ذَلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ ۛ فِيهِ ۛ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ ﴿2﴾
‏ [جالندھری]‏ یہ کتاب (قرآن مجید) اس میں کچھ شک نہیں (کہ کلام خدا ہے، خدا سے) ڈرنے والوں کی رہنما ہے ‏
تفسیر
تحقیقات کتاب
حضرت ابن عباس فرماتے ہیں یہاں ذالک معنی میں "ھذا" کے ہیں۔ مجاہد، عکرمہ، سعید، جیبہ سدی، مقاتل بن حباب، زید بن اسلم اور ابن جریج کا بھی یہی قول ہے۔ یہ دونوں لفظ ایک دوسرے کے قائم مقام عربی زبان میں اکثر آتے رہتے ہیں۔ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ابو عبیدہ سے بھی یہی نقل کیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ذالک اصل میں ہے تو دور کے اشارے کے لۓ جس کے معنی ہیں "وہ" لیکن کبھی نزدیک کے لئے بھی لاتے ہیں اس وقت اس کے معنی ہوتے ہیں "یہ" یہاں بھی اس معنی میں ہے۔ زمخشری کہتے ہیں اس سے اشارہ الم کی طرف ہے۔ جیسے اس آیت میں ہے آیت (لا فارض ولا بکر عوان بین ذالک) یعنی نہ تو وہ گائے بڑھیا ہے نہ بچہ ہے بلکہ اس کے درمیانی عمر کی جوان ہے۔ دوسری جگہ فرمایا آیت (ذالکم حکم اللہ یحکم بینکم) یہ ہی ہے اللہ کا حکم جو تمہارے درمیان حکم کرتا ہے۔ اور جگہ فرمایا آیت (ذالکھم اللہ) یہ ہی ہے اللہ تعالٰی اور اس کی مثال اور مواقع پہلے گزر چکے۔ واللہ اعلم۔ بعض مفسرین نے کہا ہے کہ یہ اشارہ قرآن کریم کی طرف ہے جس کے اتارنے کا وعدہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوا تھا۔ بعض نے توراۃ کی طرف کسی نے انجیل کی طرف بھی اشارہ بتایا ہے اور اسی طرح کے دس قول ہیں لیکن ان کو اکثر مفسرین نے ضعیف کہا ہے۔ واللہ اعلم۔ کتاب سے مراد قرآن کریم ہے جن لوگوں نے کہا ہے کہ آیت (ذلک الکتاب) کا اشارہ توراۃ اور انجیل کی طرف ہے انہوں نے انتہائی بھول بھلیوں کا راستہ اختیار کیا، بڑی تکلیف اٹھائی اور خواہ مخواہ بلا وجہ وہ بات کہی جس کا انہیں علم نہیں۔ ریب کے معنی ہیں شک و شبہ۔ حضرت ابن عباس، حضرت ابن مسعود اور کئی ایک صحابہ سے یہی معنی مروی ہیں۔ ابو درداء، ابن عباس، مجاہد، سعید بن جبیر، ابو مالک نافع جو ابن عمر کے مولا ہیں، عطا، ابوالعالیہ، ربیع بن انس، مقاتل بن حیان، سدی، قتادہ، اسماعیل بن ابو خالد سے بھی یہی مروی ہے۔ ابن ابی حاتم فرماتے ہیں مفسرین میں اس میں اختلاف نہیں۔ ریب کا لفظ عرب شاعروں کے شعروں میں تہمت کے معنی میں بھی آیا ہے اور حاجت کے معنی میں بھی اس کا استعمال ہوا ہے۔ اس جملہ کے معنی یہ ہوئے کہ اس قرآن کو اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہونے میں کچھ شک نہیں۔ جیسے سورہء سجدہ میں ہے۔ آیت (الم تنزیل الکتاب لا ریب فیہ من رب العلمین) یعنی بیشک یہ قرآن کریم تمام جہانوں کے پالنے والے اللہ کی طرف سے ہے یعنی اس میں شک نہ کرو بعض قاری لا ریب پر وقف کرتے ہیں اور آیت (فیہ ھدی للمتقین) کو الگ جملہ پڑھتے ہیں۔ لیکن آیت (لاریب فیہ) پر ٹھہرنا بہت بہتر ہے کیونکہ یہی مضمون اسی طرح سورۃ سجدہ کی آیت میں موجود ہے اور اس میں بہ نسبت فیہ ھدی کے زیادہ مبالغہ ہے۔ ھدی نحوی اعتبار سے صفت ہو کر مرفوع ہو سکتا ہے اور حال کی بنا پر منصوب بھی ہو سکتا ہے۔ اس جگہ ہدایت کو متقیوں کے ساتھ مخصوص کیا گیا جیسے دوسری جگہ فرمایا آیت (قل ھو للذین امنوا ھدی وشفاء) الخ یعنی یہ قرآن ہدایت اور شفا ہے ایمان والوں کے لئے اور بے ایمانوں کے کان بوجھل ہیں اور آنکھیں اندھی ہیں یہ بہت دور سے پکارتے ہیں اور فرمایا آیت (وننزل من القران ماھو شفا ورحمۃ للمومنین) الخ یعنی یہ قرآن ایمان داروں کے لئے شفا اور رحمت ہے اور ظالم لوگ تو اپنے خسارے میں ہی بڑھتے جاتے ہیں۔ اسی مضمون کی اور آیتیں بھی ہیں ان سب کا مطلب یہ ہے کہ گو قرآن کریم خود ہدایت اور محض ہدایت ہے اور سب کے لیے ہے لیکن اس ہدایت سے نفع اٹھانے والے صرف نیک بخت لوگ ہیں۔ جیسے فرمایا آیت (یایھا الناس قد جاءتکم موعظتہ من ربکم) الخ تمہارے پاس اللہ تعالٰی کی نصیحت اور سینے کی بیماریوں کی شفاء آچکی جو مومنوں کے لئے شفا اور رحمت ہے اور ابن عباس ابن مسعود اور بعض دیگر صحابہ سے مروی ہے کہ ہدایت سے مراد نور ہے ابن عباس فرماتے ہیں۔ 
متقین کی تعریف ٭٭
متقی وہ ہیں جو ایمان لا کر شرک سے دور رہ کر اللہ تعالٰی کے احکام بجا لائیں۔ ایک اور روایت میں ہے متقی وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالٰی کے عذابوں سے ڈر کر ہدایت کو نہیں چھوڑتے اور اس کی رحمت کی امید رکھ کر اس کی طرف سے جو نازل ہوا اسے سچا جانتے ہیں۔ حضرت حسن بصری فرماتے ہیں "متقی وہ ہے جو حرام سے بچے اور فرائض بجا لائے۔ " حضرت اعمش حضرت ابوبکر بن عیاش سے سوال کرتے ہیں۔ "متقی کون ہے؟ " آپ یہی جواب دیتے ہیں پھر میں نے کہا "ذرا حضرت کلبی سے بھی تو دریافت کر لو!" وہ کہتے ہیں متقی وہ ہیں جو کبیرہ گناہوں سے بچیں۔ اس پر دونوں کا اتفاق ہوتا ہے۔ قتادہ فرماتے ہیں متقی وہ ہے جس کا وصف اللہ تعالٰی نے خود اس آیت کے بعد بیان فرمایا کہ آیت (الذین یومنون بالغیب۔ الخ امام ابن جریر فرماتے ہیں کہ یہ سب اوصاف متقیوں میں جمع ہوتے ہیں۔ ترمذی اور ابن ماجہ کی حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں بندہ حقیقی متقی نہیں ہو سکتا جب تک کہ ان چیزوں کو نہ چھوڑ دے جن میں حرج نہیں اس خوف سے کہ کہیں وہ حرج میں گرفتار نہ ہو جائے۔ امام ترمذی اسے حسن غریب کہتے ہیں ابن ابی حاتم میں ہے۔ حضرت معاذ رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں جبکہ لوگ ایک میدان میں قیامت کے دن روک لئے جائیں گے، اس وقت ایک پکارنے والا پکارے گا کہ متقی کہاں ہیں؟ اس آواز پر وہ کھڑے ہوں گے اور اللہ تعالٰی اپنے بازو میں لے لے گا اور بےحجاب انہیں اپنے دیدار سے مشرف فرمائے گا۔ ابو عفیف نے پوچھا حضرت متقی کون لوگ ہیں؟ آپ نے فرمایا جو لوگ شرک اور بت پرستی سے بچیں اور اللہ کی خالص عبادت کریں وہ اسی عزت کے ساتھ جنت میں پہنچائے جائیں گے۔ 
