إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ ﴿5﴾
‏ [جالندھری]‏ اے پروردگار ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے مدد مانگتے ہیں ‏
تفسیر
عبادت کا مفہوم 
ساتوں قاریوں اور جمہور نے اسے "ایاک" پڑھا ہے۔ عمرو بن فائد نے ایاک پڑھا ہے۔ لیکن یہ قراۃ شاذ اور مردود ہے۔ اس لئے کہ "ایا" کے معنی سورج کی روشنی کے ہیں اور بعض نے ایاک پڑھا ہے اور بعض نے ایاک پڑھا ہے اور بعض نے ھیاک پڑھا ہے۔ عرب شاعروں کے شعر میں بھی ھیاک ہے۔ نستعین کی یہی قرأت تمام کی ہے۔ سوائے یحییٰ بن وہاب اور اعمش کے۔ یہ دونوں پہلے نون کو زیر سے پڑھتے ہیں۔ قبیلہ بنو اسد، ربیعہ بنت تمیم کی لغت اسی طرح پر ہے۔ لغت میں عبادت کہتے ہیں ذلت اور پستی کو طریق معبد اس راستے کو کہتے ہیں جو ذلیل ہو۔ اسی طرح بغیر معبد اس اونٹ کو کہتے ہیں جو بہت دبا اور جھکا ہوا ہو اور شریعت میں عبادت نام ہے محبت، خشوع، خضوع اور خوف کے مجموعے کا۔ لفظ ایاک کو جو مفعول ہے پہلے لائے اور پھر اسی کو دہرایا تاکہ اس کی اہمیت ہو جائے اور عبادت اور طلب مدد اللہ تعالٰی ہی کے لئے مخصوص ہو جائے تو اس جملہ کے معنی یہ ہوئے کہ ہم تیرے سوا کسی کی عبادت نہیں کرتے اور نہ کریں گے اور تیرے سوا کسی پر بھروسہ نہیں کرتے اور نہ کریں گے۔ کامل اطاعت اور پورے دین کا حل صرف یہی دو حیزیں ہیں۔ بعض سلف کا فرمان ہے کہ سارے قرآن کا راز سورۃ فاتحہ میں ہے اور پوری سورت کا راز اس آیت آیت (ایاک نعبد و ایاک نستعین میں ہے۔ آیت کے پہلے حصہ میں شرک سے بیزاری کا اعلان ہے اور دوسرے جملہ میں اپنی طاقتوں اور قوتوں کے کمال کا انکار ہے اور اللہ عزوجل کی طرف اپنے تمام کاموں کی سپردگی ہے۔ اس مضمون کی اور بھی بہت سی آیتیں قرآن پاک میں موجود ہیں۔ جیسے فرمایا آیت (فاعبدوہ وتوکل علیہ الخ یعنی اللہ ہی کی عبادت کرو اور اسی پر بھروسہ کرو تمہارا رب تمہارے اعمال سے غافل نہیں۔ فرمایا آیت (قل ھو الرحمن الخ کہہ دے کہ وہی رحمان ہے ہم اس پر ایمان لے آئے اور اسی پر ہم نے توکل کیا فرمایا آیت (رب المشرق والمغرب لا الہ الا ھو فاتحذہ وکیلا) یعنی مشرق مغرب کا رب وہی ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں تو اسی کو اپنا کارساز سمجھ۔ یہی مضمون اس آیۃ کریمہ میں ہے اس سے پہلے کی آیات میں تو خطاب نہ تھا لیکن اس آیت میں اللہ تعالٰی سے خطاب کیا گیا ہے جو نہایت لطافت اور مناسبت رکھتا ہے اس لئے کہ جب بندے نے اللہ تعالٰی کی صفت و ثنا بیان کی تو قرب الٰہی میں حاضر ہو گیا اللہ جل جلالہ کے حضور میں پہنچ گیا، اب اس مالک کو خطاب کر کے اپنی ذلت اور مسکینی کا اظہار کرنے لگا اور کہنے لگا کہ "الہ" ہم تو تیرے ذلیل غلام ہیں اور اپنے تمام کاموں میں تیرے ہی محتاج ہیں۔ اس آیت میں اس بات کی بھی دلیل ہے کہ اس سے پہلے کے تمام جملوں میں خبر تھی۔ اللہ تعالٰی نے اپنی بہترین صفات پر اپنی ثناء آپ کی تھی اور بندوں کو اپنی "ثناء" انہی الفاظ کے ساتھ بیان کرنے کا ارشاد فرمایا تھا اسی لئے اس شخص کی نماز صحیح نہیں جو اس سورت کو پڑھنا جانتا ہو اور پھر نہ پڑھے۔ جیسے کہ بخاری مسلم کی حدیث میں حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس شخص کی نماز نہیں جو نماز میں سورۃ فاتحہ نہ پڑھے۔ صحیح مسلم شریف میں حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے کہ حضور علیہ السلام نے فرمایا اللہ تعالٰی کا فرمان ہے کہ میں نے نماز کو اپنے اور اپنے بندے کے درمیان (نصف نصف) بانٹ لیا ہے اس کا آدھا حصہ میرا ہے اور آدھا حصہ میرے بندے کے لئے ہے اور میرے بندے کے لئے وہ ہے جو وہ طلب کرے۔ جب بندہ آیت (الحمد للہ رب العلمین) کہتا ہے تو اللہ فرماتا ہے میرے بندے نے میری حمد بیان کی۔ جب کہتا ہے آیت (الرحمن الرحیم) اللہ فرماتا ہے میرے بندے نے میری ثنا کی۔ جب وہ کہتا ہے آیت (مالک یوم الدین اللہ فرماتا ہے میرے بندے نے میری بزرگی بیان کی۔ 
عبادت اور طلب مدد٭٭
جب وہ آیت (ایاک نعبد و ایاک نستعین) کہتا ہے تو اللہ تعالٰی فرماتا ہے یہ میرے اور میرے بندے کے درمیان ہے اور میرے بندے کے لئے وہ ہے جو وہ مانگے۔ پھر وہ آخر سورت تک پڑھتا ہے۔ اللہ تعالٰی فرماتا ہے یہ میرے بندے کے لئے ہے اور میرا بندہ جو مجھ سے مانگے اس کے لئے ہے۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں (ایاک نعبد) کے معنی یہ ہیں کہ اے ہمارے رب ہم خاص تیری ہی توحید مانتے ہیں اور تجھ سے ڈرتے ہیں اور تیری اسی ذات سے امید رکھتے ہیں تیرے سوا کسی اور کی نہ ہم عبادت کریں، نہ ڈریں، نہ امید رکھیں۔ اور آیت (ایاک نستعین) سے یہ مراد ہے کہ ہم تیری تمام اطاعت اور اپنے تمام کاموں میں تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں۔ قتادہ فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا حکم ہے کہ تم سب اسی کی خالص عبادت کرو اور اپنے تمام کاموں میں اسی سے مدد مانگو آیت (ایاک نعبد کو پہلے لانا اس لئے ہے کہ اصل مقصود اللہ تعالٰی کی عبادت ہی ہے اور مدد کرنا یہ عبادت کا وسیلہ اور اہتمام اور اس پر پختگی ہے اور یہ ظاہر ہے کہ زیادہ اہمیت والی چیز کو مقدم کیا جاتا ہے اور اس سے کمتر کو اس کے بعد لایا جاتا ہے۔ واللہ اعلم۔ اگر یہ کہا جائے کہ یہاں جمع کے صیغہ کو لانے کی یعنی ہم کہنے کی کیا ضرورت ہے؟ اگر یہ جمع کے لئے ہے تو کہنے والا تو ایک ہے اور اگر تعظیم کے لئے ہے تو اس مقام پر نہایت نامناسب ہے کیونکہ یہاں تو مسکینی اور عاجزی ظاہر کرنا مقصود ہے اس کا جواب یہ ہے کہ گویا ایک بندہ تمام بندوں کی طرف سے خبر دے رہا ہے۔ بالخصوص جبکہ وہ جماعت میں کھڑا ہو یا امام بنا ہوا ہو۔ پس گویا وہ اپنی اور اور اپنے سب مومن بھائیوں کی طرف سے اقرار کر رہا ہے کہ وہ سب اس کے بندے ہیں اور اسی کی عبادت کے لئے پیدا کئے گئے ہیں اور یہ ان کی طرف سے بھلائی کے لئے آگے بڑھا ہوا ہے بعض نے کہا ہے کہ یہ تعظیم کے لئے ہے گویا کہ بندہ جب عبادت میں داخل ہوتا ہے تو اسی کو کہا جاتا ہے کہ تو شریف ہے اور تیری عزت ہمارے دربار میں بہت زیادہ ہے تو اب آیت (ایاک نعبد و ایاک نستعین) کہا یعنی اپنے تئیں عزت سے یاد کر۔ ہاں اگر عبادت سے الگ ہو تو اس وقت ہم نہ کہے چاہے ہزاروں لاکھوں میں ہو کیونکہ سب کے سب اللہ تعالٰی کے محتاج اور اس کے دربار کے فقیر ہیں۔ بعض کا قول ہے کہ آیت (ایاک نعبد) میں جو تواضع اور عاجزی ہے وہ ایاک عبدنا میں نہیں اس لئے کہ اس میں اپنے نفس کی بڑائی اور اپنی عبادت کی اہلیت پائی جاتی ہے حالانکہ کوئی بندہ اللہ تعالٰی کی پوری عبادت اور جیسی چاہے ویسی ثنا و صفت بیان کرنے پر قدرت ہی نہیں رکھتا۔ کسی شاعر کا قول ہے (ترجمہ) کہ مجھے اس کا غلام کہہ کر ہی پکارو کیونکہ میرا سب سے اچھا نام یہی ہے اللہ تعالٰی نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا نام عبد یعنی غلام ان ہی جگہوں پر لیا جہاں اپنی بڑی بڑی نعمتوں کا ذکر کیا جیسے قرآن نازل کرنا، نماز میں کھڑے ہونا، معراج کرانا وغیرہ۔ فرمایا آیت (الحمد للہ الذی انزل علی عبدہ) الخ فرمایا آیت (وانہ لما قام عبداللہ ) الخ فرمایا آیت (سبحان الذی اسری بعبدہ) ساتھ ہی قرآن پاک نے یہ تعلیم دی کہ اے نبی جس وقت تمہارا دل مخالفین کے جھٹلانے کی وجہ سے تنگ ہو تو تم میری عبادت میں مشغول ہو جاؤ۔ فرمان ہے آیت (ولقد نعلم یعنی ہم جانتے ہیں کہ مخالفین کی باتیں تیرا دل دکھاتی ہیں٠ تو ایسے وقت اپنے رب کی تسبیح اور حمد بیان کر اور سجدہ کر اور موت کے وقت تک اپنے رب کی عبادت میں لگا رہ۔ رازی نے اپنی تفسیر میں بعض لوگوں سے نقل کیا ہے کہ عبودیت کا مقام رسالت کے مقام سے افضل ہے کیونکہ عبادت کا تعلق مخلوق سے خالق کی طرف ہوتا اور رسالت کا تعلق حق سے خلق کی طرف ہوتا ہے اور اس دلیل سے بھی کہ عبد کی کل اصلاح کے کاموں کا متولی خود اللہ تبارک و تعالٰی ہوتا ہے اور رسول اپنی امت کی مصلحتوں کا والی ہوتا ہے لیکن یہ قول غلط ہے اور اس کی یہ دونوں دلیلیں بھی بودی اور لاحاصل ہیں۔ افسوس رازی نے نہ تو اس کو ضعیف کہا نہ اسے رد کیا۔ بعض صوفیوں کا قول ہے کہ عبادت یا تو ثواب حاصل کرنے کے لئے ہوتی ہے یا عذاب دفع کرنے کے لئے۔ وہ کہتے ہیں یہ کوئی فائدے کی بات نہیں اس لئے کہ اس وقت مقصود خود اپنی مراد کا حاصل کرنا ٹھہرا۔ اس کی تکالیف کے لئے آمادگی کرنا یہ بھی ضعیف ہے۔ اعلیٰ مرتبہ عبادت یہ ہے کہ انسان اس مقدس ذات کی جو تمام کامل صفتوں سے موصوف ہے محض اس کی ذات کے لئے عبادت کرے اور مقصود کچھ نہ ہو۔ اسی لئے نمازی کی نیت نہ نماز پڑھنے کی ہوتی ہے اگر وہ ثواب پانے اور عذاب سے بچنے کے لئے ہو تو باطل ہے۔ دوسرا گروہ ان کی تردید کرتا ہے اور کہتا ہے کہ عبادت کا اللہ تعالٰی کے لئے ہونا کچھ اس کے خلاف نہیں کہ ثواب کی طلب اور عذاب کا بچاؤ مطلوب نہ ہو اس کی دلیل یہ ہے کہ ایک اعرابی نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم میں نہ تو آپ جیسا پڑھنا جانتا ہوں نہ حضرت معاذ جیسا میں تو اللہ تعالٰی سے جنت کا سوال کرتا ہوں اور جہنم سے نجات چاہتا ہوں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسی کے قریب قریب ہم بھی پڑھتے ہیں۔