جو لوگ محمد رسول اللہ پر ایمان لے آئے ‘انہیں آپؐ نے منظم کیا اور ان کی تربیت کی. اس تنظیم کی سب سے پہلی بنیاد یہ تھی کہ جن لوگوں نے مان لیا کہ آپ اللہ کے نبی ہیں‘ آپ جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ اللہ کی جانب سے کہہ رہے ہیں‘ یہ آپؐ پر وحی آئی ہے تو پھر ان کے لئے آپ کے حکم سے سرتابی کیسے ممکن ہے؟ کیا نبی کی بات سے بھی اختلاف کیا جا سکتا ہے؟ اس سے زیادہ مضبوط جماعت کا آپ تصور نہیں کر سکتے جو نبوت کی بنیاد پر قائم ہو. آج کی دنیا میں بھی آپ کو مثال ملے گی کہ سچی نبوت تو تنظیم کی بہت بڑی بنیاد ہے ہی‘ جھوٹی نبوت بھی بہت بڑی بنیاد ہے. غلام احمد قادیانی کی جھوٹی نبوت کی بنیاد پر جو جماعت چل رہی ہے ذرا اس کا اندازہ کیجئے کہ کہاں سے کہاں پہنچ گئی. اور ان کا لاہوری فرقہ‘ جس نے غلام احمد قادیانی کو نبی نہیں مانا‘ وہ منتشر ہو کر ختم ہو گیا. تو مضبوط ترین جماعت جو دنیا میں ہو سکتی ہے وہ نبوت کے دعویٰ کی بنیاد پر ممکن ہے. چنانچہ محمد رسول اللہ کی سچی نبوت اور آخری نبوت کی بنیاد پر جو جماعت بنی وہ دنیا کی مضبوط ترین جماعت تھی‘ جس کے بارے میں قرآن حکیم میں فرمایا گیا: مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ وَالَّذِیْنَ مَعَہٗ ’’اللہ کے رسول محمدؐ اور وہ لوگ جو ان کے ساتھ ہیں.‘‘اس جماعت میں کسی نے رسول اللہ کو جماعت کا صدر منتخب نہیں کیا تھا بلکہ آپ نبی ہونے کی حیثیت سے اور داعی ہونے کی حیثیت سے خود بخود امیر تھے.آپ کے ساتھی ’’سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا‘‘ (ہم نے سنا اور مانا) کے اصول پرکاربند تھے.البتہ حضور نے مستقبل کے لئے ایک مثال قائم کرنے کے لئے کہ آئندہ اگر اسی انقلابی جدوجہد کا مسلمانوں نے آغاز کیا تو اس کے لئے جماعت کیسے بنے گی‘ بیعت کا سلسلہ شروع کر دیا.

حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی یہ حدیث ملاحظہ کیجئے جو بخاری اور مسلم دونوں کی روایت ہے اور سند کے اعتبار سے اس سے زیادہ صحیح حدیث ہونے کا کوئی سوال ہی نہیں. بَایَعْنَا رَسُوْلَ اللّٰہِ  ’’ہم نے بیعت کی اللہ کے رسول سے‘‘. عَلَی السَّمْعِ وَالطَّاعَۃِ ’’اس بات پر کہ آپؐ کا ہر حکم سنیں گے اور اطاعت کریں گے‘‘ فِی الْعُسْرِ وَالْیُسْرِ ’’تنگی اور سختی میں بھی اور آسانی میں بھی‘‘ وَالْمَنْشَطِ وَالْمَکْرَہِ ’’طبیعت کی آمادگی کی صورت میں بھی اور طبیعت پر جبر کرنا پڑا تب بھی‘‘. وَعَلٰی اَثَرَۃٍ عَلَیْنَا ’’ اور چاہے آپؐ دوسروں کو ہم پر ترجیح دے دیں‘‘. ہم یہ نہیں کہیں گے کہ آپؐ نے ایک نووارد نوجوان کو ہم پر امیر کیوں بنا دیا؟ ہم آپؐ کے پرانے خدمت گار اور جان نثار ساتھی ہیں‘ ہم پر اس نوجوان کو کیوں امیر بنا دیا؟ آپؐ کا اختیار ہو گا جو چاہیں کریں. وَعَلٰی اَنْ لاَّ نُنَازِعَ الْاَمْرَ اَھْلَہٗ ’’اور جس کو بھی آپؐ امیر بنا دیں گے اس سے جھگڑیں گے نہیں‘‘. وَعَلٰی اَنْ نَّقُوْلَ بِالْحَقِّ اَیْنَمَا کُنَّا لَا نَخَافُ فِی اللّٰہِ لَوْمَۃَ لَائِمٍ ’’اور یہ کہ ہم حق بات ضرور کہیں گے جہاں کہیں بھی ہوں‘ اللہ کے معاملے میں کسی ملامت گر کی ملامت کا خوف نہیں کریں گے‘‘.ہماری جو رائے ہو گی‘ ہمارے نزدیک جو بات حق ہو گی وہ ضرور کہہ دیں گے. اس لئے زبانیں بند نہیں کریں گے کہ لوگ کہیں گے کہ لو جی انہوں نے کیا کہہ دیا.یہ ہے آرگنائزیشن کی دوسری بنیاد. آپ بھی تجزیہ کر لیجئے کہ کیاحضور کو اس کی ضرورت تھی؟ کیا آپؐ پر ایمان لانا ہی کافی نہیں تھا کہ آپؐ کی ہربات ماننی ہے. ازروئے الفاظ قرآنی : وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنَا مِنۡ رَّسُوۡلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذۡنِ اللّٰہِ ؕ (النسائ:۶۴’’ہم نے کسی رسول کو نہیں بھیجا مگر اس لئے کہ اس کی اطاعت کی جائے اللہ کے‘حکم سے.‘‘ اس کے باوجود آنحضورنے بیعت لی تو یہ دراصل آئندہ کے لئے رہنمائی کے لئے تھی!

