دفعہ1 : مقصد ، نصب العین اور تنظیمی اساس 

1.1 تنظیم اسلامی نہ معروف معنی میں سیاسی جماعت ہے، نہ مذہبی فرقہ، بلکہ ایک اصولی، اسلامی، انقلابی جماعت ہے جو پہلے پاکستان اور بالآخر کل روئے زمین پر اﷲ کے دین کے غلبے ، یعنی اسلام کے نظام عدل اجتماعی کے قیام، یا بالفاظ دیگر ’’اسلامی انقلاب‘‘ اور اس کے نتیجے میں ’’نظام خلافت علیٰ منہاج النبوۃ‘‘ کے قیام کے لئے کوشاں ہے.

1.2 انفرادی سطح پر اس کے جملہ شرکاء کا اصل نصب العین صرف رضائے الہٰی اور نجات اُخروی کا حصول ہے.

1.3 اس کے اساسی نظریات اور بنیادی دینی تصورات ایک علیحدہ کتابچے میں تفصیل کے ساتھ قرارداد تاسیس مع توضیحات، بنیادی عقائد مع تشریحات اور فرائض دینی کے جامع تصور کے خلاصے کے ذریعے بیان ہوگئے ہیں جنہیں تنظیم کے اساسی فکر اور رہنما اصولوں کی حیثیت حاصل ہے. اس کتابچے کا نام ’’تعارف تنظیم اسلامی‘‘ ہے. مزیدبرآں طریقہ کار کے حوالے سے کتاب ’’منہج انقلاب نبویؐ‘‘ کو بھی تنظیم کے اساسی فکر کی حیثیت حاصل ہے.

1.4
1.4.1 تنظیم اسلامی کی تنظیمی اساس شخصی بیعت پر قائم ہے. حافظ عاکف سعید ولد ڈاکٹر اسرار احمدؒ کو تنظیم اسلامی کے تاحیات امیر کی حیثیت حاصل ہے اورتنظیم میں شمولیت ان کے ساتھ ذاتی طور پر بیعت جہاد کا تعلق استوار کرکے ہی ہوسکتی ہے.

1.4.2 اسی طرح اگر کوئی شخص پہلے سے کسی شیخ طریقت سے بیعت ارشاد میں منسلک ہو لیکن 
وہ تنظیم اسلامی میں بھی شمولیت کا خواہاں ہو تو اسے اچھی طرح سمجھ لینا ہوگا کہ تنظیم کی’’بیعت جہاد‘‘ بیعت ارشاد پر فائق رہے گی. مزید براں، چونکہ تنظیم کے نزدیک اصل محمدیؐ سلوک و احسان بھی وہی ہے جس پر تنظیم عمل پیرا ہے (اور جس کی وضاحت ’’مروجہ تصوف یا سلوک محمدیؐ یعنی احسان اسلام؟‘‘ نامی کتابچے میں کردی گئی ہے.) لہٰذا کسی بھی ایسے رفیق /رفیقہ تنظیم کو جو پہلے سے کسی بیعت ارشاد میں منسلک نہ ہونئے سرے سے اس نوع کا تعلق قائم کرنے کی اجازت نہ ہوگی.

1.4.3 تنظیم اسلامی کی سربراہی اور راہنمائی اصلاً امیر تنظیم کی ذمہ داری ہے. چنانچہ فیصلہ کا اختیار بھی ان کو حاصل ہوگا لہٰذا امیر تنظیم حسبِ موقع و ضرورت دستور/ نظام العمل کی کسی دفعہ یا تمام دفعات کو کلی یا جزوی طور پر ساقط یا ان میں کمی بیشی کرسکیں گے. 

دفعہ2: امیرتنظیم کی نیابت اور خلافت 

2.1 امیر تنظیم کو یہ حق حاصل ہوگا کہ وہ اپنی زندگی ہی میں اپنا جانشین مقرر کردیں.جو امیر تنظیم کی ازخود دستبرداری ( کسی مجبوری یا معذوری کی بنا پر)کی صورت میں یا وفات کے بعد امیرتنظیم ہوں گے. بصورت دیگر ان کی وفات پر نئے امیر تنظیم کا انتخاب مرکزی مجلس مشاورت ۷ دن کے اندر اتفاق رائے یا اختلاف کی صورت میں کثرت رائے سے کرے گی. آراء کے مساوی ہونے کی صورت میں ناظم اعلیٰ ( یا بصورت تقرری نائب امیر ) کو اضافی ووٹ کا حق حاصل ہوگا. نئے امیر کے تقرر تک ناظم اعلیٰ ( یا بصورت تقرری نائب امیر) قائم مقام امیر ہوں گے، لیکن مذکورہ بالا تمام صورتوں میں صرف وہی لوگ تنظیم میں شامل سمجھے جائیں گے جو نئے امیر سے بیعت کرلیں.

