۱. مولَانا عَبدُالماجِدْ دَریابادیْ مرحوم

ایک نیا اصلاحی ادارہ

’’لاہور کے ایک معزز دینی ماہنامہ ’میثاق‘ سے یہ معلوم کر کے دِلی خوشی ہوئی کہ وہاں چند ذی فہم و بصیرت مخلصوں کی سعی و اہتمام سے ایک نئے دینی اداراہ کی بنیاد بالکل صحیح اُصول پر پڑ رہی ہے. یہ حضرات زیادہ تر جماعت اسلامی سے نکلے ہوئے ارکان ہیں اور یقین ہے کہ یہ ان شاء اللہ ان غلطیوں سے محفوظ رہیں گے‘ جن کا خوب تجربہ انہیں جماعت مذکور میں شامل رہ کر ہو چکا ہے.ادارہ کے ایک بانی مولانا امین احسن اصلاحی کی یہ بات آب زر سے لکھنے کے قابل ہے:

’’جماعتیں اور تنظیمیں قائم تو ہوتی ہیں اصلاً کسی اعلیٰ و برتر نصب العین کے لئے لیکن قائم ہوجانے کے بعد وہ رفتہ رفتہ از خود نصب العین اور مقصد بن جاتی ہیں اور اصل نصب العین غائب ہو جاتا ہے!‘‘ 

یہ ’صدق‘ کے مسلک کی صد فی صد ترجمانی ہے. مولانا اصلاحی کی تقریر کا یہ ٹکڑا بھی خصوصی اہمیت کا حامل ہے:

’’ارباب اقتدار کی ہر بات کو ہدفِ تنقید بنا لینا، یہاں تک کہ اُن کے خیر کو بھی شر قرار دے لینا، اور اُس کی مخالفت میں اِس حد تک بڑھ جانا کہ دوسروں کی بُرائیاں بھی اُن کے کھاتے میں ڈال دینا نہ عقل و منطق کی رُو سے جائز ہے، اور نہ اسلام کی رُو سے. یہ اقتدار کی ہوس میں اندھے ہو جانے کی علامت ہے!‘‘

اور پاکستان کی (ہندوستان نہیں) جماعتِ اسلامی کو شدید ترین نقصان شاید اسی چیز نے پہنچایا ہے. اللہ ہم کو پچھلی غلطیوں سے سبق لینے کی توفیق دے اور راہِ اصلاح و ہدایت پر مستقیم رکھے.‘‘ 

خدمتِ دین کی گنجائشیں

پاکستان کے دینی ماہنامہ ’میثاق‘ لاہور سے نئی دینی و اجتماعی تنظیم کے سلسلے میں: ’’آخر میں اس امر کی وضاحت بہت ضروری ہے کہ پیشِ نظر تنظیم ہر گز ’’الجماعت‘‘ کے حکم میں داخل نہ ہو گی. ’’الجماعت‘‘ کا مقام ہماری دانست میں اُمت مسلمہ کو بحیثیت مجموعی حاصل ہے. دین کی خدمت ایک نہایت وسیع و عریض کام ہے اور اس کے گوشے بے شمار ہیں. ہم ان تمام جماعتوں اور اداروں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں جو کسی بھی گوشے میں دین کی خدمت کا کام کر رہی ہیں اور اِن شاء اللہ اُن کے ساتھ ہمارا رویہ تعاون و تائید ہی کا ہو گا!‘‘

