جہاں تک میرا تعلق ہے‘ تو میں نے تنظیم اسلامی بیعت کی بنیاد پر قائم کی ہے. تنظیم اسلامی میں شمولیت کے لیے جو بیعت ہے اس کے الفاظ ایک مستند حدیث سے لیے گئے ہیں. یعنی بیعت عقبہ ثانیہ کے موقع پر یثرب سے آنے والوں نے رسول اللہ سے جن الفاظ میں بیعت کی‘ انہی الفاظ کو ایک تبدیلی کے ساتھ ہم نے اختیار کیا ہے. میرا دعویٰ یہ ہے کہ اس حدیث کے الفاظ میں ایک حزب اللہ قائم کرنے کے لیے پورا منہج اور طریقہ کار موجود ہے‘ یعنی ایک اصولی اسلامی انقلابی جماعت کو قائم کرنے کا پورا نقشہ اس حدیث سے مستنبط کیا جا سکتا ہے. اگر آپ کوئی جماعت بنا رہے ہیں تاکہ سماجی سطح پر فلاح وبہبود کا کام کیا جا سکے تو کسی بھی قسم کا دستوری ڈھانچہ اختیار کیا جا سکتا ہے‘ لیکن جہاں معاملہ ہو ایک انقلابی جماعت کے قیام کا‘ جسے غیر معمولی نظم اور اندرونی ہم آہنگی درکار ہوتی ہے‘ تو یہ جماعت صرف بیعت کی بنیاد پر قائم ہونی چاہیے.

پیش نظر حدیث حضرت عبادۃ بن الصامت رضی اللہ عنہ سے روایت کی گئی ہے‘ اور امام بخاری اور امام مسلم رحمہما اللہ دونوں نے اسے اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے. بیعت کے الفاظ ایسے ہیں کہ نبی مکرم نے ان کے ذریعے تنازعات کے تمام دروازے بند فرما دیے ہیں. عبادہ بن الصامت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: 

بَایَعْنَا رَسُولَ اللّٰہِ  عَلَی السَّمْعِ وَالطَّاعَۃِ‘ فِی الْعُسْرِ والْیُسْرِ‘ وَالْمَنْشَطِ 
َکْرَہِ‘ وَعَلٰی اَثَرَۃٍ عَلَیْنَا‘ وَعَلٰی اَنْ لَا نُـنَازِعَ الْاَمْرَ اَھْلَہٗ‘ وَعَلٰی اَنْ نَقُولَ بِالْحَقِّ اَیْنَمَا کُنَّا‘ لَا نَخَافُ فِی اللّٰہِ لَوْمَۃَ لَائِمٍ (۱

’’ہم نے اللہ کے رسول سے بیعت کی کہ ہم سنیں گے اور اطاعت کریں گے‘ خواہ آسانی ہو یا مشکل‘ خواہ ہماری طبیعت آمادہ ہو یا ہمیں اس پر جبر کرنا پڑے‘ اور خواہ دوسروں کو ہمارے اوپر ترجیح دے دی جائے. ہم اصحابِ اختیار سے جھگڑیں گے نہیں‘ لیکن سچ بولیں گے جہاں کہیں بھی ہم ہوں گے‘ اور اللہ کے معاملے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے بے پرواہ رہیں گے.‘‘

غور کیجیے کہ جہاں بھی کوئی اجتماعی جدوجہد ہو رہی ہو اور کسی خاص مسئلے پر فیصلہ کرنا پڑے تو بے شمار آراء سامنے آتی ہیں اور بہت سے مختلف بلکہ متضاد حل پیش کیے جاتے ہیں. لیکن قائد کو صرف ایک ہی فیصلہ کرنا ہوتا ہے. ظاہر ہے کہ ایسے مواقع پر جن ارکان کی رائے کے مطابق فیصلہ ہو جائے وہ اس پر عمل کرنے میں انشراح اور آمادگی محسوس کریں گے‘ اور جن کی مرضی یا رائے کے خلاف فیصلہ ہو جائے وہ عمل درآمد کے معاملے میں انقباض محسوس کریں گے. حضور نے تنازعات اور نظم کی خلاف ورزی کے اس امکان کو اس طرح ختم کیا کہ صحابہؓ سے یہ عہد لے لیا کہ وہ ہر حال میں اطاعت کریں گے‘ خواہ جو حکم انہیں ملا ہو وہ اس سے سوفیصد متفق ہوں یا نہ ہوں‘ خواہ حکم پر عمل کرنے میں وہ دل کی آمادگی پائیں یا انہیں اپنی طبیعتوں پر جبر کرنا پڑے. 

