(الف) ڈاکٹر اسرار احمد کو تنظیمِ اسلامی کے ’’داعی عمومی‘‘ کی حیثیت ہو گی اور وہ اس دور میں ’’اَمْرُھُمْ شُوْرَیٰ بَیْنَھُمْ ‘‘ کے وسیع تر اصول کے تحت تنظیم کے معاملات کو بھی چلائیں گے اور اس کی دعوت کو بھی زیادہ سے زیادہ وسیع تر حلقے تک پہنچانے کی کوشش کریں گے. وہ ایک معین مجلسِ شوری کو بھی نامزد کرنے کے مجاز ہوں گے لیکن ان کو حق استقرار حاصل ہو گا. 

(ب) تمام رفقائے تنظیم داعی ٔ عمومی کی ’’اطاعت فی المعروف‘‘ کے پابند ہوں گے!
رہے ’’قواعد و ضوابط‘‘ تو چونکہ اِن اصولی باتوں کے طے ہو جانے کے بعد زیادہ تفصیلی قواعد و قوانین کی چنداں ضرورت ہی باقی نہیں رہی تھی، لہٰذا وہ سب کے سب پانچ دفعات کی صورت میں کل تین صفحات میں سما گئے اور وہ بھی بالاتفاق طے ہو گئے. 

جہاں تک متذکرہ بالا دستور کی دفعہ ۲ میں شامل ’’شرائطِ شمولیت‘‘ کا تعلق تھا اس کی بھی کل چھ میں 
سے صرف ایک یعنی چوتھی شق ایسی تھی جو بہت سے احباب کے تنظیم میں شامل ہونے کی راہ میں رکاوٹ بن گئی. اس لئے کہ اُس کی رُو سے یہ لازم آتا تھا کہ صرف وہی لوگ تنظیمِ اسلامی میں شمولیت اختیار کر سکیں گے جو تجارتی اور نجی ہر نوع کے سُودی لین دین سے عملاًتائب ہو جائیں، اور ایسے اداروں کی ملازمت بھی ترک کر دیں جن میں سودی لین دین کا غلبہ ہوجیسے بنک اور انشورنس کمپنیاں وغیرہ. مزید برآں سرکاری محاصل یعنی انکم ٹیکس، سیلز ٹیکس وغیرہ کے ضمن میں بھی کسی غلط بیانی سے ہر گز کام نہ لیں. ان شدید و ثقیل اور موجود الوقت احوال و ظروف کے اعتبار سے تقریباً ناممکن العمل پابندیوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان ایک سو تین حضرات میں سے جو اس اجتماع میں ابتداً شریک ہوئے تھے صرف باسٹھ حضرات نے تنظیم میں بالفعل شرکت اختیار کی. 

یہاں اس بات کی وضاحت مناسب معلوم ہوتی ہے کہ تنظیم کی ’’شرائطِ شمولیت‘‘ کی متذکرہ بالا شق بھی اصلاً جماعت اسلامی ہی کے فلسفہ و اصول ِ تنظیم کے تسلسل کی مظہر تھی.اور اس معاملے میں اگرچہ ذاتی طور پر راقم الحروف کے نظریات تبدیل ہو چکے تھے، تاہم چونکہ شدید دلی خواہش تھی کہ جماعت سے علیحدگی اختیار کرنے والے احباب و اکابر کی زیادہ سے زیادہ تعداد اس نئے قافلے میں شامل ہو اور اُن کی اکثریت بالخصوص اہم شخصیات کے تصورات میں ابھی کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی، لہٰذا جہاں یہ مناسب سمجھا گیا کہ تنظیم کے ’’مستقل دستور‘‘ کے معاملے کو ابھی ’کُھلا‘ 
(Open) رکھا جائے وہاں ’’شرائطِ شمولیت‘‘ کے ضمن میں بھی سابقہ طرزِ فکر ہی کو برقرار رکھاگیا.

