میں عرض کر چکا ہوں کہ ُامت مسلمہ کی تیرہ سوسالہ تاریخ میں جماعت سازی کے لیے صرف بیعت ہی کی اساس ملتی ہے. چنانچہ حضور کی وفات کے بعد جو نظامِ خلافت علیٰ منہاج النبوۃ قائم ہوا اس کی بنیاد بیعت ہی تھی. پھر جب صحابہؓ نے محسوس کیا کہ خلافت کا ادارہ رفتہ رفتہ ملوکیت میں تبدیل ہو رہا ہے اور انہوں نے اس زوال کو روکنے کے لیے جدوجہد کی تو اس میں بھی بیعت کا طریقہ ہی اختیار کیا گیاہے. چنانچہ حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہما اور حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما دونوں کی جدوجہد بیعت کی اساس پر ہوئی. اس کے بعد جب ملوکیت نے اپنے پنجے پوری طرح گاڑ لیے تب بھی خلفاء (اصل میں ملوک) اپنی حکومت کو بیعت کی بنیاد پر ہی استوار کرتے رہے.

اصولی طور تو اسلام میں مذہب و سیاست کے درمیان کوئی تفریق نہیں ہے‘ لیکن عملاً ہم دیکھتے ہیں کہ عہد ملوکیت میں یہ تقسیم نمایاں ہونے لگی تھی. نتیجتاً بیعت کا ادارہ بھی دو حصوں میں منقسم ہو گیا. بادشاہ عوام سے سیاسی اطاعت کا وعدہ بیعت کے ذریعے لیتے تھے‘ لیکن ساتھ ہی اسلامی معاشرے میں افراد کے تزکیۂ نفس اور اصلاحِ باطن کے لیے صوفیائے کرامؒ ‘ بھی لوگوں سے روحانی اور اخلاقی اطاعت کا وعدہ لینے لگے‘ اور یہ شے بیعت ارشاد کہلائی.

بیعت ِارشاد سے کیا مراد ہے؟ ایک شخص محسوس کرتا ہے کہ اسے کسی بزرگ رہنما کی ضرورت ہے جو اسے ایک بہتر مسلمان بننے میں مدد دے. اس مقصد کے تحت وہ کسی ایسے متقی شخص کے ساتھ اپنے 
(۱) صحیح البخاری‘ کتاب الجہاد والسیر‘ باب التحریض علی القتال.وصحیح مسلم‘ کتاب الجھاد والسیر ‘ باب غزوۃ الاحزاب. (ترجمہ: ’’ہم وہ لوگ ہیں جنہوں نے محمد سے بیعت کی ہے… اس بات پر کہ جہاد کو جاری رکھیں گے جب تک زندہ ہیں.‘‘ آپ کو وابستہ کرنا چاہتا ہے جو خود اپنے نفس کا تزکیہ کر چکا ہو اور دوسروں کی اس راہ میں رہنمائی کر سکتا ہوں. یہ وابستگی بیعت کی صورت میں ہوتی ہے. یعنی مرید یا سالک کسی بزرگ سے یہ وعدہ کرتا ہے کہ آپ مجھ سے علم‘ تجربے اور تقویٰ میں بہت آگے ہیں‘ لہٰذا آپ میری رہنمائی فرمائیں کہ مجھے کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں کرنا چاہیے‘ میں اس معاملے میں آپ کی اطاعت کروں گا اور آپ میرے اخلاق اور میری روحانی ترقی کی نگرانی فرمائیں گے. یہ وہ شے ہے جسے بیعت ِارشاد کہا جاتا ہے. بدقسمتی سے مسلمانوں کے طویل انحطاط اور زوال کے نتیجے میں آج صورت حال یہ ہو گئی ہے کہ جب بیعت کا لفظ استعمال ہوتا ہے تو عموماً ایک عام مسلمان کے سامنے بیعتِ ارشاد ہی کا تصور آتا ہے. یہ بھی واضح رہنا چاہیے کہ بیعتِ ارشاد کے لیے قرآن مجید میں جواز بیعت النساء کی صورت میں موجود ہے‘ جس کا مقصد بھی یہی تھا جو بیعت ارشاد کاہوتا ہے. 

