قَالُوا ادْعُ لَنَا رَبَّكَ يُبَيِّنْ لَنَا مَا هِيَ ۚ قَالَ إِنَّهُ يَقُولُ إِنَّهَا بَقَرَةٌ لَا فَارِضٌ وَلَا بِكْرٌ عَوَانٌ بَيْنَ ذَلِكَ ۖ فَافْعَلُوا مَا تُؤْمَرُونَ ﴿68﴾
‏ [جالندھری]‏ انہوں نے کہا اپنے پروردگار سے التجا کیجئے کہ وہ ہمیں یہ بتائے کہ وہ بیل کس طرح کا ہو، (موسیٰ نے) کہا پروردگار فرماتا ہے کہ وہ بیل نہ تو بوڑھا ہو اور نہ بچھڑا بلکہ ان کے درمیان (یعنی جوان) ہو سو جیسا تم کو حکم دیا گیا ہے ویسا کرو ‏
تفسیر
حجت بازی کا انجام 
بنی اسرائیل کی سرکشی سرتابی اور حکم اللہ امر الٰہی وضاحت کے ساتھ کا یہاں بیان ہو رہا ہے کہ حکم پاتے ہیں اس پر عمل نہ کر ڈالا بلکہ شقیں نکالنے اور بار بار سوال کرنے لگے ابن جریج فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ حکم ملتے ہی وہ اگر کسی گائے کو بھی ذبح کر ڈالتے تو کافی تھا لیکن انہوں نے پے درپے سوالات شروع کئے اور کام میں سختی بڑھتی گئی یہاں تک کہ آخر میں وہ انشاء اللہ نہ کہتے تو کبھی بھی سختی نہ ٹلتی اور مطلوبہ گائے ملنا اور مشکل ہو جاتی پہلے سوال کے جواب میں کہا گیا کہ نہ تو وہ بڑھیا ہے نہ بالکل کم عمر ہے ۔ بلکہ درمیانی عمر کی ہے پھر دوسرے سوال کے جواب میں اس کا رنگ بیان کیا گیا کہ وہ زرد اور چمکدار رنگ کی ہے جو دیکھنے والوں کے دل کو بہت پسند آئے حضرت ابن عباس کا قول ہے کہ جو زرد جوتی پہنے وہ ہر قیمت خوش و خرم رہے گا اور اس جملہ سے استدلال کیا ہے تسر الناظرین بعض نے کہا ہے کہ مراد سخت سیاہ رنگ ہے لیکن اول قول ہی صحیح ہے ہاں یہ اور بات ہے کہ ہم یوں کہیں کہ اسی کی شوخی اور چمکیلے پن سے وہ مثل کالے رنگ کے لگتا تھا وہب بن منبہ کہتے ہیں اس کا رنگ اس قدر شوخ اور گہرا تھا کہ یہ معلوم ہوتا تھا گویا سورج کی شعائیں اس سے اٹھ رہی ہیں توراۃ میں اس کا رنگ سرخ بیان کیا گیا ہے لیکن شاید عربی کرنے والوں کی غلطی ہے واللہ اعلم چونکہ اس رنگ اور اس عمر کی گائیں بھی انہیں بکثرت نظر آئیں تو انہوں نے پھر کہا اے اللہ کے نبی کوئی اور نشانی بھی پوچھئے تاکہ شبہ مٹ جائے انشاء اللہ اب ہمیں رستہ مل جائے گا اگر یہ انشاء اللہ نہ کہتے تو انہیں قیامت تک پتہ نہ چلتا اور اگر یہ سوالات ہی نہ کرتے تو اتنی سختی ان پر عائد نہ ہوتی بلکہ جس گائے کو ذبح کر دیتے کفایت ہو جاتی یہ مضمون ایک مرفوع حدیث میں بھی ہے لیکن اس کی سند غریب ہے صحیح بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ یہ حضرت ابوہریرہ کا اپنا کلام ہے واللہ اعلم اب کی مرتبہ اس کے اوصاف بیان کئے گئے کہ وہ ہل میں نہیں جتی، پانی نہیں سینچا، اس کے چمڑے پر کوئی داغ دھبہ نہیں، یکرنگی ہے، سارے بدن میں کہیں دوسرا رنگ نہیں۔ اس کے ہاتھ پاؤں اور کل اعضاء بالکل درست اور توانا ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ وہ گائے کام کرنے والی نہیں ہاں کھیتی کا کام کرتی ہے لیکن پانی نہیں پلاتی مگر یہ قول غلط ہے اس لئے کہ ذلول کی تفسیر یہ ہے کہ وہ ہل نہیں جو تتی اور نہ پانی پلاتی ہے اس میں نہ کوئی داغ دھبہ ہے اب اتنی بڑی کدوکاوش کے بعد بادل ناخواستہ وہ اس کی قربانی کی طرف متوجہ ہوئے اسی لئے فرمایا کہ یہ ذبح کرنا نہیں چاہتے تھے اور ذبح نہ کرنے کے بہانے تلاش کرتے تھے کسی نے کہا ہے اس لئے کہ انہیں اپنی رسوائی کا خیال تھا کہ نہ جانیں کون قاتل ہو بعض کہتے ہیں اس کی قیمت سن کر گھبرا گئے تھے لیکن بعض روایتوں میں آیا ہے کہ کل تین دینار اس کی قیمت لگی تھی لیکن یہ تین دینار والی گائے کے وزن کے برابر سونے والی دونوں روایتیں بنی اسرائیل روایتیں ہیں۔ ٹھیک بات یہی ہے کہ ان کا ارادہ حکم کی بجا آوری کا تھا ہی نہیں لیکن اب اس قدر وضاحت کے بعد اور قتل کا مقدمہ ہونے کی وجہ سے انہیں یہ حکم ماننا ہی پڑا۔ واللہ اعلم۔ اس آیت سے اس مسئلہ پر بھی استدلال ہو سکتا ہے کہ جانوروں کو دیکھے بغیر ادھار دینا جائز ہے اس لئے کہ صفات کا حصر کر دیا گیا اور اوصاف پورے بیان کر دیئے گئے، جیسے کہ حضرت امام مالک امام اوزاعی امام لیث امام شافعی امام احمد صفات کا حضر کر دیا گیا اور اوصاف پورے بیان کر دیئے گئے، جیسے کہ حضرت امام مالک امام اوزاعی امام لیت امام شافعی امام احمد اور جمہور علماء کا مذہب ہے اسلاف اور متاخرین کا بھی اور اس کی دلیل بخاری و مسلم کی یہ حدیث بھی ہے کہ کوئی عورت کسی اور عورت کے اوصاف اس طرح اپنے خاوند کے سامنے بیان نہ کرے کہ گویا وہ اسے دیکھ رہا ہے ایک حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دیت کے اونٹوں کے اوصاف بھی بیان فرمائے ہیں قتل خطا اور وہ قتل جو مشابہ "عمد" کے ہے ہاں امام ابوحنیفہ اور دوسرے کوفی اور امام ثوری وغیرہ بیع مسلم کے قائل نہیں وہ کہتے ہیں کہ جانوروں کے اوصاف و احوال پوری طرح ضبط نہیں ہو سکتے اسی طرح کی حکایت ابن مسعود حذیفہ بن یمان اور عبدالرحمٰن بن سمرہ وغیرہ سے بھی کی جاتی ہے۔