جیسے کہ پہلے عرض کیا جا چکا ہے ،ابتداء میں جو صورت اختیار کی گئی وہ یہ تھی کہ صرف وہی لوگ تنظیمِ اسلامی میں شامل ہو سکیں گے جو ان منکرات کو بالفعل ترک کر چکے ہوں، یہی وجہ ہے کہ تاسیسی اجلاس کے ابتدائی ایک سو تین شرکاء میں سے صرف باسٹھ (۶۲) حضرات تنظیم میں شمولیت اختیار کر سکے! لیکن تقریباً ڈھائی سال بعد جب تنظیم کے لئے بیعت کے نظام کو اختیار کیا گیا تو متعلقہ عبارت میں بھی مناسب لفظی ترمیم کر دی گئی اس لئے کہ نظامِ بیعت کا تو اصل الاصول ہی یہ ہے کہ کوئی شخص جب’جہاں‘ اور جیسے ہی عزم اور ارداہ کر لے کہ وہ مسلمان جئے اور مسلمان مرے گا اور اپنے جملہ فرائضِ دینی ادا کرنے کے لئے امکان بھر کوشاں رہے گا فوراً بیعت کر کے راہِ حق کے قافلے میں شامل ہو سکتا ہے. تعلیم، تربیت اور تزکیے کے مراحل بعد میں آتے ہیں. 
اللہ تعالیٰ ہم سب کے قلوب و اذہان کو ایمانِ حقیقی اور یقین و معرفت کے نور سے منور فرمائے، ہمیں جملہ فرائض و واجبات کے التزامِ تام اورمنکرات و منہیات سے اجتنابِ کلی کی توفیق عطا فرمائے، اور اپنے جملہ عہُود و عقود کے ایفائے کاملہ کی ہمت عطا فرمائے .آمین یا رب العالمین!

ذاتی طور پر راقم الحروف کی رائے جماعت سے علیحدگی کے دو سال کے اندر اندر یعنی اپریل ۱۹۵۹؁ء کے لگ بھگ ہی یہ بن چکی تھی کہ اقامتِ دین کے لئے جدوجہد کرنے والی جماعت کی تنظیمی اساس بیعت کے مسنون اور ماثور اُصول پر قائم ہونی چاہئے نہ کہ عہدِ حاضر کے مغرب سے درآمد شدہ دستوری اور جمہوری اصولوں پر تاہم راقم کے نزدیک نہ مقدم الذکر ہیئتِ تنظیمی فرض یا واجب کے درجہ میں ہے نہ مؤخر الذکر مباحات کے دائرے سے خارج ہے یہی وجہ سے کہ آٹھ سال بعد ۱۹۶۷؁ء میں اوّلاً رحیم آباد اور پھر رحیم یار خاں میں ایک نئی تنظیم کے قیام کا فیصلہ ہوا تو راقم اُس میں پُورے انشراح ہی نہیں ، بھر پور جوش و خروش کے ساتھ شریک ہوا، حالانکہ جیسے کہ پہلے عرض کیا جاچکا ہے کہ، یہ بات اظہر من الشمس تھی کہ اُس ’’بارات کے دولہا‘‘ کی حیثیت مولانا امین احسن اصلاحی صاحب کو حاصل تھی، اور وہی بلاشبہ ریب و شک مجوزہ تنظیم کے امیر بنتے اور اُن کے بارے میں یہ بات ظاہر و باہر اور معلوم و معروف تھی کہ اُن کا شدید رحجان ہی نہیں قطعی و حتمی رائے دستوری اور جمہوری نظام کے حق میں ہےاسی طرح مزیدآٹھ سال بعد یعنی ۱۹۷۵؁ء میں جب موجودہ تنظیمِ اسلامی کی تاسیس کا مرحلہ آیا تب بھی راقم نے نظامِ جماعت کے مسئلے کو کھلا رکھا اور پہلے تین سالوں کو عبوری دور قرار دیتے ہوئے اپنی حیثیت صرف کنوینر کی رکھی تاکہ جماعتِ اسلامی سے علیحدگی اختیار کرنے والے دوسرے بزرگ حضرات بھی شمولیت پر آمادہ ہو جائیں تو اُن کے مشورے بلکہ صوابدید کے مطابق ہیئتِ تنظمی تشکیل دے لی جائے! اور اس میں ہر گز کسی شک اور شبہ کی گنجائش نہیں تھی کہ اگر وہ حضرات شمولیت اختیار کر لیتے تو لامحالہ ایک دستوری اور جمہوری نظم ہی قائم ہوتا.

