرے انفاق. اور یہاں انفاق سے مراد صرف انفاقِ مال نہیں بلکہ بذلِ نفس بھی ہے. چنانچہ اسی کی کوکھ سے فوراً ہی قتال بھی برآمد ہو جاتا ہے اور بالآخر ارسالِ رسل‘ انزالِ کتاب و میزان اور تخلیق ِحدید سب کی غرض یہ بیان ہوتی ہے کہ وَ لِیَعۡلَمَ اللّٰہُ مَنۡ یَّنۡصُرُہٗ وَ رُسُلَہٗ بِالۡغَیۡبِ ؕ (الحدید:۲۵) یعنی اللہ دیکھنا چاہتا ہے کہ کون ہیں اس کے وہ وفاداربندے جو اس کی اور اس کے رسولوں کی نصرت و حمایت میں سلاحِ جنگ ہاتھ میں لے کر سربکف میدان میں نکل آئیں… پھر سورۃ العنکبوت ہو یا سورۃ الاحزاب ‘ سورۃ التوبۃ ہو یا سورۃ الحدید سب اس راہ سے گریز اور اس کے شدائد و مصائب سے گھبرانے اور ہمت ہار جانے پر نفاق کی وعید سناتی ہیں ‘جس کا انجام ہے: خَسِرَ الدُّنۡیَا وَ الۡاٰخِرَۃَ ؕ (الحج:۱۱)
تو بتایئے کہ آخر فرار کی راہ کون سی باقی رہ گئی؟ (۱) مجھے تو عافیت کی راہ صرف ایک نظر آتی ہے اور وہ یہ کہ انسان قرآن کو اوّل تو پڑھے ہی نہیں یا پڑھے تو کم از کم سمجھے نہیں. ورنہ قرآن تو جس صراطِ مستقیم یا سواء ّا لسبیل کی طرف رہنمائی کرتا ہے اس کے ناگزیر سنگ ہائے میل وہی ہیں جو میں نے ابھی بیان کیے اور اس کی آخری منزل وہ ہے جو سورۃ الاحزاب میں بیان ہوئی ‘یعنی یہ کہ یا تو انسان فَمِنۡہُمۡ مَّنۡ قَضٰی نَحۡبَہٗ کی فہرست میں شامل ہو کر سرخرو ہو جائے یا پھر وَ مِنۡہُمۡ مَّنۡ یَّنۡتَظِرُ (آیت ۲۳) کے زمرے میں شریک ہو کر اپنی باری کا انتظار کرے. غالباً اسی احساس کے تحت کہا تھا علامہ اقبال مرحوم نے کہ: ؎
رفت سوزِ سینۂ تاتار و کرد
یا مسلماں مرد یا قرآں بمرد!
اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ یہ کسی مخلوق کی تصنیف یا تالیف نہیں‘ خالق کا کلام ہے‘ کسی انسان کے نظریات نہیں جو بدل بھی سکتے ہوں‘ قرآن کی آیاتِ محکمات ہیں جواٹل بھی ہیں اور غیرمبدل ّبھی‘ یہ ہزل نہیں قولِ فصل (۲) ہے‘ پھر چیستاں نہیں کتابِ مبین ہے اور کسی ُمردہ زبان میں نہیں ’’لسانٍ عربیٍّ مبینٍ‘‘ میں ہے… اور اچھی طرح جان لیجیے کہ اگر قرآن حکیم کے ان مقامات کو پڑھتے ہوئے آپ کے دل نے گواہی دی ہو کہ ان کا جو معنی و مفہوم اور مراد و مقصود میں نے بیان کیا ہے وہ حق ہے تو قرآن کی جانب سے ایک حجت ّآپ پر قائم ہو چکی. اب دو ہی راستے کھلے ہیں ‘یا تو ان فرائض کی ادائیگی پر کمر بستہ ہو جائیں اور قرآن کو اپنے حق میںحجت اور دلیلِ راہ بنائیں یا اس سے پہلو تہی کی روش اختیار کر کے اپنے خلاف حجت اور برہانِ قاطع بنا لیں. (۳) تیسری کوئی راہ ممکن نہیں!
