انسان کے عمل میں دو علیحدہ علیحدہ چیزیں محرک کا فریضہ انجام دیتی ہیں. ایک نیت و ارادہ اور دوسری فرائض کا صحیح شعور اور تصور. ہم نے اﷲ تعالیٰ کو اس کی توحید کے اثبات اور شرک کے اجتناب کے ساتھ ماناہے. جناب حضرت محمد پر ہمارا ایمان ہے کہ آپؐ اﷲ کے رسول ہیں.پھر یہ کہ بعث بعد الموت اور محاسبۂ اُخروی پر بھی ہمارا کامل یقین ہے .تو اس ایمان و تسلیم اور ایقان و تصدیق کا لازمی اور منطقی تقاضا یہ ہوگا کہ اﷲ اور اس کے رسول  کا جو حکم ملے وہ سرآنکھوں پر. اس کی بڑی اہمیت ہے‘ اس لیے کہ اگر یہ نیت اور ارادہ ہی نہ ہو تو آگے قدم اُٹھنے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوگا. گویا اعمالِ انسانیہ میں ’’ارادہ‘‘ کو بنیادی مقام حاصل ہوتا ہے.

آپ کو شاید معلوم ہو کہ اسی لفظ ارادہ سے اسم فاعل ’’مرید‘‘ بنتا ہے. ہمارے یہاں تزکیۂ نفس کا جو نظام عرصۂ دراز سے چلا آرہا ہے اس کا نقطۂ آغاز ہی یہ لفظ ’’مرید‘‘ ہے. ’’مرید‘‘ سے مراد وہ فرد ہے جو اس بات کا ارادہ کرلے کہ وہ دین پر چلے گا. اس مقصد کے لیے وہ کسی ایسے شخص سے اپنا تعلق جوڑتا ہے جس پر اسے اعتماد ہو کہ یہ شخص مخلص ہے‘دکاندار نہیں ہے. مزید برآں یہ اطمینان بھی ہو کہ یہ دین کو جاننے والا اور بذاتِ خود پابند شریعت اور متقی شخص ہے‘ اور یہ کہ اس کی صحبت میں اس کو دین پر چلنے میں تقویت حاصل ہوگی. ارادہ تو اس کا اپنا ہوتا ہے‘لیکن اس کے لیے تقویت بھی ضروری ہوتی ہے.چنانچہ اس مقصد کے لیے وہ کسی متقی و دین دار عالم کو اپنا مرشد تسلیم کرکے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ میں دے دیتا ہے‘یعنی بیعت کرکے یہ قول و قرار اور عہد کرتا ہے کہ وہ اپنے اس مرشد کی ہدایات پر عمل پیرا ہوگا اور دین پر چلے گا. اس تشریح سے معلوم ہوا کہ ’’مرید‘‘ وہ شخص ہے جو دین پر کاربند ہونے کے ارادے سے کسی صاحب حال سے تعلق استوار کرے.اور جس سے تعلق قائم کیا جائے وہ مزکی و مربی اور مرشد کہلاتا ہے‘جس کے لیے فی الوقت ہمارے ہاں عام طور پر لفظ ’’پیر‘‘ مروّج ہے. یہ دوسری بات ہے کہ ہم نے اپنی بے عملیوں اور کوتاہیوں کی وجہ سے جہاں دین کی بہت سی باتوں اور بہت سے کاموں کو بدنام کررکھا ہے‘وہاں پیری مریدی کے سلسلے کو بھی سخت بدنام کیا ہے. پھر واقعتا یہ سلسلہ ہمارے معاشرے میں خالص دکانداری اور محض رسم بن کر رہ گیا ہے. اِلاّ ماشاء اﷲ !

حاصل گفتگو یہ نکلا کہ پہلی ضروری چیز اپنا ارادہ ہے‘لیکن اتنی ہی ضروری چیز یہ ہے کہ یہ صحیح تصور بھی موجود ہو کہ دین کے حقیقی فرائض کیا ہیں! اگر فرائض کا تصور محدود یا ناقص ہوگا تو جو چیزیں کسی کو معلوم ہیں ان پر تو وہ عمل کرلے گا لیکن جو چیزیں اسے معلوم ہی نہیں ہیں‘ان پر ارادے کے باوجود وہ عمل کیسے کرسکے گا؟ چنانچہ میں آج کی اس صحبت میں اس دوسری بات کی وضاحت کرنا چاہتا ہوں کہ ہمارے دینی فرائض کا صحیح اور جامع تصور کیا ہے‘تاکہ پورے دین کا مکمل نقشہ ہمارے سامنے موجود ہو اور ہم صحیح طور پر اپنا جائزہ لے سکیں کہ دین کے کتنے حصے پر ہم عمل پیرا ہیں اور کتنی چیزوں پر عمل نہیں کررہے! اور کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ جن چیزوں پر عمل ہم نے چھوڑ رکھا ہے وہی چیزیں دینی لحاظ سے اہم ترین ہوں. کہیں ایسا تو نہیں کہ مغز سرے سے موجود ہی نہ ہو اور ہم صرف چھلکا پکڑے بیٹھے ہوں! شاید آپ نے یہ لطیفہ سنا ہو کہ جب پہلے پہل چائے یورپ گئی تو وہاں لوگ یہ کرتے تھے کہ چائے ابال کر پانی پھینک دیتے تھے اور پتی کھاتے تھے. تو کہیں ہمارا حال یہ تو نہیں ہے کہ دین کی اصل ذمہ داریوں اور دین کے اصل فرائض سے صرفِ نظر ہورہا ہو‘وہ سرے سے ہماری نگاہوں کے سامنے ہی نہ ہوں اور ہم اس غلط فہمی میں مبتلا ہوں کہ ہم دیندار ہیں اور پورے دین پر عمل پیرا ہیں! اس کا ازالہ اگر ہوگا تو اسی طرح کہ ہمارے سامنے دین کا پورا خاکہ اور دینی فرائض کا جامع تصور موجود ہو.