(۳)یَکُوْن الدِّینُ کُلّہٗ لِلّٰہ

یہ تیسری اصطلاح مدنی دور کی ہے اور یہ دو سورتوں (البقرۃ اور الانفال) میں آئی ہے. سورۃ البقرۃ میں فرمایا: 

وَ قٰتِلُوۡہُمۡ حَتّٰی لَا تَکُوۡنَ فِتۡنَۃٌ وَّ یَکُوۡنَ الدِّیۡنُ لِلّٰہِ ؕ 
(آیت ۱۹۳
’’اور جنگ کرو ان (مشرکین) سے یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین اﷲ ہی کے لیے ہوجائے!‘‘

سورۃ الانفال میں بات اور آگے بڑھی. وہاں فرمایا: 

وَ قَاتِلُوۡہُمۡ حَتّٰی لَا تَکُوۡنَ فِتۡنَۃٌ وَّ یَکُوۡنَ الدِّیۡنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ ۚ 
(آیت ۳۹
’’اور(مسلمانو!) تم ان سے جنگ جاری رکھو جب تک فتنہ فرو نہ ہو جائے اور دین کُل کا کُل اللہ ہی کے لیے نہ ہو جائے.‘‘

یہ نہ ہو کہ دین کو اجزاء میں تقسیم کرلیا جائے مسجد میں نمازیں بھی پڑھی جارہی ہوں‘روزے بھی بڑے اہتمام سے رکھے جارہے ہوں‘چلیے زکوٰۃ بھی جیسے تیسے ادا کی جارہی ہو‘حج اور عمرے بھی ذوق و شوق سے ہورہے ہوں لیکن ملک میں قائم نظامِ حکومت کے ڈھانچے میں دین کو کوئی دخل نہ ہو! مالی معاملات کو ہم شریعت کے تحت لانے کے لیے کسی طور پر تیار نہ ہوں اور اس سے گریز کے لیے عذرات کا انبار لگادیں‘حدود وتعزیراتِ اسلامی کے نفاذ کا فیصلہ اگر کر بھی لیں تو اس پر عمل درآمد کے لیے عملاً کوئی پیش رفت نہ ہو. ستروحجاب کے احکام کے بارے میں ہماری سوچ یہ ہو کہ یہ زمانے کا ساتھ نہیں دے سکتے‘لہٰذا ان کے نفاذ کا 
سوال ہی پیدا نہیں ہوتا‘بلکہ اس معاملے میں دین کے احکام کی پوری ڈھٹائی سے خلاف ورزی میں ہمارے قدم آگے بڑھتے چلے جائیں اور مَرد و زن کی مساوات اور زندگی کے ہر میدان اور ہر شعبے میں دونوں کو شانہ بشانہ مواقع فراہم کرنا ہمارا نعرہ (slogan) بن جائے‘ عورت کے تقدس کو ہم برسرِ بازار نیلام کریں اور اسے اشتہار و تشہیر کی جنس بنا کر رکھ دیں.

ہمارا حال تو اتنا پتلا ہے کہ صدر ایوب کے دَور میں جو عائلی قوانین بذریعہ آرڈی نینس جاری ہوئے تھے اور جن کی اکثر دفعات کو پاکستان میں موجود تمام فرقوں کے علماء نے متفقہ طور پر خلافِ اسلام قرار دیا تھا‘ان کو قانونی طور پر شریعت کورٹ میں زیرِ بحث نہیں لایا جاسکتا. اس لیے کہ معلوم ہے کہ شریعت کورٹ خلافِ شریعت دفعات کو گوارا نہیں کرے گی اور اس طرح مغرب زدہ اور اباحیت پسند خواتین و حضرات کے ایک چھوٹے لیکن بااثر طبقے کی ناراضگی کا اندیشہ ہے اور اس طبقے کو مطمئن رکھنا ضروری ہے. گویا اﷲ تعالیٰ کی ناراضگی سے زیادہ خوف ہمیں اس مغرب زدہ اور اباحیت پسند طبقے کا ہے.اس کا مطلب یہی تو ہے کہ ہم نے دین کے حصے بخرے کردیے ہیں.ستم ظریقی ملاحظہ کیجیے کہ ’’شریعت کورٹ‘‘ کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا گیا لیکن طے کردیا گیا کہ فلاں فلاں اُمور اس کورٹ کے دائرے سے باہر ہیں‘حتیٰ کہ عائلی قوانین بھی اس کی حدودِ کار میں نہیں آتے. حالانکہ عائلی قوانین پر قرآن حکیم نے سب سے زیادہ تفصیل سے بحث کی ہے‘ اور یہ بحث ایک دو نہیں‘متعدد سورتوں میں پھیلی ہوئی ہے. ہمارے یہ عائلی قوانین وہ تھے جن کو انگریز تک نے نہیں چھیڑا تھا. یہ امر واقعہ ہے کہ انگریز نے ہمارے 
Personal Law کو ہاتھ نہیں لگایا تھا. یہ ہماری بدبختی ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے قیام کے بعد اسلام کے عائلی قوانین کی کتر بیونت کی گئی. ایک مارشل لاء آیا تو یہ مسخ شدہ غیر اسلامی قوانین نافذ ہوئے اور دوسرا مارشل لاء آیا تو اس نے ان کو تحفظ دیا. کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ جو کام غیروں نے ہمارے دورِ غلامی میں نہیں کیاوہ اپنوں نے آزادی ملنے کے بعد اپنے ہاتھوں سے کیا. تو تیسری اصطلاح ہمارے سامنے سورۃ البقرۃ اور سورۃ الانفال کی دو آیات کے حوالے سے یہ سامنے آئی کہ دین کُل کا کُل اﷲ کے لیے ہو.جیسا کہ میں نے عبادت کے ضمن میں عرض کیا تھا کہ عبادت وہی ہوگی جو پوری زندگی پر محیط ہو‘اسی طرح ’’اقامتِ دین‘‘ کے بارے میں نوٹ کرلیجیے کہ یہ اقامت پورے اور مکمل دین کی ہوگی. یہ نہیں کہ ایک حصہ ہمیں پسند نہیں‘وہ مشکل ہے‘لہٰذا وہ قائم نہ کریں‘اور جو حصہ ہمیںپسند ہے اور آسان ہے وہ قائم کردیں. یہ اﷲ اور اس کے رسول کی اطاعت نہ ہوئی بلکہ یہ تو اپنے من کی چاہت ہے جس کی پیروی کی جارہی ہے!