لیکن جب دو ڈھائی سال کے انتظار کے بعد ثابت ہو گیا کہ بزرگ سابقینِ جماعت میں سے کوئی ایک شخص بھی اس نئے قافلے میں شمولیت پر آمادہ نہیں ہے، تو چاروناچار راقم کو یہ فیصلہ کر لینا پڑا کہ اب اسے اپنی ذاتی صوابدید ہی کو بُروئے کار لانا ہے. اور اپنی رائے پورے شرح و بسط کے ساتھ رفقاء کے سامنے رکھ دینا ہے. تاکہ بفحوائے الفاظِ قرآنی: 
لِّیَہۡلِکَ مَنۡ ہَلَکَ عَنۡۢ بَیِّنَۃٍ وَّ یَحۡیٰی مَنۡ حَیَّ عَنۡۢ بَیِّنَۃٍ ؕ (الانفال:۴۲جسے ساتھ دینا ہے وہ بھی پورے انشراح صدر کے ساتھ دے، اور جسے ساتھ چھوڑ دینا ہے وہ بھی خوب سوچ سمجھ کر علیحدہ ہو!

تنظیمِ اسلامی کا پہلا سالانہ اجتماع ۲۵ تا ۲۷ مارچ ۷۶ ؁ء اپنے مقامِ تاسیس ہی پر منعقد ہوا تھا اور دوسرے سالانہ اجتماع کے انعقاد کے لئے بھی اواخر مارچ ۱۹۷۷؁ء کی تاریخوں کا تعین ہو چکا تھا کہ اچانک ملکی انتخابات میں حکومتِ وقت کی جانب سے کی گئی دھاندلیوں کے خلاف احتجاجی مظاہروں نے ملک گیر تحریک کی صورت اختیار کر لی جو ’’تحریک نظامِ مصطفی(  )‘‘ کے نام سے موسوم ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے جنگل کی آگ کی طرح پورے ملک میں پھیل گئی. لہٰذا تنظیم کے اجتماع کو ملتوی کرنا پڑا ۴ اور ۵ جولائی ۱۹۷۷؁ء کی درمیانی شب کو ملک میں مارشل لاء نافذ ہوا تو امن و امان کی صورتحال بحال ہوئی اور چونکہ کچھ اندازہ نہ تھا کہ تین ماہ بعد مارشل لاء کے اختتام پر ملک میں دوبارہ کیسے حالات پیدا ہو جائیں، لہٰذا بعض اہم رفقاء کے مشورے سے طے کر لیا گیا کہ پہلی فرصت میں تنظیم کا ایک اجتماع منعقد کر لیا جائے جو دوسرے اور تیسرے سالانہ اجتماعات کا قائم مقام ہو اور اس میں تنظیم کے مستقل نظام کے بارے میں حتمی فیصلہ کر لیا جائے.

یہ اجتماع جو کچھ دو اجتماعات کے قائم مقام ہونے کے ناتے اور کچھ اہم موضوعات پر تفصیلی گفت و شنید اور بحث و تمحیص کی ضرورت کے پیشِ نظر پورے ایک ہفتے کے لئے طلب کیا گیا تھا. ۵ تا۱۱ ؍اگست ۱۹۷۷؁ء قرآن اکیڈمی ماڈل ٹاؤن لاہور میں جاری رہا. اور راقم نے حسبِ ذیل تین تنقیحات کے ذیل میں نہ صرف یہ کہ اپنے دینی فکر کو پوری وضاحت اور شرح و بسط کے ساتھ بیان کیا بلکہ جملہ شرکائے اجتماع کو بھی اظہارِ خیال اور اختلافِ رائے کا پورا موقع فراہم کیا:

۱. اقامتِ دین، شہادت علی الناس اور غلبہ و اظہارِ دین کی 
سعی و جدوجہد نفلی عبادت یا اضافی نیکی نہیں بلکہ ازروئے قرآن و حدیث بنیادی دینی فرائض میں شامل ہے. 
۲. اس دینی فریضہ کی ادائیگی کے لئے 
التزامِ جماعت واجب ہے. 
۳. ایسی دینی جماعت کی ہیئتِ تنظیمی مغرب سے درآمد شدہ دستوری، قانونی اور جمہوری طرز کی نہیں بلکہ قرآن و سنت اور اسلاف کی روایات سے مطابقت رکھنے 
والے بیعت کے اصول پر مبنی ہونی چاہئے.

