وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ ۚ وَإِنَّهَا لَكَبِيرَةٌ إِلَّا عَلَى الْخَاشِعِينَ ﴿45﴾
‏ [جالندھری]‏ اور (رنج وتکلیف میں) صبر اور نماز سے مدد لیا کرو، اور بیشک نماز گراں ہے مگر ان لوگوں پر (گراں) نہیں جو عجز کرنے والے ہیں ‏
تفسیر
صبر کا مفہوم
اس آیت میں حکم فرمایا جاتا ہے کہ تم دنیا اور آخرت کے کاموں پر نماز اور صبر کے ساتھ مدد طلب کیا کرو، فرائض بجا لاؤ اور نماز کو ادا کرتے رہو روزہ رکھنا بھی صبر کرنا ہے اور اسی لئے رمضان کا صبر کا مہینہ کہا گیا ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں روزہ آدھا صبر ہے صبر سے مراد گناہوں سے رک جانا بھی ہے۔ اس آیت میں اگر صبر سے یہ مراد لی جائے تو برائیوں سے رکنا اور نیکیاں کرنا دونوں کا بیان ہو گیا، نیکیوں میں سب سے اعلیٰ چیز نماز ہے۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں صبر کی دو قسمیں ہیں مصیبت کے وقت صبر اور گناہوں کے ارتکاب سے صبر اور یہ صبر پہلے سے زیادہ اچھا ہے۔ حضرت سعید بن جبیر فرماتے ہیں انسان کا ہر چیز کا اللہ کی طرف سے ہونے کا اقرار کرنا۔ ثواب کا طلب کرنا اللہ کے پاس مصیبتوں کے اجر کا ذخیرہ سمجھنا یہ صبر ہے اللہ تعالٰی کی مرضی کے کام پر صبر کرو اور اسے بھی اللہ تعالٰی کی اطاعت سمجھو نیکیوں کے کاموں پر نماز سے بڑی مدد ملتی ہے خود قرآن میں ہے آیت (اقم الصلوٰۃ ان الصلوٰۃ تنھی عن الفحشاء والمنکر ولذکر اللہ اکبر)۔ نماز کو قائم رکھ یہ تمام برائیوں اور بدیوں سے روکنے والی ہے اور یقینا اللہ کا ذکر بہت بڑی چیز ہے۔ حضرت حذیفہ فرماتے ہیں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی کام مشکل اور غم میں ڈال دیتا تو آپ نماز پڑھا کرتے فوراً نماز میں لگ جاتے۔ چنانچہ جنگ خندق کے موقع پر رات کے وقت جب حضرت حذیفہ خدمت نبوی میں حاضر ہوتے ہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز میں پاتے ہیں۔ حضرت علی فرماتے ہیں کہ بدر کی لڑائی کی رات میں نے دیکھا کہ ہم سب سو گئے تھے مگر اللہ کے رسول (اللھم صلی وسلم علیہ) ساری رات نماز میں مشغول رہے صبح تک نماز میں اور دعا میں لگے رہے۔ ابن جریر میں ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کو دیکھا کہ بھوک کے مارے پیٹ کے درد سے بیتاب ہو رہے ہیں آپ نے ان سے (فارسی زبان میں) دریافت فرمایا کہ درد شکم داری؟ کیا تمہارے پیٹ میں درد ہے؟ انہوں نے کہا ہاں آپ نے فرمایا اٹھو نماز شروع کر دو اس میں شفا ہے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ کو سفر میں اپنے بھائی حضرت قثم کے انتقال کی خبر ملتی ہے تو آپ آیت (انا للہ) الخ پڑھ کر راستہ سے ایک طرف ہٹ کر اونٹ بٹھا کر نماز شروع کر دیتے ہیں اور بہت لمبی نماز ادا کرتے ہیں پھر اپنی سواری کی طرف جاتے ہیں اور اس آیت کو پڑھتے ہیں غرض ان دونوں چیزوں صبرو صلوٰت سے اللہ کی رحمت میسر آتی ہے ان کی ضمیر کا مرجع بعض لوگوں نے تو صلوٰۃ یعنی نماز کو کہا ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ کہ مدلول کلام یعنی وصیت اس کا مرجع ہے جیسے قارون کے قصہ میں ولا یلقاھا کی ضمیر اور برائی کے بدلے بھلائی کرنے کے حکم میں وما یلقھا کی ضمیر۔ مطلب یہ ہے کہ صبرو صلوٰۃ ہر شخص کے بس کی چیز نہیں یہ حصہ اللہ کا خوف رکھنے والی جماعت کا ہے یعنی قرآن کے ماننے والے سچے مومن کانپنے والے متواضع اطاعت کی طرف جھکنے والے وعدے وعید کو سچا ماننے والے ہیں اس وصف سے موصوف ہوتے ہیں جیسے حدیث میں ایک سائل کے سوال پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا یہ بری چیز ہے لیکن جس پر اللہ تعالٰی کی مہربانی ہو اس پر آسان ہے، ابن جریرنے اس آیت کے معنی کرتے ہوئے اسے بھی یہودیوں سے ہی خطاب قرار دیا ہے لیکن ظاہر بات یہ ہے کہ گو یہ بیان انہی کے بارے میں لیکن حکم کے اعتبار سے عام ہے۔ واللہ اعلم۔ آگے چل کر خاشعین کی صفت ہے اس میں ظن معنی میں یقین کے ہے گو ظن شک کے معنی میں بھی آتا ہے جیسے کہ سدفہ اتدھیرے کے معنی میں بھی آتا ہے اور روشنی کے معنی میں بھی اور صارخ کا لفظ بھی فریاد رس اور فریاد کن دونوں کے لئے بولا جاتا ہے اور اسی طرح کے بہت سے نام ہیں جو ایسی دو مختلف چیزوں پر بولے جاتے ہیں۔ ظن یقین کے معنی میں عرب شعراء کے شعروں میں بھی آیا ہے خود قرآن کریم میں آیت (ورای المجرمون النار فظنوا انھم مواقعوھا) یعنی گنہگار جہنم کو دیکھ کر یقین کر لیں گے کہ اب ہم اس میں جھونک دئیے جائیں گے یہاں بھی ظن یقین کے معنی میں ہے بلکہ حضرت مجاہد فرماتے ہیں قرآن میں ایسی جگہ ظن کا لفظ یقین اور علم کے معنی میں ہے ابوالعالیہ بھی یہاں ظن کے معنی یقین کرتے ہیں۔ حضرت مجاہد، سدی ربیع بن انس اور قتادہ کا بھی یہی قول ہے۔ ابن جریج بھی یہی فرماتے ہیں۔ قرآن میں دوسری جگہ ہے آیت (انی ظننت انی ملاق حسابیہ) یعنی مجھے یقین تھا کہ مجھے حساب سے دو چار ہونا ہے ایک صحیح حدیث میں ہے کہ قیامت کے دن ایک گنہگار بندے سے اللہ تعالٰی فرمائے گا کیا میں نے تجھے بیوی بچے نہیں دئیے تھے؟ کیا تجھ پر طرح طرح کے اکرام نہیں کئے تھے؟ کیا تیرے لئے گھوڑے اور اونٹ مسخر نہیں کئے تھے؟ کیا تجھے راحت و آرام کھانا پینا میں نے نہیں دیا تھا؟ یہ کہے گا ہاں پروردگار یہ سب کچھ دیا تھا۔ پھر کیا تیرا علم و یقین اس بات پر نہ تھا کہ تو مجھ سے ملنے والا ہے؟ وہ کہے گا ہاں اللہ تعالٰی اسے نہیں مانتا تھا۔ اللہ تعالٰی فرمائے گا بس تو جس طرح مجھے بھول گیا تھا آج میں بھی تجھے بھلا دوں گا اس حدیث میں بھی لفظ ظن کا ہے اور معنی میں یقین کے ہیں اس کی مزید تحقیق و تفصیل انشاء اللہ تعالٰی آیت (نسوا اللہ فانساھم انفسھم) کی تفسیر میں آگے آئے گی۔