2.2 امیر تنظیم اگر ضرورت محسوس کریں تو تنظیم میں نائب امیر کا تقرر کیا جائے گا. اس کو امیر تنظیم کے نمائندہ کی حیثیت حاصل ہوگی. تقرر ہونے کی صورت میں نائب امیر اصولی طور پر امیر تنظیم اور پوری تنظیم کے مابین اور عملی اعتبار سے امیر تنظیم اور ناظمین مرکزی شعبہ جات کے مابین ربط 
(Link) کا فرض سرانجام دے گا.

2.3 تنظیم اسلامی کے مرکزی ذمہ داران میں لازمی اور بنیادی توتین ہی ہیں یعنی 
(i) ناظم اعلیٰ (ii) معتمد عمومی اور (iii) ناظم مرکزی بیت المال ، تاہم ان میں سے بھی اہم ترین ذمہ داری ناظم اعلیٰ کی ہے. اہل اور باصلاحیت سینئر رفقاء کی دستیابی (Availability) کے مطابق مرکز میں مزید شعبے بھی شروع کئے جاسکتے ہیں جیسے شعبہ تربیت، شعبہ دعوت اور شعبہ نشرواشاعت وغیرہ، بصورت دیگر ان کے سلسلے کے جملہ فرائض بھی ناظم اعلیٰ ہی کو ادا کرنے ہوں گے. البتہ نائب امیر کے تقرر کی صورت میں یہ حیثیت نائب امیر کو حاصل ہوگی اور تمام ناظمین مرکزی شعبہ جات بشمول ناظم اعلیٰ ان کو جواب دہ ہوں گے. ان تمام ذمہ داران کو جدید اصطلاح میں ’’مرکزی مجلس عاملہ ‘‘ کہا جائے گا.

2.4 تنظیم کے مرکزی حسابات کی جانچ پڑتال کیلئے ایک محاسب کا تقرر تنظیم کی مجلس مشاورت کرے گی اور وہ اپنی رپورٹ مرکزی مجلس مشاورت کو پیش کرے گا.

2.5 تنظیم کے جملہ ماتحت امراء/ناظمات (جیسے حلقہ جات اور مقامی تنظیموں کے امراء/ ناظمات وغیرہ) کی حیثیت بھی اصولی طور پر امیر تنظیم کے نائبین ہی کی ہوگی اور ان کا نصب و عزل بالکلیہ ان ہی کی صوابدید پر ہوگا. اگرچہ وہ اس کے لئے متعلقہ رفقاء/رفیقات سے حسبِ منشا مشورہ کرسکیں گے. 

دفعہ 3: شمولیت 

3.1 روئے ارضی کے کسی بھی مقام پر قیام پذیر ہر بالغ مسلمان (خواہ مرد ہو خواہ عورت) تنظیم میں شامل ہوسکتا ہے بشرطیکہ وہ :

3.1.1 تنظیم کے اساسی نظریات اور تصورات سے فی الجملہ متفق ہو ، اور
3.1.2 امیر تنظیم سے بیعت مسنونہ کے رشتے میں منسلک ہوجائے.
3.2 تنظیم میں شمولیت کے لئے بیعت کے الفاظ :
3.2.1 مردوں کے لئے 

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
اَشْھَدُ اَنْ لاَّ اِلٰہَ اِلاَّاللّٰہُوَحْدَہٗ لاَ شَرِیْکَ لَــــہٗ وَاَشْھَدُاَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُــــہٗ اَسْتَغْفِرُاللّٰہَ رَبِّیْ مِنْ کُلِّ ذَنْبٍ وَّاَتُوْبُ اِلَـیْہِ تَوْبَۃً نَّصُوْحًا 

اﷲ کے نام سے جو رحمن اور رحیم ہے
میں گواہی دیتا ہوں کہ اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ تنہا ہے اُس کا کوئی ساجھی نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ؐ اﷲ کے بندے اور رسول ہیں میں اﷲ تعالیٰ سے اپنے تمام گناہوں کی معافی کا خواستگار ہوں اور خلوصِ دل کے ساتھ اُس کی جناب میں توبہ کرتا ہوں 


اِنِّیْ اُعَا ھِدُاللّٰہَ عَلٰی اَنْ اَھْجُرَ کُلَّ مَایَـــکْرَھُــہٗ وَاُجَاھِدَ فِیْ سَبِیْلِہٖ جُہْدَ اِسْتِطَاعَتِیْ وَاُنْفِقَ مَالِیْ وَاَبـْذُلَ نَفْسِیْ لِاِ قَامَۃِ دِیْنِہٖ وَاِعْلَائِ کَلِمَتِہٖ 
وَ لِاَجْلِ ذٰلِکَ اُبـَــــایِعُ حافظ عَاکِف سَعِید ، امیر التنظیم الاسلامی 
اَسْتَعِیْنُ اللّٰہَ رَبِّیْ وَأَسْتَقْدِرُ ہٗ عَلَی الْاِسْتِقَامَۃِ عَلَی الدِّیْنِ وَاِیْفَائِ ھٰذَا العَھْدِ 

