رسول انقلابؐ کا طریقِ انقلاب

گزشتہ صفحات میں بحمدللہ یہ بات واضح کی جاچکی ہے بندۂ مومن کے دینی فرائض میں ایک اہم فریضہ، ’’فریضۂ اقامت دین‘‘ بھی ہے جس پر مفّصل بحث گزشتہ باب میں ’’دینی فرائض کے جامع تصور‘‘ کے ضمن میں ہوچکی ہے. اس حوالے سے ایک اہم سوال یہ سامنے آتا ہے کہ فی زمانہ اس فریضے کی ادائیگی کا طریقۂ کار کیا ہوگا. اسی مسئلے پر روشنی ڈالنے کے لئے بانیٔ محترمؒ نے اولاً ۸۵.۱۹۸۴ء میں مسجد دارالسلام باغ جناح لاہور میں مسلسل گیارہ خطباتِ جمعہ میں ’’منہجِ انقلابِ نبوی ‘‘ کو موضوع گفتگو بنایا اور سچی بات تو یہ ہے کہ موضوع کا حق ادا کردیا. ان خطبات کے مجموعے پر مشتمل ایک ضخیم کتاب اسی عنوان سے محترم شیخ جمیل الرحمن صاحبؒ کی کاوشوں سے منظرِ عام پر آچکی ہے اور بے پناہ افادیت کی حامل ہے. بعدازاں بانیٔ محترم ڈاکٹر اسرار احمدؒ نے اسی موضوع کو مختصر مگر حد درجہ جامعیت کے ساتھ ’’رسولِ انقلابؐ کا طریقِ انقلاب‘‘ کے عنوان سے ۱۶؍ مئی ۲۰۰۴ء کو الحمرا ہال لاہور میں اہل علم ودانش کے اجتماع میں بیان کیا جسے بعد میں ترتیب دے کر کتابچے کی صورت میں شائع کیاگیا.

تنظیمِ اسلامی نے اقامتِ دین کی جدوجہد کا جو طریقہ اسوۂ رسولؐ کی روشنی میں اختیار کیا ہے اُسے سمجھنے کے لئے یہ دونوں کتابیں انتہائی مفید ہیں. البتہ اختصار کے پیشِ نظر زیر نظر تالیف میں طریقۂ کار کی وضاحت کے لئے بانیٔ محترمؒ کے مؤخر الذکر خطاب یعنی ’’رسولِ انقلاب کا طریقِ انقلاب‘‘ کو شاملِ اشاعت کیا جارہاہے.(مرتب) 



نحمدہٗ ونصلی علٰی رَسولہِ الکریم … امَّا بَعد:
اعوذ باللّٰہ من الشَّیطٰن الرَّجیم . بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
ہُوَ الَّذِیۡۤ اَرۡسَلَ رَسُوۡلَہٗ بِالۡہُدٰی وَ دِیۡنِ الۡحَقِّ لِیُظۡہِرَہٗ عَلَی الدِّیۡنِ کُلِّہٖ ۙ 
(التوبۃ:۳۳‘ الفتح:۲۸‘ الصف:۹

وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ اِلَّا کَآفَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِیۡرًا وَّ نَذِیۡرًا 
(سبا:۲۸
لَقَدۡ کَانَ لَکُمۡ فِیۡ رَسُوۡلِ اللّٰہِ اُسۡوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنۡ کَانَ یَرۡجُوا اللّٰہَ وَ الۡیَوۡمَ الۡاٰخِرَ وَ ذَکَرَ اللّٰہَ کَثِیۡرًا ﴿ؕ۲۱﴾ 
(الاحزاب:۲۱… صدق اللّٰہ العظیم 
معزز حاضرین اور محترم خواتین‘ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