ہدایت کی وضاحت٭٭
ہدایت کے معنی کبھی تو دل میں ایمان پیوست ہو جانے کے آتے ہیں ایسی ہدایت پر تو سوائے اللہ جل و علا کی مہربانی کے کوئی قدرت نہیں رکھتا فرمان ہے آیت (انک لا تھدی من اجبت) یعنی اے نبی جسے تو چاہے ہدایت نہیں دے سکتا۔ فرماتا ہے آیت (لیس علیک ھدھم) تجھ پر ان کی ہدایت لازم نہیں۔ فرماتا ہے آیت (من یضلل اللہ فلا ھادی لہ جسے اللہ گمراہ کرے اسے کوئی ہدایت پر لانے والا نہیں۔ فرمایا آیت (من یھد اللہ) الخ یعنی جسے اللہ ہدایت دے وہی ہدایت والا ہے اور جسے وہ گمراہ کرے تم ہرگز اس کا نہ کوئی ولی پاؤ گے نہ مرشد۔ اس قسم کی اور آیتیں بھی ہیں اور ہدایت کے معنی کبھی حق کے اور حق کو واضح کر دینے کے اور حق پر دلالت کرنے اور حق کی طرف راہ دکھانے کے بھی آتے ہیں۔ اللہ تعالٰی فرماتا ہے آیت (وانک لتھدی الی صراط مستقیم) یعنی تو یقینا سیدھی راہ کی رہبری کرتا ہے۔ اور فرمایا آیت (انما انت منذر ولکل قوم ھاد) یعنی تو صرف ڈرانے والا ہے اور ہر قوم کے لیے کوئی ہادی ہے۔ اور جگہ فرمان ہے آیت (واما ثمود فھدیناھم) الخ یعنی ہم نے ثمودیوں کو ہدایت دکھائی لیکن انہوں نے اندھے پن کو ہدایت پر ترجیح دے کر۔ فرماتا ہے آیت (وھدیناہ النجدین) ہم نے اسے دونوں راہیں دکھائیں٠ یعنی بھلائی اور برائی کی۔ تقویٰ کے اصلی معنی بری چیزوں سے بچنے کے ہیں۔ اصل میں یہ "وقوی" ہے وقایت سے ماخوذ ہے نابغہ وغیرہ کے اشعار میں بھی آیا ہے۔ حضرت ابی بن کعب سے حضرت عمر بن خطاب نے پوچھا کہ تقویٰ کیا ہے؟ انہوں نے کہا کبھی کانٹے دار راستے میں چلے ہو ؟ جیسے وہاں کپڑوں کو اور جسم کو بچاتے ہو ایسے ہی گناہوں سے بال بال بچنے کا نام تقویٰ ہے۔ ابن معتز شاعر کا قول ہے۔ 
خل الذنوب صغیرھا

وکبیرھا ذاک التقی
واصنع کماش فوق ارض

الشوک یحدذر مایری
لا تحقرن صغیرۃ 

ان الجبال من الحصی
یعنی چھوٹے اور بڑے اور سب گناہوں کو چھوڑ دو یہی تقویٰ ہے۔ ایسے رہو جیسے کانٹوں والی راہ پر چلنے والا انسان۔ چھوٹے گناہ کو بھی ہلکا نہ جانو۔ دیکھو پہاڑ کنکروں سے ہی بن جاتے ہیں۔ ابو درداء اپنے اشعار میں فرماتے ہیں انسان اپنی تمناؤں کا پورا ہونا چاہتا ہے اور اللہ کے ارادوں پر نگاہ نہیں رکھتا حالانکہ ہوتا وہی ہے جو اللہ کا ارادہ ہو۔ وہ اپنے دینوی فائدے اور مال کے پیچھے پڑا ہوا ہے حالانکہ اس کا بہترین فائدہ اور عمدہ مال اللہ سے تقویٰ ہے۔ ابن ماجہ کی حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں سب سے عمدہ فائدہ جو انسان حاصل کر سکتا ہے وہ اللہ کا ڈر ہے۔ اس کے بعد نیک بیوی ہے کہ خاوند جب اس کی طرف دیکھے وہ اسے خوش کر دے اور جو حکم دے اسے بجا لائے اور اگر قسم دے دے تو پوری کر دکھائے اور جب وہ موجود نہ ہو تو اس کے مال کی اور اپنے نفس کی حفاظت کرے۔