میں اﷲ تعالیٰ سے عہد کرتا ہوں کہ: اُن تمام چیزوں کو ترک کردوں گا جو اُسے ناپسند ہیں اور اُس کی راہ میں مقدور بھرجہاد کروں گا اوراپنا مال بھی صَرف کروں گا اور جان بھی کھپاؤں گا اُس کے دین کی اقامت اور اُس کے کلمہ کی سربلندی کیلئے اور اِس مقصد کی خاطر میں امیر تنظیم اسلامی حافظ عاکف سعید سے بیعت کرتا ہوں میں اﷲ سے مدد اور توفیق کا طلبگار ہوں کہ وہ مجھے دین پر استقامت اور اس عہد کے پورا کرنے کی ہمت عطا فرمائے

3.2.2 خواتین کے لئے 
خواتین کے لئے بیعت کے الفاظ بعینہ وہی ہوں گے جو قرآن حکیم میں سورۂ ممتحنہ میں وارد ہوئے ہیں. (اور حدیث نبویؐ میں بھی بیعت عقبہ اولیٰ کے ضمن میں مذکور ہیں!) 

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
اَشْھَدُ اَنْ لاَّ اِلٰہَ اِلاَّاللّٰہُ وَحْدَہٗ لاَ شَرِیْکَ لَــــہٗ وَاَشْھَدُاَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُــــہٗ اَسْتَغْفِرُاللّٰہَ رَبِّیْ مِنْ کُلِّ ذَنْبٍ وَّاَتُوْبُ اِلَـیْہِ تَوْبَۃً نَّصُوْحًا اِنِّیْ اُعَا ھِدُاللّٰہَ 

اﷲ کے نام سے جو رحمن اور رحیم ہے

میں گواہی دیتی ہوں کہ اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ تنہا ہے اُس کا کوئی ساجھی نہیں اور میں گواہی دیتی ہوں کہ محمد ؐ اﷲ کے بندے اور رسول ہیں میں اﷲ تعالیٰ سے اپنے تمام گناہوں کی معافی کی خواستگار ہوں اور خلوصِ دل کے ساتھ اُس کی جناب میں توبہ کرتی ہوں میں اﷲ تعالیٰ سے عہد کرتی ہوں کہ: 
عَلٰی اَنْ اَھْجُرَ کُلَّ مَایَـــکْرَھُــہٗ وَاُجَاھِدَ فِیْ سَبِیْلِہٖ جُہْدَ اِسْتِطَاعَتِیْ وَاُنْفِقَ مَالِیْ وَاَبـْذُلَ نَفْسِیْ لِاِ قَامَۃِ دِیْنِہٖ وَاِعْلَائِ کَلِمَتِہٖ 
وَ لِاَجْلِ ذٰلِکَ اُبـَــــایِعُ حافظ عَاکِف سَعِید ، امیر التنظیم الاسلامی
اَسْتَعِیْنُ اللّٰہَ رَبِّیْ وَأَسْتَقْدِرُ ہٗ عَلَی الْاِسْتِقَامَۃِ عَلَی الدِّیْنِ وَاِیْفَائِ ھٰذَا العَھْدِ 

اُن تمام چیزوں کو ترک کردوں گی جو اُسے ناپسند ہیں اور اُس کی راہ میں مقدور بھرجہاد کروں گی اوراپنا مال بھی صَرف کروں گی اور جان بھی کھپاؤں گی اُس کے دین کی اقامت اور اُس کے کلمہ کی سربلندی کیلئے 

اور اِس مقصد کی خاطر میں امیر تنظیم اسلامی حافظ عاکف سعید سے بیعت کرتی ہوں 
میں اﷲ سے مدد اور توفیق کا طلبگار ہوں کہ وہ مجھے دین پر استقامت اور اس عہد کے پورا کرنے کی ہمت عطا فرمائے 

علـٰی اَن لاَّاُشْرِکَ بِاللّٰہِ شَیْئًا -وَلَا اَسْرِقَ -وَلَا اَزْنِیَ -وَلَا اَقْتُلَ اَوْلَادِیْ -وَلاَ اٰتِیَ بِبُھْتَانٍ -وَلَا اَعْصِیَـــہٗ فِیْ مَعْرُوْفٍ 
اَسْئَلُ اللّٰہَ رَبِّی ا لْاِسْتِقَامَۃَ عَلٰی ھٰذَالعَھْدِ 

کہ اﷲ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراؤں گی کبھی چوری نہیں کروں گی کبھی بے حیائی کا ارتکاب نہیں کروں گی کبھی بچوں کو قتل نہ کروں گی کبھی بہتان طرازی نہ کروں گی اور کسی بھی بھلے کام میں اُنکے حکم سے سرتابی نہ کروں گی میں اﷲ سے دعا کرتی ہوں کہ وہ مجھے اس عہد پر قائم رہنے کی توفیق عطا فرمائے! 