میں اپنے موضوع پر براہِ راست گفتگو سے قبل آپ کے سامنے ایک سوال رکھ رہا ہوں کہ آج اُمتِ مسلمہ کی سب سے بڑی ضرورت کیا ہے؟ ہر شخص سوچے کہ کیا مال و دولت‘ حکومت‘ تعلیم‘ ٹیکنالوجی یا جمہوریت میں سے کوئی چیز ہماری سب سے بڑی ضرورت ہے؟ میرے تجزیئے کے مطابق آج اُمتِ مسلمہ کی سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ وہ اسلامی انقلاب برپا کرنے کے اس طریقِ کار کو سمجھ لے جس طریقے پر محمد رسول اللہ نے انقلاب برپا کیا. میری سوچ کے یہ پہلو تو آپ حضرات پر واضح ہوں گے کہ اس وقت عالمی پیمانے پر اُمتِ مسلمہ جس زبوں حالی کا شکار ہے یہ اصل میں عذابِ الٰہی ہے جس میں ہم مبتلا ہیں. اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم زمین پر اللہ کے دین کے نمائندے بنائے گئے تھے‘ لیکن ہم آج پوری دنیا میں کوئی ایک ملک بھی بطور ماڈل ایسا نہیں دکھا سکتے جس کے بارے میں ہم یہ کہہ سکیں کہ لوگو آؤ‘ دیکھو‘ یہ ہے نظامِ مصطفی یہ ہیں اللہ کے دینِ حق کے قیام کی برکات!لہٰذا ہم اللہ کے عذاب کی گرفت میں ہیں. یہ بات جان لیجئے کہ اللہ کے اِذن کے بغیربھارت اور امریکہ سمیت دنیا کی کوئی طاقت ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتی. گویا اس وقت دنیا میں ہمارا جو حال ہو رہا ہے وہ اِذنِ ربّ ہی سے ہو رہا ہے. اور اس کا سبب یہ ہے کہ ہم اللہ کے دین کی صحیح نمائندگی نہیں کر رہے ‘ بلکہ اپنے عمل سے اسے 
misrepresent کر رہے ہیں. تو اس کا حل ایک ہی ہے کہ ہم کم از کم دنیا کے کسی ایک ملک میں صحیح صحیح اسلامی نظام قائم کر کے دکھا دیں. اور پھر دنیا کو دعوت دیں کہ آؤ ‘ دیکھو یہ ہے اسلام! 

ملکی اور قومی سطح پر پاکستان کے بارے میں بھی میرا یہ موقف آپ کے علم میں ہے کہ پاکستان کے خاتمے کی الٹی گنتی شروع ہو چکی ہے. اس لئے کہ یہ اپنے قیام کی وجۂ جواز کھو بیٹھا ہے. البتہ ابھی اللہ کی طرف سے ایک مہلت باقی ہے اور اب اس کے بقاء و استحکام کی صرف ایک صورت ہے کہ یہاں پر اسلامی انقلاب برپاہو. یہ ملک اسی مقصد کے لئے قائم کیا گیا تھا. بانی و مؤسس پاکستان قائد اعظم نے کہا تھا کہ ہم پاکستان اس لئے چاہتے ہیں کہ اسلام کے اصولِ حریت و اخوت و مساوات کا ایک عملی نمونہ دنیا کے سامنے پیش کریں. یہی بات مفکر و مبشر و مصورِ پاکستان علامہ اقبال نے فرمائی تھی. 
تیسری طرف یہ دیکھئے کہ عالمی سطح پر اس وقت دنیا کی سب سے بڑی قوت امریکہ اور اس کے حواری اس بات پر تُل گئے ہیں کہ دنیا میں کہیں پر اسلامی نظام کا ظہور نہ ہو . یہ وہی بات ہے جو علامہ اقبال نے ابلیس کی زبان سے کہلوائی تھی ؎

عصرِ حاضر کے تقاضائوں سے ہے لیکن یہ خوف
ہو نہ جائے آشکارا شرعِ پیغمبرؐ کہیں!

آج امریکہ اور پوری مغربی دنیا پر بالفعل یہ خوف طاری ہے کہ کہیں دنیا کے کسی کونے میں شرعِ پیغمبر ؐ ‘ کا عملی ظہور نہ ہو جائے. ظاہر بات ہے کہ 
’’جَائَ الْحَقُّ‘‘ کے بعد ’’زَھَقَ الْبَاطِلُ‘‘ اس کا لازمی نتیجہ ہے.اور یہ خوف ان پر اس درجے مسلط ہے کہ ان کی پوری گلوبل پالیسی اسی پر مرکوز ہو گئی ہے. اس لئے کہ انہیں نظر آ رہا ہے کہ عالمِ اسلام کے اندر اسلامی نظام کو قائم کرنے کا جذبہ انگڑائیاں لے رہا ہے اور یہ جذبہ ان کے اعتبار سے بہت خوفناک جذبہ ہے. اس ضمن میں کمی صرف یہ ہے کہ ابھی اُس جذبے کو صحیح راہِ عمل نہیں مل رہی اور محض جذبہ اس وقت تک ناکافی ہے جب تک اسے صحیح لائحہ عمل بھی نہ مل جائے. 