دوسرا مسئلہ میرے ساتھ تعاون کرنے یا نہ کرنے اور میرا ساتھ دینے یا نہ دینے کا ہے‘ تو سیدھی (۱) جزدار اگر کوئی مفر ہو تو بتائو ناچار گنہگار سوئے دار چلے ہیں (فیض)
(۲) اِنَّہٗ لَقَوۡلٌ فَصۡلٌ ﴿ۙ۱۳﴾وَّ مَا ہُوَ بِالۡہَزۡلِ ﴿ؕ۱۴﴾ (الطارق)
(۳) الْقُراٰنُ حَجَّۃٌ لَکَ اَوْعَلَیْکَ (الحدیث) سی بات ہے اگر آپ کو کسی معقول سبب سے میرے خلوص و اخلاص پر اعتماد نہ ہو یا آپ کو میرے بارے میں کوئی حقیقی خدشہ اور واقعی اندیشہ لاحق ہو تو آپ ہرگز میرا ساتھ دینے پر مکلف نہیں. لیکن خوب سمجھ لیجیے کہ اس سے آپ کے فرائض بہرحال ساقط نہیں ہو جاتے. اگر آپ کو کسی اور پر اعتماد ہو تو اس کے ساتھ مل کر کام کریں ورنہ از خود کھڑے ہوں اور اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی کی فکر کریں… اور خود ایک قافلہ تشکیل دے کر سفر کا آغاز کر دیں.
لیکن اگر آپ کے پاس کوئی معقول وجہ مجھ سے سوءِ ظن کی نہیں ہے تو پھر آپ پر لازم ہے کہ میرا ساتھ دیں اور خواہ مخواہ اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد علیحدہ نہ بنائیں. اس معاملے میں آپ کا اصل مفتی آپ کا دل (۱) ہے. اسے ٹٹولیے‘ اگر وہ مجھ پر اعتماد کے حق میں رائے دے تو گویا ایک دوسری حجت آپ پر قائم ہو گئی اور آپ پر واجب ہو گیا کہ میرا ساتھ دیں. خوب سمجھ لیجیے کہ محض گریز اور فرار کی خاطر الزام و اعتراض سے یہاں تو آپ دامن بچا جائیں گے خدا کے یہاں معاملہ مشکل ہو جائے گا.
اس سلسلے میں َمیں آپ کو کھلی اجازت دیتا ہوں کہ میرے بارے میں جو شبہات بھی آپ کے دل میں آتے ہوں بلا جھجک بیان کریں اور جو دریافت کرنا ہو بلا تکلف دریافت کریں‘ خواہ وہ میرے حال سے متعلق ہو یا ماضی سے‘ اور خواہ اس کا تعلق میری پبلک لائف سے ہو خواہ نجی زندگی سے! لیکن یہ احتیاط بہرصورت ملحوظ رہے کہ مجھے وضاحت کا موقع دیے بغیر میرے بارے میں کوئی رائے قائم نہ کریں. اس لیے کہ ہو سکتا ہے کہ یہ محض آپ کا سو؍ءِ ظن ہو اور آپ سورۃ الحجرات میں یہ الفاظ پڑھ چکے ہیں کہ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اجۡتَنِبُوۡا کَثِیۡرًا مِّنَ الظَّنِّ ۫ اِنَّ بَعۡضَ الظَّنِّ اِثۡمٌ (آیت۱۲)
اس موقع پر ابتدا میں خود بھی میں اپنے بارے میں بعض وضاحتیں کیے دیتا ہوں:
ایک یہ کہ میں عالم ِدین ہونے کا ہرگز مدعی نہیں بلکہ مجھے اپنی کم علمی کا پورا اعتراف ہے. گویا بقول علامہ اقبال مرحوم ؏ ’’میں نہ عارف‘ نہ مجدد‘ نہ محدث ‘نہ فقیہہ!‘‘ لہٰذا مجھے فقہی معاملات میں رائے دینے کا ہرگز کوئی شوق نہیں‘ بلکہ میں صاف اقرار کرتا ہوں کہ مجھ میں اس کی اہلیت ہی موجود نہیں ہے… میری کُل حیثیت قرآن کے ایک ادنیٰ طالب علم اور دین کے ایک ادنیٰ خادم کی ہے.
البتہ قرآن کے مطالعے سے مجھے یہ ضرور معلوم ہو گیا ہے کہ دین میں مقدم (۱) اِسْتَفْتِ قَلْبَکَ وَلَو اَفْـتَاکَ الْمُفْتِی (الحدیث ) کیا ہے اور مؤخر کیا‘ اوّلیت کسے حاصل ہے اور ثانوی درجہ کس کا ہے‘ جڑ اور اصل کی حیثیت رکھنے والی چیزیں کون سی ہیں اور فروعات کی حیثیت کن کی ہے.