الحمد للہ کہ ان تنقیحاتِ ثلاثہ پر پورے چھ دن سیر حاصل گفتگو ہوئی جس کے نتیجے میں شرکائِ اجتماع کی غالب اکثریت نے راقم کے خیالات اور نظریات سے کامل اتفاق کیا اور بالآخر ناظم عمومی جناب شیخ جمیل الرحمن صاحب کی تحریک پر حسب ذیل قرار داد منظور ہو گئی:

تنظیم اسلامی کا یہ اجتماع عام حسبِ دفعہ ۳ دستور تنظیم اسلامی طے کرتا ہے کہ:
۱. آئندہ تنظیمِ اسلامی کا نظام مغرب سے درآمد شدہ دستوری قانونی اور جمہوری اُصولوں کے بجائے قرآن و سنت سے ماخوذ اور اسلاف کی روایات کے مطابق بیعت کے اصول پر مبنی ہو گا. چنانچہ تنظیمِ اسلامی کے داعیٔ عمومی جناب ڈاکٹر اسرار احمد صاحب آج کے بعد سے ’’امیرِ تنظیم اسلامی‘‘ ہوں گے. اور تنظیم میں داخلہ ان کے ساتھ اطاعت فی المعروف کی بیعت کا شخصی رابطہ استوار کرنے سے ہو گااور وہ بحیثیت امیر تنظیم اسلامی اپنے فرائض 
وَ اَمۡرُہُمۡ شُوۡرٰی بَیۡنَہُمۡ ۪ اور وَ شَاوِرۡہُمۡ فِی الۡاَمۡرِ ۚ فَاِذَا عَزَمۡتَ فَتَوَکَّلۡ عَلَی اللّٰہِ ؕ کی قرآنی ہدایات کے مطابق ادا کریں گے.

۲. اس فیصلے سے لازم آتا ہے کہ:
(i) تنظیم اسلامی میں جو حضرات اب تک شریک رہے ہیں ان کی رفاقت آج سے ختم شمار ہو گی تآنکہ وہ اس قرارداد کے جزو اوّل کے مطابق بیعت کے نظام میں شامل ہو جائیں.
(ii) تنظیم اسلامی کا موجودہ دستور بھی کالعدم متصور ہو گا اور امیر تنظیمِ اسلامی جناب ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کو اختیار ہو گا کہ وہ جن رفقاء سے مناسب سمجھیں مشورہ کر کے آئندہ کا دستور العمل طے کر لیں.

۱۰ ؍اگست ۱۹۷۷؁ء کو اس قردار کی منظوری اور اس پر جملہ شرکاء اجتماع کے دستخط ثبت ہونے پر گویا تنظیمِ اسلامی کا عبوری دور ختم اور نیا اور مستقل دور شروع ہو گیا. 

اس عرصے کے دوران اگر کوئی خیر ذاتی طور پر راقم الحروف اور اجتماعی طور پر تنظیمِ اسلامی سے بن آیا ہے تو وہ محض اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور توفیق و تیسیر کا مظہر ہے اور کوتاہیاں اور لغزشیں سرزد ہوئیں تو ہمارے اپنے نفوس کی شرارتوں کی بنا پر چنانچہ آئندہ کے لئے اللہ تعالیٰ ہی سے دعا 

ہے کہ وہ اپنے خصوصی فضل و کرم سے نوازتے ہوئے ہدایت و استقامت میں اضافہ فرمائے اور شیطان کے فریب اور نفس کی شرارتوں سے اپنی حفاظت میں رکھے! رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ ھَدَیْتَنَا وَھَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْکَ رَحْمَۃً اِنَّکَ اَنْتَ الْوَھَّابُ! آمین 