غزوۂ بدر سے پہلے حضور نے ایک مجلسِ مشاورت منعقد کی تھی کہ قریش کاایک قافلہ شمال سے مالِ تجارت سے لدا پھندا آ رہا ہے جس کے ساتھ صرف چالیس یا پچاس محافظ ہیں‘ جبکہ کیل کانٹے سے لیس ایک مسلح لشکر جنوب سے آ رہا ہے اور اللہ نے وعدہ کیا ہے کہ ان دو میں سے ایک پر تمہیں ضرور فتح عطا فرما دے گا. بتاؤ‘ کدھر چلیں؟ کچھ ہم جیسے کمزور لوگ بھی موجود تھے‘ انہوں نے کہا کہ حضور! قافلے کی طرف چلیں‘ تھوڑے سے آدمی ہیں‘ ان پر ہم آسانی سے قابو پا لیں گے‘ مالِغنیمت بہت ہاتھ آ جائے گا‘ اور ہتھیار بھی ملیں گے‘جن کی ہمیں اشد ضرورت ہے. لیکن حضورمزید مشورہ طلب فرماتے رہے. تب صحابہ کرامث نے اندازہ کیا کہ حضور کا اپنا رجحانِ طبع کچھ اور ہے. چنانچہ اس مرحلے پرپہلے مہاجرین نے تقریریں کیں کہ حضورؐ ! آپؐ ہم سے کیا پوچھتے ہیں‘ جو آپؐ کا حکم ہو ہم حاضر ہیں. حضرت ابوبکر صدیق ص اور حضرت عمر فاروق ص نے تقریریں کیں ‘ لیکن حضور نے کوئی خاص توجہ نہیں دی. محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے حضور کسی خاص بات کے منتظر ہیں. مہاجرین میں سے ہی حضرت مقداد بن اسود صنے کھڑے ہو کر عرض کیا کہ ’’حضورؐ جو آپ کا ارادہ ہو بسم اللہ کیجئے‘ ہمیں حضرت موسٰی ں کے ساتھیوں پر قیاس نہ کیجئے جنہوں نے اپنے نبی ؑ سے یہ کہہ دیاتھا کہ ’’اے موسٰی ؑ آپ اور آپ کا رب دونوں جائیں اور جاکر جنگ کریں‘ ہم تو یہاں بیٹھے ہیں‘‘. کیا عجب کہ اللہ تعالیٰ آپؐ ‘ کو ہمارے‘ذریعے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما دے. لیکن حضور اب بھی انتظار کی کیفیت میں تھے. 

اب حضرت سعد بن معاذ ص کو خیال آیا کہ رسول اللہ کا روئے سخن دراصل انصار کی جانب ہے. بیعت عقبہ ثانیہ میں طے یہ ہوا تھا کہ اگر قریش آپ کا پیچھا کرتے ہوئے مدینے پر حملہ آور ہوئے تو ہم آپؐ کی اس طرح حفاظت کریں گے جیسے اپنے اہل و عیال کی کرتے ہیں. لیکن صورتِ واقعہ یہ تھی کہ قریش نے مدینے پر حملہ نہیں کیا تھا اور حضور خود باہر نکل کر تصادم کا آغاز کر چکے تھے ‘ لہٰذا انصار اس معاہدے کی رو سے مدینہ سے باہر نکل کر جنگ کرنے کے پابند نہیں تھے. حضرت سعدؓ ‘کو فوراً خیال آ گیا کہ ہو نہ ہو حضور ہماری تائید کے منتظر ہیں. چنانچہ حضرت سعدؓ نے کھڑے ہو کر عرض کیا:اے اللہ کے رسولؐ !معلوم ہوتا ہے آپؐ ‘کا روئے سخن ہماری جانب ہے. ا ب دیکھئے کس قدر عمدہ جملہ کہا : فَاِنَّا آمَنَّا بِکَ وَصَدَّقْنَاکَ یعنی حضور! ہم آپؐ پر ایما ن لا چکے ہیں اور ہم نے آپؐ ‘کی تصدیق کی ہے. ہم نے آپؐ ‘کو اللہ کا نبی اور رسول مانا ہے. اب ہمارا اختیار کہاں رہا؟ آپؐ جوبھی حکم دیں گے ‘سر آنکھوں پر! آپؐ ‘ ہمیں جہاں بھی لے جانا ہو لے چلئے. خدا کی قسم‘ اگر آپؐ ‘ ہمیں اپنی سواریاں سمندر میں ڈالنے کا حکم دیں گے تو ہم ڈال دیں گے…! 

توحضور کوکسی کی بیعت کی ضرورت نہیں تھی‘ آپ تو اللہ کے نبی اور رسول ہونے کی حیثیت سے مطاع تھے لیکن اس کے باوجود آپؐ نے بیعت کیوں لی؟ اس لئے کہ آئندہ کوئی مسلمان جماعت بنانے کے لئے انگریزوں سے‘ روسیوں سے یا جرمنوں سے کوئی طریقہ مستعار نہ لیتا پھرے‘ بلکہ جماعت بنانے کے لئے وہ بنیاد اختیار کرے جو میں چھوڑ کر جارہاہوں.