3.3 تنظیم میں شامل مرد ’’رفیق‘‘ اور خواتین ’’رفیقہ‘‘ کہلائیں گی. 

دفعہ 4: رفقاء/رفیقات تنظیم کے مطلوبہ اوصاف 

تنظیم اسلامی کی اساسی دعوت تین بنیادی دینی اصطلاحات پر مبنی ہے، یعنی
(i) تجدیدایمان (ii) توبہ اور (iii) تجدید عہد… یہی وجہ ہے کہ تنظیم میں شمولیت جس عہد نامے کے ذریعے ہوتی ہے اس میں بھی ان ہی تین امور کا ذکر ہے. یعنی(۱) کلمہ شہادت کی ادائیگی جو گویا تجدیدایمان کے مترادف ہے.(۲) توبہ اور استغفار، اور (۳) اﷲ تعالیٰ سے یہ عہد کہ (i) ہر اس چیز کو ترک کردوں گا/ گی جو اسے پسند نہیں اور (ii) اس کی راہ میں یعنی اقامت دین اور اعلاء کلمتہ اﷲ کی جدوجہد میں امکان بھر اپنا مال بھی صرف کروں گا/گی اور جان یعنی بدنی قوتیں اور صلاحیتیں بھی کھپاؤں گا/گی.

بنابریں تنظیم کے ہر رفیق /رفیقہ کو جن امور کا خصوصی اہتمام کرنا چاہئے وہ تفصیلاً ان کے متعلقہ نظام العمل میں درج کردیئے گئے ہیں. 

دفعہ 5: رفقاء /رفیقات کی درجہ بندی
 
5.1 تنظیم اسلامی کے عہد نامہ رفاقت پر دستخط کرنے اور تنظیم کی طرف سے قبولیت کے تحریری فیصلے کے بعد ہی کوئی تنظیم کا رفیق / رفیقہ متصور ہوگا /ہوگی اور اسے فوری طور پر کسی اُسرہ یا مقامی تنظیم یا حلقہ سے منسلک کردیا جائے گا. رفقاء / رفیقات کے لئے تنظیمی درجہ بندی کے قواعد علیحدہ علیحدہ نظام العمل میں درج ہیں. 

دفعہ6: مشاورت 

نظام بیعت کے مطابق تنظیم اسلامی کی سربراہی اور رہنمائی اصلاً امیر تنظیم کی ذمہ داری ہے. تاہم قرآن حکیم کی ہدایات: (i) وَ اَمۡرُہُمۡ شُوۡرٰی بَیۡنَہُمۡ (الشورٰی: ۳۸اور وہ آپس میں اپنے معاملات پر مشاورت کرتے ہیں اور(ii) وَ شَاوِرۡہُمۡ فِی الۡاَمۡرِ (آل عمران: ۱۵۹اور معاملات میں ان سے مشاورت کیجئے ! کی رُو سے مشورہ امیر تنظیم کی دینی اور تنظیمی ’’ضرورت‘‘ ہے. جس کو پورا کرنے کیلئے تنظیم میں مناسب مواقعوں کا اہتمام کیا جائے گا. لیکن ’’بیعت‘‘ کے دینی و منطقی تقاضے کے طور پر یہ واضح رہنا چاہئے کہ ہر معاملے میں امیر تنظیم ہی کا فیصلہ آخری اور حتمی ہوگا اور رفقاء تنظیم اسے ’’منشط‘‘ اور ’’مکرہ‘‘ دونوں صورتوں میں تسلیم کرنے کے پابند ہوں گے. اِلاَّیہ کہ کوئی ایسی صورت درپیش ہو جس پر درج ذیل احادیث نبوی  کے الفاظ کا انطباق ہوتا ہو. 

(i) اِلاَّ اَنْ تَرَوْا کُفْرًا بَوَاحًا عِنْدَکُمْ مِنَ اللّٰہِ فِیْہِ بُرْھَانٌ 

’’(تم امیر کی اطاعت اُس وقت تک کرتے رہو) جب تک کہ تم کھلا کفر نہ دیکھو جس کے بارے میں اﷲ کی طرف سے تمہارے پاس واضح دلیل موجود ہو.‘‘ (صحیح مسلم) 
یا/اور 
(ii) فَاِذَا اُمِرَ بِمَعْصِیَۃٍ فَلاَ سَمْعَ وَلاَ طَاعَۃَ ’’پس جب حکم دیا جائے اﷲ کی معصیت کا، تو نہیں ہے سمع و طاعت.‘‘(متفق علیہ ) 
نظام مشاورت کی تفصیلات رفقاء / رفیقات تنظیم کے لئے علیحدہ علیحدہ نظام العمل میں درج ہیں. 

