اسی ذمہ داری کے لیے دوسری اصطلاح اقامتِ دین ہے جو ایک دوسری مکی سورت سورۃ الشوریٰ میں وارد ہوئی. فرمایا گیا:
اَنۡ اَقِیۡمُوا الدِّیۡنَ وَ لَا تَتَفَرَّقُوۡا فِیۡہِ ؕ (آیت ۱۳)
’’دین کو قائم کرو اور اس بارے میں تفرقے میں نہ پڑو.‘‘
قائم کون سی چیز کو کہتے ہیں؟ اس کو جو کھڑی ہو. زمین پر پڑی ہوئی چیز تو قائم نہیں کہلاتی. کوئی چیز گر جائے تو کہا جاتا ہے کہ اس کو قائم کرو‘اسے کھڑا کرو. دین اگر پہلے سے قائم ہے تو اسے قائم رکھنا اہل دین کی ذمہ داری ہوگی اور اگر زمین بوس ہو تو اس کا اپنے ماننے والوں سے یہ تقاضا ہے کہ اسے قائم کریں‘اسے کھڑا کریں. اسی دین کے مطابق نظامِ معیشت و معاشرت استوار ہو‘اسی کے مطابق نظامِ حکومت و سیاست قائم ہو. اگر یہ صورت ہے تو اَقِیۡمُوا الدِّیۡنَ کا تقاضا پورا ہورہا ہے ‘اور اگر نہیں تو جان لیجیے کہ محض تلاوت اور مدح سرائی کے لیے تو یہ دین نہیں اُتارا گیا دیکھئے سورۃ المائدۃ میں فرمایا:
قُلۡ یٰۤاَہۡلَ الۡکِتٰبِ لَسۡتُمۡ عَلٰی شَیۡءٍ حَتّٰی تُقِیۡمُوا التَّوۡرٰىۃَ وَ الۡاِنۡجِیۡلَ وَ مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکُمۡ مِّنۡ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ ؕ (آیت ۶۸)
’’(اے نبی صاف صاف) کہہ دیجیے کہ اے اہل کتاب! تم ہرگز کسی اصل پر نہیں ہو جب تک کہ تم تورات اور انجیل کو اور دوسری کتابوں کو قائم نہ کرو جو تمہارے ربّ کی طرف سے نازل کی گئی ہیں.‘‘
یہاں وہی لفظ اقامت (قائم کرنا) آیا ہے. اب اس آیت میں بغرضِ تفہیم ’’ یَا اَھْلَ الْکِتَابِ‘‘ کی جگہ ’’ یَا اَھْلَ الْقُرْاٰنِ‘‘ اور ’’تورات و انجیل‘‘ کی جگہ ’’قرآن‘‘ رکھ دیجیے تو بات یوں ہوگی: یَا اَھْلَ الْقُرْاٰنِ لَسْتُمْ عَلٰی شَیْئٍ حتّٰی تُقِیْمُوا الْقُرْاٰنَ کہ اے اہل قرآن‘اے حاملانِ کتاب اﷲ! تمہاری کوئی حیثیت نہیں ہے جب تک تم قرآن کو قائم نہ کرو. قرآن حکیم اگر واقعی ضابطۂ حیات ہے‘جیسا کہ فی الواقع وہ ہے‘تو اس کو نافذ کیا جانا چاہیے. قرآن نے اگر کوئی نظام دیا ہے‘اور واقعی دیا ہے‘تو وہ نظام قائم ہونا چاہیے. یہ مختصر شرح ہوئی ’’اقامتِ دین‘‘ کی جو مکی دَور کی دوسری اصطلاح ہے.