تاریخ کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ گزشتہ صدی میں مسلمانوں کو غیر ملکی استعمار سے نجات دلانے کے لیے جتنی بھی عسکری تحریکیں چلیں‘ ان سب کی بنیاد بیعت ہی تھی. چنانچہ ہندوستان میں سید احمد بریلوی ؒ ‘کی تحریکِ شہیدین‘ لیبیا میں محمد بن علی السنوسی کی سنوسی تحریک‘ اور سوڈان میں محمد احمد المہدی کی تحریک‘ سب میں نظم کی بنیاد بیعت ہی تھی. موجودہ صدی میں مولانا ابوالکلام آزاد نے جب ۱۹۱۳ء اپنی جماعت یعنی حزب اللہ قائم کی‘ تو بیعت ہی کو اس کی اساس کے طور پر اختیار کیا. اسی طرح الاخوان المسلمون کے بانی ارکان نے شیخ حسن البناء شہیدؒ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی‘ جو مرشد ِعام کہلاتے تھے. اس موقع پر میں چاہتا ہوں کہ آپ کے سامنے موجودہ صدی کا ایک نہایت اہم واقعہ بیان کروں جو اکثریت کے ذہنوں سے محو ہو چکا ہے. جمعیت علمائے ہند کا دوسرا سالانہ اجلاس نومبر ۱۹۲۰ء میں منعقد ہوا تھا. اس کی صدارت شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندیؒ نے کی‘ اور علماء سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ سب مل کر ابوالکلام آزاد کو اپنا متفقہ قائد تسلیم کرلیں‘ ان سے بیعت کریں‘ اور ہندوستان میں آزادی اور اسلامی حکومت کے قیام کے لیے منظم جدوجہد کا آغاز کیا جائے. بدقسمتی سے اس تجویز کو علماء میں پذیرائی حاصل نہ ہوئی. 

موجودہ صدی کی ایک اور تحریک جو بیعت کی بنیاد پر منظم ہوئی تھی وہ قادیانیت کے فتنے کا مقابلہ کرنے کے لیے تھی. ۱۹۳۰ء کی دہائی میں ۵۰۰ علماء اکٹھے ہوئے‘ جن میں سے اکثریت کا تعلق دیوبندی مکتب فکر سے تھا‘ اور انہوں نے مولانا عطاء اللہ شاہ بخاریؒ ‘ کو ’’امیر شریعت‘‘ مان کر ان سے 
بیعت کی. اگرچہ مولانا بہت نمایاں مذہبی عالم نہ تھے‘ اس کے باوجود ان سے بیعت کرنے والوں میں مولانا احمد علیؒ لاہوری اور مولانا انور شاہ کاشمیری ؒ جیسے جید علماء بھی شامل تھے.

غرضیکہ اُمت کی تیرہ سوسالہ تاریخ کی گواہی ہمارے سامنے موجود ہے کہ جہاں بھی کسی منظم جدوجہد کے لیے جماعت سازی کی ضرورت پیش آئی وہاں ہمیشہ بیعت ہی کے طریقے کو اختیار کیا گیا. خواہ معاملہ حکومت بنانے کا ہو‘ یا اسلامی اصولوں کو نظامِ حکومت میں دوبارہ رائج کرنے کا ہو‘ تزکیۂ نفوس اور اصلاحِ باطن کا مسئلہ ہو‘ یا مسلمانوں کے علاقوں کو غیر مسلموں سے آزاد کرانے کی جدوجہد ہو‘ ہر بار افراد کو جمع کرنے اور منظم کرنے کے لیے صرف بیعت کا طریقہ اختیار کیا گیا. اس میں واحد استثناء مولانا مودودی ؒ ‘کی جماعت اسلامی کا ہے جو بیعت کی بنیاد پر قائم نہیں ہوئی. یہی وجہ ہے کہ میں نے اُمت کی تاریخ کے ۱۳ سو برسوں کا حوالہ دیا ہے‘ کیونکہ چودھویں صدی میں ایک بڑی تحریک کا دستوری بنیاد کو اختیار کرنے کا معاملہ بھی موجود ہے.