اس سلسلے کی چوتھی اور عظیم ترین اصطلاح وہ ہے جو سورۃ الصف میں وارد ہوئی اور جو اس سورۂ مبارکہ کی مرکزی آیت کا اصل موضوع ہے. فرمایا: ھُوَ الَّذِیْ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّینِْ کُلِّہٖ ‘(آیت۹
’’وہی ہے (اﷲ) جس نے اپنے رسولؐ ‘کو الہدیٰ اور دین حق دے کر بھیجا تاکہ وہ غالب کردے اس کو تمام جنسِ دین (یا تمام نظام ہائے اطاعت) پر.‘‘

یہ الفاظ ایک شوشے کے فرق کے بغیر سورۃ الصف کے علاوہ سورۃ التوبہ اور سورۃ الفتح میں بھی آئے ہیں. سورۃ التوبہ اور سورۃ الصف میں آخری ٹکڑا آیا: 
وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ اور سورۃ الفتح میں وَ کَفٰی بِاللّٰہِ شَہِیۡدًا .اس طرح ان تین مقامات کے حوالے سے ’’اظہارُ دینِ الحقِّ علی الدّین کُلِّہٖ‘‘ کی یہ اصطلاح سامنے آئی.

آپ نے دیکھا کہ اصطلاحات ثقیل ہوتی چلی جارہی ہیں. یہی وجہ ہے کہ میں نے اصل باتوں کو سادہ ترین الفاظ میں آپ کے سامنے رکھا. ان کا پھر اعادہ کررہا ہوں. پہلی بات یہ ہے کہ دین پر خود عمل پیرا اور کاربند ہو. دوسری یہ کہ دین کو پھیلائو. اور تیسری بات یہ کہ دین کو قائم کرو. یہ ہیں تین فرائض جو ہم پر دین کی طرف سے عائد ہوتے ہیں. کلمۂ شہادت ان کے لیے بمنزلہ بنیاد کے ہے‘اور نماز‘زکوٰۃ‘حج اور روزہ اس کے چار ستون ہیں. ان چار ستونوں پر یہ تین منزلہ عمارت کھڑی ہے. اہم ترین دینی اصطلاحات کے حوالے سے ان تین منزلوں کو (۱)عبادتِ ربّ (۲) شہادت علی الناس اور (۳) اقامتِ دین کا نام دیا جائے گا. اگر آپ کے ذہن میں دینی فرائض کا یہ تصور موجود ہے تو بنیادی خاکہ مکمل ہوگیا‘اور اگر یہ نہیں ہے اور ذہن میں صرف نماز‘زکوٰۃ‘ حج اور روزہ ہی ہیں تو پھر ستون ہی ستون ہیں‘چھت تو آپ کے سامنے ہے ہی نہیں.بغیر چھت کے جو ستون ہوتے ہیں وہ تو بطورِ یادگار کھڑے رہ جاتے ہیں‘ان کا مصرف کوئی نہیں ہوتا. وہ آثارِ قدیمہ ہوسکتے ہیں‘اور تو کوئی مقصد پورا نہیں کرتے. چنانچہ فرائض دینی کی عمارت کا خاکہ اچھی طرح ذہن نشین کرلیجیے کہ ارکانِ اسلام یعنی کلمۂ شہادت ‘نماز‘زکوٰۃ‘حج اور روزہ پر اسلام ‘اطاعت اور عبادتِ ربّ کی پہلی منزل استوار ہوتی ہے. تبلیغ و دعوت‘امر بالمعروف و نہی عن المنکر اور شہادت علی الناس اس کی دوسری منزل ہے‘جبکہ تکبیر ربّ‘اقامت ِدین‘کُل کا کُل دین اﷲ ہی کے لیے ہو اور اظہارِ دین الحق یعنی اس دین حق کو غالب و قائم کردیا جائے‘یہ تیسری منزل ہے. یہ خاکہ اپنے ذہن میں رکھئے تو آپ کے 
سامنے صحیح تصور آئے گا کہ ہمارا دین ہم سے کیا چاہتا ہے؟ ہمارے دینی فرائض کیا ہیں؟ یا یوں کہئے کہ اﷲ تعالیٰ کے ایک بندۂ مؤمن سے مطالبات کیا ہیں؟