دفعہ7: صدقات و انفاق 

7.1 تنظیم اپنے جملہ دعوتی و تنظیمی اخراجات کے لئے انحصار اپنے رفقاء/رفیقات ہی کے جذبہ انفاق پر کرے گی اور عام چندے کی اپیل نہیں کرے گی.

7.2 رفقاء/رفیقات تنظیم اپنے صدقات واجبہ یعنی زکوٰۃ و عشر میں سے اگر ان کے قریبی رشتہ داروں اور پڑوسیوں میں مستحقین موجود ہوں تو ان کو پہنچانے کے بعد جو باقی بچے اسے تنظیم کے بیت المال میں جمع کرانے کا اہتمام کریں گے/گی.

7.3 ہر رفیق /رفیقہ اپنے آپ کو پابند سمجھے گا /گی کہ کچھ نہ کچھ صدقات نافلہ بھی آیہ بر (سورۂ بقرہ:۱۷۷) کے مطابق ہر ماہ ضرور کرے لیکن یہ ایک راز رہے گا اس کے اور اﷲ تعالیٰ کے مابین. 

دفعہ8: اختلاف کے حقوق اور آداب 

8.1 جملہ رفقاء/رفیقات تنظیم پوری طرح آزاد ہوں گے/گی کہ اہل سنت کے جس فقہی مذہب یا مسلک پر چاہیں عمل کریں. لیکن اس ضمن میں مناظرانہ بحث و تمحیص سے کلی اجتناب ضروری ہوگا. اگرچہ خالص علمی انداز میں اور افہام و تفہیم کے جذبے کے تحت تبادلہ خیالات پر کوئی پابندی نہیں ہوگی.

8.2 اسی طرح تنظیم کے طے شدہ اساسی فکر سے جو کہ دستور کی دفعہ 1میں درج ہے، اختلاف کی گنجائش نہیں ہے البتہ تنظیم اپنے مقصد کے حصول کے لئے جو عملی تدابیر اختیار کرے یا ملکی حالات و مسائل کے بارے میں جو آراء امیر تنظیم ظاہر کریں ان سے اختلاف کا حق بھی رفقاء/ رفیقات تنظیم کو پوری طرح حاصل ہوگا اور مناسب احتیاط (دیکھئے شق 8.3) کے ساتھ اس کے اظہار میں کوئی قباحت نہ ہوگی، تاکہ نہ تنظیم میں گھٹن محسوس ہو، نہ ذہنوں پر تالے پڑیں، بلکہ آزادی فکر اور اظہار رائے کا صحت مند ماحول برقرار رہے اور اس طرح اختلاف رائے تنظیم میں رحمت اور اس کے مقاصد کے لئے مفید ثابت ہو. اختلاف رائے اور اس کے اظہار کے ’’صحت مند‘‘ ہونے کی علامت یہ ہوگی کہ متعلقہ رفیق/رفیقہ کے طرزِ عمل میںنظم کے اعتبار سے کوئی کمی یا تساہل نظر نہ آئے.

8.3 اختلاف رائے کا اظہار اصولاً تو تنظیم کے نظم کے ذریعہ متعلقہ اصحاب امر تک پہنچانا ہی مناسب ہے. 
ہے. یا پھر تنظیم میں مشاورت و اظہارِ خیال کے متعلقہ فورم پر بلحاظِ مرتبہ و منصب بھی کیا جاسکتا ہے. البتہ اظہارِ رائے کے سلسلے میں حسب ذیل احتیاطیں ضروری ہوں گی-:

8.3.1 یہ اظہار رائے صرف ملتزم رفقا؍ء/رفیقات ہی کے مابین ہونا چاہئے ، چنانچہ ملتزم رفقاء /رفیقات کا مبتدی رفقاء/رفیقات کے ساتھ اس قسم کی گفتگو کرنا نظم کی خلاف ورزی متصور ہوگا. وہ مبتدی رفقاء/رفیقات کی بات سن کر اگر انہیں مطمئن کرسکیں تو دوسری بات ہے ورنہ سکوت لازم ہوگا.

8.3.2 ملتزم رفقاء/رفیقات کے ساتھ گفتگو میں بھی ان آیات قرآنیہ کے مفہوم اور مدلول کے مطابق مخاطب کی استعداد اور ذہنی سطح کو ملحوظ رکھنا نہ صرف تنظیم بلکہ خود اس رفیق/رفیقہ کی خیرخواہی کے اعتبار سے بھی ضروری ہوگا جس سے اس نوع کی گفتگو کی جارہی ہو.