تنظیم اسلامی کے لئے اُصولی طور پر ’’بیعتِ سمع و طاعت فی المعروف‘‘کی تنظیمی اساس کو اختیار کر لینا تو مشکل نہ تھا لیکن موجودہ حالات میں اس بنیاد پر ایک جماعتی نظام کا ڈھانچہ بالفعل کھڑا کرنا ہرگز آسان نہ تھا. اس لئے کہ ایک جانب یہ تصور ’’آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل‘‘کے مصداق ذہنوں سے بالکل خارج ہو چکا تھا، اور دوسری جانب ’’بیعت‘‘ کے ساتھ ایسے بہت سے عجیب و غریب تصورات لازم و ملزوم کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں جن سے موجودہ ذہن ہی نہیں خود فطرتِ انسانی اِبا کرتی ہےیہی وجہ ہے کہ ابتداء میں کچھ عرصے تک ہم خود بھی اس کے اظہار و اعلان میں ہچکچاہٹ محسوس کرتے رہے کہ دنیا کیا کہے گی ؎ ’’کہ اکبر ؔ نام لیتا ہے خدا کا اس زمانے میں!‘‘ بعد میں جب اس کا چرچا عام ہوا تو نہ صرف تمسخر اور استہزاء ، بلکہ تردید اور مخالفت کا بازار بھی گرم ہوا لیکن بحمد للہ اب جبکہ اس نظام کو بالفعل چلتے ہوئے کئی برس ہونے کو آئے ہیں، اور نہ صرف اندرون ملک کثیر تعداد میں، بلکہ بیرون ملک حتی کہ انگلستان اور امریکہ میں مقیم حضرات نے بھی معتدبہ تعداد میں اپنے فرائضِ دینی کی ادائیگی کے لئے بیعت کا قلادہ گردن میں ڈالنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی ہے، ہم اپنے دلوں میں گہرے تشکر آمیز اطمینان کا احساس موجزن پاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک مردہ سنت کے احیاء کی توفیق عطا فرمائی 
وَمَا کُنَّا لِنَھْتَدِیَ لَوْ لَا اَنْ ھَدَانَا اللّٰہِ!! 

بیرونی تمسخر اور مخالفت کو برداشت کرنے سے زیادہ کھٹن مرحلہ اُن غلط تصورات کے خاتمے کا تھا جو بیعت کے لفظ کے ساتھ لامحالہ وابستہ ہو گئے ہیں. جن میں سب سے زیادہ ناپسندیدہ اور مکروہ تصور یہ ہے کہ بیعت کے نظام میں نہ باہمی مشاورت کی کوئی گنجائش ہے نہ اختلافِ رائے اور اظہارِ خیال کا کوئی موقع! چنانچہ ہمیں اس غلط تصور کی نفی اور اس حقیقت کے اثبات میں بہت محنت بھی کرنی پڑی اور بہت سا وقت بھی صَرف کرنا پڑا کہ نظامِ بیعت میں اختلافِ رائے کی گنجائش ’اظہارِ خیال کے مواقع‘ اور باہمی مشاورت کا میدان نام نہاد جمہوری نظام سے بھی وسیع تر موجودہ ہے اور فرق صرف اتنا ہے کہ جمہوری نظام میں آخری فیصلہ ؎’’بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے!‘‘ کے مصداق 
آراء کی گنتی کی بنیاد پر ہوتا ہے جبکہ نظامِ بیعت میں اظہارِ رائے اور کھلی بحث تمحیص کے بعد آخری فیصلہ صاحبِ امر کی صوابدید پر چھوڑ دیا جاتا ہے! گویا نظامِ بیعت میں اُصولِ قرآنی: وَ اَمۡرُہُمۡ شُوۡرٰی بَیۡنَہُمۡ ۪ (الشوریٰ : ۳۸کی بالفعل تعمیلِ حکم قرآنی: وَ شَاوِرۡہُمۡ فِی الۡاَمۡرِ ۚ فَاِذَا عَزَمۡتَ فَتَوَکَّلۡ عَلَی اللّٰہِ ؕ (آل عمران: ۱۵۹کے مطابق ہوتی ہے. 

دوسری جانب اس تصور کا خاتمہ بھی ہر گز آسان نہ تھا کہ مشاورت باہمی کا لازمی اور منطقی نتیجہ یہ ہے کہ اکثریت کی رائے کو فیصلہ کُن قرار دیا جائے، اس لئے کہ عہد حاضر میں ’’سلطانیٔ جمہور‘‘ کا تصور نہ صرف یہ کہ حد درجہ عالمگیر ہو چکا ہے بلکہ لوگوں کے شعور ہی نہیں تحت الشعور کی گہرائیوں میں اس حد تک سرایت کر چکا ہے، کہ بسا اوقات بیعت کے نظام کو اصولاً تسلیم اور اختیار کر لینے کے بعد بھی اس پر اصرار برقرار رہتا ہے کہ امیر کو شوریٰ کی اکثریت کے فیصلے کا ’’پابند‘‘ ہونا چاہئے.

