اب مجھے دو باتوں کی مزید وضاحت کرنی ہے. پہلی بات یہ کہ نبی اکرم نے صلح حدیبیہ سے قبل نہ کوئی مبلغ عرب سے باہر بھیجا‘ نہ اپنا کوئی خط یا پیغام کسی سربراہ حکومت کے نام بھیجا. دس سال تک سارا کام مکے میں ہی کیا. اس کے بعد طائف کا سفر فرمایا. انقلابی عمل کا خاصہ یہ ہے کہ یہ ابتداء میں پھیلتا نہیں ہے.مشنری اور تبلیغی کام خربوزے یا ککڑی کی بیل کی طرح زمین پر پھیلتا ہے‘ جبکہ انقلابی عمل ایک ہی مقام پر اپنی جڑیں جما کر اوپر اٹھتا ہے.جیسے آم کی گٹھلی پھٹتی ہے تو اس سے دوپتے نکلتے ہیں‘ اس سے آم کا پودا بنتا ہے جو تناور درخت بن کر برگ و بار لاتا ہے. محمد رسول اللہ کی انقلابی جدوجہد مشنری انداز کی نہیں تھی بلکہ انقلابی انداز کی تھی. مکی زندگی کے ابتدائی دَور میں آپؐ کے پاس مال و دولت کی کمی نہ تھی. اُس وقت حضرت خدیجہؓ کی دولت موجود تھی جو انہوں نے آپؐ کی خدمت میں پیش کر دی تھی.

اُس وقت آپؐ چاہتے تو قیصر و کسریٰ اور دوسرے حکمرانوں کو خطوط بھیج سکتے تھے کہ میں اللہ کا رسول ہوں‘ مجھ پر ایمان لائو! لیکن آپ نے ایسا نہیں کیا. ہجرتِ مدینہ کے بعد آپ نے عرب کے مختلف قبائل سے معاہدے کئے لیکن عرب سے باہر کوئی وفد نہیں بھیجا. وہ تو جب صلح حدیبیہ ہو گئی اور قریش نے گویا آپ کو مخالف قوت کے طور پر تسلیم (recognize) کر لیا ‘ جسے قرآن حکیم نے فتح مبین قرار دیا تو آپ نے کسریٰ‘ ہرقل‘ مقوقس‘ نجاشی اور ان رؤسائے عرب کی طرف جو جزیرہ نمائے عرب کی سرحدوں پر آباد تھے اور انہوں نے اُس وقت تک اسلام قبول نہیں کیا تھا‘ اپنے دعوتی و تبلیغی نامہ ہائے مبارک چند صحابہ کرام ث کے ہاتھ روانہ کئے. ان نامہ ہائے مبارک کے نتیجہ میں ملوک و سلاطین کی جانب سے مختلف ردِّعمل سامنے آئے. ملکِ غسان نے‘ جو ہرقل کے تابع تھا‘ آپ کے سفیر حارث بن عمیرص کو شہید کر دیا. حضور نے ان کے قصاص کے لئے لشکر تیار کر کے بھیجا اور غزوۂ موتہ کا معرکہ ہوا. اس کے بعد پھر غزوۂ تبوک کا معاملہ ہوا. اس طرح محمد رسول اللہ کی حیاتِ طیبہ ہی میں تصدیر انقلاب (یعنی Exporting of Revolution) کے مرحلے کا آغاز بھی ہو گیا. یعنی حضور کی حیاتِ طیبہ میں نہ صرف اندرونِ ملکِ عرب انقلاب کی تکمیل ہو گئی بلکہ عرب سے باہر کام کا آغاز آپ نے اپنے دست ِمبارک سے کیا اور پھر یہ ذمہ داری امت کے سپرد فرمائی کہ تم نے اس کام کو آگے بڑھانا ہے.