٭ 
اِنَّ اللّٰہَ یَاۡمُرُکُمۡ اَنۡ تُؤَدُّوا الۡاَمٰنٰتِ اِلٰۤی اَہۡلِہَا (النساء : ۵۸
بیشک اﷲ تعالیٰ حکم فرماتے ہیں کہ ذمہ داریاں ان کے اہل کو دی جائے. 
٭ 
لَـعَلِمَہُ الَّذِیْنَ یَسْتَنْبِطُوْنَہُ مِنْھُمْ (النساء : ۸۳
تاکہ جان لیں وہ لوگ جو اس سے استنباط کرنے کے اہل ہیں. (یعنی ذمہ دار لوگ جو حالات سے واقف ہیں)

8.3.3 جو رفقاء/رفیقات تنظیمی مناصب پر فائز ہوں ان کے لئے ضروری ہوگا کہ اختلاف کا اظہار صرف بالا تر ذمہ دار حضرات/خواتین کے سامنے کریں، ان کی اپنے ماتحت عہدیداروں یا عام رفقاء/رفیقات سے ایسی گفتگو نظم کی خلاف ورزی متصور ہوگی. 

دفعہ 9: ذاتی تنقید اور محاسبہ 

9.1 تنظیم کی پالیسی یا امیر تنظیم کی سیاسی آراء سے اختلاف کے مقابلے میں کسی رفیق/رفیقہ اور بالخصوص ذمہ دار حضرات/خواتین پر ذاتی تنقید اور شخصی محاسبہ کے ضمن میں بہت زیادہ احتیاط اور حد درجہ احساس ذمہ داری کو ملحوظ رکھنا لازم ہوگا.

9.2 اس سلسلے میں اس داخلی احساس اور شعوری تنبہ کے ساتھ ساتھ کہ اس میں نہ اپنے عجب اور تکبر کو دخل ہو، نہ کسی دوسرے کی توہین و تذلیل یا اسے صدمہ پہنچانے کا جذبہ کارفرما ہوبلکہ تنقید اور محاسبہ سراسر 
خلوص و اخلاص اور نصح و خیر خواہی کے جذبے کے تحت ہو، حسب ذیل ضابطوں کی پابندی بھی لازمی ہوگی اور ان کی خلاف ورزی کرنے والا/والی سرزنش کا/کی مستحق اور تادیبی کاروائی کا/کی مستوجب ہوگا/گی.

9.2.1 جس رفیق/رفیقہ تنظیم یا ذمہ دار ساتھی میں کوئی قابلِ اصلاح پہلو نظر آئے لازم ہوگا کہ پہلے اسے علیحدگی میں بالمشافہ گفتگو کے ذریعے اصلاح کی جانب متوجہ کیا جائے اور اس سلسلے میں ایک مناسب مدت تک انتظار بھی کیا جائے. اس مرحلے کو طے کئے بغیر براہ راست تنقید اگر متعلقہ شخص کی غیر حاضری میں ہوگی تو ’’غیبت‘‘ کے حکم میں آئے گی جسے قرآن مجید میں مردہ بھائی کا گوشت کھانے سے تعبیر کیا گیا ہے اور اگر رودررو لیکن دوسروں کی موجودگی میں ہوگی تو ’’ہمز‘‘ اور ’’ لمز‘‘ کے حکم میں ہوگی جس پر ’’ویل‘‘ کی وعید سورۂ ہمزہ میں وارد ہوئی ہے.

9.2.2 لیکن اگر شق9.2.1کے مطابق مناسب کوشش کے بعد بھی محسوس ہو کہ متعلقہ رفیق/ رفیقہ میں یا تو اصلاح کا ارادہ ہی موجود نہیں ہے یا قوت ارادی اتنی کمزور ہے کہ اصلاح پر قدرت حاصل نہیں اور دوسری طرف اس کی کمزوری یا کوتاہی بھی اس نوعیت یا درجہ کی ہے کہ اس سے تنظیم کے مقصد کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے تب بھی اس معاملے کا عام چرچا غلط ہوگا اور صحیح طرزِ عمل یہ ہوگا کہ زیر تنقید رفیق/رفیقہ تنظیم کے نظم کی جس سطح پر ہو اس کا معاملہ اس سے بالاتر سطح تک پہنچاکر اپنے آپ کو کم ازکم فوری طور پر بری الذمہ سمجھا جائے.

9.2.3 پھر اگر یہ محسوس ہو کہ اس معاملے میں بالاتر نظم بھی کوتاہی یا تساہل سے کام لے رہا ہے تو معاملے کو درجہ بدرجہ اوپر لایا جاسکتا ہے چنانچہ بلا لحاظ مرتبہ و منصب جملہ رفقاء/ رفیقات تنظیم کے معاملات براہ راست امیرتنظیم کے سامنے بھی لائے جاسکیں گے اور استثنائی حالات میں کسی رکن مجلس مشاورت کے توسط سے مرکزی مجلس مشاورت کے اجلاس میں بھی پیش کئے جاسکیں گے، جب کہ خود امیرتنظیم پر تنقید اسی طریق کار کے مطابق مرکزی مجلس مشاورت میں بھی ہوسکے گی اور توسیعی مشاورت کے اجلاس میں بھی .

