تیسرا فریضہ دین کو قائم کرنا

اب آئیے تیسری ذمہ داری کی طرف یعنی یہ کہ دین کو قائم کیا جائے. ایک ہے تبلیغ و دعوت یعنی دین کو پھیلانا‘اسے دوسروں تک پہنچانا‘اس کی طرف لوگوں کو بلانا اور ایک ہے اسے قائم و غالب کرنا. ان دونوں میں بڑا فرق ہے. اسلام اگر ایک مکمل نظامِ حیات ہے‘جیسا کہ فی الواقع وہ ہے اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الْاِسْلاَمُ تو اسے بالفعل قائم کیا جانا چاہیے. ہم یہ بات بڑے فخر سے کہا کرتے ہیں کہ ہمارا دین ایک مکمل ضابطہ ٔحیات ہے. آج پاکستان میں شاید ہی کوئی پڑھا لکھا شخص ایسا ہو جو یہ بات نہ جانتا ہو اور نہ کہتا ہو. یہ فکر بڑا عام ہے. کم از کم ہمارے دروس و خطابات کے سامعین اور ہمارے لٹریچر کے قارئین میں سے تو کوئی شخص ایسا نہیں ہوسکتا جو اس بات کو جانتا نہ ہو.

تو اگر یہ دین ایک مکمل نظامِ حیات ہے تو اس کو قائم کیوں نہیں کرتے! یہ صرف تبلیغ و تلقین کی خاطر‘یا محض تحقیقی مقالے لکھنے اور چھاپنے کی غرض سے‘یا مدح سرائی کرنے اور قصیدے کہنے کے لیے تو نہیں ہے. نظام اگر بالفعل قائم ہو تو اسے نظام کہا جائے گا‘ورنہ وہ نظام ہے ہی نہیں. پھر تو وہ محض ایک خیالی جنت ( Utopia) ہے یا ایک ایسا نظریہ جس کا عمل کی دنیا سے کوئی تعلق نہ ہو!

اس تیسری ذمہ داری کے لیے قرآن حکیم میں ہمیں چار اصطلاحات ملتی ہیں‘جن میں سے دو مکی سورتوں میں وارد ہوئی ہیں اور دو مدنی سورتوں میں.