فرائض دینی کا جامع تصور

یہ باب دراصل اس امر کی وضاحت پر مشتمل ہے کہ تنظیم اسلامی کے پلیٹ فارم سے بندگانِ خدا کو کس بات کی دعوت دی جارہی ہے. ظاہر ہے ایک جملے میں اگر بیان کیا جائے تو یہ دعوت رضائے الٰہی اور اُخروی نجات کے حصول کے لئے جدوجہد کی دعوت ہے. البتہ رضائے الٰہی کے حصول کے کچھ ذرائع قرآن وسنت کی رُو سے ہمارے سامنے آتے ہیں، ان کے مابین کیا ربط وتعلق ہے اور ان سب کو اگر مربوط انداز میں سمجھنے کی کوشش کی جائے تو اُس کا خاکہ کیا ہوگا؟؟؟ اسی کی تفصیل آپ زیر نظر باب میں ملاحظہ فرمائیں گے. 

یہ باب دراصل دو حصوں پر منقسم ہے. حصہ الف میں ’’فرائضِ دینی کے جامع تصور‘‘ کو بانیٔ محترمؒ کی مختصر مگر حد درجے جامع تحریر کے ذریعے واضح کیا گیا ہے. دراصل یہ تحریر بانیٔ محترمؒ کی مفصل تالیف ’’جماعتِ شیخ الہندؒ اور تنظیم اسلامی‘‘ سے ماخوذ ہے. اس مختصر مگر جامع تحریر کا تعارف بانیٔ محترمؒ نے ایک اشاعت کے موقع پر خود قلمبند فرمایا تھا جسے ہم یہاں نقل کررہے ہیں: 

’’یہ راقم الحروف کے عمر بھر کے مطالعۂ قرآن وحدیث اور سنت وسیرتِ 
رسول  کے خلاصے اور لب لباب کی حیثیت رکھتا ہے اور اس اعتبار سے بلاشبہ تنظیم کے اساسی دینی وفکر کا جزو لاینفک ہے.راقم نے اپنے تصورات کے سلسلے میں علماء کرام سے استصواب اور اُن کی آراء سے رفقاء تنظیم کو براہ راست آگاہ کرنے کے لئے یہ اہتمام کیا کہ ۱۹۸۵ء؁ کو تنظیم کا سالانہ اجتماع بھی ۲۳ تا ۲۸ مارچ مسلسل چھ دن جاری رہا اور انہی ایام میں مرکزی انجمن خدام القرآن لاہور کے سالانہ محاضراتِ قرآنی بھی منعقد کرلئے گئے.چنانچہ مسجد جامع القرآن، قرآن اکیڈمی ماڈل ٹاؤن لاہور میں صبح کے اوقات میں تنظیم کے سالانہ اجتماع کی کارروائی جاری رہتی تھی اور شام کو تین ساڑھے تین گھنٹے کا اجلاس محاضرات کا ہوتا تھا. جن کا موضوع میری یہی تحریر تھی جس پر تقریباً یک صد علماء کو اظہارِ خیال کی دعوت دی گئی تھی جن میں سے پچیس حضرات نے باضابطہ شرکت فرما کر بالمشافہ خطاب فرمایا اور تقریباً اتنے ہی حضرات نے اپنی آراء تحریری صورت میں ارسال کردیں. چنانچہ روزانہ اوسطاً چار حضرات کا خطاب ہوا جن میں سے بعض نے میرے خیالات کی کامل تصویب فرمائی، بعض نے جزوی اتفاق کا اظہار فرمایا بعض نے شدید تنقید کی، یہاں تک کہ بعض نے فقرے بھی چست کئے اور مذاق اُڑایا الحمدللہ کہ تنظیم کے لگ بھگ ساڑھے تین سو رفقاء نے جملہ تقاریر کو پورے سکون واطمینان اور کامل توجہ وانہماک کے ساتھ سنا. جس سے بحمدللہ اُن کے اعتماد ہی میں اضافہ ہوا اور کسی ایک کے دل میں بھی فرائضِ دینی کے اس جامع تصور کے بارے میں کوئی اشتباہ پیدا نہ ہوا.ذاتی طور پر راقم کو ان محاضرات سے دو فائدے حاصل ہوئے، ایک تو رواروی میں لکھی ہوئی عبارت میں بعض الفاظ کے بے محل استعمال سے جو مغالطے پیدا ہوئے اُن کی اصلاح کی صورت پیدا ہوگئی اور دوسرے یہ کہ راقم کو اپنے فکر کی مجموعی تصویب مولانا سعید احمد اکبر آبادیؒ ، مولانا مفتی سیاح الدین کاکاخیلؒ ، مولانا سید عنایت اللہ شاہ بخاریؒ ، مولانا سید مظفر حسین ندویؒ اور ڈاکٹر بشیر احمد صدیقیؒ ایسے اصحاب علم وفضل سے حاصل ہوئی جس سے ؎ متفق گردید رائے بوعلی بارائے من! کے مصداق خود راقم کے اعتماد میں اضافہ ہوا. فجزاھم اﷲ عنی وعن جمع رفقاء التنظیم خیر الجزائ. آمین‘‘ 

