یہ چار اصطلاحات ہیں جن سے دین کا پہلا اور بنیادی تقاضا ہمارے سامنے آتا ہے. لیکن اس ضمن میں اصل شے سمجھنے کی یہ ہے کہ زندگی کے ہر شعبے کو اﷲ کی اطاعت کے دائرے میں لانے کا نام بندگی ہے. اسلام میں جزوی اطاعت کی مطلقاً گنجائش نہیں ہے‘اس کا مطالبہ کلی اطاعت ہے اس ضمن میں ایک آیت مَیں آپ کو سنا چکا ہوں‘ یعنی : یٰٓــاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَافَّۃً .ایک دوسری آیت اور ملاحظہ کیجیے جس سے یہ بات مزید واضح ہوجاتی ہے. اگرچہ اس آیت میں خطاب یہود سے ہے‘لیکن یہ بات جان لیجیے کہ اﷲ کی سنت تبدیل نہیں ہوتی. یہود کو قرآن نے اُمت مسلمہ کے لیے نشانِ عبرت کے طور پر پیش کیا ہے. اگر اُمت مسلمہ بھی یہ روش اختیار کرتی ہے جس کا تذکرہ اس آیت میں یہود کے حوالے سے کیا گیا ہے تو پھر ان کے لیے بھی وہی سزا ہوگی جس کے مستحق یہود قرار دیے گئے تھے. فرمایا: 

اَفَتُؤۡمِنُوۡنَ بِبَعۡضِ الۡکِتٰبِ وَ تَکۡفُرُوۡنَ بِبَعۡضٍ ۚ فَمَا جَزَآءُ مَنۡ یَّفۡعَلُ ذٰلِکَ مِنۡکُمۡ اِلَّا خِزۡیٌ فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ۚ وَ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ یُرَدُّوۡنَ اِلٰۤی اَشَدِّ الۡعَذَابِ ؕ وَ مَا اللّٰہُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعۡمَلُوۡنَ ﴿۸۵﴾ ( البقرۃ) 

’’کیا تم(ہماری) کتاب کے ایک حصے کو مانتے ہو اور ایک کا انکار کرتے ہو؟ پس تم میں سے جو کوئی بھی یہ حرکت کرے گا اس کی سزا اِس کے سوا کچھ نہیں کہ دنیا میں اسے ذلیل و خوار کردیا جائے ‘اور قیامت کے دن انہیں شدید ترین عذاب میں جھونک دیا جائے گا‘ا ور جو کچھ تم کرتے ہو اﷲ اس سے غافل نہیں ہے.‘‘ یہ وعید اس لیے ہے کہ یہ طرزِ عمل کہ کچھ باتوں کو ماننا اور کچھ کو نہ ماننا‘ اس کے ڈانڈے درحقیقت منافقت سے جڑ جاتے ہیں. یہ دو عملی ہے‘دو رنگی ہے‘یہ دو رُخاکردار ہے‘جبکہ اﷲ کو یک رنگی درکار ہے.ازروئے الفاظِ قرآنی: صِبۡغَۃَ اللّٰہِ ۚ وَ مَنۡ اَحۡسَنُ مِنَ اللّٰہِ صِبۡغَۃً (البقرۃ:۱۳۸’’(ہم نے تو) اللہ کا رنگ (اختیار کر لیا ہے)‘ اور اللہ کے رنگ سے بہتر کس کا رنگ ہو سکتا ہے؟‘‘ پس دو رنگی منافقت ہے اور منافقت وہ روگ ہے جس کے بارے میں قرآن حکیم نے صراحت کی ہے کہ : 

اِنَّ الۡمُنٰفِقِیۡنَ فِی الدَّرۡکِ الۡاَسۡفَلِ مِنَ النَّارِ ۚ وَ لَنۡ تَجِدَ لَہُمۡ نَصِیۡرًا ﴿۱۴۵﴾ۙ 
‘(النساء) 
’’یقینا منافق جہنم کے سب سے نچلے طبقے میں رہیں گے ‘اور وہ اپنے لیے کوئی مددگار نہیں پائیں گے.‘‘

جن حضرات کو بھی قرآن مجید سے تھوڑا بہت شغف ہے‘وہ اس بات کو جانتے ہوں گے کہ اﷲ تعالیٰ کا غضب کافروں پر اتنا نہیں بھڑکتا جتنا منافقوں پر بھڑکتا ہے. سورۃ الصف میں ہم نے ان دو آیات کا مطالعہ بھی کیا ہے: 

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لِمَ تَقُوۡلُوۡنَ مَا لَا تَفۡعَلُوۡنَ ﴿۲﴾کَبُرَ مَقۡتًا عِنۡدَ اللّٰہِ اَنۡ تَقُوۡلُوۡا مَا لَا تَفۡعَلُوۡنَ ﴿۳﴾ 

’’اے اہل ایمان! وہ بات کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں ہو؟ یہ بات اﷲ کے نزدیک سخت بیزاری پیدا کرنے والی ہے کہ تم جو کہو اس کو کرو نہیں!‘‘

ہم اپنے آپ کو کہتے ہیں مسلم اور مسلم کا معنی ہے مطیع فرمان. جبکہ ہمارا حال یہ ہے کہ ہم اﷲ کے احکام کو اُٹھا کر پس پشت ڈال دیتے ہیں. ہم کہتے ہیں کہ ہم اﷲ کے بندے ہیں.بندے کا معنی ہے غلام. اس حیثیت سے ہمیں اﷲ کے تمام احکام ماننے چاہئیں‘ان پر عمل کرنا چاہیے. جس کو اس نے حرام ٹھہرایا ہے اسے ترک کرنا چاہیے اور جن چیزوں کو واجب اور فرض قرار دیا ہے ان کو ادا کرنا چاہیے. اگر ہم اﷲ کے ان احکام کو جو ہمیں پسند نہ ہوں‘پس پشت ڈال دیں تو ہم پر یہ بات بالکل صادق آئے گی کہ 
لِمَ تَقُوۡلُوۡنَ مَا لَا تَفۡعَلُوۡنَ !!