یہ اصطلاح مکی سورتوں میں سے سورۃ المدثر میں آئی ہے‘جہاں فرمایا گیا: وَرَبَّکَ فَکَبِّرْ ’’اور اپنے ربّ کو بڑا کرو!‘‘ آپ شاید حیران ہوں کہ میں نے یہ کیا ترجمہ کیا ہے!… تو جان لیجیے کہ تکبیر کا لفظی معنی ہے کسی شے کو بڑا کرنا. تصغیر کا معنی ہے کسی شے کو چھوٹا کرنا. سوال پیدا ہوتا ہے کہ ربّ کو بڑا کرنا چہ معنی دارد؟ وہ تو بذاتہٖ بڑا ہے‘لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ دنیا والے اس کی بڑائی کو عملاً تسلیم نہیں کررہے. چنانچہ تکبیر ربّ سے مراد ہے اس کی بڑائی کو منوانا‘اسے تسلیم کرانا اور تشریعی معاملات میں اسی کے حکم کی تنفیذ کرنا. جیسا کہ فرمایا گیا :اِنِ الْحُکْمُ اِلاَّ لِلّٰہِ اور بقول علامہ اقبال : ؎

سروری زیبا فقط اُس ذاتِ بے ہمتا کو ہے
حکمراں ہے اک وہی باقی بتانِ آزری!

غور کیجیے کہ اس لحاظ سے تو وہ کہیں بڑا نظر نہیں آتا! بڑے تو ہم بنے بیٹھے ہیں. کیا آج ہمارا طرزِ عمل یہی نہیں ہے کہ حکم تو بس ہمارا چلے گا‘ہم نہیں جانتے کہ اللہ کون ہے! بتایئے‘ آج پوری دنیا کا یہ رویّہ ہے کہ نہیں؟ ہم اذانوں میں کہہ دیتے ہیں ’’اﷲ اکبر‘‘.جلسوں اور جلوسوں میں ’’نعرۂ تکبیر‘‘ کے جواب میں فلک شگاف انداز میں کہہ دیتے ہیں ’’اﷲ اکبر‘‘ … لیکن کہنے کو جتنا چاہیں کہہ لیں کہ اﷲ سب سے بڑا ہے‘حقیقت میں اﷲ کہاں بڑا ہے؟ اس کی بڑائی اور اس کی کبریائی نظام حیات میں تو بالفعل کہیں بھی نافذ نہیں. حالانکہ ’’تکبیر ربّ‘‘ کا اصل تقاضا یہ ہے کہ وہ نظام قائم کیا جائے جس میں اﷲ کی حاکمیت مطلقہ 
(Absolute Sovereignty) کو تسلیم کیا جائے‘مانا جائے کہ آخری اختیار اُس کا ہے اور آخری فیصلہ اُس کے ہاتھ میں ہے. یہ نظام قائم کرو گے تو تکبیر ربّ کا تقاضا پورا ہوگا.

دیکھئے ‘نبی اکرم کو بذریعہ وحی پہلا حکم ملا:اِقْرَاْ. پہلی وحی میں تبلیغ اور دعوت کا کوئی ذکر نہیں‘ البتہ ’’اِقْرَاْ‘‘ دو مرتبہ آیا ہے: 

اِقۡرَاۡ بِاسۡمِ رَبِّکَ الَّذِیۡ خَلَقَ ۚ﴿۱﴾خَلَقَ الۡاِنۡسَانَ مِنۡ عَلَقٍ ۚ﴿۲﴾اِقۡرَاۡ وَ رَبُّکَ الۡاَکۡرَمُ ۙ﴿۳﴾الَّذِیۡ عَلَّمَ بِالۡقَلَمِ ۙ﴿۴﴾عَلَّمَ الۡاِنۡسَانَ مَا لَمۡ یَعۡلَمۡ ؕ﴿۵﴾ 
(العلق) 