اس باب کا حصہ ب بانیٔ تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسرار احمدؒ کے ۱۹۸۳ء کے ایک خطاب پر مشتمل ہے. پس منظر کچھ یوں ہے کہ ۱۹۸۳ء کے اوائل میں شہر کراچی کی جامع مسجد ناظم آباد، بلاک ۴، نزد ھادی مارکیٹ میں درس قرآن کا پانچ روزہ پروگرام ترتیب دیا گیا تھا جس میں بانیٔ محترمؒ نے قرآن حکیم کی دو سورتوں (سورۃ الحدید اور سورۃ الصّف) کا درس ان پانچ دنوں میں مکمل کیا. درس کی تکمیل کے متصلاًبعد جمعہ کا دن تھا چنانچہ محترم ڈاکٹر صاحبؒ نے خطابِ جمعہ میں نہایت عام فہم اور مؤثر انداز میں ’’دینی فرائض کا جامع تصور‘‘ کے موضوع پر تقریر فرمائی. جسے اولاً ہمارے بزرگ محترم شیخ جمیل الرحمن صاحبؒ نے ٹیپ کی ریل سے صفحۂ قرطاس پر منتقل کیا اور کتابچہ کی صورت میں طبع کروایا. بعدازاں مرکزی انجمن خدام القرآن کے مدیر شعبۂ مطبوعات محترم حافظ خالد محمود خضر صاحب نے اس کے حسنِ ظاہری ومعنوی میں مزید اضافہ کرکے نظر ثانی شدہ ایڈیشن شائع کیا الحمد للہ اس خطاب کے ستّر ہزار سے زائد نسخے طبع ہوکر بندگانِ خدا تک پہنچ چکے ہیں اور بجا طور پر اسے تنظیم اسلامی کے لٹریچر کا رکنِ رکین قرار دیا جاسکتا ہے. زیر نظر تالیف میں اس خطاب کی افادیت اورقوت ابلاغ کی بنا پر اسے شاملِ اشاعت کیا جارہا ہے.

یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اس باب کے حصہ الف اور حصہ ب کے مابین اجمال اور تفصیل کی نسبت پائی جاتی ہے.(مرتب) 



فرائض دینی کا جامع تصور

(حصہ الف. مختصر تحریر)

٭ تمہید: علمِ اور عمل 

انسانی شخصیت کے دو رُخ ہیں: ایک عِلم دوسرے عمل اسلام میں علمِ صحیح کا مظہرِ اتم ’ایمان‘ ہے جبکہ عمل ِ صحیح کی اساس تصورِ فرائض پر قائم ہے. ’ایمان‘ انسان کو علمِ حقیقت ہی عطا نہیں فرماتا صحیح محرک عمل بھی دیتا ہے، اس اعتبار سے اوَّلین اہمیت اسی کی ہے، چنانچہ ایمان کی ماہیت، اس کی تفاصیل، اس کے درجات، اس کے حصول کے ذرائع اور اس کے لوازم و ثمرات اہم ترین موضوعات ہیں لیکن موجودہ محاضرات میں اصل بحث ان پر نہیں بلکہ ’تصورِ فرائضِ دینی‘ پر ہے!

٭ تین اساسی فرائض 
ایک مسلمان کے ’اساسی دینی فرائض‘ تین ہیں:

(۱) ایک یہ کہ وہ خود صحیح معنی میں اللہ کا بندہ بنے!