ان تینوں زاویوں کے حوالے سے میری بات جس نقطے پر آ کر مرکوز ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ اسلام کو نظامِ زندگی کے طور پر نافذ و غالب کرنے کے لئے صحیح لائحہ عمل واضح کیا جانا وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے. اور صحیح لائحہ عمل وہی ہو گاجو سیرت النبیؐ سے ماخوذ ہو. ہم نے وہ احادیث ایک جگہ جمع کر کے بہت عام کی ہیں جن سے یہ یقین پیدا ہوتا ہے کہ قیامت سے قبل پوری دنیا میں اسلام کا بول بالا ہو گا اور کفار کا ’’نیو ورلڈ آرڈر‘‘ نہیں‘ اسلام کا 
’’ ـJust World Order‘‘ پوری دنیا پر غالب ہو کر رہے گا.یہ جس ’’نیو ورلڈ آرڈر‘‘ کو دنیا پر مسلط کرنا چاہتے ہیں وہ درحقیقت ’’جیو (یہودی) ورلڈآرڈر‘‘ ہے‘ جبکہ اسلامک ورلڈ آرڈر منصفانہ اور عادلانہ نظام ہے اور اس کے بارے میں محمد رسول اللہ نے خوشخبری دی ہے کہ یہ قیامت سے قبل پوری دنیا پر غالب ہو گا.ظاہر بات ہے کہ اسلام کے عالمی غلبے کا آغاز اسی طور سے ہو گا کہ یہ نظام پہلے کسی ایک ملک میں قائم ہو گا‘ جیسے حضور کے دستِ مبارک سے ’’جَائَ الْحَقُّ وَزَھَقَ الْبَاطِلُ‘‘ کی کیفیت جزیرہ نمائے عرب میں پیدا ہوئی تھی. دنیا کے کسی ایک ملک میں بھی یہ نظام کیسے قائم ہو گا؟ ا س کے ضمن میں امامِ دار الہجرت امام مالکؒ ‘کا قول ہے : ’’لاَ یَصْلُحُ آخِرُ ھٰذِہِ الْاُمَّۃِ اِلَّا بِمَا صَلَحَ بِہٖ اَوَّلُھَا‘‘ یعنی اس اُ مت کے آخری حصے کی اصلاح نہیں ہو سکے گی‘ مگر اسی طریقے پر جس پر کہ پہلے حصے کی اصلاح ہوئی تھی. چنانچہ آج اسلامی انقلاب برپا کرنے کے لئے ہمیں محمد رسول اللہ کے انقلاب کا طریقِ کار اچھی طرح سمجھنا ہو گا اور پھر اسے apply کرنا ہو گا.

میں نے یہ چند باتیں بطور تمہید عرض کی ہیں تاکہ آج کی گفتگو کی اہمیت آپ پر واضح ہو جائے.آج غلبۂ اسلام کے لئے لوگوں کے جذبے میں کمی نہیں ہے‘ لیکن صحیح لائحہ عمل پیش نظر نہ ہونے کے باعث تحریکیں اِدھر اُدھر بھٹک رہی ہیں اور ان کا حال بالفعل یہ ہو گیا ہے کہ ؎

نشانِ راہ دکھاتے تھے جو ستاروں کو
ترس گئے ہیں کسی مردِ راہ داں کے لئے!

اسلامی انقلاب کے لئے صحیح لائحہ عمل اختیار کرنا ہو گا جو صرف اُسوۂ رسول میں ہے. ارشادِ باری تعالیٰ ہے: 
لَقَدۡ کَانَ لَکُمۡ فِیۡ رَسُوۡلِ اللّٰہِ اُسۡوَۃٌ حَسَنَۃٌ یعنی تمہارے لئے اللہ کے رسولؐ ‘ کی شخصیت اور حیاتِ طیبہ میں ایک بہت عمدہ نمونہ موجود ہے. لیکن اس ’’اسوۂ حسنہ‘‘ سے استفادے کی تین شرائط ہیں‘ جو ساتھ ہی بیان فرما دی گئی ہیں: لِّمَنۡ کَانَ یَرۡجُوا اللّٰہَ وَ الۡیَوۡمَ الۡاٰخِرَ وَ ذَکَرَ اللّٰہَ کَثِیۡرًا ﴿ؕ۲۱یعنی اس سے استفادہ وہی کر سکیں گے(۱) جواللہ سے ملاقات کے امیدوار ہیں‘ (۲) جویومِ آخرت پر یقین رکھتے ہیں‘ اور (۳) جو کثرت کے ساتھ اللہ کا ذکر کرتے ہیں .یہی لوگ اس اسوۂ حسنہ سے فائدہ اٹھا سکیں گے. جیسے قرآن ’’ھُدًی لِّلنَّاسِ‘‘ یعنی تمام نوعِ انسانی کے لئے ہدایت ہے‘ لیکن اس کی ہدایت سے فائدہ وہی لوگ اٹھا سکیں گے جس کے اندر تقویٰ موجود ہے. چنانچہ قرآن حکیم کے آغاز ہی میں واضح کر دیا گیا کہ یہ ’’ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ‘‘ ہے.