گویا ’حکمت ِدین‘ کے اس شعبے سے اللہ تعالیٰ نے مجھے ایک حصہ عطا فرمایا ہے جس کی جانب اشارہ آنحضورﷺ کے ان الفاظِ مبارک میں ملتا ہے جو آپؐ نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو مخاطب کر کے ارشاد فرمائے تھے: اِنْ شِئْتَ حَدَّثْــتُکَ یَا مُعَاذُ بِرَاْسِ ھٰذَا الْاَمْرِ وَذِرْوَۃِ السَّنَامِ مِنْہُ یعنی ’’اے معاذ! اگر تم چاہو تو میں تمہیں یہ بتاؤں کہ ہمارے اس کام (دین حق) کی جڑ اور اساس کیا ہے اور اس کی سب سے اونچی چوٹی کون سی ہے!‘‘ اور مجھے خالصتاً تَحْدِیْثًا لِلنِّعْمَۃِ یہ عرض کرنے میں بھی کوئی باک نہیں کہ اس معاملے میں بحمد اللہ مجھے اپنے آپ پر پورا اعتماد حاصل ہے اور میں پورے وثوق کے ساتھ جانتا ہوں کہ اس اُمت نے کس طرح دین کی جملہ اقدار کو تلپٹ کر کے رکھ دیا ہے اور اصل کو فرع اور فرع کو اصل کا درجہ دے کر فرائضِ دینی کا پورا تصور ّہی مسخ کر دیا ہے. نتیجتاً حضرت مسیحؑ کے الفاظ میں ’’مچھر چھانے جا رہے ہیں اور سموچے اونٹ نگلے جا رہے ہیں‘‘ اور ایک عظیم اکثریت کا حال یہ ہے کہ انہیں نہ ’’رأس ہذا الامر‘‘ سے کوئی بحث ہے نہ ’’ذِرْوَۃُ السَّنَامُ مِنْہُ‘‘سے کوئی دلچسپی. صرف کچھ درمیانی اعمال اور ان کے بھی محض ظاہر کو کل ُدین سمجھے بیٹھے ہیں. گویا نہ جڑ کا دھیان نہ چوٹی کی فکر‘ تنے کی بھی صرف چھال نے کل ُدین کی حیثیت اختیار کر لی ہے اور اب ساری بحث و تمحیص‘ قیل و قال‘ مناظرہ و مجادلہ اور تحقیق و تفحص کا موضوع صرف رفع یدین‘ آمین بالجہر اور تعدادِ رکعاتِ تراویح ایسے فروعی مسائل بن کر رہ گئے ہیں!… اور میں علیٰ وجہ البصیرت جانتا ہوں کہ اصلاحِ احوال کی کوئی صورت اس کے بغیر ممکن نہیں کہ اس معاملے میں نسبت و تناسب کو ازسرِ نو درست کیا جائے. چنانچہ آپ کو بھی میرا مشورہ یہ ہے کہ فروعات کے باب میں اہل سنت کے جس مسلک پر آپ چاہیں عمل پیرا ہوں اور فقہی معاملات میں اپنے ہم مسلک علماء ہی کی جانب رجوع کریں. البتہ دوسروں کے لیے وسعت ِقلب پیدا کریں اور چھوٹی چھوٹی باتوں میں اختلاف سے دل گرفتہ نہ ہوں… البتہ دین کی جڑ اور اس کے ’ذروۂ سنام‘ کے بارے میں کوئی اشکال یا اشتباہ ہو تو مجھے وضاحت کا موقع دیں. پھر اگر آپ کا دل مطمئن ہو تو میری بات قبول کر لیں ورنہ میرے ُمنہ پر دے ماریں. دوسرے یہ کہ مجھے اپنی عملی کوتاہیوں اور کمزوریوں کا بھی بخوبی علم ہے اور مجھے نفسِ مزکیٰ ہونے کا ہرگز کوئی دعویٰ نہیں ‘بلکہ حقیقت یہ ہے ’’من آنم کہ من دانم!‘‘ اور جیسا کہ میں تفصیلاً عرض کر چکا ہوں یہی وہ احساس تھا جو مجھے اب تک اس راہ میں پیش قدمی سے روکے رہا اور اب بھی اقدام کی جرأت کر رہا ہوں تو صرف اس دعا کے سہارے کہ ’’رَبِّ آتِ نَـفْسِی ھُدَاھَا وَزَکِّھا فَاِنَّکَ خَیْرُ مَن زَکَّاھَا‘‘ . اپنے بہت سے عیوب پر تو میں خود بھی مطلع ہوں اور ان کو دور کرنے کی امکان بھر سعی کروں گا. مزید پر جو بھی مجھے متنبہ کرے گا اس کا شکریہ ادا کروں گا اور ان شاء اللہ العزیز اس کی بھی اصلاح کی سعی کروں گا. ’’بِیَدِہ التَّوفِیقُ وعَلَیہِ التّکلانُ‘‘ .
