یہ ہے کہ.....جو لوگ اللہ کی رضا اور آخرت کی فلاح 
کے حصول کے لیے سر دھڑ کی بازی لگانے کے لئے تیار ہوں، وہ

سب سے پہلے خود پوری طرح مسلمان اور حقیقی معنی میں اللہ تعالیٰ کے بندے بنیں اور اپنی ذات اور اپنے دائرہ اختیار میں شریعت اسلامی نافذ کریں اور اس کے لئے اپنے نفس کے خلاف بھی جہاد کریں اور بگڑے ہوئے ماحول سے بھی مردانہ وار کشمکش کریں اور دوسروں کو بھی مقدور بھر اس کی دعوت دیں. باہم دینی اخوت اور ایمانی رشتوں میں بندھ کر آپس میں نہایت رحیم و شفیق جبکہ دین کے باغیوں اور مخالفوں کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جائیں.

کسی ایسے شخص کے ہاتھ پر ہجرت و جہاد اور سمع و اطاعت فی المعروف کی بیعت کر کے ایک جماعتی نظام میں منسلک ہو جائیں جس کی رائے کی پختگی اور خلوص و اخلاص پر انہیں پورا اعتماد ہو. 
اور اس طرح جو جماعتی قوت وجود میں آئے وہ ابتدائی مراحل کے طور پر: 

٭ جب تک یہ قوت مناسب مقدار میں تن من دھن کے ساتھ جمع نہ ہو جائے.

٭ اسی دعوت و تربیت اور تنظیم کی توسیع اور مظبوطی کی کوشش میں لگے رہیں اور سب سے ذیادہ توجہ اپنی اور اپنے ساتھیوں کی اصلاح اور تزکیہ پر مرکوز رکھیں.

٭ اس دوران میں تحریر و تقریر کے ذریعے بھلائی کی دعوت دیتے رہیں اور برے کاموں سے روکتے رہیں لیکن نہ ملکی انتخابات میں حصہ لیں اور نہ ہی کسی سیاسی ہنگامے میں فریق بنیں.

٭ اس پورے عرصے میں کسی نقطہ چینی اورتمسخر سے بد دل نہ ہوں، نہ کسی جبر و تشدد سے خوف کھائیں بلکہ کامل صبر و تحمل سے کام لیں اور ہرگز کوئی جوابی کاروائی نہ کریں.
 
٭ اور جب مناسب قوت فراہم ہو جائے تو راست اقدام کے طور پر: 

٭ اسلام نے جن برائیوں کی نشاندہی کی ہے ان کا قلع قمع کرنے کے لیے کمر کس لیں.

٭ اس کے لیے جلسے، جلوسوں ، مظاہروں اور ناکہ بندیوں کی شکل میں اپنی طاقت کے مظاہرے کے لیے تمام جدید ذرائع استعمال کریں، اس شرط کے ساتھ کہ یہ سب کچھ پُر امن ہو اور اس میں ان کی جانب سے کوئی تشدد نہ ہو.

٭ اور اگر ان پر تشدد کیا جائے تو کمال صبر و استقلال کا مظاہرہ کریں حتیٰ کہ اس کی راہ میں جان دے دینے کو سب سے بڑی کامیابی سمجھیں.

اس پیہم کشمکش اور جہاد فی سبیل اللہ میں 

یا حق کا بول بالا ہو جائے یا شہادت کی موت نصیب ہو جائے. 

تنظیم اسلامی کے امیر حافظ عاکف سعید

ہیں جن کے ہاتھ پر تنظیم اسلامی کے رفقاء نے ہجرت و جہاد فی سبیل اللہ اور سمع و طاعت فی المعروف کی بیعت کی ہے. 

ہجرت 

نبی اکرم  کے فرمان کی رو سے ہجرت کا آغاز ترک معاصی سے ہو جاتا ہے، البتہ دل میں نیت رکھنی لازم ہے کہ اگر غلبہ دین حق کی جدوجہد میں ضروری ہوا تو اہل و عیال، گھر بار اور ملک و وطن سے بھی ہجرت اختیار کر لوں گا. 