٭ اس کے لئے چار اساسی اصطلاحات ہیں: اسلام، اطاعتِ خدا و رسول، تقویٰ اور عبادت.
٭ یہ کیفیات انسان میں ہمہ تن، ہمہ وقت اور ہمہ وجوہ مطلوب ہیں نہ کہ جزوقتی اِلّا یہ کہ کبھی غفلت کے باعث یا جذبات کی رَو میں بہہ کر یا ماحول کے اثرات سے مغلوب ہو کر کوئی غلط حرکت سرزد ہو جائے، تو اس پر فوری توبہ اللہ کے یہاں مقبول ہو گی.(النساء: ۱۷)
اس کے برعکس اگر جان بوجھ کرکوئی بھی بڑا گناہ مستقل طور پر اختیار کر لیا گیا اور اس پر اصرار ہوا تو اس سے نہ صرف تمام نیکیوں کے ضائع چلے جانے یعنی حبطِ اعمال کا اندیشہ ہے بلکہ اس کا بھی خطرہ ہے کہ 
’’المعاصی بریدُ الکفر‘‘ کے مطابق ایمان بالکل زائل ہو جائے اور انسان خلود فی النار کا مستحق ہو جائے. اِلَّا یہ کہ حقیقی اور واقعی ’اضطرار‘ موجود ہو.!!
(۲) دُوسرے یہ کہ دوسروں کو حتی المقدور اسلام کی تبلیغ کرے اور دین کی دعوت دے! 
٭ اس کے لئے یوں تو بے شمار اصطلاحات ہیں جیسے انذار،تبشیر، تذکیر، وعظ، نصیحت، وصیت، تعلیم، تبیین، تلقین، وغیرہ.لیکن اہم تر اصطلاحات چار ہی ہیں (۱)تبلیغ (۲)دعوت (۳)امر بالمعروف و نہی عن المنکر (۴)شہادت علی الناس 

٭ یہ خود انسان کی اپنی شرافت و مروت کا تقاضا بھی ہے اور ابنائے نوع کی ہمدردی و خیر خواہی کا تقاضا بھی ، لیکن سب سے بڑھ کر یہ سید المرسلین محمدٌ رسول اللہ  پر ختمِ نبوت کا منطقی نتیجہ ہے کہ اب تا قیامِ قیامت تمام انسانوں پر اللہ اور اس کے رسولؐ کی جانب سے اتمامِ حجت یعنی ’’شہادت علی الناس‘‘ کی ذمہ داری بحیثیتِ مجموعی اُمَّت محمد علی صاحبہا الصلوٰۃ والسّلام کے کندھوں پر ہے!

(۳) تیسرے یہ کہ وہ اللہ کے کلمے کی سربلندی اور اس تعالیٰ کے دینِ حق کے بالفعل قیام اور غلبے کے لئے تن، من ، دھن سے کوشاں ہو.

٭ اس کیلئے قرآن حکیم کی پانچ اساسی اصطلاحات ہیں: تکبیرِ رب، اقامتِ دین 
، ’’اِظْہَارُ دِیْنِ الْحَقِّ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ‘‘ ’’لِیَکُوْنَ الدِّیْنُ کُلُّــہٗ لِلّٰہِ ‘ ‘ اور ’ ’لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ‘‘. 
٭ حدیث نبویؐ میں ایک چھٹی اصطلاح وارد ہوئی ہے: 
’’لِتَکُونَ کَلِمَۃُ اللّٰہِ ھِیَ الْعُلْیَا‘‘ اور 
٭ تین عام فہم تعبیرات ہیں: قیامِ حکومتِ الٰہیہ، نفاذِ نظامِ اسلامی، اور اسلامی انقلاب!
متذکرہ بالا تین فرائض کی باہمی نسبت اور اُن کا ایمان اور ارکانِ اسلام کے ساتھ ربط و تعلق ایک ایسی سہ منزلہ عمارت کی مثال سے خوب واضح ہو جاتا ہے جس کی

(i) ایک زیر زمین بنیاد ہے جو نظر نہیں آتی لیکن پوری عمارت کی مضبوطی اور پائیداری کا دارومدار اسی پر ہے. 
(ii) اسی بنیاد کا ایک حصہ زمین سے باہر ہے جو نظر آتا ہے جسے عرفِ عام میں ’کرسی‘ اور انگریزی میں Plinth کہتے ہیں.
(iii) پہلی منزل پر صرف چار ستون ہیں، دیواریں تعمیر نہیں کی گئیں، ظاہر ہے کہ اُوپر کی پوری تعمیر کا وزن ان ہی کے ذریعے بنیاد تک پہنچتا ہے.
(iv) ستونوں پر پہل چھت قائم ہے . (v)دوسری چھت بھی اگرچہ ان ستونوں ہی پر قائم ہے لیکن دیواروں کی تعمیر کے باعث ستون نظر نہیں آتے. (v)اس کے اُوپر تیسری اور آخری چھت ہے اور اُس کا بھی معاملہ یہی ہے !

