پہلی بات کے لیے اب دینی اصطلاحات نوٹ کیجیے. تھوڑے سے فرق سے اس کے لیے چار اصطلاحات ہیں: اسلام ‘اطاعت‘تقویٰ اور عبادت. 

اسلام

سب سے پہلی اصطلاح خود ’’اسلام ‘‘ ہے. اسلام کا معنی ہے گردن نہادن‘ سرِ تسلیم خم کردینا. انگریزی زبان میں اس کی تعبیر یوں ہوگی کہ ‘ to give up resistance اور to surrender . مفہوم یہ ہوا کہ سر جھکاؤ‘سرِ تسلیم خم کرو اور جو بھی حکم ملے اسے بلا چون و چرا قبول کرو. اس رویے کا نام ہے اسلام اور اس ’’اسلام‘‘ کے لیے قرآن کا تقاضا یہ ہے : 

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا ادۡخُلُوۡا فِی السِّلۡمِ کَآفَّۃً ۪ 
(البقرۃ: ۲۰۸
’’اے ایمان لانے والو! تم پورے کے پورے اسلام میں داخل ہوجاؤ.‘‘

اس میں داخلہ جزوی طور پر نہیں ہوسکتا کہ کچھ احکام پر تو سرِ تسلیم خم ہے اور کچھ احکام پر عمل کرنے سے انکار و اعراض‘سرتابی اور سرکشی! اس کا نام اسلام نہیں ہے. یہاں تو اصول یہ ہے کہ ماننا ہے تو پورا مانو‘ورنہ چھوڑو اور دفع ہوجاؤ. (Take it all or leave it all) یہاں بیچ بیچ کی بات نہیں چلے گی. 

اطاعت
یہ اسی طرزِ عمل کے لیے دوسری اصطلاح ہے. اب معاملہ ذرا آگے بڑھ گیا ہے. لفظ اسلام میں تو مقاومت و مخالفت‘ (resistance) ترک کرکے خود کو حوالے‘ (surrender) کردینے کا مفہوم تھا‘جبکہ اطاعت کا لفظ ’’طوع‘‘ سے بنا ہے‘جس کا معنی ہے دلی آمادگی. اردو میں ہم ’’بطوعِ خاطر‘‘ کے الفاظ بولتے اور لکھتے ہیں. گویا دلی آمادگی کے ساتھ فرماں برداری قبول کرلینے کے رویے کا نام اطاعت ہے. اور اس کے لیے اصول یہ ہے: 

وَ اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیۡعُوا الرَّسُوۡلَ ۚ فَاِنۡ تَوَلَّیۡتُمۡ فَاِنَّمَا عَلٰی رَسُوۡلِنَا الۡبَلٰغُ الۡمُبِیۡنُ ﴿۱۲﴾ 
(التغابن) 
’’اور اطاعت کرو اﷲ کی اور اطاعت کرو رسول ( ) کی‘ اور اگر تم روگردانی کرتے ہو تو جان لو کہ ہمارے رسول پر سوائے واضح طور پر (ہدایات و تعلیماتِ ربّانی) پہنچانے کے اور کوئی ذمہ داری نہیں ہے.‘‘

یہاں بھی وہی انداز ہے جو میں اسلام کے ضمن میں عرض کرچکا ہوں‘یعنی یہاں بھی ’’all or none law‘‘ کارفرما ہے. ہمارے نبیؐ کے ذمہ پہنچانا تھا ‘سو انہوں نے پہنچا دیا‘ اب تم اپنا رُخ کسی اور طرف کرنا چاہتے ہو‘اس دعوت سے اعراض اختیار کرنا چاہتے ہو تو تم اپنی اس سرتابی و سرکشی کے خود ذمہ دار ہوگے. تو اسلام اُدْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَافَّۃً کے تقاضے اور اطاعت کے مطالبے کے ساتھ مطلوب ہے. پھر یہ اطاعت بھی ہمہ تن اور ہمہ جہت درکار ہوگی. یہاں بھی یہ نہیں ہوگا کہ کچھ حکم مانیں گے اور کچھ حکم نہیں مانیں گے.

تقویٰ

اس ضمن میں یہ تیسری اصطلاح ہے. اسلام اور اطاعت انسان کے مثبت رویے اور طرزِ عمل کے مظاہر ہیں. ان ہی کو منفی اسلوب سے بیان کیا جائے گا تو وہ ہوگا ’’تقویٰ‘‘. اس کا مفہوم ہے اﷲ
تعالیٰ کے احکام کو توڑنے سے بچنا‘اس کی نافرمانی سے احتراز کرنا‘اس کی ناراضی کا خوف رکھنا‘اس کی سزا سے ڈرنا‘اس سے بچنے کی کوشش کرنا. اس کے لیے تراجم میں ’’پرہیز گاری‘‘ کا لفظ بھی استعمال ہوتا ہے اور ’’ڈرنا‘‘ بھی‘لیکن کسی اصطلاح کے ایک لفظ میں ترجمہ سے اس کا صحیح اور مکمل مفہوم ادا نہیں ہوتا. سورۂ آل عمران میں فرمایا گیا: 
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ حَقَّ تُقٰتِہٖ وَ لَا تَمُوۡتُنَّ اِلَّا وَ اَنۡتُمۡ مُّسۡلِمُوۡنَ ﴿۱۰۲﴾ 

