رسول اللہ ہجرت فرما کر مدینہ تشریف لائے تو یہاں اوس اور خزرج دونوں قبیلے ایمان لے آئے تھے.اُدھر مکہ سے جو جمعیت تیار ہو کر آئی تھی یہ سو ڈیڑھ سو آدمی تھے جو آزمائش کی بھٹیوں میں سے گزر کر آئے تھے ؎

تو خاک میں مل اور آگ میں جل‘ جب خشت بنے تب کام چلے
ان خام دلوں کے عنصر پر بنیاد نہ رکھ تعمیر نہ کر!

لہٰذا آپ نے ہجرت کے بعد اقدام 
(Active Resistance) کا فیصلہ کیا. لیکن چھ مہینے میں آپؐ نے اپنی پوزیشن کو مستحکم بنانے کی خاطر تین کام کئے. اولاً مسجد نبویؐ تعمیر فرمائی‘ جو عبادت گاہ بھی تھی‘ خانقاہ اور درس گاہ بھی تھی‘ پارلیمنٹ اور مشاورت کی جگہ بھی تھی‘ یہی گورنمنٹ ہائوس کا مقام بھی رکھتی تھی‘ یہیں پر وفود بھی آرہے تھے. گویا مسلمانوں کا ایک مرکز وجود میں آ گیا. ثانیاً آپ نے مہاجرین اور انصار کے مابین ’’مواخات‘‘ قائم فرما دی اور ہر مہاجر کو کسی ایک انصاری کا بھائی قرار دے دیا. چنانچہ انصارِ مدینہ نے اپنے ان مہاجربھائیوں کو اپنے گھروں اور دکانوں میں سے حصے دیئے اور اپنے ذرائع معاش میں ان کو شریک کیا.اس مواخات میں ایسی ایسی مثالیں بھی سامنے آئیں کہ انصاری بھائیوں نے اپنے مکانوں اور دکانوں کے درمیان دیواریں کھڑی کرکے انہیں نصف نصف تقسیم کر کے مہاجر بھائیوں کو دے دیا. یہاں تک کہ ایک انصاری کی دو بیویاں تھیں. اُس وقت پردے کے احکام ابھی نہیں آئے تھے‘ وہ تو کہیں پانچ چھ سال بعد آئے. وہ انصاری اپنے مہاجر بھائی کو اپنے گھر لے گئے‘ اور کہا کہ یہ میری دو بیویاں ہیں‘ ان میں سے جو تمہیں پسند ہو اشارہ کرو‘ میں اسے طلاق دے دوں گا تم اس سے شادی کر لینا. رسول اللہ نے تمہیں میرا بھائی قرار دیا ہے اور میں یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ تمہارا گھر آباد نہ ہو اور میرے گھر میں دو دو بیویاں ہوں. یہ مواخات کا درس تھا.

ہجرت کے بعد چھ ماہ کے دوران رسول اللہ نے تیسرا اہم کام یہ کیا کہ مدینہ میں آباد یہودی قبائل کے ساتھ مشترکہ دفاع کے معاہدے کر لئے. آپ کے اس اقدام کی منٹگمری واٹ اور ٹائن بی نے بہت زیادہ تعریف کی ہے اور اسے آپ کے حسنِ تدبر اور 
statesmanship کا عظیم مظہر قرار دیا ہے. مدینہ میں یہود کے تین قبائل بنو قینقاع‘ بنو نضیر اور بنوقریظہ آباد تھے جو بڑی strategic پوزیشن میں تھے. مدینے کے باہر ان کی گڑھیاں اور قلعے تھے. رسول اللہ نے ’’میثاقِ مدینہ‘‘ کے نام سے ان تینوں قبائل سے مشترکہ دفاع کا معاہدہ کر لیا .آج بعض لوگ احمقانہ طور پر میثاقِ مدینہ کو اسلامی ریاست کے دستور کا نام دیتے ہیں‘ حالانکہ یہ مشترکہ دفاع کا ایک معاہدہ (Joint Defence Pact) تھا کہ اگرمدینے پر حملہ ہوا تو مسلمان اور یہودی مل کر حملہ آور کا مقابلہ کریں گے. اس معاہدے سے رسول اللہ کی پوزیشن بہت مضبوط ہو گئی.