9.3 نظم کے ذمہ دار حضرات کے اپنے حلقہ نظم میں شامل رفقاء/رفیقات کے بارے میں ایسے صلاح و مشورہ 
پر جو تنظیم کے مصالح کیلئے ناگزیر ہو شق 9.2.1 کا اطلاق نہیں ہوگا.

9.4 نظم سے متعلق معاملات اور اس حوالے سے ذمہ دار حضرات کا طرز عمل جیسے اُمور براہِ راست نظم بالا / امیر تنظیم کے علم میں لائے جاسکیں گے. بشرطیکہ یہ شکایت متعلقہ ذمہ دار کے سامنے کم از کم ایک مرتبہ لائی جاچکی ہو نیز شکایت کنندہ کیلئے ضروری ہوگا کہ وہ اپنی تحریر کی کاپی متعلقہ ذمہ دار کو بھی فراہم کرے. تاہم نظم بالا کیلئے ضروری ہوگا کہ کوئی بھی قدم اٹھانے سے پہلے متعلقہ ذمہ دار کو وضاحت کا موقع ضرور دے. 

دفعہ10: بامعاوضہ /زیرِ کفالت کارکن 
با معاوضہ اور ہمہ وقتی کارکن تحریکوں اور تنظیموں کی ناگزیر ضرورت بھی ہوتے ہیں اور دوسری جانب اگر احتیاط نہ رکھی جائے تو یہ ادارہ تحریکوں اور تنظیموں کی تباہی کا سبب بھی بن سکتا ہے. تنظیم اسلامی میں اس سلسلے میں حسب ذیل احتیاطیں ملحوظ رکھی جائیں گی.

10.1 اسروں کے نقباء، مقامی تنظیموں کے امراء، امراء حلقہ جات/ناظمات اور امیرتنظیم کو حسب حالات مختلف قسم کی ضروریات زندگی (جیسے رہائش یا ٹرانسپورٹ وغیرہ) تو بہم پہنچائی جاسکتی ہیں،لیکن ان مناصب پر کبھی کوئی باضابطہ تنخواہ یافتہ کارکن فائز نہیں ہوسکے گا/گی. جب کہ باقی جملہ تنظیمی یا دفتری مناصب کے لئے ہمہ وقتی یا جزوقتی بنیادوں پر زیرِکفالت یا بامعاوضہ کارکنوں کی حیثیت سے باصلاحیت رفقاء/رفیقات کی خدمات حاصل کی جاسکیں گی.

10.2 تنظیم اگر کسی رفیق سے ہمہ وقتی خدمات کا تقاضا کرے یا کسی رفیق کی ہمہ وقتی خدمات کی پیشکش کو قبول کرے تو ایسے رفقاء کی کفالت تنظیم کے ذمہ ہوگی اور تنظیم ان کے حالات و ضروریات کے پیش نظر کفالت کا اہتمام کرے گی.

10.3 تنظیم کا کوئی زیرِ کفالت یا بامعاوضہ تنظیمی کارکن نہ صرف رفقائ/رفیقاتِ تنظیم ، بلکہ ایسے لوگوں سے بھی جن سے اس کا تعارف تنظیم ہی کی وساطت سے ہوا ہو:
10.3.1 کوئی صدقہ یا اعانت قبول نہیں کرسکے گا/گی. 

10.3.2 نظم بالا کی اطلاع اور اجازت کے بغیرہدایا وصول نہیں کرسکے گا/گی.(ماسوائے ان گھریلو ہدیوں کے جن کا تبادلہ پڑوس یا قریبی تعلقات کی بنیاد پر ہوتا ہے) اور نہ ہی کوئی 
قرض لے سکے گا/گی. بلکہ اپنی کسی ہنگامی ضرورت کے لئے تنظیم ہی سے رجوع کرے گا/گی. جو ضرورت کی نوعیت اور اپنے ذرائع کی وسعت کے مطابق تعاون کرنے کی کوشش کرے گی. 

نوٹ : شق 10.3 میں مذکور پابندیوں کا اطلاق امراء/ناظمات حلقہ جات پر بھی ہوگا.

10.4 دفتری یا دیگر عمومی نوعیت کی خدمات (جیسے کلرک، قاصد اور گاڑیوں کے ڈرائیور وغیرہ) کے لئے گورنمنٹ پے سکیل سے رہنمائی لیتے ہوئے معاوضے دیئے جائیں گے. 