دوسری وحی سورۃ المدثر کی ابتدائی آیات ہیں. وہاں باقاعدہ خطاب سے بات شروع ہوئی: 
یٰۤاَیُّہَا الۡمُدَّثِّرُ ۙ﴿۱﴾ ’’اے لحاف میں لپٹ کر لیٹنے والے!‘‘ خطاب کے بعد پہلا حکم ملا: قُمۡ فَاَنۡذِرۡ ۪ۙ﴿۲﴾وَ رَبَّکَ فَکَبِّرۡ ۪﴿ۙ۳﴾ کھڑے ہوجاؤ‘کمربستہ ہو جاؤ‘ مستعد ہوکر اپنا فرضِ منصبی ادا کرو! دو کام کرو‘ انذار اور تکبیر ربّ! بنی نوع انسان کو خبردار اور آگاہ کرو‘نیند کے ماتوں کو جگائو کہ کس دھوکے میں پڑے ہوئے ہو‘زندگی صرف یہ زندگی نہیں ہے‘ اصل زندگی وہ ہے جو موت کے بعد آئے گی. وَ مَا ہٰذِہِ الۡحَیٰوۃُ الدُّنۡیَاۤ اِلَّا لَہۡوٌ وَّ لَعِبٌ ؕ وَ اِنَّ الدَّارَ الۡاٰخِرَۃَ لَہِیَ الۡحَیَوَانُ ۘ لَوۡ کَانُوۡا یَعۡلَمُوۡنَ ﴿۶۴﴾ (العنکبوت) کہ اے لوگو! اچھی طرح جان لو‘یہ دنیا کی زندگی عارضی زندگی ہے اور بس ایک کھیل اور دل کا بہلاوا ہے‘اور اصل زندگی کا گھر تو آخرت کا گھر ہے‘کاش لوگوں کو سمجھ آجائے! اور یہ کہ قیامت کا دن آنے والا ہے جس دن سب کو اپنے ربّ کے حضور میں جواب دہی کے لیے لازماً کھڑے ہونا ہوگا. اَلَا یَظُنُّ اُولٰٓئِکَ اَنَّہُمۡ مَّبۡعُوۡثُوۡنَ ۙ﴿۴﴾لِیَوۡمٍ عَظِیۡمٍ ۙ﴿۵﴾ یَّوۡمَ یَقُوۡمُ النَّاسُ لِرَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ؕ﴿۶﴾ (المطفّفین) ’’کیا یہ لوگ نہیں سمجھتے کہ ایک بڑے دن (یعنی قیامت کے روز) اٹھا کر لائے جانے والے ہیں؟ اُس دن جب پوری نوع انسانی اس کائنات کے مالک کے سامنے (جواب دہی کے لیے) کھڑی ہوگی.‘‘ انسان اس زعم میں مبتلا نہ رہے کہ یہ محض ڈراوا ہے. یہ دن آکر رہے گا اور یہی اصل ہار جیت کا دن ہوگا. ازروئے الفاظِ قرآنی: یَوْمَ یَجْمَعُکُمْ لِیَوْمِ الْجَمْعِ ذٰلِکَ یَوْمُ التَّغَابُنِ (التغابن:۹… یہ انذار ہے اور یہی نبی اکرم  کی جدوجہد کا نقطۂ آغاز ہے. لیکن جانا کدھر ہے‘ آخری منزل کون سی ہے؟ اس کا تعین اگلی آیت میں کردیا گیا: وَ رَبَّکَ فَکَبِّرۡ ۪﴿ۙ۳﴾ یعنی وہ منزل ہے تکبیر ربّ! اور آپ غور کیجیے‘تیئیس سال میں آنحضور نے تکبیر ربّ فرما دی کہ نہیں؟… یہ ماننا پڑتا ہے کہ جزیرہ نمائے عرب میں آپؐ نے وہ نظام قائم فرما دیا جس میں اختیارِ اعلیٰ (Supreme Authority) اور حاکمیتِ مطلقہ کا مالک فقط اﷲ عزوجل ہی کو تسلیم کیا گیا تھا.

خیال رہے کہ تکبیر ربّ کی ذمہ داری آنحضور کو مرتبہ رسالت پر مأمور ہونے کے وقت ہی سونپ دی گئی تھی. یہ بات میں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ بعض مفسرین کی یہ رائے ہے اور مجھے بھی اس سے اتفاق ہے کہ پہلی وحی یعنی سورۃ العلق کی ابتدائی پانچ آیات سے آنحضور کی نبوت کا اور دوسری وحی یعنی سورۃ المدثر کی ابتدائی سات آیات سے آنحضور  کی رسالت کا آغاز ہوا تھا.
واﷲ اعلم!