اب اس تصویر کے دوسرے رخ پر اپنی توجہ کو مرکوز کیجیے. جہاد کا پہلا مرحلہ کیا ہے اور اس کی آخری منزل کون سی ہے؟ رسول اللہ سے پوچھا گیا کہ کون سا جہاد سب سے افضل ہے؟ حضور نے جواب میں ارشاد فرمایا کہ سب سے افضل جہاد یہ ہے کہ تم اپنے نفس کے خلاف کشمکش کرو اور اسے اللہ تعالیٰ کا مطیع بنا دو. اسی طرح ایک دوسری روایت میں آتا ہے کہ حضور نے فرمایا: اصل مجاہد وہ ہے جو اپنے نفس کے خلاف جہاد کرتا ہے. نفس سے کیا مراد ہے؟ انسان کے وجود میں ایک شے تو اس کی فطرت ہے جو اس کی روح سے عبارت ہے‘ اور دوسرا اس کا نفسِ حیوانی ہے جو اس کے جبلی تقاضوں سے عبارت ہے. یہ حیوانی اور جبلی تقاضے اندھے ہیں‘ انہیں حرام و حلال سے غرض نہیں‘ بلکہ صرف اپنی تسکین چاہتے ہیں. ظاہر ہے کہ اگر ان خواہشات کو آزاد چھوڑ دیا جائے تو انسان لامحالہ گناہ اور فسق و فجور کے راستے پر پڑ جاتا ہے‘ لہٰذا لازم ہے کہ ہم ان خواہشات کے خلاف کشمکش کریں اور انہیں اللہ تعالیٰ کے احکامات کے تابع بنائیں. یہ کوشش اصل میں حضور کے قول کے مطابق جہاد کی پہلی سیڑھی ہے. 

اب اس بات کو سمجھئے کہ جہاد کا آخری مرحلہ یا جہاد کا نقطہ ٔ‘عروج کیا ہے؟ اللہ کے دین کو قائم کرنے کی جدوجہد ہم سب پر فرض ہے. اگر اس جدوجہد کے دوران ایسا موقع آ جاتا ہے کہ ہر وہ شخص جو اس جدوجہد میں مصروف ہو اس کے لیے لازم ہو جائے کہ وہ کفر اور شرک کی طاقتوں کے خلاف لڑنے کے لیے میدان میں آ جائے تو یہ جہاد کا آخری مرحلہ ہو گا. حضور نے فرمایا ہے کہ ’’اگر ایک مسلمان اس حال میں مر جاتا ہے کہ اس نے نہ تو اللہ کی راہ میں کسی جنگ میں حصہ لیا اور نہ اس کے دل میں اس کی خواہش پیدا ہوئی تو وہ ایک قسم کے نفاق کی حالت میں مرا‘‘ (۱. حقیقت یہ ہے کہ اگر کسی شخص کو ایمانِ حقیقی حاصل ہو اور اسے یہ علم ہو کہ اللہ کے دین کو غالب کرنے کی جدوجہد اس پر فرض ہے‘ تو یہ آپ سے آپ لازم آ جاتا ہے کہ اللہ کی راہ میں جنگ کرنے کی ایک شدید خواہش بھی اس کے دل میں موجود ہو. البتہ یہ عین ممکن ہے کہ اس شخص کی زندگی میں ایسے مسلح تصادم کا موقع ہی نہ آئے. جیسے کہ حضور کے بہت سے صحابہؓ ایسے تھے جو ہجرت سے پہلے ہی وفات پا گئے. گویا ان کی زندگیوں میں قتال فی سبیل اللہ کا موقع ہی نہیں آیا. لیکن ظاہر ہے کہ اس راہ میں لڑنے کی شدید آرزو ان کے دلوں میں یقینا موجود تھی. اس لیے کہ اگر یہ آرزو کسی کے دل میں موجود نہ ہو تو اس کے ایمان ہی کی نفی کر دی گئی ہے.