جہاد 

اسی طرح حضور کے فرمان کے مطابق اصل جہاد تو اپنے نفس سے کرنا ہوتا ہے، تاہم دین کی دعوت و تبلیغ اور غلبہ و اقامت کی جدوجہد میں جان اور مال کھپانے کی جملہ صورتیں جہاد فی سبیل اللہ میں داخل ہیں. البتہ دل میں یہ آرزو رکھنی ضروری ہے کہ خالص اللہ کے دین کے لئے قتال کی نوبت آئے تو اس میں حصہ لوں اور اللہ کی راہ میں گردن کٹا کر شہادت کا رتبہ حاصل کرلوں. 

سمع و طاعت 

سے مراد ہے حکم سننا اور اس پر بے چون و چرا عمل کرنا. یہ معاملہ اللہ اور اس کے رسول کے لئے تو غیر مشروط ہے لیکن آپ کے بعد کسی بھی انسان کے لئے ’’فی المعروف‘‘ کی پابندی کے ساتھ مشروط ہے. یعنی یہ کہ اس کا حکم اللہ اور اس کے رسول کے کسی واضح اور صریح حکم کے خلاف نہ ہو، البتہ اس سے باہمی مشاورت کی نفی نہیں ہوتی جو نہایت ضروری اور لازمی ہے. 

بیعت 

ایک معاہدہ ہے جس کی بہت سی قسمیں نبی اکرم اور صلف صالحین سے منقول و ماثور ہیں. اس بیعتِ جہاد سے بیعتِ ارشاد و سلوک کی نفی نہیں ہوتی. بلکہ یہ دونوں بیعتیں جدا جدا بھی ہو سکتی ہیں اور یکجا بھی. 

سماجی سطح پر

٭ چونکہ تمام مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں اس لئے نسل، رنگ، زبان، پیشے اور جنس کی بنیاد پر نہ کوئی اونچا ہو گا نہ نیچا، بلکہ عزت اور شرافت کا معیار صرف تقویٰ اور پرہیز گاری ہوں گے.

٭ پردے کے شرعی احکام نافذ کر کے خواتین کی عزت اور وقار کی پوری حفاظت کی جائے گی. اسلام کے خاندانی نظام اور غیر مخلوط تصور معاشرت کے تحت خواتین کو حقوق و معاشی کفالت کی پوری ضمانت حاصل ہو گی تا کہ وہ پوری یکسوئی کے ساتھ آئندہ نسل کی بہترین تربیت کر سکیں.

٭ خواتین کو ملکیت اور وراثت کے اسلامی حقوق حاصل ہوں گے. انہیں غیر مخلوط ماحول میں تعلیم، صحت اور گھریلو صنعتوں کے میدان میں اپنی صلاحیتیں بروئے کار لانے کی پوری آزادی ہو گی.

٭ شریعتِ اسلامی کے ہمہ پہلو نفاذ سے بد امنی کا مکمل خاتمہ ہو جائے گا اور رشوت، غبن، قتل، چوری اور ڈاکے کے ساتھ ساتھ زنا اور تہمتِ زنا کی جڑ کٹ جائے گی.

٭ سماجی برائیوں جیسے فضول خرچی، نمود و نمائش کے لئے بے تحاشا دولت ضائع کرنے اور شادی بیاہ کی ہندوانہ رسموں کا خاتمہ ہو جائے گا.

٭ مفت اور جلد از جلد انصاف مہیا ہو گا اور جھوٹی گواہی کا خاتمہ ہو جائے گا.

٭ سب کے لئے ایک جیسا نظام تعلیم ہو گا. اس میں قدیم و جدید اور دینی و دنیوی تعلیم کا بہترین امتزارج ہو گا. تعلیم میٹرک تک مفت ہو گی. 

معاشی سطح پر

٭ ریاست ہر شہری کی بنیادی ضروریات یعنی غذا، لباس، رہائش ، تعلیم اور علاج کی ضامن ہو گی. اس مقصد کو پورا کرنے کے لئےمسلمانوں سے زکوٰۃ اور عُشر اور غیر مسلموں سے جزئیے کی وصولی کا نظام نافذ ہو گا.

٭ مخلوق خدا کی خدمت کرنے،اللہ کی راہ میں خرچ کرنے اور ضرورت مند افراد کو بغیر سود قرضہ دینے کی حوصلہ افزائی کی جائے گی.

٭ سود کی لعنت کا مکمل طور پر خاتمہ کیا جائے گا. جوئے، سٹے، لاٹری، دو طرفہ آڑھت اور خرید و فروخت کی تمام حرام صورتوں کو ختم کر کے سرمایہ داری کی جڑ کاٹ دی جائے گی.