الغرض تنظیم اسلامی کے لئے بیعت کا نظام اُصولی طور پر تو ۱۹۷۷؁ء میں اختیار کر لیا گیا تھا 
(۱، اور اس کے بعد عملاً تنظیم کی گاڑی اسی پٹڑی پر چل رہی ہے، تاہم اس کے مضمرات اور متضمنات کے واضح ہونے اور اسی کی بنیاد پر ایک جماعت نظام کی تفصیلی تشکیل اور اس کے خدو خال کے صفحۂ قرطاس پر مرتسم ہونے میں کم و بیش دس سال کی مدت صرف ہوئی. اور نہ صر ف اصولی غور و خوض بلکہ دس سالہ تجربات کی روشنی میں تنظیم اسلامی کے لئے ایک تحریری ’’نظام العمل‘‘ کی تسوید وتبییض کا مرحلہ اوائل ۱۹۸۸؁ء میں شروع ہو سکا. جبکہ تنظیم کی مرکزی مجلسِ مشاورت نے اپنے اجلاس منعقدہ ۲، ۳ مارچ ۱۹۸۸؁ء میں باضابطہ طے کیا کہ: 

’’تنظیم اسلامی میں شمولیت کے لئے بیعت کی اساس اگرچہ دس سال قبل اختیار کر لی گئی تھی لیکن فی زمانہ کسی ہیئتِ اجتماعیہ کے لئے اس مسنون اساس کے متروک العمل ہونے کے باعث تنظیم اسلامی کو بھی اس کے عملی تقاضوں سے کامل ہم آہنگی کے ضمن میں تدریجی مراحل سے گزرنا پڑا ہے. اسی ضمن میں اگرچہ متعدد فیصلے مختلف اوقات میں کئے جاتے رہے ہیں لیکن ان کو باضابطہ ضبطِ تحریر میں نہیں لایا گیا. اسی طرح اگرچہ تنظیم کی قراردادِ تاسیس اور اس کی توضیحات میں بعض تاریخی اسباب کی بنا پر فریضۂ اقامتِ دین کی اہمیت اور اس کے لئے جہاد فی سبیل اللہ کے لزوم کے قدرے خفی اور غیر نمایاں ہونے کے پیشِ نظر تنظیم کے آٹھویں سالانہ اجتماع میں یہ اعلان کر 
(۱) ’’اسلامی نظم جماعت اور بیعت کی اہمیت‘‘ کے عنوان سے تفصیلات اس تالیف کے حصہ سوم یعنی ’’تنظیم اسلامی کی فکر اور طریقہ کار‘‘ میں ملاحظہ فرمائیں. (مرتب) دیا گیا تھا کہ آئندہ تنظیم اسلامی محض اصلاحی اور دعوتی نہیں بلکہ انقلابی تنظیم ہو گی. تاہم ابھی تک یہ بات بھی پوری وضاحت کے ساتھ تحریری طور پر سامنے نہیں آئی. لہٰذا ضروری ہے کہ ان دونوں اُمور کو مجوزہ نظام العمل میں صراحت کے ساتھ درج کر دیا جائے اور جیسے کہ پانچ سال قبل طے کیا گیا تھا تنظیمِ اسلامی کی قراردادِ تاسیس مع توضیحات اور ’’شرائطِ شمولیت‘‘ پر مشتمل مفصل تحریر کو آئندہ تنظیم کی آئینی و دستوری اساس نہیں بلکہ اس کے دعوتی اور تربیتی لٹریچر کا اہم اور اساسی حصہ سمجھا جائے.‘‘

الحمد للہ کہ اندریں اثناء تنظیم کا تفصیلی ’’نظام العمل‘‘ تیار ہو کر ’’سلسلۂ اشاعتِ تنظیمِ اسلامی نمبر ۴‘‘ کی حیثیت سے شائع ہو رہا ہے. 
(۱

خاکسار اسرار احمد عفی عنہ
۱۹۹۱ء (۱) اس تالیف کے اختتام پر ضمیمہ جات میں اس نظام العمل کا تازہ ایڈیشن شائع کردیا گیا ہے.(مرتب)