بات اصلاً بہت موٹی اور بالکل صاف و واضح ہے، لیکن اس زمانے میں بہت بڑی بات ہے. دین و اُمّت کی خدمت کے اتنے پہلو ہیں اور خدمت کے لئے گنجائش اتنی ہے کہ اگر نفسانیت کو چھوڑ کر تھوڑے سے بھی عزم و حوصلہ کے ساتھ خدمت کا ارادہ ہو تو خلوص اور فہمِ سلیم سے کام لینے والا ہر فردِ اُمت اس کے اندر کھپ سکتا ہے اور باہمی مناقشہ سے جواب تک بڑا سنگِ راہ بنا ہوا ہے‘ نجات پاکر ہر گروہ اپنے مذاق و استعداد کے لحاظ سے سچا خادمِ دین بن سکتا ہے!‘‘ (میثاق. لاہور‘جنوری ۶۸ ء؁ بحوالہ ’’صدقِ جدید‘‘ ۱۷ نومبر ۶۷ ؁ء) 

۲. مولَانا عَبدُالباریْ ندوِی مرحوم 

فرنگی ساخت کی جماعت سازی اور اُس کی فتنہ سامانی!

’’تازہ میثاق میں زیادہ تر پرانی جماعتِ اسلامی سے علیحدہ ہونے والے حضرات جو ایک نئی جماعت بنا رہے ہیں اور جس کا ہمارے حضرت صاحبِ ’صدق‘ نے بھی خیر مقدم کیا ہے، اس کی تفصیلات معلوم ہوئیں. آپ کی تقریر کی جس بات کی صاحبِ صدق نے داد دی ہے، میں بھی اُسے ہی سب سے زیادہ قابلِ داد اور آبِ زر کیا، آپِ جواہر سے لکھنے کے قابل پاتاہوں. میں تو فرنگی ساخت کی جماعت سازیوں کے عین خمیر ہی میں اس فساد کو داخل جانتا ہوں اور علی الاعلان کہا کرتا ہوں کہ یہ افتراق سازی کی بنیاد ہوتی ہے. انبیاء کا طریق یہ ہے کہ صاحبِ دعوت و عزیمت اپنی دعوت لے کر کھڑا ہوتا ہے اور بلاکسی مصنوعی جماعت سازی کے جو لوگ برضا و رغبت اِس کے ساتھ شریک ہوتے ہیں، بس وہی’’حزبُ اللہ‘‘ بن جاتے ہیں اور قواعد و ضوابط اور کثرتِ رائے وغیرہ کی بحث کے بغیر جب تک وہ داعی کے ساتھ چلتے رہتے ہیں تبھی خیریت رہتی ہے.

باقی جہاں اقلیت و اکثریت وغیرہ کی رائے شماری اور صدر و سیکرٹری اور چندہ بازی وغیرہ کے جدیدفرنگی طریقے داخل ہوئے، بس پھوٹ یقینی ہے کہ ایسی صورت میں جیسا آپ نے بالکل صحیح لکھا ہے (بالکل نفسیاتی طور پر) جماعت مقصود بن جاتی ہے اور اصل مقصود غائب ہوتے ہوتے بمنزلۂ صفر ہو جاتا ہے. اس کے علاوہ جب تک غیر معمولی اخلاص و للّٰہیّت کم و بیش تمام افرادِ جماعت میں نہ ہوں، جماعتی عصبیت و رقابت اس جماعت سازی کا لازمہ ہے. مجھے تو ہمیشہ الٰہ آباد کے عارفِ اکبرؔ کا یہ عارفانہ شعر برابر یاد آتا رہتا ہے، جس کے ذریعے اِس طرز کی جماعت سازیوں کے آغاز ہی میں انہوں نے آگاہ فرما دیا تھا: ؎

کریما بہ بخشائے برحالِ بندہ
کہ ہستم اسیرِ کمیٹی و چندہ!

اور یہ سراپا ناکارہ ..... اور ....... کے حضرات سے یہی عرض کرتا رہتا ہے کہ اپنی جماعتوں کو توڑ دیں کہ اُن میں سے انجام کسی ایک کا بھی بخیر نہ ہوا تو بالآخر صدارت کو دو صدروں میں تقسیم کرنا پڑا!‘‘


(مولانا اصلاحیؒ کے نام ایک خط سے ماخوذ)