’’اے ایمان والو! اﷲ کا تقویٰ اختیار کرو جیسا کہ اس کے تقویٰ کا حق ہے‘ اور تم کو ہرگز موت نہ آئے مگر اس حال میں کہ تم مسلم ہو.‘‘

سورۂ آل عمران کی اس آیت مبارکہ میں سلبی رویہ ’’تقویٰ‘‘ اور مثبت رویہ ’’اسلام‘‘ دونوں کا ذکر نہایت جامعیت کے ساتھ آیا ہے.

(۴) عبادت:اس ضمن میں یہ چوتھی اصطلاح ہمہ گیر اور جامع ترین بلکہ اصل اصطلاح ہے. یہاں بات اور آگے بڑھی. دینی اعتبار سے لفظ عبادت کا اصطلاحی مفہوم ہوگا ’’کسی کی محبت سے سرشار ہوکر ہمہ تن‘ہمہ وجوہ اور ہمہ وقت اس کی بندگی میں اپنے آپ کو دے دینا.‘‘ قرآن حکیم میں انسان کی تخلیق کا مقصد ہی اﷲ کی عبادت قرار دیا گیا ہے. چنانچہ سورۃ الذاریات میں الفاظ وارد ہوئے ہیں: 

وَ مَا خَلَقۡتُ الۡجِنَّ وَ الۡاِنۡسَ اِلَّا لِیَعۡبُدُوۡنِ ﴿۵۶﴾ 

’’میں نے جنوں اور انسانوں کو پیدا ہی اس لیے کیا ہے کہ وہ میری بندگی کریں.‘‘
گویا انسان کا مقصدِ حیات ہی بندگی ہے‘غایتِ تخلیق ہی بندگی ہے. 


(۴) عبادت

کے مفاہیم و معانی اور مقتضیات و مقدرات پر اس سے قبل بارہا گفتگو ہوئی ہے‘آج ان سب کو جامعیت کے ساتھ آپ کے سامنے بیان کرنے کی کوشش کروں گا. عربی کے لفظ عبادت کا مفہوم فارسی کے دو الفاظ کو‘جو اردو میں بھی مستعمل ہیں‘جمع کرکے ادا کیا جاسکتا ہے. وہ دو الفاظ ہیں بندگی اور پرستش. بندگی میں اطاعت کا پہلو ہے اور پرستش میں محبت کا! بندہ کے معنی ہیں غلام اور غلام ہمہ وقت اور ہمہ تن غلام ہوتا ہے. غلامی اور ملازمت میں یہی تو فرق ہے کہ ملازمت کسی معین کام کے لیے ہوتی ہے.مثلاً جو شخص جھاڑو دینے پر ملازم ہے وہ جھاڑو ہی دے گا‘کوئی اور کام تو نہیں کرے گا. اسی طرح جو باورچی کی حیثیت سے ملازم ہے وہ آپ کے گھر کا فرش تو صاف نہیں کرے گا. پھر ملازمت معین وقت کے لیے ہوتی ہے. ملازم سے یہ طے کیا جاتا ہے کہ اسے چار گھنٹے کام کرنا ہے یا چھ یا آٹھ گھنٹے. اس کے بعد وہ آپ کا ملازم نہیں. لیکن غلامی یا بندگی ہمہ وقت اور ہمہ تن ہوتی ہے. شیخ سعدیؒ نے بہت خوبصورتی سے شعر کے پیرائے میں اس مفہوم کی ترجمانی کی ہے کہ : ؎

زندگی آمد برائے بندگی
زندگی بے بندگی شرمندگی

پس ذہن میں رکھئے کہ بندگی کے معنی ہیں ہمہ وقت‘ہمہ تن اور ہمہ وجوہ اطاعت. لیکن محض بندگی یا غلامی ’’عبادت‘‘ نہیں ہے جب تک کہ اس میں پرستش شامل نہ ہو. پرستش میں محبت کا جذبہ ہوتا ہے. زرپرست وہ ہے جس کو مال سے انتہائی محبت ہو. وطن پرست‘قوم پرست اور شہرت پرست جیسے الفاظ ہمارے ہاں کثرت سے مستعمل ہیں. پرستش اور پرستاری ہمارے جانے پہچانے الفاظ ہیں. ’’پرستار‘‘ ہم بولتے ہیں ’’انتہائی محبت کرنے والے‘‘ کے معنی و مفہوم میں. چنانچہ عبادت کا مفہوم ہوگا اﷲ کی بندگی اور اس کی پرستش.