(۳) امر بالمعروف و نہی عن المنکر

یہ اصطلاح بڑی اہم ہے. امر بالمعروف کا مطلب ہے نیکی کا پرچار‘نیکی کی تلقین‘ نیکی کا حکم. اور نہی عن المنکر سے مراد ہے بدی اوربُرائی سے لوگوں کو روکنا‘بدی اور بُرائی کی اشاعت کے آڑے آنا. اور اگر قوت و طاقت میسر ہو تو بدی اور بُرائی کو بزور روکنا. اس کے لیے حدیث میں یہ الفاظ وارد ہوئے ہیں: 

( (مَنْ رَاٰی مِنْکُمْ مُنْکَرًا فَلْیُغَیِّرْہُُ بِیَدِہٖ‘ فَاِنْ لَمْ یَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِہٖ‘ فَاِنْ لَمْ یَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِہٖ‘ وذٰلِکَ اَضْعَفُ الْاِیْمَانِ 
(۱
’’تم میں سے جو کوئی بھی کسی منکر کو دیکھے اس کا فرض ہے کہ وہ اسے اپنے ہاتھ سے (یعنی طاقت سے) بدلے. اگر اس کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو اپنی زبان سے (یعنی تلقین و نصیحت سے اس بُرائی کو روکے). اگر اس کی بھی طاقت نہ رکھتا ہو تو اپنے دل سے(اس کے خلاف نفرت کا اظہار کرے) اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے.‘‘

یعنی کم از کم دل میں کڑھن تو ہو. اگر یہ کڑھن بھی نہ ہو تو اس کیفیت کے لیے دوسری حدیث میں یہ الفاظ آئے ہیں: 

…وَلَـیْسَ وَرَائَ ذٰلِکَ مِنَ الْاِیْمَانِ حَبَّۃُ خَرْدَلٍ 
(۲’’…اور اس کے بعد تو ایمان رائی کے دانے کے برابر بھی موجود نہیں.‘‘

یعنی تم بدی کو دیکھو‘منکر کو دیکھو‘اور تمہارے احساسات پرجوں بھی نہ رینگنے پائے. بُرائی کو دیکھتے ہوئے گزر جائو لیکن یہ صدمہ بھی نہ ہو کہ یہ کیوں ہورہا ہے‘کیوں میرے ہاتھ میں اتنی طاقت نہیں ہے کہ میں اس کو روک سکوں! اگر یہ کیفیت ہے تو جان لو کہ ایمان رائی کے دانے کے برابر بھی دل میں موجود نہیں. اور یہ فتویٰ 
(۱) صحیح مسلم‘ کتاب الایمان‘ باب بیان کون النھی عن المنکر من الایمان… عن ابی سعید الخدریص.

(۲) ایضاً . عن عبد اللّٰہ بن مسعودص. 
کس کا ہے؟ یہ حقیقی مفتی ٔاعظم محمدٌ رسول اﷲ  کا فتویٰ ہے. ان کا فتویٰ کون ردّ کرے گا؟ اور اگر ردّکرے گا تو کیا ایمان سلامت رہ جائے گا؟