اس تمہیدی گفتگو کے بعد سب سے پہلے ہمیں یہ سمجھنا ہے کہ انقلاب کسے کہتے ہیں. اس کے لفظی معنی ہیں تبدیلی. لہٰذا ہم یہ لفظ کسی بھی لفظ کے ساتھ جوڑ کر استعمال کرلیتے ہیں. مثلاً علمی انقلاب‘ ثقافتی انقلاب‘ سائنسی انقلاب‘ فوجی انقلاب. لیکن لفظ ’’انقلاب‘‘ کے اصطلاحی مفہوم میں اس استعمال کی گنجائش نہیں. بلکہ کسی معاشرے کے سیاسی نظام‘ معاشی نظام یا سماجی نظام میں سے کسی ایک میں بنیادی تبدیلی کو صحیح انقلاب سے تعبیر کیا جا سکتا ہے.آج دنیا بھر میں انسانی زندگی کو دو حصوں میں تقسیم مانا جاتا ہے .ان میں سے ایک حصہ فرد کی انفرادی زندگی سے متعلق ہے‘ جبکہ دوسرا حصہ زندگی کے اجتماعی معاملات کومحیط ہے. ان میں سے مقدم الذکر حصہ مذہب کا دائرئہ کار ہے‘ جوکہ عقائد (dogmas) ‘ مراسم عبودیت (rituals) اور سماجی رسومات (social customs) پر مشتمل ہے. آج دنیا بھر میں ان معاملات میں فرد کو آزاد تسلیم کیا جاتا ہے. چنانچہ ہر شخص کو آزادی حاصل ہے کہ وہ جس طرح کے چاہے عقائد اپنا لے . چاہے وہ ایک خدا کومانے ‘چاہے سو کو مانے یا ہزار کو مانے‘ چاہے کسی کو بھی نہ مانے. جس طرح چاہے مراسمِ عبودیت بجا لائے. چاہے گوشہ نشین ہو کر تپسیائیں کرے‘ چاہے بتوں کے آگے سجدے کرے‘ یا ایک نادیدہ خدا کی پرستش کرے. مراسمِ عبودیت کی اسے آزادی ہے. چاہے روزے رکھے‘ نماز پڑھے‘ چاہے مندر میں جائے یا چرچ میں‘ اجازت ہے.اسی طرح سماجی رسومات ادا کرنے میں وہ آزاد ہے. شادی کے موقع پر چاہے نکاح پڑھوائے چاہے پھیرے ڈلوائے. فوت شدہ شخص کی میت کو چاہے دفن کیا جائے چاہے اسے جلا دیا جائے.

زندگی کا دوسرا حصہ تہذیب‘ تمدن‘ ریاست اور سیاست یعنی اجتماعی نظام سے متعلق ہے اور یہ سیاسی نظام‘ معاشی نظام اور سماجی نظام (The Politico-Socio-Economic System) پر مشتمل ہے. اس کا تعلق مذہب سے نہیں ہے. اس کا نام سیکولرزم ہے. واضح رہے کہ سیکولرزم کا مطلب لامذہبیت نہیں ہے‘ بلکہ یہ ہمہ مذہبیت‘ لادینیت کے اصول پر مبنی ہے. سیکولرزم میں مذہب تو سارے قابلِ قبول ہیں. یہ بات تو بش بھی کہتا ہے کہ ’’We are ready to embrace Islam‘‘ اسلام بطور مذہب پر انہیں کوئی اعتراض نہیں. وہ کہتے ہیں کہ مسلمانوں نے امریکہ میں آکر سینیگاگ اور چرچ خریدے اور انہیں مساجد بنا لیا‘ ہم نے اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا. انہوں نے یہاں بڑی تعداد میں ایفرو امریکنز کو اور کچھ گوروں کو بھی convert کر کے مسلمان بنا لیا‘ ہم نے کوئی اعتراض نہیں کیا. اس لئے کہ بحیثیتِ مذہب ان کی اسلام سے کوئی جنگ نہیں ہے‘ لیکن ایک نظام (Politico-Socio-Economic system) کی حیثیت سے اسلام انہیں قطعاً گوارا نہیں.اسلام کے اسی تصور کو وہ فنڈامنٹلزم کا نام دیتے ہیں. اور اس وقت چونکہ کچھ فنڈامینٹلسٹ لوگوں نے جو طریقہ کار اختیار کیا ہے اس پر دہشت گردی کا لیبل لگ گیا ہے‘ لہٰذا وہ فنڈامینٹلزم کو دہشت گردی (Terrorism) کے مترادف قرار دیتے ہیں. چنانچہ کبھی وہ ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘کا نعرہ لگاتے ہیں تو کبھی ’’بنیاد پرستی کے خلاف جنگ‘‘ کا. حقیقت میں یہ جنگ اسلام کے نظامِ حیات کے خلاف ہے. یہ جنگ اسلام کے عقائد‘ عبادات اور رسومات کے خلاف نہیں ہے.

آج کی اصطلاح میں انقلاب اس اجتماعی نظام میں کسی تبدیلی کو کہتے ہیں . مذہبی میدان میں کسی بڑی سے بڑی تبدیلی کو بھی انقلاب نہیں کہا جا سکتا. یہ بہت اہم نکتہ ہے‘ اس کو سمجھ لیجئے. تاریخِ انسانی میں سب سے بڑی مذہبی تبدیلی ۳۰۰ عیسوی میں ہوئی تھی جب شہنشاہِ روم قسطنطینِ اعظم نے عیسائیت اختیار کر لی تھی اور ساری سلطنت عیسائی ہو گئی تھی. مذہبی تاریخ کے اندر اتنی بڑی تبدیلی(Conversion) کبھی نہیں ہوئی. سلطنت روما اُس وقت تین براعظموں پر پھیلی ہوئی تھی ‘یعنی پورا شمالی افریقہ‘ پورا مشرقی یورپ اور پورا مغربی ایشیا. لیکن اتنی بڑی مذہبی تبدیلی کا نام کبھی انقلابات کی تاریخ میں نہیں گنوایا گیا. اس لئے کہ اس مذہبی تبدیلی سے سیاسی‘ معاشی یا سماجی نظام میں کوئی بنیادی تبدیلی واقع نہیں ہوئی. انقلاب (Revolution) وہ تبدیلی کہلائے گی جو کسی ملک کے سیاسی نظام‘ معاشی نظام‘ یا سماجی نظام سے متعلق ہو اور بنیادی نوعیت کی ہو.