دفعہ11: تنظیم اسلامی اور ملکی انتخابات 

11.1 تنظیم اسلامی نہ بحیثیت جماعت ملکی انتخابات میں حصہ لے گی، نہ ہی اپنے کسی رفیق/رفیقہ کو اجازت دے گی کہ وہ کسی انتخاب میں خود بحیثیت امیدوار کھڑا/کھڑی ہو یا کسی دوسرے امیدوار یا جماعت یا محاذ کے حق میں کنویسنگ کرے. اس معاملے میں خلاف ورزی اخراج عن التنظیم پر بھی منتج ہوسکے گی.

11.2 البتہ رفقاء /رفیقات تنظیم اپنا حق رائے دہی، جو اصلاً قومی امانت ہے، ادا کرنے کے لئے کسی امیدوار کو ووٹ دے سکیں گے/گی. بشرطیکہ وہ امیدوار:

11.2.1 کم از کم ظاہری اعتبار سے فسق وفجور کا مرتکب نہ ہو. اور 

11.2.2 کسی ایسی جماعت سے وابستہ نہ ہو جس کے منشور یا اس کی اعلیٰ قیادت کے اعلانیہ نظریات و تصورات میں کوئی بات خلاف شریعت موجود ہو. تاہم نظم کے اعتبار سے اس ضمن میں متعلقہ رفیق/رفیقہ کی ذاتی رائے اور صوابدیدہی حتمی ہوگی.

11.3 اس دفعہ کا اطلاق مرکزی اور صوبائی اسمبلیوں اور سینٹ کے علاوہ بلدیاتی اداروں پر بھی ہوگا البتہ سماجی تنظیموں اور اداروں، یا پیشہ ورانہ اور محکمانہ یونینوں 
(Trade Unions) کے ضمن میں خاص حالات میں نرمی برتی جاسکتی ہے. تاہم ان کے انتخابات میں حصہ لینے کے لئے بھی تنظیم کی اجازت ضروری ہوگی. دفعہ12: تنظیم سے علیحدگی یا اخراج 

12.1 ویسے تو چونکہ تنظیم اسلامی ہر گز اس ’’الجماعت‘‘ کی حیثیت نہیں رکھتی جس سے علیحدگی کے ضمن میں مَنْ شَذَّ شُذَّ فِی النَّارِ ’’جو(جماعت سے) علیحدہ ہوا وہ جہنم میں جھونک دیا گیا.‘‘کی وعید وارد ہوئی ہے. لہٰذا امیرتنظیم سے اپنی بیعت فسخ کرکے تنظیم سے علیحدگی اختیار کرنے کا حق ہر رفیق/رفیقہ کو ہر دم حاصل ہوگا. لیکن ایک خالص دینی ہیئت اجتماعیہ بالخصوص ’’بیعت جہاد‘‘ کی اساس پر قائم ہونے والی تنظیم سے علیحدگی عام سیاسی یا سماجی تنظیموں سے علیحدگی کے مانند نہیں ہے، لہٰذا رفقاء /رفیقات کے احساس ذمہ داری اور عہد رفاقت کی مسؤلیت کے پیش نظر توقع کی جائے گی کہ کوئی رفیق/رفیقہ تنظیم یہ انتہائی قدم اسی صورت میں اٹھائے جب یا تو امیر تنظیم پر اعتماد باقی نہ رہے، یا پالیسی اور طریق کار کے ضمن میں کوئی بنیادی اختلاف پیدا ہوجائے جو پوری امکانی کوشش کے باوجود کسی طرح بھی رفع نہ ہوسکے. مزید برآں یہ توقع کی جائے گی کہ علیحدہ ہونے والا رفیق/رفیقہ اپنے فیصلہ سے امیر تنظیم کو باضابطہ مطلع کردے، بصورت دیگر عنداﷲ جواب دہی باقی رہے گی.

12.2 البتہ اگر کسی رفیق/رفیقہ تنظیم کے بارے میں یہ بات علم میں آئے کہ :

12.2.1 وہ کسی فرض کا/کی تارک یا صریحاً حرام شے کا /کی مرتکب ہے اور اس میں اصلاح حال کا کوئی حقیقی ارادہ موجود نہیں ہے. یا

12.2.2 اس کے کسی عمل یا روش سے تنظیم کی بدنامی کا اندیشہ ہے ،____ یا
12.2.3 وہ تنظیم کے نظم کو نقصان پہنچانے کے درپے ہے، 
تو ایسے رفیق /رفیقہ کو تنظیم سے خارج کیا جاسکے گا.

12.3 ایسے کسی رفیق /رفیقہ کے تنظیم سے اخراج کا فیصلہ صرف امیر تنظیم کریں گے، ماتحت نظم صرف سفارش کرسکے گا. اور متعلقہ رفیق/رفیقہ کو وضاحت کا پورا موقع دیا جائے گا.

12.4 اگر ضرورت داعی ہو تو ایسے کسی رفیق/رفیقہ کے اخراج کا اعلان عام بھی کیا جاسکے گا.