تیسرے یہ کہ میرا ایک ماضی بھی ہے جس سے دستبردار ہونے کے لیے میں ہرگز تیار نہیں. اس لیے کہ مجھے اس پر نہ کوئی ندامت ہے نہ پشیمانی. مجھے پورا اطمینان ہے کہ میں نے اپناجو وقت اسلامی جمعیت ِطلبہ یا جماعت اسلامی میں صرف کیا وہ ہرگز ضائع نہیں ہوا‘ اور اپنی جو قوتیں اور صلاحیتیں ان میں کھپائیں وہ قطعاً رائیگاں نہ گئیں. اس لیے کہ میں نے یہ کام خلوص کے ساتھ محض خدمت ِدین کے جذبے کے تحت کیا‘ لہٰذا اللہ کے یہاں میرا اجر بالکل محفوظ ہے. میں وہاں تھا تو اللہ کے لیے تھا اور وہاں سے نکلا تو بھی صرف اللہ کے لیے نکلا. کسی سے ذاتی نوعیت کی کوئی شکایت یا نجی قسم کی کوئی رنجش اس علیحدگی کا باعث نہیں بنی. یہی وجہ ہے کہ میں نے آج آپ کے سامنے اپنا پورا ماضی وضاحت کے ساتھ بیان کر دیا ہے اور اپنی امکانی حد تک اس میں سے کسی چیز کو چھپانے کی کوشش نہیں کی. اس کے بعد بھی میں یہ چاہتا ہوں کہ جو حضرات اس کام میں میرا ساتھ دینے کا کوئی ارادہ یا خواہش دل میں پاتے ہوں وہ میری کتابیں ’’تحریک جماعت اسلامی: ایک تحقیقی مطالعہ‘‘ اور ’’تاریخ جماعت اسلامی کا ایک گمشدہ باب‘‘ ضرور نظر سے گزار لیں‘ مبادا کوئی چیز بعد میں ان کے علم میں آئے اور وہ جزبز ہوں. پھر ان کے مطالعہ کے بعد بھی کوئی اشکال ذہن میں رہ جائے تو میں حاضر ہوں ‘وضاحت طلب کیجیے اور کامل اطمینان کے بعد ہی رفاقت اختیار کیجیے!
آئندہ کام کا جو نقشہ میرے ذہن میں ہے اس کو سمجھنے کے لیے میں درخواست کروں گا کہ ایک تو میرے کتابچے ’’اسلام کی نشاۃِٔ ثانیہ: کرنے کا اصل کام‘‘ کا مطالعہ پوری توجہ کے ساتھ کر لیا جائے‘ جو طبع شدہ موجود ہے‘ اور دوسرے ۱۹۶۷ء میں تنظیم اسلامی کے قیام کی جو سعی ہم نے کی تھی اس کی قرارداد اور اس کی توضیحات بھی غور سے پڑھ لی جائیں ‘اور اس پر جو تقاریر مولانا امین احسن اصلاحیؒ اور مولانا عبدالغفار حسنؒ نے کی تھیں ان کو بھی نظر سے گزار لیا جائے. (۱) وہ قرارداد اور اس کی توضیحات دراصل میں نے ہی لکھی تھیں جنہیں معمولی سی لفظی ترامیم کے ساتھ اجتماع نے اختیار (adopt) کر لیا تھا اور میں ان پر آج بھی اتنا ہی مطمئن ہوں جتنا اُس وقت تھا.
رہا آئندہ کا تفصیلی لائحہ عمل… اور ہیئت تنظیمی کی مفصل صورت ‘تو ان مسائل کے بارے میں میں اس وقت کچھ عرض کرنا نہیں چاہتا ‘اس لیے کہ ان کا دارومدار کلیۃً اس پر ہے کہ کتنے لوگ تعاون پر آمادہ ہوتے ہیں اور کتنی کچھ صلاحیتوں اور قوتوں کا سرمایہ جمع (pool) ہوتا ہے.
آخر میں ’’مَنْ اَنْصَارِیْ اِلَی اللّٰہٖ ‘‘ کے سوال پر اپنی تحریر کوختم کرتا ہوں ‘اس وضاحت کے ساتھ کہ مجھے اس کا کوئی فوری جواب مطلوب نہیں. اگر صرف جذبات میں ہاں کرا لینے کی خواہش ہوتی تو شاید میں ابھی آپ سب کے ہاتھ کھڑے کرا لیتا.
لیکن مطلوب اصل میں یہ ہے کہ: جو آئے خوب سوچ سمجھ کر آئے‘ دل و دماغ کے متفقہ فیصلے کے بعد آئے ‘اور پھر آئے تو تحفّظات کے ساتھ نہ آئے بلکہ تن‘ من‘ دھن سب کے ساتھ آئے ‘اور یہ اچھی طرح جان کر آئے کہ ؎
در رہِ منزلِ لیلیٰ کہ خطر ہاست بسے
شرطِ اوّل قدم ایں است کہ مجنوں باشی
اَقُول قَولی ھٰذا وَاستغفر اللّٰہَ لِی وَلکم وَلِسائِرِ الْمُسلمِیْنَ وَالْمُسلِماتِ
وَاٰخِرُ دعوانااَنِ الحمد لِلّٰہِ رَبّ العَالمینoo (۱) یہ تمام چیزیں اگلے باب میں ملاحظہ فرمائیں (مرتب)