اس مثال میں : (ا)زیرِ زمین بنیاد ایمان کا ’’تصدیقٌ بالقلب‘‘ والا حصہ یعنی یقینِ قلبی ہے! 
(ب) بنیاد کا نظر آنے والا حصہ ’’اقرارٌ باللّسان‘‘ یعنی کلمہ شہادت! (ج)چار ستون چار عبادات کی نمائندگی کرتے ہیں یعنی نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج. (د)پہلی چھت اسلام، اطاعت، تقویٰ اور عبادت کی نمائندگی کرتی ہے (ھ )دوسری چھت تبلیغ، دعوت، امر بالمعروف و نہی عن المنکر اور شہادت علی الناس سے عبارت ہے ____اور (و) تیسری اور آخری چھت تکبیرِ رب، اقامتِ دین، اظہارِ دین، اعلاء کلمۃ اللہ یا قیامِ حکومتِ الٰہیہ کی مظہر ہے ! واللہ اعلم!!

٭ تین لوازم
اِن تین اساسی فرائض سے عہدہ برآ ہونے کے لئے تین لوازم لا بُدَّ منہ ہیں:

(۱) دوامِ’جہاد فی سبیل اللہ‘ جس کا ظہور:
٭ فریضۂ اوّل کے ضمن میں (i)نفسِ امّارہ (ii)شیطانِ لعین اور اس کی ذریتِ صلبی و معنوی اور (iii)بگڑے ہوئے معاشرے کے غلط رحجانات اور دبائو کے خلاف جدّوجہد اور زور لگانے کی صورت میں ہوتا ہے اور حدیث نبویؐ کی رُو سے یہی ’افضل الجہاد‘ ہے.

٭ فریضۂ ثانی کے ضمن میں دعوت و تبلیغ کے لئے جان و مال کھپانے کی صورت میں ہوتا ہے، اور

٭ فریضۂ ثالث کے ضمن میں سر دھڑ کی بازی لگانے اورجان ہتھیلی پر رکھ کر باطل کی قوتوں سے ’بالفعل‘ اور’ بِالید‘ پنجہ آزمائی کی صورت میںہوتا ہے جس کے لئے تن ، من ،دھن لگا دینے کا عزم، حتی کہ جان دے دینے کی ’آرزو‘ کا ہونا لازمی ہے!
گویا جہاد کی پہلی منزل مجاہدہ مع النفس اور آخری منزل قتال فی سبیل اللہ! 
واضح رہے کہ اسی کا ’منفی پہلو‘ ہجرت ہے، چنانچہ اس کی بھی پہلی منزل 
’’اَنْ تھْجُرَ مَا کَرِہَ رَبُّکَ‘ ‘ہے اور آخری یہ کہ اقامتِ دین کی جدوجہد میں وقت آنے پر گھر بار، مال و منال اور اہل و عیال کو چھوڑ کر نکل جایا جائے!

جہاد کی پہلی دو منزلوں کے لئے آلہ و ہتھیار قرآن مجید ہے یعنی ’جہاد بالقرآن‘ چنانچہ مجاہدہ مع النفس‘ کا مؤثر ترین ذریعہ ہے قرآن کے ساتھ قیام اللیل یا تہجد! اور دعوت و تبلیغ کا پورا عمل بھی قرآن حکیم ہی کی اساس پر اُسی کے ذریعے ہونا چاہئے!!

تیسری اور آخری منزل پر عہدِ حاضر میں ’جہاد بالید‘ کی موزوں ترین صورت فواحش و منکرات کے خلاف پرامن مظاہرے ہیں، لیکن اس میں نوبت فقہاء کرام کی طے کردہ شرائط کے تحت قتال یعنی جہاد بالسیف تک بھی آسکتی ہے.
(۲) لُزومِ اجتماعیت، جس کا تقاضا:

٭ فریضۂ اوّل کے ضمن میں صرف صحبتِ صالح (بفحوائے: ’’کُوْنُوْا مَعَ الصَّادِقِیْنَ‘‘ )سے پورا ہو سکتا ہے.

