اسلام میں اجتماعی زندگی کے مزاج کو درست طور پر سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہمارے سامنے اس نظام کا خاکہ بھی رہے جو دنیا میں عموماً اختیار کیا جاتا ہے. آپ جانتے ہیں کہ آج کی دنیا میں کئی طرح کے ادارے‘ جماعتیں‘ انجمنیں وغیرہ قائم کی جاتی ہیں. یہ سب اجتماعیت ہی کی مختلف شکلیں ہیں. ان میں سے ہر ایک میں دو امور نہایت اہم ہوتے ہیں‘ اوّلاً تاسیسی یادداشت جس میں اس ادارے‘ جماعت‘ یا انجمن کے اغراض و مقاصد بیان کیے جاتے ہیں اور ثانیاً اس کا دستور. جہاں تک دستور کا تعلق ہے‘ ہم دیکھتے ہیں کہ قریب قریب ایک جیسے قواعد و ضوابط ہیں جو مختلف قسم کے اداروں کے دساتیر میں پائے جاتے ہیں. چنانچہ رکنیت کی شرائط ہوتی ہیں. پھر ارکان کسی صدر یا چیئرمین کو منتخب کرتے ہیں. پھر مجلس عاملہ یا شوریٰ کے انتخاب کے لیے قواعد ہوتے ہیں. آخر میں اختیارات کی تقسیم کا معاملہ طے کیا جاتا ہے اور Checks and balances کا نظام وضع ہوتا ہے. اس قسم کی جماعتیں نیچے سے اوپر کی طرف بڑھتی ہیں. اس طریق کار میں کوئی شے ایسی نہیں ہے جسے قرآن یا سُنّت کی بنیاد پر غلط کہا جا سکے. تنظیم یا اجتماعیت کی یہ صورتیں قطعی طور پر جائز اور مباح ہیں.

جو نکتہ میں واضح کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ اگرچہ جماعت سازی کا یہ نظام جو آج دنیا میں عام طور پر پایا جاتا ہے خلافِ اسلام نہیں‘ تاہم اس نظام کے حق میں کوئی دلیل نہ قرآن مجید سے ملتی ہے اور نہ سنّتِ رسول سے. اس کے باوجود میری رائے یہی ہے کہ یہ طریقہ غیر اسلامی یا غیر شرعی ہرگز نہیں. یہ رائے دراصل فقہ کے ایک بنیادی اصول پر مبنی ہے‘ یعنی ہر کام مباح اور جائز سمجھا جائے گا جب تک کہ اس کا حرام ہونا کسی شرعی دلیل سے ثابت نہ کر دیا جائے.

اس کے برعکس جماعت سازی کا جو طریقہ ہمیں قرآن پاک سے ملتاہے‘ جو حضور  کی سیرت اور سنت سے ملتا ہے اور جو اُمت مسلمہ کی تیرہ سوسالہ تاریخ میں ملتا ہے‘ وہ اس طریقے سے بالکل مختلف ہے جو آج کی دنیا میں عموماً رائج ہے.