٭ شریعت اسلامی کی حدود کے اندر اندر انفرادی ملکیت اور آزاد معاشی جدوجہد کی فضا برقرار رہے گی. اس مثبت مسابقت کی فضا سے صنعت و تجارت کی ترقی ہو گی اور پیداوار میں اضافہ ہو گا.

٭ مزدور اور کارخانہ دار کے درمیان اسلامی بھائی چارے اور عدل و انصاف کے علاوہ باہمی سودا کاری میں مزدور کو ریاست کی جانب سے کفالت کی ضمانت حاصل ہو گی.

٭ جاگیرداری کی لعنت کا خاتمہ ہو گا جس سے زمینداری کی ساری برائیاں ختم ہو جائیں گی. اس سلسلے میں امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ اور امام مالک رحمۃ اللہ کے متفقہ فتوے سے مدد لی جا سکتی ہے جس کی رو سے مزارعت کی اکثر قسمیں حرام ہیں یا حضرت عمرؓ کے اس اہم فیصلے کو بھی بنیاد بنایا جا سکتا ہے جو عراق کی مفتوحہ زمینوں کے ضمن میں انہوں نے اختیار کیا، جس کی رُو سے اس علاقے کی اراضی انفرادی ملکیت نہیں بلکہ اسلامی ریاست یعنی بیت المال کی ملکیت قرار پائیں. 


سیاسی سطح پر

٭ حاکمیت صرف اللہ تعالیٰ کی ہو گی، چنانچہ قرآن و سنت کے خلاف کوئی قانون نہیں بنایا جا سکے گا. اعلیٰ عدالتوں کو پورا اختیار ہو گا کہ اس قانون کو مسخ کر دیں جو قرآن و سنت کے خلاف ہو.

٭ ریاست کے کامل شہری صرف مسلمان ہوں گے چنانچہ کلیدی عہدوں پر صرف مسلمان فائز ہو سکیں گے. اور ان کے حقوقِ شہریت بالکل مساوی ہوں گے(تاہم ذمہ داریوں کے لئے اضافی شرائط ملحو ظ رکھیں جائیں گی) اور وہ اسلام کے اصول مشاورت کے مطابق باہمی مشورے سے ملک کے نظام کو چلائیں گے.

٭ تمام شہری قانون کی نظر میں برابر ہوں گے اور کوئی شخص حتیٰ کہ خلیفہ یا امیر یا صدر یا وزیر اعظم بھی قانون سے بالا تر نہ ہو گا. 

٭ ریاست کے غیر مسلم شہریوں کی جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کا پورا ذمہ لیا جائے گا اور انہیں کامل معاشی اور مذہبی آزادی حاصل ہو گی. چنانچہ وہ اپنی عبادت گاہوں میں اپنے مذہب کے مطابق رسومات کی ادائیگی اور اپنی آئندہ نسلوں کی تعلیم و تربیت کے حقدار ہوں گے، البتہ انہیں مسلمانوں میں تبلیغ کا حق حاصل نہیں ہو گا.

٭ واحدانی یا فیڈرل یا کنفیڈرل نظام ریاست..... اور اسی طرح اماراتی یا صدارتی یا پارلیمانی طرز حکومت میں سے کسے اختیار کیا جائے، اس کا فیصلہ عوام کی کھلی رضا مندی پرمنحصر ہو گا. اس لئے کہ ان میں سے کوئی بھی دینی اعتبار سےنہ لازمی ہے، نہ حرام یا ناجائز.

٭ علاقائی یا نسلی و قبائلی روایات میں سے جو شریعت اسلامی سے متصادم نہ ہوں انہیں پورا تحفظ حاصل ہو گا. اسی طرح علاقائی زبانوں کے حقوق کی حفاظت ہو گی البتہ سب سے زیادہ زور عربی زبان کی تعلیم و ترویج پر دیا جائے گا.

اس طرح پاکستان، شورائیت کے اصولوں پر مبنی دور حاضر کی جدید اسلامی فلاح ریاست کا نمونہ بن سکے گا اور ’’ لم تکون خلافۃ علی منھاج النبوۃ ‘‘ کا مصداق بن سکے گا.
اللہ تعالیٰ ہمیں اس عظیم مقصد کے لئے تن من دھن لگانے کی توفیق عطا فرمائے. آمین!