٭ اسی طرح فریضۂ ثانی کے ضمن میں درسگاہوں، اداروں، انجمنوں اور سوسائٹیوں سے پورا ہوسکتا ہے!

٭ اسی طرح فریضۂ ثالث کے ضمن میں ’سمع و طاعت فی المعروف‘ کے ٹھیٹھ اسلامی اور عسکری اصول پر مبنی جماعت کے بغیر پورا نہیں ہو سکتا (اور یہی مراد ہے آنحضور  کے ان الفاظِ مبارکہ سے کہ: 

’’اٰمُرُکُمْ بِخَمْسٍ: بِالْجَمَاعَۃِوَالسَّمْعِ وَالطَّاعَۃِوَالْھِجْرَۃِ وَالْجِھَادِ فِی سَبِیْلِ اللّٰہِ.‘‘ (رواہ احمد والترمذی عن الحارث الاشعریؓ ) 

(۳) بیعتجو 

٭ پہلے دو فرائض کے ضمن میں ’بیعتِ سلوک و ارشاد ‘کی صورت میں کفایت کرتی ہے لیکن: 
٭ فریضۂ ثالث کے ضمن میں ’بیعت سمع و طاعت فی المعروف‘ کی صورت لازمی و لابدی ہے! چنانچہ اُسی کی جانب اشارہ ہے مسلمؒ کی روایت (عن عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما) میں جس میں آنحضور کے یہ الفاظ مبارکہ وارد ہوئے ہیں کہ ’’مَنْ مَّاتَ وَلَیْسَ فِیْ عُنُقِہٖ بَیْعَۃٌ مَاتَ مِیْتَۃً جَاھِلِیَّۃً‘‘ اس لئے کہ نارمل حالات میں تو دو ہی صورتیں ممکن ہیں:

(i) اگر کم سے کم شرائط و معیارات پر اُترنے والا صحیح اسلامی نظامِ حکومت قائم ہے تو اُس کے سربراہ سے بیعتِ سمع و طاعت فی المعروف ہو گی اور (ii)اگر ایسا نہیں ہے تو صحیح اسلامی حکومت کے قیام کے لئے جدوجہد کرنے والی جماعت کے امیر کے ہاتھ پر بیعتِ سمع و طاعت فی المعروف ہو گی تیسری ممکنہ صورت صرف ایسے عظیم اور شدید فتنے ہی کی ہو سکتی ہے جس میں حدیث نبویمیں وارد الفاظ کے مطابق سویا ہوا شخص جاگنے والے سے بہتر ہو ، بیٹھا ہوا شخص کھڑے ہونے والے سے بہتر ہو اور کھڑا رہنے والا شخص چلنے والے سے بہتر ہو! اعاذنا اﷲ مِنْ ذل ک

٭ نتیجہ 

(۱) انجمن خدام القرآن کا مقصد ہے ’جہاد بالقرآن‘ یہی وجہ ہے کہ ۷۲ ؁ء میں اس کے قیام کے وقت اس کے جو ’اغراض و مقاصد‘ معین ہوئے وہ یہ تھے

(i) عربی زبانی کی تعلیم و ترویج
(ii) قرآن مجید کے مطالعہ کی عام ترغیب و تشویق
(iii) علومِ قرآنی کی عمومی نشر و اشاعت
(iv) ایسے نوجوانوں کی مناسب تعلیم و تربیت جو ’تعلیم و تعلم قرآن‘ کو مقصدِ زندگی بنا لیں اور
(v)ایک ایسی قرآن اکیڈمی کا قیام جو قرآن حکیم کے فلسفہ و حکمت کو وقت کی اعلیٰ ترین علمی سطح پر پیش کر سکے، اور 

(۲) تنظیم اسلامی ہے ’جملہ دینی فرائض‘ کی انجام دہی بالخصوص اقامتِ دین یا اسلامی انقلاب کے لئے ’بیعت ہجرت و جہاد فی سبیل اللہ و سمع و طاعت فی المعروف‘ پر مبنی خالص دینی جماعت!!