اسی طرح اصحابِ اختیار کو مقرر کرنے کا معاملہ بھی ایسا ہے جہاں بہت سے اختلافات اُبھر سکتے ہیں. اگر کسی باصلاحیت مگر نووارد رُکن کو کسی اہم عہدے پر فائز کر دیا جائے تو پرانے اراکین میں ناراضگی پیدا ہو سکتی ہے. تنازع کے اس دروازے کو بند کرنے کے لیے حضور نے صحابہؓ سے یہ عہد لیا کہ مختلف عہدے یا ذمہ داری کے مناصب دینے کے معاملے میں کُل اختیار میرا ہو گا‘ اور یہ کہ وہ لازماً سمع و طاعت کی روش پر قائم رہیں گے ‘خواہ وہ یہ محسوس کریں کہ دوسروں کو ان پر ترجیح دی جا رہی ہے.

یہ بات نہایت اہم ہے کہ ’’سمع و طاعت‘‘ کی اصطلاح سے غیر معمولی نظم کا جو نقشہ ذہنوں میں اُبھرتا ہے اس کا یہ مطلب نہیں کہ ایک اسلامی انقلابی جماعت کے ارکان بلا سوچے سمجھے اور اپنے ذہن
(۱) صحیح البخاری‘ کتاب الاحکام‘ باب کیف یبایع الامام الناس ‘وکتاب الفتن‘ باب قول النبی سترون بعدی امورًا تنکرونھا.وصحیح مسلم‘ کتاب الامارۃ‘ باب وجوب طاعۃ الامیر فی غیر معصیۃ …اور عقل و فہم کی صلاحیتوں کو بالائے طاق رکھ کر امیر کی اطاعت کرتے رہیں گے. ان کے لیے یہ بھی لازم ہے کہ وہ جس بات کو حق سمجھتے ہوں اس کا برملا اظہار کریں‘ اور امراء کے طرز عمل یا حکمت عملی میں کوئی غلط شے دیکھیں تو اپنی زبانوں پر تالے ڈال کر نہ بیٹھے رہیں. چنانچہ بیعت کے الفاظ میں ہے کہ ’’اَنْ نَقُولَ بِالْحَقِّ اَیْنَمَا کُنَّا‘‘ (ہم سچ کہیں گے جہاں کہیں بھی ہم ہوں گے). ظاہر ہے کہ بیعت کی بنیاد پر تنظیم بنانے کا مطلب یہ ہے کہ آخری فیصلے کا اختیار ایک فرد کے پاس ہو گا‘ یعنی تمام بحث و تمحیص اور گفتگو اور مشاورت ہو جانے کے بعد جب فیصلے کا وقت آئے گا تو یہ فیصلہ ووٹوں کی گنتی سے نہیں بلکہ امیر کی مرضی سے ہو گا.

تنظیم اسلامی میں شمولیت کے لیے بیعت کے جو الفاظ اختیار کیے گئے ہیں ‘اس کے تین حصے ہیں. پہلے حصہ میں ایک شخص شعوری طور پر یہ گواہی دیتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد اس کے بندے اور رسول ہیں. پھر وہ اللہ سے اپنے تمام سابقہ گناہوں کی معافی مانگتا ہے اور مستقبل میں گناہوں سے اجتناب کا پختہ وعدہ کرتا ہے. دوسرے حصے میں وہ اللہ تعالیٰ سے یہ عہد کرتا ہے کہ وہ ہر اُس شے کو چھوڑ دے گا جو اللہ کو ناپسند ہے‘ اور یہ کہ وہ اس کے راستے میں مقدور بھر جدوجہد کرے گا‘ اپنے مال سے بھی اور جان سے بھی‘ تاکہ اس کے دین کوقائم کیا جا سکے. تیسرے حصے میں وہ تنظیم اسلامی کے امیر کے ساتھ یہ وعدہ کرتا ہے کہ وہ ان کے تمام احکام کو سنے گا اور ان پر عمل کرے گا‘ بشرطیکہ وہ شریعت کے خلاف نہ ہوں. یہ آخری شق‘ یعنی اطاعت ’’فی المعروف‘‘ ہو گی نہ کہ مطلق‘ وہ اضافہ ہے جو ہم نے بیعتِ عقبہ ثانیہ کے الفاظ میں کیا ہے.